Saturday, September 21, 2019

حضرت مولانا ابوحفص عثمانی ... میرے محسن ومربی 35-2019


حضرت مولانا ابوحفص عثمانی... میرے محسن ومربی

تحریر: جناب مولانا ارشاد الحق اثری﷾
مدرسہ قاسم العلوم لیاقت پور ضلع رحیم یار خاں میں ابتدائی دو سال پڑھنے کے بعد یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ باقی تعلیم کہاں مکمل کی جائے۔ میرے استاد محترم مولانا بشیر احمد چونکہ مدرسہ قاسم العلوم فقیر والی ضلع بہاولنگر کے فیض یافتہ تھے اس لیے ان کا مشورہ تھا کہ فقیر والی کے مدرسہ میں داخلہ لیا جائے یا جامعہ رشیدیہ منٹگمری‘ جو بعد میں ساہیوال بنا‘ یا خیر المدارس ملتان کا رخ کیا جائے۔ مگر والد صاحب اس بارے میں مطمئن نہ تھے کہ میں کبھی گھر سے باہر نہیں رہا۔ ان شہروں میں کوئی جان پہچان نہیں‘ ایسا نہ ہو کہ وہاں دل جمعی نہ ہو اور بد دلی تعلیم سے محرومی کا باعث بنے۔ ان ایام میں حضرت مولانا مفتی عبدالرحمن a کہروڑ پکا سے لیاقت پور تشریف لائے تھے۔ یہاں ان کا حلقۂ مریدین بھی تھا اور حضرت والد صاحب بھی گاہے بگاہے ان کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔
حضرت مفتی صاحب بہت بڑے عالم‘ معقولات ومنقولات کے ماہر اور نہایت ذاکر اور عبادت گزار بزرگ تھے۔ لیاقت پور تشریف لاتے تو صبح کی نماز کے بعد اکثر قاسم العلوم کی مسجد میں درس ارشاد فرماتے۔ سورج طلوع ہو جاتا اور وہ ایک ہاتھ سے پیشانی کو پکڑے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے بلا تکان بول رہے ہوتے۔ انہیں اس کی کوئی پروا نہ ہوتی کہ سامعین کم ہیں یا زیادہ‘ بس انہوں نے اپنی بات کہنی ہے اور جو بھی بیٹھے ہیں انہیں علم وعمل کی تلقین کرنی ہے۔
برصغیر کی تقسیم سے پہلے وہ مسجد فتح پوری دہلی میں مولانا شریف اللہ خاں سواتیa کے ہمراہ درس وتدریس کا سلسلہ قائم کیے ہوئے تھے۔ استاد محترم مولانا محمد عبدہٗa نے ایک مرتبہ ذکر فرمایا تھا کہ مفتی صاحب میرے شیخ ہیں اور میں نے مسجد فتح پوری میں ان سے کچھ اسباق پڑھے ہیں۔ حضرت والد صاحب نے خاکسار کے بارے میں حضرت مفتی صاحب سے مشورہ کیا تو بلا تأمل انہوں نے فرمایا: ’’اسے جامعہ سلفیہ لائل پور میں داخل کروانا چاہیے۔ وہاں مولانا شریف اللہ خاں پڑھاتے ہیں۔ والد صاحب نے یہ مشورہ درست جانا اس لیے کہ جامعہ سلفیہ کے قریب ہی نور پور گاؤں ہے جو اب فیصل آباد کی ہی اضافی آبادی میں شمار ہونے لگا ہے اور اس میں ان کی ہمشیرہ صاحبہ اور برادری کے دیگر افراد آباد ہیں۔ اس لیے وہاں میری اداسی کا کوئی مسئلہ نہیں ہو گا اور دوسری وجہ انہوں نے یہ بیان فرمائی کہ میں جامعہ سلفیہ گیا ہوں وہاں کے بڑے استاد کی زیارت میں نے کی ہے۔ ان کی مجلس میں بیٹھنا ہی فائدہ سے خالی نہیں۔ اس لیے انہوں نے مجھے جامعہ سلفیہ بھیجنے کا فیصلہ فرما دیا۔ جامعہ سلفیہ میں وہ جن سے ملے تھے وہ استاذ الاساتذہ حضرت محدث حافظ محمد گوندلویa تھے‘ لیکن یہ انہیں معلوم نہ تھا کہ وہ اب جامعہ کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔
