حضرت مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی
تحریر: جناب مولانا عبدالرحمن ثاقب
(سکھر)
یہ دنیا ایک مسافر خانہ ہے‘ انسانی آمد ورفت کا سلسلہ ازل سے
چلا آ رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔ اس جہان رنگ وبو میں لاکھوں کروڑوں انسان آئے
اور اپنی اپنی حیات مستعار گذار کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔
قافلہ انسانی کے ان حدی خوانوں میں بعض ایسی شخصیات بھی ہوئی
ہیں جن کی تگ ودو انہیں اس کرہ ارض پر چمکتا ہوا ستارہ بنا دیتی ہیں۔ انہی درخشندہ
اور تابندہ ستاروں اور قابل قدر شخصیات میں سے ایک پر خلوص شخصیت عالم ربانی‘ حق وصداقت
کی نشانی حضرت مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانیa کی ہے۔
پیدائش:
موصوف حافظ عبدالعلیم یزدانی‘ مولانا عبدالرحیم کے گھر کھڈیاں
خاص ضلع قصور میں ۱۹۵۶ء کو پیدا ہوئے۔ آپ تین بھائی اور دو بہنیں تھے۔ آپ بہن بھائیوں
میں سب سے چھوٹے تھے۔
مولانا مرحوم کے والد مولانا عبدالرحیم بن قمر الدین بلند پایہ
عالم اور بے باک قسم کے مناظر تھے۔ حق پر ڈٹ جانے اور مسلک کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی
دینے پر ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔ کتاب وسنت کی طرف دعوت ان کا نصب العین رہا۔ ان کا
مشہور کارنامہ چک نمبر ۴ رینالہ خورد کے
قریب بریلوی مولوی محمد عمر اچھروی کے ساتھ مباہلہ تھا۔ (تذکرہ علماء اہل حدیث از میاں
محمد یوسف سجاد: ج۳‘ ص ۵۱)
حافظ عبدالعلیم یزدانی صاحب نے مڈل تک عصری تعلیم حاصل کی‘ ابتدائی
دینی کتب مدرسہ دار القرآن چک ۸۰ گ ب ضلع فیصل آباد میں پڑھیں اور اس ادارہ سے قاری سیف اللہa سے
قرآن مجید حفظ کیا۔ ابھی حافظ عبدالعلیم صاحب نے دو پارے ہی حفظ کیے تھے کہ والد گرامی
مولانا عبدالرحیم کے سایہ پدری سے محروم ہو گئے اور اس کے بعد اپنے چچا مولانا محمد
داؤد کی کفالت میں آگئے۔
آپ نے کچھ عرصہ جامعہ اثریہ فیصل آباد سے بھی کسب فیض کیا اور
آخری چار سال یعنی عالیہ اور عالمیہ کی تعلیم جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے حاصل کر کے
۱۹۷۷ء کو سند فراغت حاصل کی۔
اساتذہ کرام:
حافظ عبدالعلیم یزدانیa نے جن اساتذہ کرام ومشائخ عظام سے اکتساب فیض کیا ان
کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ جھال خانوآنہa‘ حافظ ثناء اللہ
مدنیd‘ مولانا محمد عبدہٗ
الفلاحa‘ مولانا قدرت اللہ
فوقa‘ مولانا محمد صدیقa‘ شیخ الحدیث حافظ
احمد اللہa‘ مولانا عبداللہ
بھٹویa‘ مولانا محمد اسحاق
چیمہa‘ مولانا محمد یونس
نعمانیa‘ مولانا عبیداللہ
رحمانیa‘ مولانا عبدالستار
حسنa‘ مولانا محمد اکال
گڑھی جبکہ عرب شیوخ میں فضیلۃ الشیخ علی مرشدa‘ فضیلۃ الشیخ اسماعیلd‘ فضیلۃ الشیخ حسن
راشدd بھی
آپ کے اساتذہ میں شامل ہیں۔
ہم جماعت علماء:
پروفیسر محمد یٰسین ظفر (مدیر جامعہ سلفیہ فیصل آباد) شیخ الحدیث
مولانا محمد یونس بٹ‘ مولانا عبدالواحد بلتستانی‘ مولانا مسعود الرحمن جانبازa‘ مولانا محمد امین‘
مولانا عبدالحق بلتستانیa اور
مولانا عبدالرحیم قابل ذکر ہیں۔
تدریس:
مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی تعلیم سے فراغت کے بعد تقریبا
دو سال تک ڈھیسیاں منصور پور جڑانوالہ کے مدرسہ میں تدریس میں مصروف رہے اور طلبہ کو
