خبر متواتر
(چوتھی قسط) تحریر:
جناب جناب پروفیسر حافظ محمد شریف شاکر
علم نظری کے قائلین:
امام الحرمین اور الکعبی کی طرح کچھ اور علماء بھی خبر متواتر
کے مفید علم نظری ہونے کے قائل ہیں،چنانچہ الکتانی ان کا تذکرہ یوں کرتے ہیں کہ خبرِ
متواتر کے مفید علم ضروری ہونے سے الکعبی معتزلی اور ابوالحسن بصری معتزلی کو اہل سنت
میں سے امام الحرمین اورامام غزالی کو اختلاف ہے ۔ (الکتانی:نظم المتناثر:ص:۸)
یعنی یہ حضرات متواتر حدیث کے مفید علم نظری ہونے کے قائل ہیں۔
مفید علم نظری
ہونے کا نظریہ زیادہ درست ہے، کیونکہ اصحاب رسول کے سوا ہر طبقہ کے ہر راوی کے ضبط
و عدالت کوپرکھنا ضروری ہے ۔جب حدیث کی صحت ثابت ہوکر علم یقینی نظری حاصل ہوجائے تواس
حدیث کو متواتر کا نام دیا جائے گا اوراسے مصادر شریعت میں اپنا مقام حاصل ہوجائے گا۔
چنانچہ الجزائری ، حافظ ابن حزم کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ایسی
دلیل جس میں دومسلمانوں کا اختلاف نہیںوہ یہ ہے کہ جو حدیث رسول اللہ سے صحیح ثابت
ہوجائے اس کی اتباع فرض ہے اور یہ بھی نص سے ثابت ہے کہ رسول اللہ e کی
حدیث ، قرآن میں اللہ کی ذکر کردہ مراد کی تفسیر اور اس کے مجمل کا بیان ہے۔ فرضیت
اتباع رسول پر قطعی یقینی اجماع کے بعد اوراللہ تعالیٰ کے فرمان {اَطِیْعُو اللّٰہَ
وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ } کے سبب ہر مسلمان کی طرف سے اطاعت ِ رسول پر قطعی یقینی
اجماع کے بعد مسلمانوں نے نبیe کی
حدیث کی صحت تک پہنچانے والے طریق میں اختلاف کیا ہے ، لہٰذاابن حزم نے غورو خوض کے
بعد احادیث کو دوقسموں میں منقسم پایا:
Ý خبر متواتر:
جسے تم ایک جماعت کے بعددوسری جماعت سے نقل کرو، یہاں تک کہ تم اس خبر کو نبیe تک
پہنچادو،اس حدیث پرعمل کے قطعی فرض اور واجب ہونے میں دومسلمانوں نے بھی اختلاف نہیں
کیا۔
Þ اور دوسری قسم
خبرواحد ہے جسے عادل راوی، عادل راوی سے نقل کرتے ہوئے متصل سند کے ساتھ رسول اللہ
e تک
پہنچا دے، اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ (الجزائری :توجیہ النظر: ص: ۴۲-۴۴)
تواتر عملی کی جامع تعریف:
تواتر عملی ،سنت متواترہ کی عملی شکل کانام ہے۔
شاہ اسماعیل شہیدa سنت متواترہ کی تعریف بیان کرتے ہیں:
[والمتواترۃ اما
متواترۃ بالتعامل کاکثر اصول العبادات والمعاملات والاخلاق او متواترۃ بالروایۃ اما
بالمعنیٰ فقط وھی کثیرۃ او باللفظ ایضا وھی قلیلۃ جدا۔] (شاہ اسماعیل شہید: مختصر اصول
الفقہ: ادارۃ اشاعۃ السنۃ، لاہور: ۱۳۸۸ھ / ۱۹۶۸ء: ص ۷۹)
’’سنت متواترہ یا
تو تعامل سے ثابت ہوتی ہے جیسے عبادات، معاملات اوراخلاق کے اصول ہیں یاسنت متواترہ
روایت سے ثابت ہوتی ہے: یاتومعنوی طور پر سنت کا متواتر ہونا ثابت ہوتاہے اور یہ بہت