بہرحال راقم ۱۹۶۴ء میں جامعہ سلفیہ میں داخلہ لینے کے لیے پہلے سیدھا نور پور اپنی پھوپھی صاحبہ کے ہاں حاضر ہوا۔ مرحومہ نہایت صابرہ شاکرہ اور شب زندہ دار خاتون تھیں۔ انہوں نے مجھے حکیم محمد رمضان سے ملایا اور دوسرے روز جناب حکیم محمد رمضان صاحب کے ہمراہ جامعہ سلفیہ پہنچ گئے۔ یہ حکیم محمد رمضان صاحب فیصل آباد کے کارخانہ بازار میں اس وقت مشہور دواخانہ کے پارٹنر تھے اور مسلک اہل حدیث کے ساتھ منسلک ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے ساتھ بھی ان کی ہمدردیاں جاری تھیں۔
محمد رمضان صاحب مجھے سیدھا جامعہ کے دفتر میں لے گئے اور ناظم الجامعہ سے میرے داخلہ کی بات کی۔ مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو اور پہلے کیا پڑھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ لیاقت پور سے حاضر ہوا ہوں اور علم النحو‘ علم الصرف‘ علم الصیغہ‘ ہدایت النحو‘ قدوری‘ تیسیر المنطق‘ کریمہ‘ پند نامہ کا نام لیا تو فرمایا کہ فلاں کمرے میں جائیں اور انٹرویو دیں‘ وہ اساتذہ جس کلاس میں مناسب سمجھیں اس میں تمہیں داخلہ دے دیا جائے گا۔
چنانچہ میں اس کمرہ میں گیا تو دو استاد گرامی تشریف فرما تھے۔ بعد میں ان کے ناموں سے شناسائی ہوئی‘ ایک ان میں مولانا حافظ محمد بنیامینa تھے اور دوسرے مولانا علی محمد حنیف سلفیa تھے۔ ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں بھی پہلا سوال یہی تھا کہ پہلے کونسی کتابیں پڑھی ہیں؟ میں نے انہی کتابوں کا نام لیا۔ جب ’’تیسیر المنطق‘‘ کا نام لیا تو مولانا حافظ بنیامینa نے دریافت فرمایا: ’’تیسیر‘‘ کون سا باب ہے؟ عرض کیا باب تفعیل ہے۔ بس یہی  ایک سوال اور ایک ہی جواب‘ انہوں نے لکھ دیا کہ اسے تیسری کلاس میں داخلہ دے دیا جائے۔ یہ چٹ لے کر واپس ناظم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے داخلہ فارم کے ذریعہ تیسری کلاس میں میرے داخلے کی خوشخبری سنا دی۔
جامعہ میں کن کن شیوخ کرام سے کیا استفادہ کیا؟ کون کون سے اسباق پڑھے اس تفصیل کی نہ ضرورت ہے نہ آج کا یہ موضوع ہے۔ بتلانا یہ مقصود ہے کہ مدیر الجامعہ سے جو کہ جامعہ کے باقاعدہ استاد نہیں تھے خاکسار نے ان سے بے حد استفادہ کیا۔ بلکہ اگر کہا جائے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس فقیر نے ان سے سیکھا ہے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی اور طالب علم نے اس میں سے کچھ حصہ نہیں پایا ہو گا۔
آئیے! پہلے میرے محسن‘ میرے مربی مدیر الجامعہ کا کچھ تعارف ہو جائے۔ پھر اپنی کہانی آپ کو بتلائیں اور سنائیں گے۔ ان کا اسم گرامی تو اللہ بخش تھا جو بعد میں ’’ابوحفص عثمانی‘‘ کے نام وکنیت سے جانے اور پہچانے گئے۔
’’عثمانی‘‘ نسبت ان کے والد گرامی کے نام کی بنا پر تھی۔ چنانچہ ان کے والد صاحب کا نام محمد عثمان تھا اور دادا کا نام محمد تھا۔ میؤ راجپوت قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ ’’ڈیرہ غازیخاں کی شخصیات‘‘ کے مصنف نے لکھا ہے کہ مولانا عثمانی ۱۹۱۵ء میں پیدا ہوئے جبکہ مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم نے لکھا ہے کہ ۱۹۱۰ء کے لگ بھگ موضع داجل ضلع ڈیرہ غازیخاں میں پیدا ہوئے۔ (برصغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت: ۱۸۶)