قرآن مجید حفظ کروایا۔ حفظ میں ہمارے ممدوح کے تلامذہ کی تعداد کافی ہے۔
تصنیف وتالیف:
حافظ عبدالعلیم یزدانی نے فضائل رمضان‘ نماز نبوی اور مسلک اہل
حدیث پر پمفلٹس شائع کیے جو کہ اب نایاب ہو چکے ہیں۔ ان کے علاوہ فاتح قادیان شیخ الاسلام
مولانا ثناء اللہ امرتسریa کی
کچھ کتب شائع کرنے کا شرف بھی حاصل کیا۔
جھنگ میں تشریف
آوری:
جھنگ شہر میں باب عمرt کی مرکزی جامع مسجد جو کہ ۱۹۶۹ء میں مولانا محمد یوسف کمیرپوری کی و فات کے بعد سے خالی پڑی تھی اور کوئی بھی
اس مسند کا وارث بن کر اس کی رونقیں بحال نہ کر سکا۔ کئی اہل علم اس مسند پر متمکن
ہوئے لیکن وہ اس مسند کو خیر باد کہہ کر چلے گئے۔
۱۹۸۰ء میں بابائے تبلیغ
مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانیa یہاں
تشریف لائے اور تقریبا تین سال تک مسند کمیر پوری پر کتاب وسنت کی آواز کو بلند کرتے
رہے۔
۱۹۸۲ء میں الٰہی بخش
کالونی جھنگ صدر میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویa کے لائق شاگرد مولانا محمد حنیف فرید کوٹی کی مسند پرخطابت
کا آغاز کیا اور اسی کے ساتھ ساتھ جنرل بس سٹینڈ جھنگ کے پڑوس میں ایک دینی ادارے کی
بنیاد رکھی۔ یہ ادارہ اب فیصل آباد روڈ پر عالیشان عمارت کے ساتھ جامعہ اسلامیہ کے
نام سے موجود ہے۔ آپ طویل عرصہ تک مولانا فرید کوٹی کی مسند پر خطابت کا فریضہ انجام
دیتے رہے۔ مولانا نے کچھ عرصہ جامع مسجد کوثر جھنگ میں بھی خطابت کے جوہر دکھائے۔ آپ
تقریبا چالیس سال تک جھنگ کی سرزمین پر قرآن وسنت کے موتی بکھیرتے رہے۔
خدمات:
مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانی جس دور میں جھنگ میں تشریف لائے
اس دور میں اہل حدیث کا نام لینا حرام سمجھا جاتا تھا۔ آپ نے کمال حکمت عملی سے لفظ
اہل حدیث کو متعارف کروایا کہ اب بچہ بچہ نام ولقب اہل حدیث سے متعارف ہے اور یہ لقب
اپنے لیے اعزاز سمجھتا ہے۔ مولانا نے بھاگ دوڑ کر کے ضلع بھر میں اہل حدیث مساجد تعمیر
کروائیں۔ آپ نے بڑی حکمت عملی سے خطباء‘ مقررین‘ علماء اور قراء کی ایک کھیپ تیار کی
جو اپنی بہترین صلاحیتیں کتاب وسنت کی نشر واشاعت کے لیے صرف کر رہے ہیں۔
تبلیغی خدمات:
مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانیa کی میدان تبلیغ میں بہت بڑی خدمات ہیں۔ آپ نے تبلیغ
دین کے لیے اندرون وبیرون ملک سفر کیے۔ ملک کے تمام علاقوں میں تشریف لے گئے۔ آپ پنجابی
زبان کے مؤثر خطیب تھے۔ آپ آسمان خطابت کے وہ چمکتے ہوئے ستارے تھے جن کی کلام تاباں
سے کئی گھرانوں کو نور ہدایت نصیب ہوا اور بہت سے لوگ آپ کے وعظ وتبلیغ سے توحید وسنت
کی صاف وشفاف دعوت سے فیض یاب ہوئے۔
مولانا اپنی شیریں گفتاری سے سامعین کو اپنی جانب متوجہ رکھنے
اور مسحور کن انداز سے سامعین وحاضرین کے دلوں پر راج کیا کرتے تھے۔ آپ موضوع کا پورا
حق ادا کرتے ہوئے معاشرتی مسائل بڑے احسن انداز اور عمدہ سلیقے سے بیان کرتے تھے۔ مولانا
یزدانی طمع ولالچ سے کوسوں دور رہتے اور جہاں بھی دعوت دین کے پروگراموں میں تشریف
لے جاتے‘ خلوص وللہیت کا مظاہر کرتے تھے۔ موصوف دور طالب علمی سے ہی میدان خطابت میں
قدم رکھ چکے تھے جیسا کہ پروفیسر محمد یٰسین ظفر مدیر جامعہ سلفیہ فیصل آباد لکھتے
ہیں کہ
’’اسی سال مولانا