زیادہ ہے، یا سنت کا لفظی طور پر متواتر ہونا ثابت ہوتاہے اور یہ بہت کم ہے۔‘‘
یہاں زیر نظر مضمون میں اس سنت متواترہ کا تذکرہ مقصود ہے جو
تعامل سے ثابت ہوئی ہے ،لیکن رسول اللہe کے
عمل ،خلفاء راشدین کے عمل اوراصحاب رسول یا تابعین وغیرہ کے عمل کا تواتر کے ساتھ ثابت
ہونا صحتِ نقل پر منحصر ہے۔
اللہ کے رسولe کے
جملہ اعمال شریفہ اورآپ کے تمام اخلاق فاضلہ احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں،مثلا آپ کی
زبان مبارک ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مصروف رہتی تھی ۔یہ آپ کا متواتر عمل ہے ،آپ کے اس
متواترعمل کے بارے میں صحیح بخاری میں یہ الفاظ آئے ہیں:
[کان النبیﷺ یذکر
اللّٰہ فی کل احیانہ۔]
’’نبیe اپنے
تمام اوقات میں اللہ کا ذکر کیاکرتے تھے۔‘‘ (البخاری ، صحیح البخاری ، کتاب الحیض ،
باب تقضی الحائض … الخ: ص ۵۳)
’’کان یذکر‘‘ ماضی استمراری ہے جس میں دوام پایا جاتاہے۔لہٰذا آپ کا یہ فعل متواتر عمل ثابت
ہوا۔
ماضی استمراری سے عمل متواتر کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً:
[کان رسول اللّٰہ
ﷺ یصلی العصر والشمس مرتفعۃ حیۃ فیذہب الذاہب العوالی فیاتیھم والشمس مرتفعۃ وبعض العوالی
من المدینۃ علی اربعۃ امیال او نحوہ۔] (البخاری، صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاۃ،
باب وقت العصر: حدیث: ۵۵۰، ص ۹۲)
’’رسول اللہe عصر
کی نماز پڑھا کرتے تھے (جب) کہ سورج (ابھی) زندہ بلند ہوتاتھا ، (مدینہ سے) جانے والا
عوالی جاپہنچتا، سورج (اس وقت تک) بلند ہوتاتھا،جبکہ بعض عوالی مدینہ سے چار میل کے
فاصلہ پریا اس جیسے (فاصلہ) پر ہیں۔‘‘
اس حدیث میں رسول اللہe کا متواتر عمل ذکر کیا گیاہے۔
نماز میں اوراس کے بعد جس قدر اورادو اذکار رسول اللہe اورصحابہ
کرام] کرتے رہے وہ سب کے سب سنت متواترہ بالتعامل ہیں۔حالانکہ ان میں سے اکثراذکار
اخبارِ آحاد میں مذکور ہیں۔ لہٰذا اس تواتر عملی کے محض اخبار آحاد میں مذکور ہونے
کی وجہ سے اسے تواتر بالروایہ سے موسوم نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ تواتر عملی ہی ہے۔کیونکہ
اس کا تعلق عاملین کے عملِ متواتر سے ہے۔ جبکہ متواتر بالروایۃ کا تعلق ایسی خبر متواتر
سے ہے جس کے رواۃ ہر طبقہ میں اتنے زیادہ ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہونا عادتاً محال
ہو۔
لہٰذا اخبار آحاد میں مذکور ہونے والا رسول اللہe کا
دوامی عمل بھی تواتر عملی تصور ہوگا۔
نبیe کے
بعد امت کے لیے نمونۂ عمل اصحابؓ رسول ہیں اوران میں سے خلفائے راشدین زیادہ اہمیت
کے حامل ہیں‘ ان کے طریقہ کو اپنانے کا حکم رسول اطہر کی پاک زبان سے یوں صادر ہوا
:
[فعلیکم بسنتی وسنۃ
الخلفاء الراشدین المھدیین عضوا علیھا بالنواجذ۔] (ابن ماجہ، محمد بن یزید، ابو عبداللہ:
