کشمیر ... پس منظر وپیش منظر!
تحریر: جناب محمد سلیم جباری
وادیٔ کشمیر سے ہماری محبت، عقیدت اور حصول آزادی میں معاونت
محض ایک خطہ ارضی کا حصول نہیں۔ ہماری سوچ اور بھارت کے ارادوںمیں زمین وآسمان کا
فرق ہے۔ بھارت کی نظر کشمیر کی خوبصورت وادیوں، دریاؤں، آبشاروںاورباغات پر ہے جبکہ
پاکستان سمجھتا ہے کہ کشمیر مسلمانوں کا خطہ ہے جہاں 95 فیصد مسلمان آباد ہیں جو فطری اورآئینی اعتبار سے
پاکستان کا حصہ ہیں۔ پاکستان کا کشمیر سے تعلق اور اسلام کااٹوٹ رشتہ ہے۔ اس لیے کشمیر
اور پاکستان کاہر فرد اس کی آزادی کے لیے تڑپ رہا ہے۔جبکہ بھارت کا ظلم وستم بھی اسی
باعث ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ہندو ذہنیت ہمیشہ سے متعصب رہی ہے اور رہے گی۔ انہوں نے مسلمانوں
کو تسلیم کیا ہے نہ کریں گے۔ وہ کل بھی دشمن تھے ،آج بھی دشمن ہیں اور آئندہ بھی
رہیں گے۔ مسئلہ کشمیر کی حقیقت جاننے کے لیے اس تنازعے کے تاریخی پس منظر کو جاننا
از حد ضروری ہے ۔
برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کی بنیاد یہی تھی کہ مسلم اکثریت
والے علاقے پاکستان اور ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان میں شامل ہو جائیں ۔ اسی بنا
پر کانگرس نے تجویز دی تھی کہ بنگال اور پنجاب کی بھی تقسیم کر دی جائے۔ اس پر انجمن
اسلام کی طرف سے مولانا شبیر احمد عثمانی نے
مخالفت کی مگر قائد اعظم نے انہیں قائل کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نے یہ تجویز تسلیم
نہ کی تو پاکستان کا حصول ناممکن ہے۔ بہر حال اس تجویز کو تسلیم کر لیا گیا جس سے بعد
میں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑا۔تقسیمِ ہند کی بنیادی دستاویز میں ایک شق یہ
بھی تھی کہ وہ 635 ریاستیں جو ہندوستان میں شامل نہیں ہیں انہیں یہ حق دیا جائے
کہ وہ اپنی مرضی سے عوامی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرکے جس سے چاہیں الحاق کرلیں۔
یوں کچھ ریاستیں ہندوستان سے مل گئیں او رکچھ پاکستان سے مگر لارڈ مائونٹ بیٹن نے عیاری
سے کام لیتے ہوئے کچھ ریاستوں کو زبردستی ہندوستان میں ضم کر دیا۔ تب ریاست کشمیر میں
مسلم آبادی اسی فیصد سے بھی زائد تھی مگر کشمیر کا مہا راجہ ہری سنگھ ہندو تھا۔ اس
نے اعلان کیا کہ ہم کسی سے الحاق نہیں چاہتے ، اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا چاہتے
ہیںمگر عوامی رائے پاکستان سے الحاق چاہتی تھی کہ برطانیہ سے حصولِ آزادی کے بعد ہندو کے زیرِ تسلط کیوں رہیں۔
کشمیری عوام کو قبائلی علاقوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔ لہذا ہندو
راجہ نے اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھنے
کے لئے ہندوستان سے مدد چاہی جس کے نتیجے میں ہندوستانی افواج نے 1947ء میں جموں اور کشمیر کے بہت سارے
علاقے پر قبضہ کر لیا۔ ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے 26 اکتوبر 1947ء
کو ہندوستان کے ساتھ معاہدہ کیا
جسے الحاق بھارت کا نام دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں کشمیر کا دو تہائی رقبہ بھارت
کے تسلط میں چلا گیا، ایک تہائی پاکستان کے حصے میں آیا اور تھوڑا سا لداخ کا حصہ
چائنہ کے قبضے میں دے دیا گیا۔ اس معاہدے کو پاکستان نے تسلیم کیا اور نہ کشمیری عوام
نے‘ کیونکہ تقسیم برصغیر کی بنیادی دستاویز میں باقاعدہ درج تھا کہ مسلم اکثریتی علاقے
