ختم نبوت ... مسلم حکمرانوں کا کردار
تحریر: جناب صاحبزادہ برق التوحیدی
عقیدہ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ جس طرح تمام
حضرات انبیاء و رسلo پر
ایمان رکھنا اسلام کا بنیادی رکن ہے اسی طرح آنحضرتe کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اسلام ہے۔ البتہ یہ فرق
ہے کہ آنحضرت e کی
نبوت و رسالت پر اضافی طورپر یہ ایمان رکھنا بھی ضروری ہے کہ آپ کی نبوت و رسالت آخری
نبوت و رسالت ہے آپ e کے
بعد کوئی نبی اور رسول نہ آئے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جس طرح عالم ارواح میں میثاقِ توحید
لیا اسی طرح عالم ارواح میں میثاقِ نبوت لیا فرق صرف یہ ہے کہ میثاقِ توحید تمام انسانیت
سے براہ ِ راست لیا گیا۔ جبکہ میثاقِ نبوت تمام امتوں سے ان کے انبیاء و رسل علیہم
السلام کے ذریعہ لیا گیا۔ چنانچہ فرمایا :
{وَ اِذْ اَخَذَ
اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّ حِکْمَۃٍ ثُمَّ
جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّــہٗ۱
قَالَ ئَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ۱ قَالُوْٓا اَقْرَرْنَا۱
قَالَ فَاشْہَدُوْا وَ اَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَ٭}
’’اور جب اللہ تعالیٰ
نے تمام انبیاءo سے
پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب و حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول آئے تصدیق کرنے
والا اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے تو تم نے اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنا
ہو گی‘ فرمایا کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس پر پختہ عہد کرتے ہو؟ سب نے کہا جی ہاں!
ہم نے اقرار کیا‘ فرمایا تم گواہ رہو میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں۔‘‘
سید المفسرین سیدنا ابن عباسw فرماتے ہیں:
[ما بعث اللہ نبیا
من الا نبیاء الا اخذ علیہ المیثاق لئن بعث اللہ محمدا وہو حي لیؤمنن بہ ولینصرنہ
وأمران یا خذالمیثاق علی امتہ لئن بعث محمد وہم احیاء لیؤمنن بہ ولینصرنہ۔] (تفسیر
ابن کثیر: ج ۱ ص ۳۸۶)
’’اللہ تعالیٰ نے
جو بھی پیغمبر مبعوث کیا اس سے وعدہ لیا کہ اگر اس کی زندگی میں جناب محمدe کو
وہ مبعوث کرے تو اسے ان پر ایمان لانا ہوگا اور ان کی مدد کرنا ہو گی اور یہ حکم دیا
کہ وہ اپنی امت سے بھی پختہ عہد لے کہ اگر ان کی زندگی میں جناب محمد e مبعوث
ہو ں تو وہ ان پر ایمان لائیں گے اور ان کی مدد کریں گے۔‘‘
اس میثاق ازل میں بلا استثناء سبھی امتی شامل ہیں جو اس بات
کی واضح دلیل ہے کہ جناب محمد e تمام
انبیاء و رسلo کے
بعد اور آخر میں مبعوث ہو ں گے ورنہ یہ میثاق اپنی معنویت کھو بیٹھتا ہے جس سے یہ
سمجھنا بھی آسان ہو جا تا ہے کہ عام حضرات انبیاء و رسلo پر
ایمان اور جناب محمد رسول اللہ e پر
ایمان میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ یہاں نبوت و رسالت کے ساتھ آپ کے خاصہ نبوت ’’ختم
نبوت‘‘ پر ایمان رکھنا بھی ضروری ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں دو
لفظ استعمال فرمائے ہیں: ایک ایمان اور ایک نصرت۔ ایمان تو بہرحال اپنے مفہوم میں واضح
ہے جبکہ نصرت کا لفظ جس مفہوم کا متقاضی ہے اس پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ نصرت سے
مراد ایک تو ذات کی نصرت ہے اور ایک منصب کی نصرت ہے ، ظاہر ذات والا صفات کی (جسمانی)
نصرت کی عملی تعبیر تو اب ممکن نہیں ماسوائے اس کے کہ آپ e کی
ذات اقدس اور اس کے متعلقات پر اُٹھائے جانے والے اعتراضات کا جواب دیا جائے۔ البتہ
منصب کی نصرت باقی ہے اور باقی رہے گی اور منصب کی نصرت میں سرفہرست ’’ ختم نبوت
‘‘ ہے جو نبوت محمد یہ کے جملہ خواص میں یہ سب سے اعلیٰ اور اولیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے مختلف الفاظ میں متعدد جگہ پر اسے منصو ص فرما یا بلکہ خود آنحضرت
e نے
بھی اپنے ارشادات میں اس کو اپنی جزئیات سمیت الم نشرح کہا جس کا پس منظر صرف ایک ہی
ہے کہ اس خاصہ نبوت محمدیہ کو تسلیم کیے بغیر نہ نبوت پر ایمان متحقق ہوتا ہے اور نہ
ہی نصرت عمل میں آتی ہے۔
پھر اس ایمان و نصرت کے مخاطب انسانیت کے تمام طبقات ہیں اور
ظاہر ہے بنیادی طور پر عمرانی زندگی میں دو طبقے ہیں: ایک راعی دوسرا رعیت ، پھر رعیت
کے بھی دو طبقات ہیں: ایک علماء دوسرا عوام
، اب ان تمام کو ایمان کے ساتھ نصرت کا پا بند بنایا گیا ہے اور ہر طبقہ بلکہ ہر طبقہ
کا ہر فرد اپنی سطح پر حسب استطاعت ایمان و نصرت کا پابند ہے۔ ان دونوں کو ایک دوسرے
سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا کہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ ہمیں
بتاتی ہے کہ جہاں بھی نبوت محمد یہ پر ایمان رہا ہے وہاں نصرت کے مظاہر بھی موجود رہے‘
یہ تو ممکن ہے کہ نصرت بلا ایمان ہو مگر یہ ممکن نہیں کہ ایمان بلا نصرت ہو۔
بہرحال ان پہلوئوں سے جب ہم تحریک ختم نبوت کا مطالعہ کرتے ہیں
تو یہ بڑی خوشگوار حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ان تمام طبقات نے نبوت محمدیہ پر ایمان