سنن ابن ماجہ، کتاب السنۃ، باب اتباع الخلفاء الراشدین المھدیین: حدیث: ۴۲، دارالسلام
للنشر والتوزیع، الریاض: ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء، ص ۶)
میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے داڑھوں کے نیچے
دبالو یعنی مضبوطی سے اسے تھام رکھو۔
رسول اللہ e او
ر آپ کے صحابہ] کے عمل متواتر کو درج ذیل حدیث سے سمجھا جاسکتا ہے :
[عن انس ان رسول
اللّٰہ ﷺ وابابکر وعمر وعثمان کانوا یفتتحون القرائۃ بالحمد للّٰہ رب العلمین۔] (الدار
قطنی، علی بن عمر، ابوالحسن: سنن الدار قطنی، باب اختلاف الروایۃ فی الجھر … الخ، حدیث
۷، نشر السنۃ ملتان: سن ندارد: ص ۳۱۶)
’’رسول اللہe، ابو بکرؓ، عمرؓ
اور عثما نؓ الحمدللّٰہ رب العلمین سے قراء ۃ کا آغاز کیاکرتے تھے۔‘‘
تواتر عملی کی
مثالیں:
جو کام رسول اللہ نے جاری فرمایا اوراس پر عہد صحابہ اورمابعد
میںعمل ہوتاآرہا ہے یہ تواتر عملی کہلاتاہے ۔ اسلام کے تمام احکام زکوۃ، نماز، نماز
باجماعت، جمعہ، عیدین، حج، کنگھی کرنا ایسے بہت سے دیگر نیک اعمال جن کا اجراء رسول
اللہ e نے
یا آپ کے اصحاب کرام] نے خصوصا خلفائے راشدین یاان میںسے کسی ایک خلیفہ نے فرمایا اوروہ
صحابہ] کے دور میں جاری رہا خواہ اس کے بعد بھی اس پر عمل ہوتارہاوہ تواتر عملی کی
تعریف میں آتاہے۔ایسے ہی جو کام آپe کے دور میں ہوتا آیااور صحابہ کے دور میں بھی اس پر
عمل ہوتارہا اوروہ کسی وجہ سے بعد میں جاری نہیں رہ سکا وہ بھی تواتر عملی میں ہی آئے
گا۔
اگر کوئی کام رسول اللہe نے کیا پھر کسی وجہ سے ترک کردیا اور اس کے بعد صحابہ
نے اسے جاری کیا اور اس پر عمل ہوتا آیا تو یہ بھی تواتر عملی میں آتا ہے جیسے رسول
اللہe نے
قیام اللیل کو رمضان میں باجماعت ادا کیا لیکن فرضیت کے خوف سے اسے ترک کردیاپھر دورِصدیقی
میں اس پر عمل نہیں ہوا،اور عہد فاروقی میں اسے فاروقِ اعظم نے جاری کیا اور آج تک
جاری ہے یہ بھی تواتر عملی میں شامل ہے۔
ایسے ہی وہ کام جورسول اللہe نے جاری کیا اور کسی ایک خلیفہ راشد نے اسے روک دیا
یا اس پر عمل نہیں کیا تو وہ تواتر عملی ہے ،کیونکہ نبی کا عمل وحی الٰہی ہے اور صحابہ
کا عمل نبی کے عمل کو منسوخ نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار
کرنا ہے جس پررسول اللہe کے
زمانہ میں، ابو بکر کے زمانہ میں اورعہدِفاروقی کے شروع میں عمل ہوتا آیا(امام مسلم:
صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث: حدیث: ۳۶۷۳، ص ۶۳۰) لیکن سیدنا عمرt نے
تین طلاق کو تین جاری کردیا اور پھر اس سے رجوع فرما لیا۔ (ابن قیم: اغاثۃ اللھفان
من مصاید الشیطان: مطبع مصطفی البابی الحلبی بمصر: ۱۳۸۱ھ/۱۹۴۱ء، ص: ۱/۳۵۱)
اور جوکام صحابہ کے دور کے بعد شروع ہوا وہ سنت نہیں بلکہ بدعت
کے زمرہ میں آتا ہے۔