یہ موضع داجل جام پور شہر سے ۱۵‘ ۱۶ میل دور مغرب میں واقع ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں داؤد خان ناہڑ نے آ کے اس جگہ اپنا ڈیرہ بسایا۔ وہاں ایک بڑا سایہ دار ’’جال‘‘ کا درخت تھا۔ جسے پیلو کا درخت بھی کہتے ہیں اور اس کی جڑیں مسواک بنانے کے کام آتی ہیں۔ مسافر حضرات یا ادھر آنے جانے والے لوگ اس درخت کے سایہ میں آرام کرتے اور کچھ سستا کے اپنا سفر جاری رکھتے۔ یوں یہ درخت ’’داؤد دی جال‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا جو بعد میں کثرت استعمال سے ’’داجل‘‘ بن گیا۔
’’داجل‘‘ کے بارے میں مزید تفصیل غلام علی خاں ننکانی کی مرقع ڈیرہ غازیخاں صفحہ ۸۲ مطبوعہ ملتان ۱۹۸۶ء اور یاسر جواد صاحب کی کتاب ’’سرائیکی وسیب کی تاریخ‘‘ صفحہ ۶۱۱مطبوعہ لاہور ۲۰۱۸ء میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ’’داجل‘‘ کا یہ مختصر تعارف ہمارے عزیز فاضل عالم دین مولانا حافظ ریاض احمد عاقب الاثریd استاذ مرکز ابن القاسم الاسلامی ملتان کے توسط سے حاصل ہوا ہے جس پر یہ عاجز ان کا بے حد شکر گذار ہے۔
ابھی آپ دو سال کے تھے کہ والد صاحب کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آبائی پیشہ زمینداری تھا اور والد صاحب طب وحکمت کا شغل رکھتے تھے۔ گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ غازیخاں سے آپ نے ۱۹۳۲ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بڑے ذہین وفطین تھے۔ پانچویں سے آٹھویں جماعت تک تعلیمی وظیفہ حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے تو آٹھ سال میں درس نظامی کا کورس مکمل کیا اور ۱۹۳۹ء میں دینی تعلیم سے فارغ ہوئے۔ (ڈیرہ غازیخاں کی شخصیات بحوالہ ’’مولانا عبدالتواب محدث ملتانی‘‘ صفحہ ۱۶۱)
لیکن مولانا مرحوم کی تعلیم کے حوالے سے سنین کا تعین محل نظر ہے۔ ۱۹۳۲ء میں میٹرک کرنے کے بعد دینی تعلیم کا آٹھ سالہ کورس ۱۹۴۰ء بنتا ہے نہ کہ ۱۹۳۹ء ۔ممکن ہے کہ میٹرک کے دوران میں انہوں نے دینی تعلیم کا بھی آغاز کر دیا ہو یوں ان کی فراغت کا سال ۱۹۳۹ء بن سکتا ہے۔ لیکن یہاں یہ مسئلہ بھی غور طلب بلکہ حل طلب ہے کہ ’’کوفی دھرم کے موتی انمول‘‘ کے آخر میں اس کی اختتامی تاریخ ۱۹۵۶ء لکھی گئی ہے اور رسالے کی ابتداء میں جو انہوں نے کلمہ افتتاحیہ ’’پہلے مجھے دیکھیے‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے اس کے آخر میں ۱۸ جون ۱۹۳۶ء کی تاریخ درج ہے۔ جس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ۱۹۳۹ء یا ۱۹۴۰ء سے بھی تین چار سال پہلے وہ ’’فاضل نوجوان‘ مناظر اسلام‘ کاسر رؤس اللئام حضرت مولانا مولوی ابوحفص‘‘ تھے۔ جیسا کہ اس رسالہ کے لوح پر ان کے نام سے یہ القاب لکھے ہوئے ہیں۔ اب یا تو یہ کہیں کہ یہ تاریخیں صحیح نہیں یا یہ رسالہ طالب علمی ہی کے دور میں لکھا گیا تھا اور اسی دور میں انہیں اللہ تعالیٰ نے بے حد تصنیفی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اسی طرح یہ کہنا کہ وہ دو سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اُٹھ گیا‘ محل نظر ہے کیونکہ اپنی شادی کے جو کچھ واقعات انہوں نے سنائے تھے ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ والد صاحب بقید حیات تھے۔ واللہ اعلم!