کے ساتھ نصرت کا بھر پور حق ادا کیا‘ اگر ایک طرف علماء امت نے اپنے اپنے دور میں حسب
حالات عقیدہ ختم نبوت کو نہ صرف مد لل طور پر بیان کیا بلکہ اس کا بھرپور دفاع بھی
کیا اور عوام کی راہنمائی میں اپنا حق ادا کیا اور کر رہے ہیں جبکہ عوام نے بھی دامے
در ہمے اورسخنے اس تحریک میں پر جوش حصہ لیا
۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ ودفاع میں چلنے والی جملہ تحریکیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں
مگر ہم سر دست اس کی تفصیل میں جائے بغیر تحفظ عقیدہ ختم نبوت کے و دفاع میں مسلم حکمرانوں
کے کر دار کی ایک جھلک دکھانا چاہتے ہیں۔
1 معلوم ہے کہ
امت کے وجود و تشخص اور نظریہ و نظام کے تحفظ و دفاع کی براہ ِ راست اور سب سے زیادہ
ذمہ داری حکمران طبقہ پر ہی عائد ہوتی ہے‘ چنانچہ یہ عجیب اتفاق ہے کہ انکار ِ ختم
ِ نبوت کے فتنہ نے سب سے پہلے سر آنحضرت e کی حیات ِ مبارکہ ہی میں اُٹھا لیا تھا تو اس کی سرکو
بی بھی آنحضرت e کی
حیات ِ طیبہ ہی میں کر دی گئی‘ چنانچہ قصرِ ختم ِ نبوت کے پہلے نقب زن طلیحہ اسدی اور
اسود عنسی نے جب آنحضرت e کی
زندگی میں ہی دعوی نبوت کیا تو اہل ایمان نے منصب نبوت کے تحفظ و دفاع میں اس کے خلاف
لشکر کشی کی اور تعاقب کیا اور بالآخر ان کا کام تمام کر دیا گیا۔ حسن اتفاق ہے کہ
جب سرور کائنات خاتم النبیینe اپنے
فریضہ نبوت و رسالت کو ادا کرکے۔ الرفیق الا علیٰ۔ سے ملنے والے تھے تو بالکل ان ہی
ایام میں اس باغی ختم ِ نبوت اسود عنسی کو واصل جہنم کیا گیا‘ چنانچہ اسود عنسی کے
قتل کے بعد تین دن تک زندہ رہنے کے بعد آپ e نے وصال فرمایا گویا آپ کی زندگی میں جو آخری کام
انجام پا یا وہ غدار ختم ِ نبوت کا انجام تھا جو اشارہ تھا کہ نبوت و رسالت محمدیہ
کاا تمام مجھ پر ہے تو اس کا استحکام ایسے غدار کے اس آغاز ِ انجام پر ہے۔
2 چنانچہ اسی
اشارہ کو نبض شناس ِ نبوت راز دار ِ رسالت جناب سید نا ابو بکر صدیقt نے
اپنے لیے راہنما اصول بنایا اور امت مسلمہ کے باقاعدہ خلیفہ اور امیر بننے کے بعد آپ
نے جو سب سے اہم اقدامات کیے ان میں ایک اہم ترین منکرین ختم نبوت کے خلاف مہم جوئی
تھی‘ بلا شبہ اس وقت ریاست مدینہ کو چار سو خطرات کا سامنا تھا اندرونی خلفشار سے بڑھ
کر بیرونی خدشات منڈ لا رہے تھے، مختلف فتنوں بلکہ بغاوتوں نے سر اُٹھا رکھا تھا‘ ان
سنگین حالات میں بھی سید نا ابو بکر صدیقt نے اس راز کو پا لیا کہ استحکام خلافت اور تمکین شریعت
منکرین ختم نبوت کے انجام میں مضمر ہے ۔ بعض حضرات صحابہ] کے
علی الرغم آپ نے اس مہم جوئی کو جاری رکھا۔ حالات تو یقینا یہی کہہ رہے تھے کہ
{اِنَّ النَّاسَ
قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ٭}
مگر ان حالات نے ان کو بزدل نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان و یقین
کو مزید مستحکم کیا کہ
{فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا۱
وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ٭}
چنانچہ سیدنا خالد بن ولیدt کی زیرِ قیادت لشکر اسلام نے سر زمین یمامہ پر غدار
ختم ِ نبوت مسیلمہ کذاب کو واصل جہنم کیا اور یہ تاریخ رقم کی کہ مسلمان حکمرانوں کی
اولیں ذمہ داری ہے کہ وہ قصرِ ختم نبوت کے دفاع و تحفظ میں اپنا بھر پور کر دار ادا
کریں‘ حالات کیسے ہی ہوں لیکن سب سے بڑی اور اولیں ترجیح نظریہ کا تحفظ و استحکام ہے
جس میں ختم نبوت کو ایک بنیادی حیثیت حاصل ہے، بنا بریں کہنا چاہیے کہ خلیفہ بلا فصل
سیدنا ابوبکر صدیقt نے
جس طرح اسلامی ریاست کے دیگر پہلوئوں میں انتظامی خدو خال اور اصلاحات کو نمایا ں کیا
وہاں سب سے اہم اقدام وہ ہے جو آپ نے قصرِ ختم ِ نبوت کے تحفظ ودفاع میں اُٹھایا کیونکہ
اس عقیدہ سے غداری دراصل امت مسلمہ کے خلاف تمام قسم کے نظریاتی و سیاسی فتنوں اور
سازشوں کی بنیاد ہے جس سے مرکز ِ ملت کی حیثیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔
3 اسی تناظر میں
ہم دیکھتے ہیں کہ جب کبھی کسی اسلامی ریاست میں کسی نے قصرِ ختم نبوت میں نقب زنی کی
کوشش کی اور عقیدہ ختم نبوت سے غداری کا ارتکاب کیا تو علماء و عوام سے بڑھ کر حکمرانوں
نے اپنا کر دار ادا کیا کہ وہ:
[من رای منکم منکرا
فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان۔]
’’جو تم میں سے برائی
دیکھے تو قوت ِ بازو سے اسے مٹائے اگر ایسی ہمت نہ ہوتو اپنی زبان سے روکے اگر ایسا
بھی ممکن نہ ہوتو دل سے (تو برا سمجھے ) روکے اور یہ کمزور تر ایمان ہے۔‘‘
تو یقینا شرک کے بعد انکار ِ ختم ِ نبوت سے بڑا منکر عقیدہ کوئی
اور نہیں تو پھر اس حکم کے مخاطب بھی سب سے پہلے حکمران ہی ہیں جو قوت ِ بازو اور زور
ِ اقتدار سے اس فتنہ کو ختم کرنے کے پا بند ہیں اور یقینا وہ حکمران خوش نصیب ہیں جو
اپنے اقتدار و اختیار کو اسلام کی سر بلندی وسرفرازی اور عقیدہ ختم ِنبوت کے تحفظ ودفاع
میں بروئے کار لائے ۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیشِ
