عقیدتوں کے محور کا قومی دن
تحریر: جناب رانا محمد شفیق خاں
پسروری
حجاز مقدس ہماری عقیدتوں کا محور اور روحانیت کا مرکز ہے۔ ہمارے
دل اس کی محبت میں دھڑکتے ہیں، اس سے تعلقِ خاطر ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دل و دماغ
کی تمام وسعتیں گہرائیاں‘ حرمین شریفین کی محبت سے معمور اور روح کی ساری پنہائیاں
اس سے لبریز ہیں۔
مکہ و مدینہ ہی تو وہ دو شہر ہیں جو ہماری دنیا و آخرت میں
جینے کا ساماں لئے ہوئے ہیں۔ دونوں وہ عظیم مقدس شہر کہ جن سے وابستگی دین و دنیا کی
کامیابی و کامرانی کا باعث و ضامن اور جن سے جنت، بہرحال متعلق و لازم قرار پائی ہے۔
ایک وہ شہر (مکہ مکرمہ) کہ جہاں سے معراج کی رات پرواز اڑی اور جنتوں تک جا پہنچی اور
دوسرا وہ شہر (مدینہ منورہ) کہ جہاں جنت لا کر رکھ دی گئی ہے۔
ایک وہ شہر (مکہ مکرمہ) کہ جہاں سرجھک جھک جاتے ہیں اور دوسرا
وہ شہر (مدینہ منورہ) کہ جہاں دل، والہ و شیدا ہو ہو جاتے ہیں۔ ایک جلال حقیقی کا مظہر،
دوسرا جمال حقیقی کا عکاس…!
دونوں کے دونوں شہر اہل ایمان کا مرکز و محور، عقیدتوں اور محبتوں
کی آماجگاہ کہ جو ان کی زیارت نہیں کر پایا وہ زیارت کو ترستا رہتا ہے اور جو ان کی
زیارت سے ہم کنار ہو گیا وہ محبت و ہجرت میں، بار بار دیکھنے کو تڑپتا رہتا ہے…!
حرمین شریفین سے تعلق خاطر اور دونوں کی محبت وعقیدت، باعثِ
ایمان ہی نہیں، عین ایمان بھی ہے۔ ان مقدس شہروں کی محبت ہی نہیں ان کے رہنے والوں
سے محبت بھی سکینت و عقیدت کا باعث قرار پائی ہے۔ کسی کہنے والے نے خوب کہا تھا
ایا ساکنی اکنافِ طیبہ، کلکم
الٰی القلب من اجل الحبیب حبیب
’’اے شہر طیبہ کے
رہنے والو! تم سب کے سب میرے دل کی محبت کی آماجگاہ ہو، تم میرے محبوب ہو، اس لیے
کہ تم میرے محبوبِؐ عالی وقار کے شہر کے رہنے والے ہو۔‘‘
سعودی عرب، میرے محبوبؐ کے شہروں والی سرزمین، حجاز مقدس کو
محیط، حرمین شریفین پر مبنی اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ سے منور و معطر خطۂ ارضی
پر مشتمل ہے۔ محبت و عقیدت کے مرکز و محور کے طور پر بھی یہ مملکتِ عظیم، ہماری عزت
و احترام کے لائق اور مستحق ہے۔
سعودی عرب کے حکمران جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی خدمت
اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اس کے باعث بھی ہمارے خراجِ تحسین و
عقیدت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر سعودی عرب کا اکرام یوں
بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی
عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے، وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔
سعودی عرب نے ہر مشکل مرحلہ اور کٹھن وقت میں سب سے پہلے، سب
سے زیادہ اور سب سے آگے بڑھ کر پاکستان اور پاکستانیوں کی دل جوئی کی ہے۔ کوئی خوشی
کا موقع ہو یا غمی کا مرحلہ، سعودی عرب ایک سچے دوست، مخلص معاون اور بے لوث محسن کے
روپ ہی میں دکھائی دیا ہے اور کیوں نہ ہو کہ سعودی عرب کے عوام و خواص حتیٰ کہ حکمران
خاندان کے تمام افراد بھی پاکستان کو اپنے ملک، اپنے گھر کی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی خوشی کو اپنی خوشی اور پاکستانیوں کے دکھ کو اپنا دکھ قرار دیتے ہیں۔ ان
کے اخلاص ہی کا پرتو ہے کہ پاکستانیوں کے دل بھی سعودیوں کے دل کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔
سعودیوں کی پاکستان اور اہل پاکستان سے محبت کا عالم کیا ہے؟
اس کو سمجھنے کے لیے مرحوم خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے وہ الفاظ
سنہری پانی سے لکھے جانے کے قابل ہیں کہ جو انہوں نے اپنے دورۂ پاکستان کے موقع پر
(لاہور کی ایک تقریب میں) کہے تھے کہ ’’پاکستان ہمارا دوسرا گھر ہے، ہمیں یہاں آ کر
روحانی خوشی ہوتی ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات آسمانوں سے زیادہ بلند، پہاڑوں