مولانا عثمانی مرحوم اہل حدیث مسلک کی ترجمانی کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
[إنا إذا لم نقلد الإمام الہمام عالی المقام أبا حنیفۃ رحمہ اللہ وغیرہ من أئمۃ الإسلام، فی مقابلۃ الأحادیث الصحیحۃ المرویۃ من سید الأنام علیہ التحیۃ والسلام فکیف نقلد من بعدہم وإن کان الشوکانی أو ابن الہمام أو ثناء اللہ أو وحید الزمان، ومن قلدہم أو غیرہم فی مقابلۃ النصوص فہو من الذین اتخذوا أحبارہم ورہبانہم أربابا من دون اللہ] (کوفی دھرم: ۴)
معلوم یوں ہوتا ہے کہ مولانا موصوف‘ مولانا عبدالتواب محدث ملتانی کے ہاں تعلیم وتربیت کے ایام گذار رہے تھے۔ انہی دنوں میں انہوں نے یہ رسالہ لکھا ہے کیونکہ اس رسالہ کے سر ورق پر لکھا گیا ہے ’’ابوحفص الداجلی الدیرہ غازی خانی نزیل ملتان شہر محلہ قدیر آباد‘‘ اور وہ اس میں محدث ملتانی کا ذکر بڑے اچھے القاب سے کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’جن لوگوں کے سامنے نبی کریمe اور صحابہ کرام] کی اتنی قدر ومنزلت ہے تو ان پر کیا تعجب ہے کہ وہ مولانا عبدالحق محدث ملتانی مد ظلہ وحضرت مولانا استاذی عبدالتواب محدث ملتانی متعنا اللہ بطول حیاتہ وحضرت مولانا سلطان محمود رحمہ اللہ کا نام صرف بے ادبی وگستاخی سے لے لیں؟‘‘ (ایضا: ۲۴)
اسی کے اختتام پر لکھتے ہیں:
[أبوحفص الداجلی غفر اللہ لہ ذنبہ الخفی والجلی أحد تلامذۃ المکرم المفخم العالم الأکمل الأبجل المسود بین الأقران والأشباہ مولانا العلامۃ الحافظ الحاج أبی التراب، المدعو بعبد التواب الملتانی خصہ اللہ بکل حسنۃ ونوال، وأذہب عنہ کل ما یؤلمہ من ہم وغم للسابع والعشرین من شہر ربیع الأول یوم الخمیس ۱۳۵۶ھ]
ان عبارتوں سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسالہ مولانا عثمانی مرحوم نے زمانہ طالب علمی میں لکھا جب وہ محدث ملتانی کے ہاں قدیر آباد میں زیر تربیت تھے اور اسی دور میں انہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ واللہ اعلم!