نظر رہنی چاہیے کہ مسلمان خواہ کسی طبقہ سے بھی متعلق ہو وہ عملی طور پر جتنا بھی کمزور
ہو لیکن وہ اپنے عقیدہ و ایمان پر کوئی سمجھوتہ کرنے اور کمزوری دکھانے کو تیار نہیں۔
اگرچہ آنحضرتe نے
ارشاد فرمایا ہے کہ :
[ان اللہ لیؤید
ہذا الدین بالرجل الفاجر۔]
’’اللہ تعالیٰ اس
دین کی حمایت و نصرت کا کام کسی گناہ گار آدمی سے بھی لے لیتا ہے۔ ‘‘
اس لیے ضروری نہیں کہ کوئی حکمران بظاہر بڑا متشرع او ر دینی
امور اور جزئیات کا پا بند ہو تو وہی یہ فریضہ انجام دیتا ہے یا اسے ہی دینا چاہیے
، نہیں یہ سعادت اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ اور حکمت بالغہ سے کسی بھی حکمران کو مل
سکتی ہے کہ وہ خود کو اسوہ حسنہ اور منہج صدیقی پر چلتے ہوئے عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ
و دفاع کے لیے وقف کر دے اور ایسا کام کر جائے جو شاید کسی متشر ع حکمران سے بھی نہ
ہو سکے تو یہ قدم ہی اس کی دنیا و آخرت کی کامیا بی و کامرانی کا ذریعہ بن جائے کہ ؎ این
سعادت بزور بازو نیست ۔
بہرحال عقیدہ ختم نبوت کے لیے جس عمل کی خشت اول خود آنحضرت
e نے
رکھی اور جس تسلسل کا آغاز خلافت ِ صدیقی سے ہوا اور خلیفہ پیغمبر ، امیر المؤمنین
سیدنا ابو بکر صدیقt نے
منکر ین ختم نبوت کے خلاف جس جہادی مہم کا آغاز کیا وہ تاریخ کے مختلف ادوار میں پروان
چڑھتے نظر آتی ہے۔ چنانچہ غدارانِ ختم نبوت کا جو انجام بھی قدرت ِ الہٰیہ سے ہوا اس کی تو ایک طویل فہرست ہے مگر جو حکمرانوں کے
جذبہ ایمان اور غیرت دین کا نشانہ بنے وہ بھی کوئی کم نہیں‘ جب تاریخ کی سرسری ورق
گردانی کی جاتی ہے تو تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ
4 پہلی صدی تقریباً
۱۰۶ھ میں جب اموی خلافت کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا کہ خلیفہ
ہشام بن عبدالملک مسند خلافت پر متمکن تھا جس نے سر زمین عراق پر خالد عبداللہ القسری
کو گورنر مقرر کیا ہوا تھا۔ خالد القسری کا ایک غلام مغیرہ بن سعید العجلی بڑا ذہین
اور منصوبہ ساز تھا جس نے اپنی عقلمندی اور ہوشیاری سے آہستہ آہستہ گورنر خالد القسری
کا تقرب حاصل کیا اور کارندوں میں شمار ہونے لگا بلکہ وہ اپنی غلامی کو بھلا کر شاہی
افراد میں سے سمجھنے لگا۔ بہرحال اس نے علماء و صلحاء کی مجلسوں کو بھی اختیار کیا
بالخصوص حضرت امام باقرa سے
عقیدت و محبت کی راہ و رسم قائم کی جن کے حلقہ ارادت و عقیدت کو دیکھ کر اس کی عقل
عیار بھی للچانے لگی۔ اس دوران وہ مختلف حیلوں بہانوں سے خالد القسری گورنر کا بہت
زیادہ اعتماد حاصل کر چکا‘ تھا یہاں تک کہ وہ خالد القسری کو خود پر خوش کرکے اس سے
آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور خالد القسری کو اس پر اس قدر اعتماد تھا کہ
خالد کی طرف سے اس کی چھوٹی موٹی حرکتوں کو بھانپ لینے کے باوجود نظر انداز کیا جاتا
رہا بالآخر اس نے جو خواب دیکھے تھے ان کی عملی تعبیر میں اس نے امامت و نبوت کا اعلان
کر دیا جس پر اسے گرفتارکر لیا گیا۔ اس کی اطلاع دارالخلافہ میں خلیفہ ہشام بن عبدالملک
کو پہنچی تو اس نے گور نر خالد القسری کو خط لکھا :
ابھی تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہو پا یا کہ تم نے امامت اور نبوت
کے جھوٹے دعویدار کے ساتھ کیا معاملہ کیا ہے‘ ابھی تک تو ہمیں صرف یہی معلوم ہو پا
یا ہے کہ تم نے اسے اس کے چند ساتھیوں سمیت گرفتار کیا ہے‘ کیا تم نے ابھی تک اُنہیں
قید خانوں میں رکھا ہوا ہے‘ جلد از جلد یہ بتائو کہ ان کا انجام کیا ہوا ۔
خالد القسری نے اس قدر سخت ترین خط کے جواب میں لکھا :
ابھی تک میں کوشش کر رہا ہوں کہ مغیرہ اپنے ساتھیوں سمیت جھوٹے دعوئوں سے کسی طرح
باز آجائے‘ میں نے ان لوگوں کی طرف با ر ہا یہ پیغام بھی بھجو ایا ہے مگر ابھی تک
کا میا بی حاصل نہیں ہوئی۔
دوسری طرف خالد القسری نے مغیرہ اور اس کے ساتھیوں کو اپنے دربار
میں طلب کرکے کہا :
اے مغیرہ! اگر تم نے دینی علوم پر دسترس حاصل کی ہے تو تمہیں یہ بھی یقینا علم
ہو گیا ہو گا کہ نبی کبھی کمتر حسب و نسب والا نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی تمہیں ضرور علم
ہو گا کہ کسی غلام کو نبوت نہیں مل سکتی‘ تم نے پھر بھی نبوت کا دعوی کیا اگرچہ تم
ایک طویل عرصہ میرے غلام رہ چکے ہو اور تمہاری رات دن کی منت سماجت کے بعد ہی میں نے
تمہیں غلامی سے آزاد کیا تھا ۔
اس بات کا مغیرہ پر کچھ اثر نہ ہوا بلکہ اس نے کہا :
اے اچھے بھلے آدمی! تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ میں احکاماتِ الٰہی کی کس طرح خلاف
ورزی کر سکتا ہوں‘ میں اگر ایسا کچھ کروں گا تو اللہ تعالیٰ کو میں کیا جواب دو ں گا
؟
خالد القسری نے اس کے باوجود اسے سمجھانے کی کوشش کی تا کہ وہ
تائب ہو جائے تو اس کی خلا صی ہو سکتی ہے لیکن اس نے کہا :
میں خود تو امام اور نبی نہیں بنا ہوں‘ مجھے یہ مقام اللہ تعالیٰ
نے عطا کیا ہے ۔
جس کے بعد خالد القسری نے اس کے انجام کا آخری فیصلہ کیا کہ
وہاں پر موجود سرکنڈوں کے چھوٹے بڑے گٹھے بنائے گئے‘ ان پر چربی ڈال کر مغیرہ کو ان