بیک وقت دو عمل سنت متواترہ ہوسکتے ہیں:
نماز شروع کرتے وقت کانوں تک ہاتھ اٹھانا اورکندھوں تک ہاتھ
اٹھانا دونوں عمل سنت سے ثابت ہیں:حنفی اور شافعی مذہب کا ذکر کرتے ہوئے صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
[یرفع یدیہ حتی یحاذی
بابھامیہ شحمۃ اذنیہ وعند الشافعی یرفع الی منکبیہ۔] (المرغینانی، علی بن ابوبکر ابوالحسن
الفرغانی: الھدایۃ، کتاب الصلاۃ: مکتبہ شرکت علمیہ، ملتان: سن ندارد: ص: ۱۰۰))
’’نمازی اپنے دونوں
ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ اپنے دونوں انگوٹھے اپنے کانوں کی لوکے برابر کرلے۔اورشافعی
کے ہاں اپنے دونوں کندھوں تک اُٹھائے۔‘‘
اور پھر دونوں اماموں کے مذہب کی دلیلیں حدیث سے ذکر کرتے ہوئے
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
[لہ حدیث ابی حمید
الساعدی قال کان النبی علیہ السلام اذا کبر رفع یدیہ الی منکبیہ ولنا روایۃوائل ابن
حجر والبراء وانس ان النبی علیہ السلام کان اذا کبر رفع یدیہ حذاء اذنیہ۔] (نفس المرجع
)
’’شافعی کی دلیل
ابوحمید ساعدی کی حدیث ہے کہ آپ نے کہا کہ نبیu جب اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے کندھوں تک
اٹھاتے تھے۔ اور ہماری دلیل وائل بن حجرt، براءt اور انسt کی روایت ہے کہ نبیu جب اللہ اکبر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے
تھے۔‘‘
کانوں تک اور کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کے یہ دونوں عمل تواتر عملی
ہیں۔ کیونکہ رسول اللہe کے
زمانے سے آج تک ان دونوں طریقوں پر اُمت مسلمہ عمل کررہی ہے۔ رات کے کسی بھی حصہ میں
قیام کرنا تواتر عملی ہے۔
چنانچہ رسول اللہ e نے رات کے ابتدائی حصہ میں ،رات کے وسط میں اوررات کے
آخری حصہ میں قیام فرمایا۔ سیدہ عائشہr فرماتی ہیں:
[من کل الیل قد اَوتر
رسول اللّٰہ ﷺ من اول الیل واوسطہ وآخرہ فانتھٰی وترہ الی السحر۔] (امام مسلم: صحیح
مسلم، باب صلاۃ اللیل: حدیث: ۱۷۳۶، ص: ۳۰۱)
’’رسول اللہe نے
رات کے شروع میں، درمیان میں اور اس کے آخر میںوتر ادا کیے اور آپ کے وتر سحری تک جاپہنچے۔‘‘
چنانچہ مولنا عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں:
[از معاینۃ احادیث
مختلفہ واضح میشود کہ اطلاق وتر گاہے بر نماز تہجد و قیام لیل کہ طاق باشدمی آید وایں
وتر عین تہجد است۔] (لکھنؤی، عبدالحئی الانصاری فرنگی محلی: مجموعہ فتاویٰ: مطبع یوسفی
لکھنؤ: ۱۳۱۴ھ/۱۸۹۶ء، ص: ۱/۲۹۵)
’’مختلف احادیث دیکھنے
سے واضح ہوتاہے کہ بعض دفعہ تہجد اورقیام اللیل جو طاق ہو اس کے لیے تہجد کا لفظ بولا
جاتاہے،اور یہ وتر عین تہجد ہے۔‘‘
آپ eنے انہی تین وقتوں میں قیام لیل کی جماعت کرائی۔
مولانا عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں:
[پس روایات آں دال