انہی تحریروں سے یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ مولانا عبدالحق محدث ملتانی سے باقاعدہ انہیں شرف تلمذ نہیں کیونکہ انہیں مولانا عثمانی نے اپنے استاذ کی نسبت سے ذکر نہیں کیا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اس کے بعد انہوں نے محدث ملتانی سے بھی استفادہ کیا ہو۔
ملتان میں شیوخ سے کسب فیض کے بعد وہ گوجرانوالہ میں مولانا محمد اسماعیل سلفیa کی خدمت میں پہنچے اور ان سے مختلف کتابیں پڑھیں۔ اسی طرح وہ سیالکوٹ میں مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹیa کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے تفسیر قرآن مجید کا علم حاصل کیا۔ جن ایام میں وہ مولانا سیالکوٹی کی خدمت میں تھے انہی ایام میں مولانا محمد صدیق کرپالویa بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔مولانا عثمانی مرحوم نے بتلایا کہ مولانا محمد صدیق کا وہ عہد شباب تھا‘ بھاری جسم‘ سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے دیکھتے ہی فرمایا: پڑھنے کے لیے یا کشتی کرنے کے لیے آئے ہو؟ قاضی محمد اسلم سیف مرحوم مولانا سیالکوٹی کے تلامذہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’مولانا ابوحفص عثمانی آف داجل‘ دبستان سیالکوٹی کے گل رعنا تھے۔‘‘ (سوانح حیات امام العصر سیالکوٹی: ۱۴۶)
عنفوان شباب ہی میں مناظرانہ اور تحقیق طلب ذہن تھا‘ اسی بنا پر ان کے کتب خانہ میں تفسیر‘ حدیث‘ تاریخ ورجال‘ فقہ وفتاویٰ کے ساتھ ساتھ ہندو مت‘ سکھ مت‘ رافضیت‘ قادیانیت کے متعلق کافی ذخیرہ ان کے کتب خانہ کی زینت تھا۔ سیاست کے ساتھ بھی انہیں دلچسپی تھی بلکہ ضلع ڈیرہ غازیخاں میں وہ پہلے مسلم لیگی تھے جنہوں نے ’’داجل‘‘ میں مسلم لیگ کی شاخ قائم کی۔ داجل ٹاؤن کمیٹی کے وہ وائس چیئرمین منتخب ہوئے۔ خضر حیات ٹوانہ کے دور میں جب کونسل آف ایکشن مسلم لیگ بنی تو اس کے تین ممبروں میں ایک مولانا عثمانی مرحوم تھے۔ لیکن مسلم لیگ جب دھڑے بندی کا شکار ہوئی تو وہ اس سے علیحدہ ہو گئے۔ (ڈیرہ غازیخاں کی شخصیات‘ بحوالہ مولانا عبدالتواب محدث ملتانی: ۱۶۱)
مولانا عثمانی مرحوم کے کتب خانہ میں ایک کتاب ’’سنسکار وِدھن‘‘ اردو ترجمہ مستند گرنتھ نظر سے گذری جس کے لوح پر لکھا ہے: ’’ابوحفص عثمانی میونسپل کمشنر داجل (۴۱-۲-۱۶)‘‘۔ اسی طرح ایک کتاب ’’جامع عباسی‘‘ کے لوح پر لکھا ہے: ابوحفص عثمانی امیر المجلس البلدی داجل (۱۹۴۳/۶/۲۰)۔
مولانا عثمانی کی مناظرانہ طبیعت کا نتیجہ تھا کہ ایک بار مرزا بشیر الدین محمود سے پنجہ آزمائی کے لیے قادیان جا پہنچے۔ (برصغیر میں اہل حدیث کی سرگزشت: ۱۸۲)