کے ساتھ چمٹنے کا کہا گیا جس کے بعد ان گٹھوں کو آگ لگا دی گئی‘ مغیرہ بہت چلا یا
کہ یہ قطعاً غیر اسلامی اور غیر اخلاقی سزا ہے مگر آگ چاروں طرف سے اسے اپنی لپیٹ
میں لے چکی تھی اور یوں تما شایوں کے سامنے جھوٹی نبوت کا دعویدار ، غدار ختم ِ نبوت
اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچ گیا ۔
حافظ ابن کثیرa نے
اس واقعہ کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے :
[ولما بلغ خالدا
أمرہ، أمر باحضار اطناب القصب والنفط فصب فوقہا، وأمر المغیرۃ ان یحتضن طنبا منہا،
فامتنع فضرب حتی احتضن منہا طنبا واحدا وصب فوق رأسہ النفظ ثم أضرم بالنار وکذلک
فعل ببقیۃ أصحابہ۔] (البدایۃ: ج۹ ص۳۲۳)
’’جب خالد تک اس
کا معاملہ پہنچا تو خالد نے بانس کے تنے اور تارکول (پٹرول ) منگوا کر تارکول کو تنوں
پر پھینکا اور مغیرہ کو حکم دیا کہ وہ ان تنوں (کے گٹھوں ) کو اپنے ساتھ چمٹا لے مگر
اس نے انکار کیا جس پر اس کو مارا پیٹا گیا تو اس نے ان تنوں (گٹھوں) میں سے ایک کو
اپنے ساتھ چمٹا لیا پھر اس کے سر پر تارکول پھینک کر آگ لگا دی گئی بعد ازاں اس کے
دیگر ساتھیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا۔‘‘
بعض علماء نے خالد القسری سے ملاقات میں کہا کہ مغیرہ کو یہ
غیر اسلامی سز ا کیوں دی ؟ تو خالد القسری نے پو چھا: میرے بھا ئیو! یہ تو مجھے بتلائو
کہ جو دعوے مغیرہ نے کیے تھے کیا وہ سب عین اسلامی تھے؟ خالد کی اس بات نے ان علماء
کرام کو خاموش کر دیا ۔ (جھوٹے نبیوں کا انجام:
ص ۲۳۱)
5 اسی طرح دوسری
صدی میں جب خلافت ِ عباسیہ کا سورج طلو ع ہوا اور خلیفہ منصور السفاح نے زمام خلافت
سنبھا لی تو شمالی افریقہ سے الجزائر کے ایک شخص اسحاق الأخرس نے اپنی ذہانت وفطانت
کو شیطانی وسوسوں کے تابع کر دیا اور اپنے علم و فن کو طاغوتی ہاتھوں میں دیتے ہوئے
دعوی نبوت کا ڈھونگ رچایا۔ اس کی عقل عیار نے اسے اس کی ایک تدبیر سمجھائی کہ پہلے
پہل خود کو گونگا (اخرس) ظاہر کیا بالآخر آہستہ آہستہ جب اس نے اپنی خود ساختہ اور
جعلی نبوت کے پر پر زے نکالنے شروع کیے تو اصفہان میں ایک خاصی تعداد میں لوگ اس کے
دام تزویر کا شکار ہوئے تو اس کی اطلاع دارالخلافہ پہنچی جس پر اسے گرفتار کرکے خلیفہ
کے سامنے پیش کیا گیا تو خلیفہ نے اس سے پو چھا :
بے عقل شخص! اب بتا کہ کہاں گئی تیری نبوت؟
اس نے جواب دیا: خلیفہ!
سنو کہ نبوت مجھ میں ودیعت کی گئی وہ کہاں جا سکتی ہے‘ وہ تو میرے ساتھ ہی ہے‘ میں
تو نبی تھا نبی ہوں اور نبی رہوں گا۔
خلیفہ نے پو چھا کہ اسحاق! تجھے جس ملعون نے یہ مشورہ دیا تھا
وہ کہاں گیا؟ اس نے تیری مدد کیوں نہیں کی، یقینا تجھے بہکانے والا شیطان ہی تھا ۔
اس نے گھبرائے بغیر جواب دیا: اے خلیفہ! شیطان نے تو تجھے زنجیروں
میں جکڑا ہے۔ انبیاءo کو
اس قسم کی ایذائیں دی ہی جاتی ہیں اس حالت میں گھبرانا تو نہیں چاہیے۔ خلیفہ نے ایک
ماہ کی مہلت دی مگر وہ اپنے عقائد پر قائم ہی رہا‘ چنانچہ اسے ایک ماہ کے بعد قتل کر
دیا۔ (جھوٹے نبیوں کا انجام: ص ۲۶۵)
6 مشہور اسلامی
جرنیل سپہ سالار محمود غزنوی کے دور میں محمد بن الحسن بن فورک ابو بکر الا صفہائی
معروف متکلم فقیہ گزرے ہیں‘ اپنے علم و فضل کے باوجود بعض بدعات اور تفردات کے قائل
تھے جو اسلامی عقائد کے یکسر مخالف تھے۔ ان ہی سے بقول ابن حزم یہ تھا کہ وہ کہتے تھے
:
[ان نبیناﷺ لیس ہو
نبی الیوم بل کان رسول اللہ۔]
بلکہ یہ بھی آتا ہے کہ:
[دعا ابن حزم للسطان
محمود اذ وقف لقتلہ ابن فورک، لکونہ قال: ان رسول اللہ کان رسولا فی حیاتہ فقط وان
روحہ قد بطل وتلاشی ولیس ہو فی الجنۃ عنداللہ یعنی روحہ۔] (تاریخ اسلام للذہبی حوادث:
۴۰۱-۴۱۰، ص ۱۴۹)
یعنی سلطان محمود غزنوی نے ابن فورک کو اس بنا پر قتل کیا کہ وہ کہتے تھے آنحضرت
e جب
تک زندہ رہے تب تک ہی رسول تھے ۔ اب وہ رسول نہیں اور یہ کہ ان کی روح بھی ختم ہو گئی
اور ان کی روح اللہ کے ہاں جنت میں نہیں۔
ظاہر ہے جس طرح نبوت محمدیہ پر ایمان کا بنیادی تقاضا ختم نبوت
پر یقین ہے اسی طرح عقیدہ ختم نبوت کا لازمی حصہ آپ e کی نبوت و رسالت کا عالمگیر و ہمہ گیر تسلیم کرنا ہے
۔ اگر کوئی شخص کسی اعتبار سے بھی اس میں استثناء زمان و مکان کا قائل ہے تو وہ ختم
نبوت کا منکر ہے۔ ہمیں ابن فورک کی شخصیت سے بحث مقصود نہیں صرف یہ عرض کرنا چاہتے
ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت کا کلی انکار یا اجرائے نبوت کا دعوی و اقرار تو بہت دور کی
بات ہے اس میں کسی قسم کا جزوی انکار یا انحراف بھی موجب کفر و ارتداد ہے جس کی سزا
قتل ہے۔ ………… (جاری)
7 متحدہ ہندوستان میں
ریاست بھوپال بہت کی اہمیت کی حامل مسلمان ریاست تھی جس کی والیہ بیگم شاہجباں کی نواب
صدیق حسن خاں رحمہ اللہ تعالیٰ سے شادی خانہ آبادی ہوئی، نواب صدیق حسن خاں علوم تقلید
و عقلیہ کے جامع اور مسلک سلف کے پیر وکار تھے ان کی علمی حیثیت و شہرت مسلمہ ہے مرزا
غلام احمد قادیانی نے دیگر والیان ریاست کی طرح نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ تعالیٰ
کو بھی اپنی دعوت کے دام تزویر میں پھنسانے کی کوشش کی لیکن اس کوشش کا کیا نتیجہ نکلا