محمد صدیق نے عام انتخابات میں حصہ لیا‘ چونکہ ان کا آبائی علاقہ تاندلیانوالہ تھا‘
ہم چند طلبہ ان کی انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے تاندلیانوالہ چلے گئے جن میں سے
راقم کے علاوہ مولانا عبدالعلیم یزدانی‘ پروفیسر نجیب اللہ طارق‘ مسٹر حمزہ‘ مولانا
محمد یونس بٹ ودیگر شامل تھے۔ مولانا عبدالعلیم یزدانی شروع سے ہی اچھے خطیب اور شیریں
بیان تھے۔ لہٰذا وہ جلسوں میں نظم کے علاوہ تقریریں بھی کرتے۔‘‘
مزید لکھتے ہیں کہ…
’’جہاں مولانا عبدالعلیم
یزدانی کا درس ہوتا جو اپنی گفتگو کو پنجابی اشعار سے مزین کرتے تھے جیسے بہت پسند
کیا جاتا تھا۔‘‘
مولانا محمدیٰسین ظفر‘ حافظ عبدالعلیم یزدانی سے اپنے تعلقات
کا ذکر کرتے ہوئے سندھ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ مولانا عبدالعلیم یزدانی مقبول عوامی
خطیب تھے‘ بڑے بڑے جلسوں اور کانفرنسوں میں آپ کا خطاب ہوتا۔
کالا شاہ کاکو اہل حدیث کانفرنس میں آپ کا بیان بے حد مؤثر
تھا۔ ہم بھی جامعہ میں دعوت دیتے تو بڑے شوق سے تشریف لاتے۔ اکثر پروگرام ملتوی کر
کے ہمیں خدمت کا موقع دیتے۔ دوستوں کے دوست تھے۔ میرے بہت اچھے رفقاء میں شمار ہوتے
تھے۔ ایک مرتبہ مدرسہ بحر العلوم السلفیہ میر پور خاص سندھ کے لیے وقت لیا ان کے کئی
جگہ پروگرام تھے۔ چونکہ سندھ آنے جانے میں کم از کم تین چار دن صرف ہوتے ہیں‘ فرمانے
لگے کہ یہ تمام پروگرام کو متاثر کرے گا۔ لیکن میر پور خاص سندھ کی ضرورت اور حالات
کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار ہو گئے۔ یہ ایک یادگار پروگرام تھا‘ آپ کے بیان کو بہت پسند
کیا گیا۔‘‘ (ہفت روزہ اہل حدیث شمارہ نمبر ۳۷ جلد نمبر ۴۹)
راقم الحروف نے ۱۹۸۹ء میں پہلی بار حافظ عبدالعلیم یزدانی صاحب کو دیکھا اور سنا تھا جب آپ قائد اہل
حدیث علامہ پروفیسر ساجد میرd کی
قیادت میں کراچی کے تین روزہ تبلیغی وتنظیمی دورے پر تشریف لائے تھے۔ اس موقع پر کورٹ
روڈ پر ایک عظیم الشان ’’اہل حدیث کانفرنس‘‘ منعقد کی گئی تھی اور خاکسار اہل حدیث
یوتھ فورس کے کارکن کے طور پر انتظام میں شریک تھا۔ اس کے بعد بھی کئی دفعہ آپ کے خطابات
سننے کا موقع ملا۔ تقریبا تین سال قبل ۲۰۱۶ء میں آپ ہماری دعوت پر دو دن کے لیے سندھ تشریف لائے اور راقم الحروف کو میزبانی
کا شرف بھی حاصل ہوا۔ پہلا پروگرام مدرسہ دار القرآن والحدیث بھریا روڈ کی سالانہ کانفرنس
وتقریب بخاری کا تھا جبکہ دوسرا پروگرام مدرسہ خدیجۃ الکبریٰ r للبنات
پنوں عاقل کا تھا۔ آپ باغ وبہار طبیعت کے مالک اور ملاقات والے سے زیر لب مسکراتے ہوئے
دل کو موہ لیتے تھے۔
ختم نبوت کانفرنس:
مولانا عبدالعلیم یزدانیa ختم نبوت کا ساری عمر پرچار کرتے رہے۔ ختم نبوت کی تحریک
ان کی روح میں رچی بسی تھی اور ساری زندگی اس کے لیے تگ ودو کرتے رہے۔ شہید ملت علامہ
احسان الٰہی ظہیرa نے
جب چنیوٹ میں ختم نبوت کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو آپ ہی کو ناظم کانفرنس مقرر
کیا اور آپ نے دن رات بھاگ دوڑ کر کے اس کانفرنس کو مثالی بنایا۔ یہ کانفرنس ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء کو ہوئی تھی جس میں شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیرa کا خطاب کلیدی اور بڑا ہی شاندار وجاندار تھا۔ علامہ
احسان الٰہی ظہیرa کی