سے زیادہ مضبوط اور سمندروں سے زیادہ گہرے ہیں۔‘‘
پاکستان سے سعودیوں کی محبت و تعلق کی مضبوطی اور گہرائی کو
الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی نہیں، اس کو سمجھنے کے لیے جذبات کی خوشبودار ان یادوں
کو سمیٹنا اور پرکھنا پڑے گا جو پاکستان کی مشکلات اور آفاتِ ارضی و سماوی کے مواقع
پر اہل حجاز کے رویوں سے مترشح ہوئیں۔ پاکستان اور پاکستانیوں کے قدم بہ قدم، شانہ
بہ شانہ بلکہ دم بہ دم، سعودیوں کو چلتے اور سانس لیتے، دیکھنے والے، سعودی عرب کی
محبتوں اور معاونتوں سے انکار کیونکر کرسکتے ہیں؟
پاکستان کو اسلام کا قلعہ قرار دینے والا، عظیم سعودی حکمران
شاہ فیصل شہید، پاکستان کے دولخت ہونے پر (سقوطِ ڈھاکہ کے وقت) جس طرح دھاڑیں مار مار
کر رویا تھا، اس طرح تو شاید خود پاکستان کا کوئی ذمہ دار حکمران یا سیاستدان بھی نہ
رویا ہو… مرحوم سعودی شاہ کی یہ دل گرفتگی اور گریہ زاری، پاکستان سے تعلق خاطر اور
جذباتی وابستگی کی اس پُرعظمت داستان کی گواہی ہے کہ جس کو فضائے بسیط میں وسیع اور
تاباں، خود خادم حرمین شریفین شاہ سلمان دیکھ رہے ہیں اور جس کی عملی شہادت پاکستان
میں سعودی سفیر اپنے تحرک اور پاکستانیوں سے اپنی لگاوٹ کی صورت پیش کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان اور پاکستانیوں کا کوئی مرحلہ حیات ہو، سعودی عرب کے
خواص و عوام اور خاص الخاص لوگ سب سے آگے ہوتے ہیں۔ سیاسی معاملات ہوں یا معاشی حالات،
ملک و قوم کے استحکام و بقا کا مرحلہ ہو یا دفاع ملکی و ملی کا لمحہ، آفات ارضی و
سماوی کا موقع ہو یا قوت و ترقی کا مقام، نشیب و فراز کے تمام مراحل و مواقع میں سعودی
عرب والے پاکستان کے ساتھ اور بہت پاس ہوتے ہیں۔ سیاچن کے کٹھن مراحل سے لے کر کہوٹہ
و ایف 16تک
اور 2008ء
کے تباہ کن زلزلہ سے ہر سال کے خطرناک سیلابوں کی تباہ کاریوں تک، سعودی بھائیوں کی
معاونت شامل حال رہی ہے۔ 30 لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ بانٹنے سے لے کر ایٹمی دھماکوں کے بعد لگنے والی عالمی پابندیوں
کے دوران میں سکون فراہم کرنے تک بے مثال اعانت، پاک سعودی لازوال دوستی کی کہانی سناتی
ہے۔
وہ کون سا لمحہ و مرحلہ ہے کہ جب پوری دنیا میں سب سے پہلے اور
سب سے بڑھ کر سعودی عرب اور اس کے مخلص و محب، آگے نہیں بڑھے اور بڑھ کر اپنی فراخ
بانہوں میں پاکستانیوں کو نہیں سمیٹا، اپنے سینے سے نہیں لگایا۔
پاک سعودیہ بے لوث دوستی کی تاریخ بڑی گہری اور نہایت نمایاں
ہے۔ جریدۂ عالم پر ثبت یہ دوستی اور تعلق کی یہ داستاں دونوں ملکوں کے عوام و خواص
کو ’’یک جاں دوقالب‘‘ کر چکی ہے۔ اب دونوں کے سکھ بھی سانجھے ہیں اور دکھ بھی۔
عقیدت و محبت کے مرکز و محور اور پاکستان کے مخلص محسن ملک سعودی
عرب کا ۸۹واں ’’الیوم الوطنی‘‘ (قومی دن) خوشیاں سمیٹے نمایاں ہو رہا
ہے تو سعودی عرب کے رہنے والوں کی طرح اہل پاکستان بھی نہایت شاداں وفرحاں ہیں۔ ان
کے دل بھی اپنے سعودی بھائیوں کی طرح معطر و منور ہو رہے ہیں۔ ان کی زبانوں پر وہی
نیک جذبات نغموں کی صورت رواں ہیں جو تمنائوں کی صورت، ان کے دلوں کے نہاں خانوں میں
موجزن ہیں کہ ’’حالات کی تمام تر کھٹنائیوں میں حجازِ مقدس کی سرزمین بہرحال تقدس آفریں
اور بہار فزا ہی رہے، کوئی لمحۂ تلخ اور سیاہ شائبہ تک اس کی فضائوں میں جگہ نہ پائے۔
‘‘
خصوصاً موجودہ حالات میں کہ ’’جب شام و یمن اور ایران و عراق
کے حالات کے بہانوں سے عالمی سازشیں اپنے جال پھیلا رہی ہیں، ہر پاکستانی اپنے دل کو
’’دست بدعا‘‘ بنائے سعودی عرب اور حجاز مقدس کی ہر حال میں، خیر مانگ رہا ہے اور دہائی
دے رہا ہے کہ ہماری جانیں تک اس مقدس سرزمین پر قربان، ہم اپنے لہو سے وہاں کے چراغوں
کو روشن رکھیں گے‘‘ کہ
ہم پاسباں اس کے وہ پاسباں ہمارا
No comments:
Post a Comment