اور ایک مسلمان حکمران اور والی ریاست کی حیثیت سے نواب صاحب مرحوم نے کر دار ادا کرکے
خدام ختم نبوت میں شامل ہو کر قصر ختم نبوت کے تحفظ و دفاع میں مسلمان حکمرانوں کے
عقیدہ ختم نبوت کی چوکیداری اور حفاظت کے تسلسل میں ایک قابل ِ تقلید سنہری باب کا
اضافہ کیا نواب صاحب مرحوم کے اس کر دار کے متعلق خود مرزا قادیانی اپنے مرید عباس
علی لدھیانوی کے نام ایک خط میں لکھتا ہے :
آپ کی کوششوں سے دل بار بار خوش ہوتا ہے اور بار بار آپ کے
لیے اور آپ کے معاونوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے خداوند کریم نہایت مہر بان ہے …
جب یہ کتاب چھپنی شروع ہوئی تو اسلامی ریاستوں میں توجہ اور مدد کے لیے لکھا گیا بلکہ
کتابیں ساتھ بھیجی گئی تھیں … دوسروں نے اول توجہ ہی نہیں کی ، اگر کسی نے کچھ وعدہ
بھی کیا تو اس کا ایفاء نہیں کیا بلکہ نواب صدیق حسن خاں نے بھوپال سے ایک نہایت مخالفانہ
خط لکھا۔ (مکتوبات احمدیہ: ج۱ ص ۲۷-۲۹ بحوالہ تحریک ختم نبوت: ج۱۶ ص۱۰۳)
مرزا کے بقول اس نے ایک سو پچاس کتابیں مختلف امیروں اور دولت
مندوں کو بھیجی اور اسی قدر خطوط بھی لکھے لیکن مرزا صاحب کو شکوہ رہا کہ
’’مگر باستثنا ء دو تین عالی ہمتوں کے سب کی طرف سے خاموشی رہی ، نہ
خطوط کا جواب آیا نہ کتابیں واپس آئیں مصارف ڈاک تو سب ضائع ہوئے لیکن اگر خدانخواستہ
کتابیں بھی واپس نہ ملیں تو سخت دقت پیش آئے گی اور بڑا نقصان ہوگا ۔‘‘ (تحریک ختم نبوت: ج ۱۶ ص ۱۰۳)
لوگوں کی جیبوں پر نظر جمائے اس مال و دولت کے لالچی جعلی نبی
کو اس میدان میں کس قدر سخت دقت پیش آئی یا نقصان ہوا اور مالی نقصان کے ساتھ کتنی
ذہنی تکلیف پہنچی اور کس نے پہنچائی اس کا جواب مورخ احمدیت دوست محمد کے قلم سے سنیے
:
نواب صدیق حسن خان صاحب کا براہین کے متعلق نا روا طرز عمل
: ان حضرات میں سب سے زیادہ ناروا طرز عمل
نواب صدیق حسن خاں صاحب نے دکھایا ۔ نواب صاحب موصوف اہل حدیث فرقہ کے مشہور عالم تھے
جنہیں ان کے بعض عقیدت مندان کی وسیع اسلامی خدمات اور عالمانہ شان کی وجہ سے ’’ مجدد
وقت ‘‘ بھی قرار دیتے تھے ۔ چونکہ اُنہوں نے والیہ ریاست نواب شاہ جہاں بیگم سے شادی
کر لی تھی اس لیے پوری ریاست کی باگ ڈور عملاً انہی کے سپر د تھی۔ حضرت مسیح موعود
علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے انہیں ایک درد منددل رکھنے والے مسلمان رئیس کی حیثیت سے
اعانت کی طرف جب پہلی مرتبہ توجہ دلائی تو اُنہوں نے پہلے تو رکھ رکھائو کا طریق اختیار
کرتے ہوئے پندرہ بیس نسخوں کی خرید پر آمادگی کا اظہار کیا مگر پھر دو بارہ یاد دہانی
پر محض گورنمنٹ برطانیہ کے خوف سے دست کش ہو گئے اور یہ مصلحت آمیز جواب دیا کہ
’’ دینی مباحثات کی کتابوں کا خریدنا یا اُنہیں کچھ مدد دینا خلاف منشاء گورنمنٹ انگریزی
ہے ۔ اس لیے اس ریاست سے خرید وغیرہ کی کچھ امید نہ رکھیں ‘‘ ۔ اسی پر اکتفا ء نہ کرتے
ہوئے اُنہوں نے ’’ براہین احمدیہ ‘‘ کا پیکٹ وصول کرنے کے بعد اسے چاک کرکے آپ کو
واپس کر دیا ۔ (حافظ حامد علی صاحب کا بیان ہے کہ ) جب کتاب واپس آئی تو اس وقت حضرت
اقدس اپنے مکان میں چہل قدمی کر رہے تھے ۔ کتاب کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ پھٹی ہوئی
ہے اور نہایت بری طرح اس کو خراب کیا گیا ہے ۔ حضور کا چہرہ مبارک متغیر اور غصہ سے
سرخ ہو گیا ۔ عمر بھر میں حضور کو ایسے غصہ کی حالت میں نہیں دیکھا گیا۔ (تاریخ احمدیت:
ج۱ ص ۱۸۸)
ان اعتراضات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت نواب والا جاہ
صدیق حسن خاں رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمان اور صاحب ِ ایمان ہونے کی حیثیت سے ہی
نہیں بلکہ والی ریاست ہونے کے اعتبار سے کس قدر اہم کر دار ادا کیا اور یہ اس وقت کی
بات ہے جب ابھی بہت سے علماء مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق غلط فہمی میں مبتلا تھے
اور براہین احمدیہ کی تعریف کر رہے تھے کہ وہ دفاع اسلام میں لکھی گئی ہے مگر نواب
صدیق حسن مرحوم نے مومنانہ بصیرت سے مرزا قادیانی میں چھپے فتنہ کو بھا نپ کر اس سے
یہ سلوک کیا جس پر مرزا قادیانی سخت رنجیدہ خاطر ہوا کہ اس کی امید بر نہ آسکی ۔
جبکہ قادیانی
مولف کا یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ ’’ وہ گورنمنٹ بر طانیہ کے خوف سے دست ِ کش ہو گئے
‘‘ کیونکہ گورنمنٹ بر طانیہ سے خوف کا تقاضا تو یہ تھا کہ و ہ گورنمنٹ بر طانیہ کے
اس خود کاشتہ پودے کی آبیاری کرتے اور گورنمنٹ کے لیے کئی الماریاں کتابیں لکھ کر
اظہار وفاداری کرنے والے اس برطانوی گماشتہ سے بھر پور تعاون کرتے لہذا یہ نواب صاحب مرحوم کے متعلق محض بہتان ہے نواب
صاحب مرحوم نے بر طانوی حکومت کا خوف یا قادیانیت کی سر پرستی میں کسی لالچ کو بالائے
طاق رکھتے ہوئے اور اپنے ایمان و اسلام اور محبت ِ رسول ﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے
اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کیا اور قادیانیت کے تعاقب بلکہ ردو نقد میں بھرپور کر دار
