خبر متواتر
(پانچویں وآخری قسط) تحریر: جناب پروفیسر حافظ محمد شریف شاکر
رسو ل اللہ e نے
ہمیشہ رات کے مختلف اوقات میں قیام لیل فرمایا۔ رات کے شروع میںِ،وسط میں اور رات کے
آخری حصہ میں اورآپ کا یہ قیام سحری تک جا پہنچا۔ (امام مسلم: صحیح مسلم:کتاب صلاۃ
المسافرین: باب صلاۃ اللیل: حدیث : ۱۷۳۷ ص: ۳۰۱)
لیکن آپ نے رات کی نفلی نماز مسجد میں صرف تین راتیں پڑھائی
اوچوتھی (انتیسویں ) رات نہ آنے کی وجہ یوں بیان فرمائی:
[ولكنی خشیت ان تفرض
علیكم صلاة اللیل فتعجزوا عنھا۔] (امام مسلم :صحیح مسلم: حدیث: ۱۷۸۴ ص: ۳۰۸)
’’اورلیکن مجھے ڈر
پید ہوا کہ رات کی نما ز کہیں تم پر فرض نہ کردی جائے پھر تم اس سے عاجز آجائو۔‘‘
رسول اللہ e کے
اس ارشاد سے ثابت ہوا کہ جو کام رسول اللہe نے دوام اورتواتر کے ساتھ کیا ہو وہ اُمت پر فرض ہوجاتا
ہے۔
رب العزت نے اسی لیے فرمایا:
{وَمَا اٰتَاكمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْه وَمَانَھَاكمْ عَنْه فَانْتَھُوْا} (الحشر:۷)
’’اور جو کچھ رسول (e) تمہیں دیں وہ لے
لو اور جس سے تمہیں روکیں اس سے رک جائو ۔‘‘
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ نبی e نے
فرمایا:
[دعونی ما تركتكم
فانما ھلك من كان قبلكم سؤالھم واختلافھم علی انبیائھم ، فاذا نھیتكم عن شئ فاجتنبوه،
واذا امرتكم بشئ فأتوا منه ما استطعتم]
’’جب تک میں تمھیں
چھوڑ رکھوں ، تم مجھے چھوڑ رکھو! کیوں کہ تم سے پہلے لوگوں کو اُن کے (بے جا) سوال
نے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے نے ہلاک کردیا ، جب میں تمھیں کسی چیز سے منع کردوں
تو تم اس سے بچو! اور جب میں تمھیں کسی چیز کا حکم دوں تو تم طاقت کے مطابق اس پر عمل
کرو۔‘‘ (امام بخاری: صحیح البخاری: کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ: حدیث: ۷۲۸۸ ، ص: ۱۲۵۴)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ لَقَدْ كانَ لَكمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰه
اُسْوَة حَسَنَة} (الاحزاب:۲۱)
یعنی رسو ل اللہ e کی ساری زندگی تمہارے لیے نمونہ عمل ہے۔ سیدہ عائشہ
صدیقہr رسول
اللہ e کے
بعض معمولات کا یوں تذکرہ کرتی ہیں:
[ان النبیﷺ كان اذا
اویٰ الی فراشه كل لیلة جمع كفیه ثم نفث فیھما فقرأ فیھما {قل ھواللّٰه احد} و{قل اعوذ برب الفلق} و{قل اعوذ برب الناس}
ثم یمسح بھما ماستطاع من جسده یبدأبھما علی
رأسه ووجھه وما اقبل من جسده یفعل ذلك ثلاث مرات۔] (امام بخاری: صحیح البخاری: كتاب
فضائل القران: باب فضل المعوذات: حدیث: ۵۰۱۷)
’’بلاشبہ نبی e جب
ہررات اپنے بستر پر تشریف فرماہوتے تو اپنی دونوں ہتھیلیاں اکٹھی کرتے پھر ان میں پھونک
مارتے تو ان دونوں (ہتھیلیوں) میں {قل هو اللّٰه احد}،
{قل اعوذ بر ب الفلق} اور {قل اعوذ برب الناس} پڑھتے پھر جس قدر کرسکتے ان دونوں کو اپنے جسم پر پھیرتے ،
اس کا آغاز آپ اپنے سر سے ،اپنے چہرے اوراپنے جسم کے اگلے حصہ سے کرتے ، یہ کام آپ
تین دفعہ کیا کرتے تھے۔‘‘
رسول اللہe کے غسل جنابت میں آپ
کے متواتر عمل کا تذکرہ :