اندبرایں کہ آں قیام از اول شب بعد عشاء بو د تا ثلث شب باول مرتبہ ،ونصف شب بمرتبہ
دوم، وتاوقت سحر بشب سوم۔] (لکھنؤی، عبدالحئی الانصاری فرنگی محلی: مجموعہ الفتویٰ:
مطبع یوسفی، لکھنو: ۱۳۱۴ھ، ص: ۱/۲۹۸)
’’اس نما زکی روایات
سے پتا چلتا ہے کہ یہ قیام پہلی مرتبہ عشاء کے بعد ایک تہائی رات تک تھااور دوسری مرتبہ
نصف رات تک اور تیسری مرتبہ سحری کے وقت تک تھا۔‘‘
رسو ل اللہe کے
صحابہ کرام] بھی ان تمام اوقات میں قیام لیل فرمایا کرتے تھے۔چنانچہ عبدالرحمن بن عبدالقاری
ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں:
[وکان الناس یقومون
اولہ] (امام مالک: المؤطا (مع تنویر الحالک): مکتبۃ ومطبعۃ مصطفی البابی الحلبی واولادہ
بمصر: ۱۳۷۰ھ/۱۹۵۱ء، ص: ۱/۱۰۵)
’’اورلوگ رات کے
اول حصہ میں قیام کیا کرتے تھے۔‘‘
اوردوسری حدیث میں سائب بن یزید فرماتے ہیں:
[وما ننصرف الا فی
فروع الفجر۔] (نفس المرجع )
یعنی ’’ہم قیام الیل کے بعد طلوع فجر کے قریب لوٹتے تھے۔‘‘
اورعبداللہ بن ابی بکرw اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:
[کنا ننصرف فی رمضان
،فنستعجل الخدم بالطعام مخافۃ الفجر۔](نفس المرجع)
’’ہم رمضان میں
(قیام لیل کے بعد) لوٹتے تو فجر کے خوف سے خدام سے جلد کھانا تیار کرواتے تھے۔‘‘
اسی طرح حج کی تما م اقسام :تمتع ،قران اور افراد بھی تواتر
عملی ہے اورمختلف اقسام پر امت مسلمہ عمل پیر ا ہے۔
مصادر شریعت میں تواتر عملی کا مقام ومرتبہ:
اسلام کے بہت سارے احکام تواتر عملی پر مشتمل ہیں: جیسے پانچوں
نمازیں ، صدقۃالفطر ، سنن رواتب ، نمازوں کے اجزاء (یعنی) رکوع وسجود وغیر ہ اور قیام
میں قراء ت ، ظہر ، عصر ، عشاء کی چار چار رکعتیں ، مغرب کی تین اورفجر کی دو رکعتیں
فرض ہونا رسو ل اللہ e سے
شروع ہوکر آج تک مسلسل جاری و ساری ہیں۔
زکوٰۃ ، روزہ ،حج اورمسائل بیوع جیسے اصولِ معاملات جن کے احکام
پر امت کا اجماع ہے ،ان میں سے اکثر تعا مل کے سبب متواتر ہیں۔ اسی طرح نکاح و طلاق
اور دیگر مسائل مخاصمت تعامل امت سے ثابت ہیں اور ان پر اُمت مجتمع ہے۔
اسلامی احکام میں سب سے اہم مسئلہ نماز ہے ،اس میں تواتر عملی
پر زور دیتے ہوئے رسول اللہ e نے
فرمایا:
[صلوا کما رأیتمونی
اصلی]
’’تم اس طریقہ سے
نماز پڑھو جس طریقہ سے تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘
واقعہ یوں ہوا کہ مالک بن حویرثt (م ۷۴ھ) اپنے چند نوجوان ساتھیوں کی معیت میں رسول اللہ e کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بیس راتیں
اور بیس دن آپ کے ہاں قیام کیا اور آپ کے معمولات کا خوب مشاہدہ کیا اور رسول اللہ
e کی
نماز کا بغور جائزہ لیا اورآپ e کی
اقتداء میں تقریبا ایک سو نمازوں میں شمولیت فرمائی ۔جب وہ آپ کے پاس سے واپس جانے
لگے تو آپ نے انہیں حکم دیا!