ادا کیا ۔ بلکہ اسے حسنِ اتفاق کہنا چاہیے کہ تحفظ عقیدہ ختم نبوت اور دفاع قصر ختم
نبوت میں نواب صدیق حسن خاں جناب ابو بکر صدیق
ؓکے نقش قدم چلے جو اس کا مصداق و مظہر ہے کہ الا رواح جنود مجندۃ ۔
8 ہمارے ہمسایہ میں اسلامی
ریاست افغانستان ہے ۔ افغانستان کی اپنی قومی اقدار و روایات ہیں جس کی وہ قوم بڑی
سختی سے کار بند ہے ۔ ان کی ان قومی روایات و اقدار سے اتفاق و اختلاف سے قطع نظریہ
حقیقت ثابتہ ہے کہ وہ بہت حد تک اسلامی شعائر اور دینی اقدار کے کار بند اور ان کے
متعلق بڑے حساس اور نازک جذبات رکھتے ہیں اس پس منظر میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ
کوئی شخص اس ماحول میں اسلام کے بنیادی عقیدہ ختم نبوت کی بغاوت کرے یا درس بغاوت دے
تو وہ خاموش رہیں یا وہ حکومت عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع میں کوئی اقدام نہ اُٹھائے
۔ چنانچہ جب برصغیر کے دجال و کذاب قصر ختم نبوت کے نقب زن مرزا غلام احمد قادیانی
نے اپنی جھوٹی اور جعلی نبوت کا دعوی کیا تو اپنے مبلغ ریاست افغانستان بھی بھیجے
۔ ادھر قصر ختم نبوت کے چوکیدار اپنی عقابی نگاہوں سے اس فتنہ کے تعاقب میں تھے بالخصوص
تحریک ختم نبوت کے سرخیل ، سفیر ختم نبوت حضرت مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ تعالیٰ
جو شب وروز اسی لگن میں مگن تھے ان کو جب اس فتنہ کی سر زمین افغانستان میں تخم ریزی
کا علم ہوا تو فوراً کابل کی طرف رخت ِ سفر باندھا اور والی کابل سے ملاقات کرکے مرزا
غلام احمد قادیانی کے دعوی نبوت سے آگاہ کرتے ہوئے اس کی فتنہ سا ما نیوں سے مطلع
کیا اور قادیانیت کا علمی محاسبہ پیش کرکے قادیانیت کے خلاف اس کی ذہن سازی کی جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ مرزائیت و قادیانیت کی تبلیغ و اشاعت پر نہ صرف پا بندی عائد کی گئی
اور نہ صرف کہ مرزا قادیانی کا خط لے جائے عبدالرحمن قادیانی کا سر قلم کیا گیا ۔ بلکہ
مرزائیت کے دو مبلغوں کو بھی سر عام قتل کردیا گیا پھر مرزا غلام احمد قادیانی کوشش
کر تا رہا کہ کسی نہ کسی طرح والی کابل کو اپنے دام تزویر میں پھنسا سکے لیکن ہر مرتبہ
یہی جواب ملتا کہ یہاں آکر مجھے بالمشا فہ اپنا پیغام سنائیں مرزا کو چونکہ معلوم
تھا کہ وہاں جانے سے اس کا انجام کیا ہوگا اس لیے اسے کابل جانے کی کبھی جرأت نہ ہو
سکی ۔
قادیانیت کے افغانستان میں ناطقہ بند ہونے اور مرزا کے وہاں
جانے سے خو فزدہ رہنے کا بنیادی سبب بھی مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ تعالیٰ
کا رد ِ قادیانیت میں وہ کر دار ہے جس کی ایک کڑی اور اہم مرحلہ مولانا محمد حسین بٹالوی
رحمہ اللہ تعالیٰ کی والی کابل سے ملا قات ہے اس ملا قات نے کیا رنگ دکھا یا بلکہ کیا
رنگ جمایا اس کا اندازہ خود آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کی درج ذیل عبار ت سے
لگائیے لکھتا ہے:
گورنمنٹ نے اس حاسد (محمد حسین ) کی باتوں کی طرف کچھ توجہ نہ
کی تو پھر اپنی قوم کو اُکسانا شروع کیا اور میری نسبت یہ فتوی شائع کیا کہ اس شخص
کا قتل کرنا موجب ثواب ہے چنانچہ اس فتوی کو دیکھ کر اور کئی مولویوں نے بھی قتل کا
فتوی دے دیا ۔ پس بلا شبہ یہ سچ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے یہ شخص بار بار مجھے
امیر کا بل کی دھمکی دیتا رہا ہے کہ وہاں چلو تو پھر زندہ نہ آئو گے یہ تو معلوم تھا
کہ یہ شخص امیر کا بل کے پاس ضرور گیا تھا مگر یہ بھید اب تک نہیں کھلا کہ امیر نے
اس شخص کو میرے قتل کی نسبت کیوں اور کس وجہ سے وعدہ دیا۔ (روحانی خزائن: ج ۱۴ ص ۴۳۵)
قادیانی مورخ دوست محمد اس واقعہ کے متعلق لکھتا ہے:
امیر کابل کے نام تبلیغی خط:
سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مارچ یا اپریل ۱۸۹۶ء مطابق شوال ۱۳۱۳ھ میں والئی کا بل امیر عبدالرحمن خاں (۱۸۴۴ء-۱۹۰۱ء) کے نام ایک تبلیغی خط بھیجا۔ یہ خط حضرت مولوی عبدالرحمن
صاحب شہید لے کر گئے تھے۔ جناب خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے ایک مرتبہ اپنے اخبار
’’مناوی‘‘ میں لکھا تھا کہ امیر کابل نے اس خط کے موصول ہونے پر فقط یہ جواب دیا کہ
’’اینجا بیا‘‘ اور مقصد یہ تھا کہ کابل میں آکر دعویٰ کرو تو نتیجہ معلوم ہو جائے
گا ۔ لیکن اس کا کوئی قطعی ثبوت معلوم نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض تحریرات
سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بعد کو جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کابل گئے تو اُنہوں
نے امیر کابل کو مشتعل کرنے کا کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہ کیا ۔ چنانچہ مولوی صاحب نے
واپس آنے کے بعد یہ مشہور کر دیا کہ مرزا صاحب کابل جائیں تو زندہ واپس نہیں آ سکیں
گے ۔
بعض علماء کا کہنا ہے کہ امیر کابل کو جب حضرت مسیح موعود کا
تبلیغی خط پہنچا تو اُنہوں نے کہا:
’’… عمر باید نہ عیسیٰ۔ عیسیٰ درزمان خود چہ کردہ بود کہ بار دیگر آمد
خواہد کرد‘‘
یعنی ہمیں سیدنا عمر فاروقt کی ضرورت ہے۔ سیدنا عیسیٰ کی ضرورت نہیں۔ اُنہوں نے