شہادت کے بعد بھی یہ کانفرنس منعقد ہوتی رہی اور حافظ عبدالعلیم یزدانیa ہی
اس کانفرنس کے روح رواں ہوا کرتے تھے۔
تنظیمی ذمہ داریاں:
مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانیa شروع سے ہی جماعت کے نظم کے ساتھ منسلک تھے اور شیخ
الحدیث مولانا محمد عبداللہ a کی
امارت اور شہید ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدa کی نظامت میں کام کیا کرتے تھے۔ آپ مولانا عبدالرشید
حنیفa کی
وفات ۵ جون ۲۰۰۹ء سے لے کر تا حین حیات ضلع جھنگ کے امیر رہے۔ اس کے علاوہ آپ مرکزی جمعیت اہل
حدیث پاکستان کے نائب ناظم اور نائب امیر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ آپ کا حضرت علامہ
احسان الٰہی ظہر شہیدa کے
قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتا تھا‘ اسی طرح سے امیر محترم سینیٹر پروفیسر ساجد میرd کے
بھی معتمد خاص تھے۔
وفات:
۲۶ اگست ۲۰۱۸ء کو مرکزی جمعیت
اہل حدیث پاکستان کی مجلس عاملہ وکابینہ کا اجلاس مرکز اہل حدیث ۱۰۶ راوی روڈ لاہور
میں تھا۔ مولانا حافظ عبدالعلیم یزدانیa بھی
اجلاس میں تشریف لائے۔ موضوع سخن حالیہ انتخابات میں جماعتی مؤقف اور آئند کا لائحہ
عمل تھا۔ آپ نے کھل کر اظہار خیال کیا اور جرأت مندانہ گفتگو کی۔ نماز ظہر اور کھانے
کے وقفہ میں آپ کو شدید ہارٹ اٹیک ہوا‘ فوراً جناح ہسپتال منتقل کیا گیا۔ اجلاس کی
دوسری نشست میں سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریمd نے شرکاء کو آگاہ کیا۔ ۷ ستمبر بروز جمعرات آپ
کے دل کا آپریشن طے تھا اور آپریشن کی تیاری جاری تھی لیکن آپریشن سے پہلے ہی ۶ اور ۷ ستمبر کی درمیانی رات آپ کو دوبارہ دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا
ثابت ہوا اور آپ حرکت قلب بند ہو جانے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا
الیہ راجعون!
اگلے دن گورنمنٹ ہائی سکول جھنگ کے وسیع وعریض میدان میں نماز
جنازہ کے انتظامات کیے گئے۔ نماز جنازہ کی امامت قائد اہل حدیث علامہ پروفیسر ساجد
میرd امیر
مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے کی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں جماعتی قائدین‘
کارکنان‘ علماء‘ طلبہ‘ مختلف مکاتب فکر کی سماجی ومذہبی اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔
نماز جنازہ سے قبل قاری عبدالحفیظ فیصل آبادی‘ مولانا محمد حنیف
ربانی اور آپ کے بھتیجے مولانا عبدالباقی نے اپنے اپنے خطابات میں حافظ عبدالعلیم یزدانی
کی تبلیغی ودینی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ امیر محترم نے آپ کی دینی‘ دعوتی اور
سیاسی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ مولانا عبدالعلیم یزدانی نے ساری زندگی
دین کی نشر واشاعت میں بسر کی۔ وہ ایک عالم با عمل انسان تھے۔ ان کی وفات سے جماعت
ایک عظیم مبلغ سے محروم ہو گئی۔
نماز جنازہ کے بعد سہ پہر چار بجے جھنگ کے معروف قبرستان لاری
اڈہ میں آہوں اور سسکیوں میں ڈوبی ہوئی دعاؤں کے جلو میں آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔
تدفین کے بعد آپ کے عزیز دوست مولانا عبدالرشید حجازیd ناظم مرکزی جمعیت اہل حدیث پنجاب نے قبر پر دعائے مغفرت
کروائی۔
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ
No comments:
Post a Comment