۱۹۴۵ء میں ماہ رمضان مبارک آیا تو ’’داجل‘‘ میں کوئی حافظ قرآن میسر نہ ہوا‘ خود انہوں نے قرآن مجید دیکھ کر نماز تراویح پڑھائی اور نماز تراویح میں قرآن مجید ختم کیا۔ یہ بات مسجد سے باہر پھیلی تو ایک فاضل دیوبند جو شیخ الہند مولانا محمود الحسن مرحوم کے تلمیذ تھے اور منشی فاضل مولوی فاضل بھی تھے انہوں نے خطبہ جمعہ میں اس کی خوب تردید کی اور مطالبہ کیا کہ اس کا ثبوت دیا جائے۔ مولانا عثمانی مرحوم نے صحیح بخاری [باب امامۃ العبد] اور قیام اللیل صفحہ ۱۶۲ کے حوالے سے لکھ بھیجا کہ سیدہ عائشہ صدیقہr کا غلام ذکوان قرآن مجید دیکھ کر انہیں نماز تراویح پڑھاتا تھا جس سے خاموشی چھا گئی۔ مولانا عثمانی کا یہ جواب عرصہ بعد ۱۳۸۲ھ میں صحیفہ اہل حدیث کراچی میں شائع ہوا۔
مولانا نے اپنی بعض کتابوں پر یہ جملہ بھی لکھا:
کیف اقول فی مِلکی ہٰذا
وللہ ملک السمٰوات والارض
’’میں یہ کیسے کہوں کہ میں اس کا مالک ہوں جبکہ آسمانوں اور زمین کا مالک تو اللہ ہے۔‘‘
بعض کتابوں پر وہ اپنے نام کے ساتھ اس شہر کا نام مع تاریخ بھی ذکر کر دیتے جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کب کہاں تھے۔ چنانچہ حضرت الاستاذ الامام حافظ محمد گوندلویa کی ’’ختم نبوت‘‘ پر لکھا ہے ’’نزیل گٔجرانوالہ‘‘ ۴۵/۳/۲۱۔
اسی طرح ’’تمیز الطیب من الخبیث‘‘ للشیبانی پر لکھتے ہیں: ابوحفص بن عثمان عثمانی النزیل بالمدینۃ المنورۃ ۱۲ مئی ۱۹۶۱ء۔ اسی طرح ’’الوشیعۃ فی نقد عقائد الشیعۃ‘‘لموسیٰ جار اللہ کے لوح پر لکھا ہے: ’’النزیل بالمدینۃ المنورہ ۶۱/۵/۱۹۔‘‘ اور ’’تحفۃ البیان فی تحریم الدخان‘‘ لعبداللہ الغامدی پر انہوں نے لکھا: ابوحفص النزیل بمکۃ المکرمۃ ۵۶/۶/۴۔ ۲۵ ذوالقعدہ ۱۳۷۵ھ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دوبار حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ ایک ۱۹۵۶ میں اور دوسری بار ۱۹۶۱ء میں۔
مولانا عثمانی مرحوم معروف مبلغین میں تو بالکل شمار نہیں ہوتے تھے تا ہم جب کبھی انہیں جلسہ عام میں گفتگو کی دعوت دی جاتی تو بے حد مدلل گفتگو کرتے اور دلائل کے انبار لگا دیتے۔ چنانچہ ملتان شہر کا سالانہ جلسہ ۱۹۶۰ء میں ہوا‘ مولانا ان دنوں جامع مسجد اہل حدیث خوشاب میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ جلسہ کی کارروائی میں لکھا گیا کہ ’’مولانا عثمانی کو ملتان کے اسٹیج پر آنے کا پہلی بار موقعہ ملا۔ انہوں نے توحید باری تعالیٰ کے مضمون کو اس نئے اسلوب سے پیش کیا جو تمام مبلغین اور مقررین سے جداگانہ تھا۔‘‘ (الاعتصام: ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
اسی طرح ۱۹۶۰ء میں ہی خانیوال کے سالانہ جلسہ میں انہوں نے خطاب فرمایا جس کی تفصیل ذکر کرتے ہوئے مولانا عبدالرشید صدیقیa ناظم اعلیٰ ملتان نے لکھا: مولانا ابوحفص عثمانی نے اطاعت رسول کریمe پر نہایت مدلل اور بصیرت افروز تقریر فرمائی اور نہایت علمی نکتے بیان فرمائے۔ (الاعتصام: ۲۵ نومبر ۱۹۶۰ء)
جماعت غرباء اہل حدیث کے چودھویں سالانہ اجلاس میں انہوں نے اسلام اور سوشلزم کے عنوان پر بڑا بلیغ اور اثر انگیز خطاب فرمایا‘ جس کے آخر میں انہوں نے کہا: ’’پاکستان میں اسلام کا بول بالا ہو گا‘ اس کے علاوہ ہر ازم کا یہاں منہ کالا ہو گا۔‘‘ (صحیفہ اہل حدیث ۳ اکتوبر ۱۹۷۶۰ء)  ……… (جاری)


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)