بعثت اولیٰ میں کیا کامیابی حاصل کی تھی؟‘‘ (تاریخ احمدیت: ج ۱ ص ۵۴۸)
الغرض اسلامی ریاست کے والی ہونے کے اعتبار سے عقیدہ ختم نبوت
کے تحفظ و دفاع میں جو کر دار والی کا بل نے انجام دیا وہ اسی تسلسل کا حصہ ہے جس کا
آغاز حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور ِ خلافت سے شروع ہوا اور یقینا تحریک ختم نبوت میں والی کا بل کا یہ
اقدام مثالی کر دار ہے جس کے پس منظر میں والی ریاست بھوپال نواب صدیق حسن خاں رحمہ
اللہ تعالیٰ کا کر دار مولانا محمد حسین رحمہ اللہ تعالیٰ کی عقیدہ ختم ِ نبوت کے تحفظ
و دفاع میں خدمات بھی قابل تحسین ہیں۔
9 ہم نے پہلے عرض کیا
ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت وحکمت ہے کہ وہ جس سے چاہے اپنے دین اسلام کے تحفظ و
دفاع کا کام لے اس کے لیے کسی کے علم و فضل یا تقوی و زہد کی ضرورت نہیں یہ تو حمیت
دینی اور حرارت ایمانی کا معاملہ ہے جس کے مقابلہ میں مومن ہر قسم کے اپنے مفاد کو
قربان کرنے کو سعادت سمجھتا ہے حالات کیسے ہی سنگین اور نا گفتہ بہ ہوں لیکن وہ بہرحال
ایمان کی آواز پر لبیک کہتا ہے چنانچہ قادیانیت کے خلاف اولیں فتوی جاری کرنے والے
شیخ الکل محدث ہند مسند شاہ ولی اللہ کے وارث سید نذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ
کے دبستان سے وابستہ اور قادیانیت کے تعاقب میں شب و روز مجاہدانہ کر دار اور قصر ختم
نبوت کے تحفظ و دفاع میں شمیر بے نیام حضرت مولانا محمد حسین بٹالوی وکیل ختم نبوت
حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور مناظر ختم نبوت فاتح قادیان شیر پنجاب حضرت
مولانا ثناء اللہ امر تسری سے نسبت عقیدہ و عقیدت رکھنے والے غازی علم دین رحمۃ اللہ
علیہ کوئی عالم و فاضل تو نہ تھے کسی منبر و محراب کی زینت تو نہ تھے کسی مسند تدریس
و تعلیم کے وارث تو نہ تھے مگرجب مقدر نے یاوری کی تو بقول سید عطاء اللہ شاہ بخاری
رحمہ اللہ ؎
’’ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور ترکھان کا بیٹا بازی لے گیا۔‘‘
بہرحال اس کر دار کی ایک زندہ مثال یہ بھی ہے کہ برصغیر میں
ہر برٹش حکومت کا سور ج چمک رہا تھا مرزا قادیانی اس کی وفاداری میں چاپلوسی کی ہر
حد عبور کرکے اپنی جعلی نبوت کے تحفظ کا متلاشی تھا اور حکومت برطانیہ بھی قادیانیت
کے اس اپنے خود کاشتہ پودے کی آبیاری اور نگہداشت کر رہی تھی اسی دوران ۱۹۳۲ء کو بہاولپور میں ایک مشہور مقدمہ زیرِ سماعت آیا کہ قادیانی چونکہ کافر ہیں
لہذا کسی مسلمان خاتون سے ان کا نکاح درست نہیں اگر کوئی نکا ح ہے تو وہ اختلاف دین
کی بنا پر فسخ ہو گا یہ مشہور مقدمہ ۱۹۳۲ء سے شروع ہو کر
۷ فروری ۱۹۳۵ء تک زیر سماعت رہا بالآخر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہوا اور قادیانیوں کو غیر
مسلم قرار دے کر فسخ نکاح کا حکم دیا گیا اس مقدمہ کی پوری کاروائی مطبو ع ہے دوران
سماعت مقدمہ میں ایک اہم اور بڑا نازک مرحلہ تب آیا جب انگریزی حکومت نے قادیانیت
کو تحفظ دینے کے لیے نواب آف ریاست بہاولپور پر دبائو ڈالنا شروع کیا کہ وہ جج سے
رابطہ کرکے مقدمہ ختم کروا دیں جو بالواسطہ قادیانیوں کی حمایت تھی۔ یقینا نواب آف
بہاولپو ر مجموعی طور پر حکومت بر طانیہ کے ماتحت تھے اور ان کے ریاستی مفادات بھی
ان سے وابستہ تھے تو ایسے حالات میں ایک طرف بر طانوی حکومت کا قادیانیت کے حق میں
دبائو تھا تو دوسری طرف عقیدہ ختم ِ نبوت پر ایمان کا دبائو تھا اب ایک کڑا امتحان اور آزمائش تھی کہ اس رزم حق و باطل میں،
چراغ مصطفوی اور شرارہ بو لہبی کے مقابلہ میں کون فاتح بنتا ہے ان پریشان کن حالات
میں نواب آف بہاولپور نے اپنے دوست اور ہمعصر نواب عمر حیات ٹوانہ نواب آف کا لا
باغ سے مشور ہ کیا کہ :
’’انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دبائو ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ
کو ختم کرادیں ‘‘
اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اس کے جواب میں بظاہر ایک دنیا دار نواب آف کالا باغ سر عمر
حیات ٹوانہ نے جو کچھ کہا آب ِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ :
ہم انگریز کے
وفادار ضرور ہیں مگر دین و ایمان اور محبت رسالت مآب e کا
تو ان سے سودا نہیں کیا آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں
حق و انصاف کے سلسلے میں اس پر دبائو ڈالنا نہیں چاہتا ۔ (فیصلہ مقدمہ بہاولپور بروایت
مولانا محمد علی جالندھری ص۳۲)
ان الفاظ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایمان کی حرارت موجود
ہو تو پھر بندہ مومن ہر قسم کے خطرات کو بالائے طاق رکھ کر اور تمام قسم کے مفادات
کو قربان کرکے اپنے عقیدہ کا تحفظ و دفاع کرتا ہے اور اس سلسلہ میں ان مسلمان حکمرانوں
اور والیان ریاست ہائے اسلامیہ کا یہ کر دار نہ صرف قابل رشک بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔
0 آگے بڑھیں تو اس تسلسل
میں ایک اور کر دار نظر آتا ہے کہ جب پاکستان میں ۲۹ مئی ۱۹۷۴ء ربوہ میںقادیانی غنڈہ گردی کے نتیجہ میں مرزائیت کے خلاف ایک عوامی زور پکڑنے