پاکستان کا حصہ ہوں گے، یہاں عوامی رائے اور مسلم اکثریت کے باوجود ان کے حق کو تسلیم
نہ کیا گیا۔
جغرافیائی اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو دریائوں اور گلیشیرزکا
بہائو اسی بات کا متقاضی تھا کہ اس خطہ ارضی کا الحاق پاکستان سے ہی کیا جائے۔ تاریخی
اعتبارسے ریاست کشمیر ہمیشہ آزاد ہی رہی ہے سوائے چند ادوار کے۔ پندرہویں سے اٹھارویں
صدی تک مغل سلطنت نے اس پر قبضہ کیا تھا۔ اس کے بعد کچھ دیر افغانستان اور پھر سکھوں
کا قبضہ رہا۔ آخر کار 1846ء
میں برطانیہ نے سکھوں کو شکست دے کر اس پر قبضہ جما لیا۔ اس کے بعدمہا راجہ گلاب سنگھ
نے 75ہزار
روپے میں انگریزوں سے ریاست کشمیرکو خرید لیا اور مہاراجہ بادشاہ کی حیثیت سے اس کے
سفید و سیاہ کا مالک بن بیٹھا۔1857ء
میںگلاب سنگھ کی وفات کے بعد اس کا بیٹا رنبیر سنگھ 1885ء
تک حکم ران رہا۔اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا پرتاب سنگھ 1925ء
تک جبکہ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مہاراجہ ہری سنگھ حکمران بنا جو کہ 1949ء تک حکمران رہا۔ مہا راجوں کا
دور ِاقتدار ہو یا برطانیہ کا قبضہ اس خطے میں مسلمانوں پر ہمیشہ ظلم و ستم کا بازار
گرم ہی رہا۔
اس
دوران احتجاج بھی ہوتا رہا اور تحریکیں بھی سر اٹھاتی رہیں۔1930ء
میں مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا تو بے پناہ قتل عام ہوا۔ کشمیر
میں پہلی سیاسی پارٹی 1932ء
میں شیخ عبداللہ نے قائم کی جسے 1939ء
میں نیشنل کانفرنس کا نام دے دیا گیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے 1934ء
میں عوام کو کچھ جمہوری حقوق دینے کا اعلان کیا اور ایک قانون ساز اسمبلی بھی قائم
کی، گویا حقوق بہت محدود تھے مگر عوامی دبائو میں کچھ کمی واقع ہوئی لیکن مہاراجہ نے
جب ہندوستان سے الحاق کیا تو اس میں شدت آگئی۔ لارڈ مائونٹ بیٹن نے 27اکتوبر 1947ء
کو مہاراجہ ہری سنگھ کو ایک خط لکھا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ استصواب رائے سے ہی
کیا جائے گا مگر فی الوقت یہ بھارتی یونین کا ہی حصہ رہے گا۔
1947ء
ہی میں کشمیر کے معاملے پر بھارت اور پاکستان کی جنگ چھڑ گئی ۔ اس وقت کے ہندوستانی
وزیر اعظم معاملہ اقوامِ متحدہ تک لے گئے جس کے نتیجے میں یکم جنوری 1948ء کو اقوامِ متحدہ نے مداخلت کرکے
فائر بندی کروا دی۔21اپریل
1948ء
کو سلامتی کونسل میںقرار داد پاس ہوئی جس میں یہ طے ہوا کہ کشمیر کے الحاق کا فیصلہ
استصواب رائے سے کیا جائے ۔ اسی بنیادی قرار دادکی رو سے جموں و کشمیر کا علاقہ متنازعہ
ہے۔ پاکستان اور کشمیری عوام اسی قرار داد کے مطابق کشمیر میں استصوابِ رائے چاہتے
ہیں جبکہ ہندوستان مسلسل اس سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے۔
ہندوستان
کے وزیر اعظم جواہرلعل نہرو نے بھی اپنے بیان میںاعتراف کیا تھا کہ کشمیری عوام کی
خواہشات کے مطابق فیصلہ ہی تنازعہ کا حل ہے۔ اس نے 5 نومبر 1951ء
کو شیخ عبداللہ کے ساتھ آئین میں شق 370 کا اضافہ کیا۔ یہ شق تب بھی متنازعہ تھی اور آج بھی متنازعہ ہے۔ اس کے مطابق
تین بنیادی شعبے خارجہ، دفاع اور مواصلات براہِ راست ہندوستان کے کنٹرول میں چلے گئے۔
اس میں یہ بھی کہا گیاتھا کہ کشمیری عورت کی غیر کشمیری سے شادی نہیں ہو سکتی ،اگر
ایسا ہوا تو نہ صرف وہ حقِ وراثت سے محروم کر دی جائے گی بلکہ آئندہ اسے کشمیر میںجائیداد
خریدنے کا حق ہو گا، نہ کاروبار کرنے کا۔ یہ اس مقصد کے لئے تھا کہ کشمیری عناصر میں