[صلوا کما رأیتمونی
اصلی۔] (البخاری: صحیح البخاری: کتاب الاذان: باب الاذان للمسافرین: حدیث: ۶۳۱، ص:
۱۰۴)
یعنی جو طریقہ نماز انہوں نے رسو ل
اللہ e کے
متواتر عمل میں مشاہد ہ کیا ، اسی عمل متواتر کو اختیار کرنے کا آپ نے ان صحابہ کرام
کو حکم دیا۔
جمع بین الصلاتین کے بارے میںصحیح بخاری میں رسول اللہ eکا متواتر عمل یوں
ذکر کیا گیاہے:
Ý [عن سالم عن ابیہ قال: کان النبیﷺ یجمع بین المغرب والعشاء اذا
جد بہ السیر۔] (البخاری: صحیح البخاری: کتاب التقصیر: باب الجمع فی السفر: حدیث:
۱۱۰۶ ص: ۱۷۷)
’’نبیe کو
جب (سفر میں ) چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ مغرب اورعشاء اکٹھی پڑھ لیاکرتے تھے۔‘‘
Þ [عن انس بن مالک قال:کان النبی ﷺ یجمع بین صلاۃ المغرب والعشاء
فی السفر۔] (نفس المرجع: حدیث: ۱۱۰۸)
ß [عن انس+ ان رسول اللّٰہ ﷺ کا ن یجمع بین ھاتین الصلاتین فی
السفر یعنی المغرب والعشاء۔] (نفس المرجع: باب ھل یؤذن او یقیم اذا جمع بین المغرب
والعشاء: حدیث: ۱۱۱۰ ص: ۱۷۸)
à [عن انس بن مالک قال: کان النبیﷺ اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس
اخر الظہر الی وقت العصر ثم یجمع بینھما،واذا زاغت صلی الظہر ثم رکب۔] (نفس المرجع:
باب: یؤخر الظہر الی العصر اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس: حدیث: ۱۱۱۱ ص: ۱۷۸)
’’جب
نبیe سور
ج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو نما ز عصر تک ظہر کو مؤخر کرتے پھر دونوں نمازیں اکٹھی
کرکے پڑھتے،اوراگر سورج زائل ہوچکا ہوتاتو آپ ظہر کی نماز پڑھ کر سوار ہوا کرتے تھے۔‘‘
á [عن انس بن مالک قال: کان النبیﷺ اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس
اخرالظہر الی وقت العصر ثم نزل فجمع بینھما، فاذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل صلی الظہرثم
رکب۔] (البخاری: صحیح البخاری: باب اذا ارتحل
بعد ما زاغت الشمس صلی الظھر ثم رکب: حدیث: ۱۱۱۲، ص: ۱۷۸)
â [عن ابن عباس رضی اللّٰہ
عنہما قال: کان رسول اللّٰہﷺ یجمع بین صلاۃ الظہر والعصر اذا کا ن علی ظہر سیر
ویجمع بین المغرب والعشاء۔] (نفس المرجع: حدیث: ۱۱۰۷، ص: ۱۷۷)
’’ابن
عباس کا بیان ہے کہ رسول اللہ e دوران
سفر ظہر و عصر اورمغر ب وعشاء جمع کرکے پڑھا کرتے تھے۔‘‘
یہ چھ حدیثیں صرف صحیح بخاری سے نقل کی گئی ہیں’’کان یجمع‘‘