لگا ، بالآخر تحفظ عقیدہ ختم نبوت او ر اس کے دفاع میں چلنے والی یہ تحریک نتیجہ خیز
ہوئی اور ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں (احمدی، لاہور ی) کو غیر مسلم قرار دے
دیا گیا بلا شبہ اس وقت بھی حکومت ِ وقت پر بالخصوص وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم
پر قادیانیوں کے تحفظ میں بین الا قوامی دبائو بھی تھا اور ہر قسم کا لا لچ بھی لیکن
حکومت ِ وقت بالخصوص وزیر اعظم بھٹو نے ہر قسم کے دبائو یا لا لچ کو پایہ حقارت سے
ٹھکرا کر قوم ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان کی آواز پر لبیک کہا۔ اور قومی اسمبلی میں ایک
آئینی ترمیم کے ذریعہ قادیانیوں۔ (احمدی، لاہوری) کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
! اس فیصلہ کے بعد
مرزائیت کی ریشہ دوانیوں اور زیرِ زمین اسلام اور پاکستان دشمن سرگرمیوں میں اضافہ
ہو گیا اور نہ صرف کہ اُ نہوں نے خود کو دستور کے تابع بنانے انکار سے انکار کیا بلکہ
اپنی تبلیغی و دعوتی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا جس پر پاکستانی حکومت اور قوم کو بجا
طور پر تشویش تھی جس کے نتیجہ میں بالآخر صدر مملکت ضیاء الحق مرحوم نے قادیانیت سے
ملک و ملت کو لاحق خطرات کو بھانتے ہوئے دستور میں مزید دفعات پر مبنی ۱۹۸۴ء کو آرڈیننس جاری کیا جس کے نتیجہ میں قادیانیت کے مسئلہ کو بڑی حد تک قانونی
اور دستوری طور پر حل کر دیا گیا ۔
اس وقت بھی صدر مملکت ضیاء الحق مرحوم پر بہت دبائو ڈالا گیا
اور بہت سی غیر مسلم اور صیہونی قوتوں نے بھرپور زور لگایا کہ مرزائیت کو تحفظ فراہم
کیا جائے لیکن ضیا ء الحق مرحوم نے ایک مرد مون کا کر دار ادا کیا اور اپنے ایمان و
عقیدہ کے مقابلہ میں کسی قسم کے دبائو یا لا لچ کی پرواہ کیے بغیر آرڈیننس جار ی کیا
اور اس کو بھرپور عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی ۔ تلک عشرۃ کا ملۃ ۔
ہم نے مشتے نمونہ از خروارے مسلم حکمرانوں کے یہ واقعات اس لیے
عرض کیے ہیں کہ باغیان ختم نبوت جس طرح آج اسلام اور اُمت مسلمہ کے خلاف متحرک ہیں
اور پورا طاغوت جس انداز پر ان کی پشت پر ہے ان حالات میں ہمارے علماء و عوام سے بڑھ
کر ہمارے مسلم حکمرانوں کو اپنا کر دار ادا کرنا چاہیے بلکہ آج بھی لوگ کہیں گے کہ
ان الناس قد جمعوا لکم فا خشوہم
اوریہ کہ
ان نتبع الہدی معک نتخطف من ارضنا
اگر ہم نے آپ کی پیروی کی تو ہم سے ہمارا ملک چھن جائے گا
۔
لیکن ہمارے حکمرانوں کو خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیقt کا
کر دار سامنے رکھنا چاہیے جب آپ نے آج کے مقابلہ کہیں زیادہ خوفناک حالات میں فرمایا
تھا کہ
اللہ کی قسم ، کچھ بھی ہو جائے جس جھنڈ ے کو نبی اکرم e نے
لہرایا ، اُسے کبھی سر نگوں نہ ہونے دونگا ۔
اور خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ
ہم نے ان کو جزیہ دے کر اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت اس لیے
تو نہیں دی کہ وہ ہمارے پیغمبر e کی
گستا خیاں کریں ۔
اور حضرت امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا :
ما ذا للأمۃ بعد نبیہا
اگر پیغمبر e محفوظ
نہیں تو پھر اُمت کو زندہ رہنے کا کیا حق ہے
اور کم از کم نواب عمر حیات ٹوانہ مرحوم کے الفاظ ہی کو آئیڈیل
بنا لیجیے کہ ایمان بالرسول اور ان سے محبت و عقیدت کا تقاضا ہے ۔
لاتجد قوما یومنون باللہ والیوم الآخر یوادوں من حاداللہ ورسولہ
ولوکانوا آبائہم اوابناء ہم اخوانہم اوعشیرتہم أولئک کتب فی قلوبہم الایمان ایدہم
بروح منہ
آ پ کسی قوم کو ایسا نہیں پائیں گے کہ وہ اللہ اور آخرت پر
ایمان رکھتے ہوں اور پھر اللہ اور اس کے رسول e سے دشمنی رکھنے والوں سے محبت بھی کریں خواہ ان کے والدین
ہوں یا بیٹے ، بھائی ہوں یا رشتہ دار ان ہی کے دلوں میں (اللہ نے) ایمان لکھا ہے اور
ان ہی کی روح القدس سے مدد کی ۔
چنانچہ اگر ہم اپنا سب کچھ قربان کر کے اپنے ایمان وعقیدہ کو
محفوظ بنالیں بلکہ دوسروں کے ایمان کو لا حق خطرات سے بھی نبٹ لیں تو اس سے بڑی کوئی
سعادت نہیں اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ ایمان و توکل کی قوت کا مقابلہ دنیا کی کوئی
طاقت نہیں کر سکتی جب ایمان و کفر کا معرکہ ہوتا ہے تو وہاں عددی قلت و کثرت فیصلہ
نہیں کرتی بلکہ وہاں فیصلہ ایمان کی قوت پر ہوتا ہے کہ :
کم من فئتۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ باذن اللہ
کتنی ہی کم جماعتیں بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آئیں
اور تاریخ اسلامی تو ایسی داستانوں سے بھری پڑی ہے جن سے ہمارے
مسلم حکمرانوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ان مسلم حکمرانوں کے نقشِ قدم پر چلنا
چاہیے جنہوں نے باغیان ختم نبوت کی کسی نہ کسی طرح سر کوبی کی اور قصرِ ختم نبوت کے
تحفظ و دفاع میں ہر قسم کے خوف و خطر اور امید ورجا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے
ایمان و عقیدہ کی آواز پر لبیک کہا ۔
No comments:
Post a Comment