غیر کشمیری عناصر کی آمیزش نہ ہو اور کشمیر کی پراپرٹی غیر کشمیریوں میں منتقل نہ
ہونے پائے۔ اسی طرح دفعہ 370 میں یہ بھی تھا کہ کوئی غیر کشمیری یہاں جائیداد نہیں خرید سکے گا۔دفعہ 370 کے ساتھ 35-A بھی ہے جسے ختم کیا گیا ہے۔ اس
کے مطابق کوئی غیر کشمیری ووٹر نہیں بن سکتا تھا، یہ حق صرف کشمیری اور ان کی اولادوں
کو حاصل تھا ۔
آخرکار
1957ء
میں بھارت نے جب اپنا نیا دستور بنایا تو کشمیر کو باقاعدہ انڈین یونین میں شامل کر
لیا لیکن دفعہ 370 کو برقرار رکھا۔1947ء
کے بعد 1965ء
میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان لڑی جانے والی جنگ کی بنیادی وجہ بھی مسئلہ کشمیر
ہی تھا۔لال بہادر شاستری اور صدر ایوب خان کے درمیان جنگ بندی کے لئے معاہدہ تاشقند
ہوا ۔ اس میں یہ شرط رکھی گئی کہ مسئلہ کشمیر سمیت جتنے بھی دیگر مسائل ہیں باہمی بات
چیت اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق حل کئے جائیں گے۔
لیکن
1990ء
تک مسائل کے حل اور بات چیت کے لئے کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ پہلی مرتبہ 1990ء میں خارجہ سیکرٹریوں کی بنیاد
پر گفتگو کا آغاز ہوا مگر بے نتیجہ رہا۔ کیونکہ ہندوستان کشمیر کو تنازعہ نہیں بلکہ
مسئلہ کہتا ہے۔ ان کے نزدیک کشمیر بھارت کا حصہ ہے او رجواہر لعل نہرو کو مورد ِالزام
ٹھہراتے ہیں کہ اس نے شیخ عبداللہ سے دوستی کے نتیجے میں دفعہ 370 کو دستور کا حصہ بنایا تھا۔ 1997ء میں جب میاں نواز شریف نے دوبارہ
حکومت سنبھالی تو 1997ء
میں دہلی میں خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کا آغاز ہوا۔ دوسرا دور جو 1997ء میں اسلام آباد میں ہوا اس میں
صرف اس حد تک پیش رفت ہوئی کہ مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت
نے اس میں بھی کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ ستمبر 1997 میں دہلی میں تیسرا اجلاس ہوا لیکن بدقسمتی سے یہ بھی
نتیجہ خیز نہ ہو سکا۔
بھارتی رویئے سے کشمیری اتنے بددل
ہوئے کہ باقاعدہ سڑکوں پر آنا شروع ہو گئے اور احتجاجی تحریک شروع ہو گئی۔ R.S.S راشٹریہ سیونگ سنک اور B.J.P بھارتی جنتا پارٹی کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کشمیر میں
مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ اسی مقصد کے لئے دفعہ 370 کو واپس لیا گیا ہے تا کہ وہاں
ہندوئوں کو آباد کرکے غیر مسلم آبادی میں اضافہ کیا جائے،پھر کشمیر میں ہندو آبادی
کی اکثریت ظاہر کرکے استصوابِ رائے کے ذریعے اسے بھارت کا حصہ بنا لیا جائے۔ کشمیر
کے حوالے سے بہت سے بھارتی قوانین نہایت ظالمانہ اور غاصبانہ ہیں، جن میں ایک آرمڈ
فورس جموں کشمیرکا قانون ہے جس کے تحت کشمیر کی ریاست میں کشمیر مخالف بات کو دہشت
گردی شمار کیا جائے گا۔اس کے بعد ٹاڈا ایکٹ آیا جس کے تحت مسلمانوں کا قتلِ عام کیاگیا۔
اس وقت تقریبا آٹھ لاکھ سے زیادہ مسلح بھارتی فوج کشمیر میں موجود ہے جس میں پیرا
ملٹری ، بارڈر سیکورٹی فورس اور پولیس شامل ہے جو دنیا بھر میں کسی بھی خطے میں موجود
فوج کے اعتبار سے کہیں زیادہ ہے۔
5 اگست 2019ء
کو دفعہ 370 اور 35-A کو ختم کر دیا گیا اور کشمیر کو دو حصوں میںتقسیم کر دیا گیا۔ جموں و کشمیر
کو الگ جبکہ بدھ اکثریتی علاقے لداخ کو الگ کر دیا گیا۔ غیر کشمیریوں کو کشمیر میں
جائیدادیں خریدنے کی اجازت دے دی گئی، اسی طرح کشمیری عورتوں کو بھی غیرکشمیریوں سے