ماضی استمراری ہے جو کسی کام کے زمانہ ماضی میںمسلسل جاری رہنے پر دلالت کرتاہے۔لہٰذا
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ ہمارے پیارے نبیe اپنے اصحاب کرام کی معیت میں یہ نمازیں اکٹھی کرکے پڑھا
کرتے تھے ۔ اس سے تواتر عملی کا مقام ومرتبہ واضح ہوتاہے۔
فجر کی دو سنتیں پڑھنا اوراس کے بعد دائیں پہلو پر لیٹنا رسول
اللہ e کے
متو اتر عمل سے ثابت ہے:
Ý [عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: کان النبیﷺ اذا صلی رکعتی الفجر
اضطجع علی شقہ الایمن۔] (نفس المرجع: باب من تحدث بعد الرکعتین: حدیث: ۱۶۱، ص:
۱۸۵)
Þ [عن عائشۃ رضی اللّٰہ
عنھا ان النبیﷺ کان اذا صلی سنۃ الفجر فان کنت مستیقطۃ حدثنی والّا اضطجع حتی
یؤذن بالصلاۃ۔] (البخاری: صحیح البخاری : باب من تحدث بعد الرکعتین: حدیث: ۱۱۶۱، ص:
۱۸۵-۱۸۶)
فجر کی
سنتیں ہلکی پھلکی پڑھنا آپ کا دوامی عمل رہا۔
ß [عن عائشۃ رضی اللّٰہ
عنھا قالت: کان النبیﷺ یخفف الرکعتین اللتین قبل صلاۃ الصبح حتی انی لا قول
ھل قرأ بام الکتاب؟] (نفس المرجع: کتاب التھجد، باب ما یقرأفی رکعتي الفجر: حدیث:
۱۱۷۱، ص: ۱۸۶)
’’عائشہr کا
بیان ہے کہ نبی e صبح
کی نماز سے پہلے دو ہلکی پھلکی رکعتیں پڑھا کرتے تھے، حتی کہ میں کہتی: کیا آپ eنے سورۃ فاتحہ پڑھی
ہے؟‘‘
سنن رواتب رسول اللہ e کے متواتر عمل سے ثابت ہیں:
[عن عبداللّٰہ ابن عمر ان رسول اللّٰہﷺ کان یصلی قبل الظہر رکعتین
وبعدھا رکعتین وبعد المغرب رکعتین فی بیتہ وبعدالعشاء رکعتین، وکان لا یصلی بعد الجمعۃ
حتی ینصرف فیصلی رکعتین۔] (نفس المرجع: کتاب الجمعۃ: باب الصلوٰۃ بعد الجمعۃ وقبلھا:
حدیث: ۹۳۷، ص: ۱۵۰)
’’سیدنا عبداللہ
بن عمرw کا
بیان ہے کہ رسول اللہ e ظہر
سے پہلے دو رکعتیں ، اس کے بعد دو رکعتیں ، مغرب کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں اورعشاء
کے بعد دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے، اور آپe جمعہ کے بعد (گھر ) لوٹنے تک کوئی نماز نہیں پڑھا کرتے
تھے،(گھر پہنچ کر) دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔‘‘
قیام اللیل مع وتر گیارہ رکعات پڑھنا رسول اللہe کا
متواتر عمل تھا ۔
Ý عائشۃصدیقہr فرماتی
ہیں:
[ماکان رسول اللّٰہ ﷺ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ یصلی اربعا فلا تسئل
عن حسنھن وطولھن ، ثم یصلی اربعا فلا تسئل عن حسنھن وطولھن ،ثم یصلی ثلاثا ،قالت