شادی کی اجازت مل گئی۔ اس صورتِ حال کے تناظر میں حالات نہایت سنگینی اختیار کر گئے
اور 50 سال بعد سلامتی کونسل نے اس مسئلے پر انگڑائی لی اور اجلاس طلب کیا جس میں
باقاعدہ طو رپر یہ تسلیم کیا گیا کی کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ عالمی
تنازعہ ہے جو کہ خوش آئند پیش رفت ہے۔
جہاں تک تعلق سلامتی کونسل کے اجلاس کا ہے تو سوائے اِدھر ادھر
کی باتوں کے کوئی مصدقہ بات اب تک سامنے نہیں آئی کیونکہ اس کا کوئی باقاعدہ اعلامیہ
جاری ہی نہیں کیا گیا سوائے چائنیز مندوب کے جس نے اپنا موقف پیش کیا ہے کہ دونوں ممالک
کو کشمیر میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور صورت حال کو بہتر بنانا چاہیے۔ جبکہ پاکستان
تو پہلے بھی کوئی مداخلت نہیں کر رہا اور ہندوستان کی یک طرفہ مداخلت ہے، نہ ہی ابھی
تک کرفیو ختم ہو سکا۔ سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان اور بھارت دونوں کے مندوب
تک موجود نہ تھے اور یہ اجلاس بھی باقاعدہ نہیں بلکہ مشاورتی نوعیت کا تھا۔
جہاں تک مسئلہ کشمیر کے حل کا تعلق ہے تو یہ بات بخوبی سمجھ
لینے کی ہے کہ جب تک انڈیا کا بھی نقصان نہیں ہو گا ،اس کے فوجیوں کا خون نہیں بہے
گا وہ مذاکرات کی میز پر نہیں آئے گا۔ کیونکہ نقصان تو کشمیریوں کا ہو رہا ہے۔ معاہدہ
تاشقند ہو یا شملہ معاہدہ یہ دو طرفہ معاہدے تھے جس کے نتیجے میں ہم یو، این ، او بھی
نہیں جا سکتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق جب جہادی کارروائیاں عروج پر تھیں تب واجپائی
نے یہ بات کہی تھی کہ جموں کا حصہ بھارت سے ملا لیا جائے،آزاد کشمیر اوربلتستان ،پاکستان
کے ساتھ چلا جائے اور کشمیر ویلی کو آزادانہ وخود مختار حیثیت دے دی جائے۔ بعد میں
جنرل مشرف کے دور سے لے کر عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر ہندوستان نے ہر کارروائی کو
دہشت گردی سے جوڑنا شروع کر دیا۔وہاں جب بھی کوئی واقعہ ہوتا تو اسے فورا دہشت گردی
قرار دے دیاجاتا ہے۔
یہ پچھلے پندرہ سال کا تسلسل ہے ۔ یوں ہم عملی اعتبار سے اور
اپنے موقف کے لحاظ سے پیچھے ہٹتے چلے گئے جبکہ بھارت مکمل پر اعتمادہے۔ اسی طرح گزشتہ
چند سالوں میں کشمیریوں نے حصولِ آزادی کے لئے جو جدوجہد کی وہ بھی اپنی مثال آپ
ہے۔ تسلسل کے ساتھ ہڑتالیں اور جلوس اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
جس قدر بھارت آج پر اعتماد ہے، پاکستان اسی قدر تنہا ہے۔ انڈیا
میں امریکہ اور عرب ملکوں سمیت بہت سے ممالک نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے، اس لئے وہ
ہر حال میں انڈیا ہی کا ساتھ دیں گے۔ اب ہمارے لیے یہی راستہ ہے کہ ہمیں دفاعی انداز
کی بجائے جارہانہ انداز اپنانا چاہیے۔ تبھی عالمی قوتیں درمیان میں آئیں گی اور کوئی
حل ممکن ہو سکے گا۔وگرنہ کل کلاں بھارت آزاد کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر اسے بھی
ہڑپ کرنے کی کوشش کرے گا۔
اہل وطن سے درخواست ہے کہ اپنی نمازوں میں کشمیری مظلوم مسلمان
بھائی بہنوں کے لیے ضرور دعائیں کریں یا اللہ پاک ہمارے مظلوم کشمیریوں کو دشمن کے
ظلم سے نجات عطا فرما، دنیا کے کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم پر
ان کی غیبی مدد فرما، فلسطین، افغانستان‘ لیبیا‘ عراق، برما اور شام کے نہتے اور کمزور
اہل اسلام کی دستگیری فرما۔ آمین!
No comments:
Post a Comment