عائشۃ فقلت یارسول اللّٰہ ﷺ اتنام قبل ان توتر
؟فقال: یا عائشۃ ان عینی تنامانِ ولا ینام قلبی۔] (نفس المرجع: کتاب التھجد: باب قیام
النبی باللیل فی رمضام وغیرہ: حدیث: ۱۱۴۷، ص: ۱۸۳)
’’رسول اللہ e رمضان
اور غیر رمضان میںگیارہ رکعتو ں سے زیادہ نہیں کرتے تھے ۔آپ e چار
رکعتیں پڑھتے تھے تو ان کی اچھا ئی اورطوالت کے بارے میںسوال ہی نہ کر ،آپ پھر چار
رکعتیں پڑھتے تھے تو ان کی اچھا ئی اور طوالت کے بارے میں سوال ہی نہ کر ،پھر آپ تین
پڑھا کرتے تھے، عائشہ نے کہا کہ میں نے کہا:یارسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے
سوجاتے ہیں؟ توآپ نے فرمایا :اے عائشہ! میری آنکھیں تو سو جاتی ہیں لیکن دل نہیں سوتا۔‘‘
Þ [عن عائشۃ زوج النبیﷺ قالت کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی فیما بین
ان یفرغ من صلاۃ العشاء (وھی التی یدعوا الناس العتمۃ) الی الفجر احدی عشرۃ رکعۃ یسلم
بین کل رکعتین ویوتر بواحدۃ۔] (امام مسلم: صحیح مسلم: کتاب صلاۃ المسافر ین وقصرھا:
باب صلاۃ اللیل وعددرکعات النبیﷺ فی اللیل: حدیث: ۱۷۱۸، ص: ۲۹۸)
’’نبی
e کی
زوجہ عائشہr سے
روایت ہے ، آپ نے کہا کہ رسول اللہ e عشاء کی نماز سے فارغ ہونے اور فجر تک کے درمیان گیارہ
رکعتیں پڑھا کرتے تھے ، ہر دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھا کرتے
تھے۔‘‘
مذکورہ بالا دونوںحدیثوں کے مجموعہ سے ثابت ہوا کہ محمد رسول
اللہ e کی
رات کی نفلی نما ز ہمیشہ دو دو رکعات اور ایک وتر کی صورت میں گیارہ رکعات سے عموماً
زائد نہیں ہوا کرتی تھی۔پھر یہ نماز رمضان المبارک میں اور دیگر ایام میں یکساں ہوتی
تھی۔
مولانا انور شاہ کشمیری(م۱۳۵۲ھ/۱۹۳۴ء) لکھتے ہیں:
[قال عامۃ العلماء
ان التراویح و صلاۃ
اللیل نوعان مختلفان والمختار عندی
انھما واحد وان اختلفت صفاتھما۔] (انور شاہ کشمیری: فیض الباری: ص: ۲/۴۲۰)
’’عام علماء نے کہا
کہ تراویح اور تہجد دو مختلف قسمیں ہیں ، جبکہ میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ یہ
دونوں ایک ہیں اگرچہ ان کی صفات مختلف ہیں۔‘‘
[بل کانت تلک صلاۃ
واحدۃ ، اذا تقدمت سمیت باسم التراویح واذا تأخرت سمیت باسم التھجد۔] (نفس المرجع)
’’بلکہ یہ ایک ہی
نماز ہے ،جب رات کے پہلے حصہ میں پڑھی جائے تو اسے تراویح کا نام دیا گیا ہے اور جب
رات کے پچھلے حصہ میں پڑھی جائے تواس کا نام تہجد رکھا گیا ہے۔‘‘
No comments:
Post a Comment