[عن عائشة زوج النبیﷺ
ان النبیﷺ كان اذا اغتسل من الجنابة بدء فغسل یدیه ثم توضأ كما یتوضأ للصلوة ثم یدخل
اصابعه فی الماء فیخلل بھا اصول الشعر ثم یصب علی رأسه ثلاث غرف بیدیه ثم یفیض الماء
علی جلده كله۔] (امام بخاری: صحیح البخاری: كتاب الغسل: باب الوضوء قبل الغسل: حدیث:
۲۴۸)
’’نبیe کی
بیوی سیدہ عائشہr کا
بیان ہے کہ نبیe جب
غسلِ جنابت فرماتے تو آپ (پہلے) اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر ویسا وضو کرتے جیسا وضو
نماز کے لیے کیاکرتے تھے ۔پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرتے تو ان کے ساتھ بالوں
کی جڑوں کا خلال کرتے تھے پھر اپنے ہاتھوں کے ساتھ تین چلو (پانی کے بھر کر) اپنے سر
پر گراتے تھے ،پھر اپنی ساری جلد پر پانی بہاتے تھے۔‘‘
نماز شروع کرنے
سے پہلے صحیح صف بندی :
امام کا مقتدیوںکی صفیں درست کرنا رسول اللہe کے
متواتر عمل سے ثابت ہے:
[عن سما ك بن حرب
قال سمعت النعمان بن بشیر یقول: كان رسول اللّٰهﷺ یسوی صفوفنا حتی كانما یسوی القداح،
حتی رأی انا قدعقلنا عنه ثم خرج یوماً فقام حتی كاد یكبر، فرأی رجلاً بادیا صدره
من الصف فقال: عباد اللّٰه ! لتسوّن صفوفكم او لیخالفن اللّٰه بین وجوھكم۔] (مسلم: صحیح مسلم: كتاب الصلوة: باب
تسویة الصفوف: حدیث: ۹۷۹)
’’سماک بن حرب نے
کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ e ہماری صفیں اس حد تک بر ابر کیا کرتے تھے گویا کہ آپ
تیروں کو سیدھا کررہے ہیں۔یہاں تک کہ آپ نے خیال کیا کہ ہم آپ کی بات سمجھ گئے ہیں
،پھر ایک دن آپ (گھرسے ) نکلے (مصلیٰ پر ) کھڑے ہوئے تکبیر کہنے ہی لگے تھے کہ آ پ
کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جس کا سینہ صف سے (باہر )نکلاہوا تھا۔ توآپ نے فرمایا:
[لتسون صفوفكم او
لیخالفن اللّٰه بین وجوھكم] ’’تم ضرور اپنی صفیں برابر کرلوگے یا پھر اللہ تمہارے چہروں
کے درمیان مخالفت پیدا کردے گا۔‘‘
صفیں سیدھی کرنا ،کندھے سے کندھا اورقدم سے قدم ملانا تواتر
عملی ہے:
نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے ہم میں سے ہر ایک آدمی کو
اپنا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنہ سے ملاتے ہوئے دیکھا۔ (امام بخاری: صحیح البخاری: کتاب
الاذان: باب الزاق المنکب بالمنکب: ص: ۱۱۸)
[عن انس عن النبیﷺ
قال ’اقیموا صفوفكم فانی اراكم من وراء ظھری‘ وكان احد نا یلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه
بقدم صاحبه۔] (نفس المرجع: حدیث: ۷۲۵)
سیدنا انسt نبیe سے
روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’تم اپنی صفیں سیدھی کرو! بلاشبہ میں تمہیں اپنی
پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتاہوں۔‘‘ اور ہم میں سے ہر شخص اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے
کے ساتھ اوراپنا قدم اس کے قدم کے ساتھ چپکاتاتھا۔‘‘
سیدنا نعمان بن بشیرt کی حدیث میں یہ واضح طور پر موجود ہے کہ نبی e خود
صحابہ کی صفیں درست کیا کرتے تھے ،اور اس کے نتیجے میں صحابہ کرام] رسول
اللہ e کی
موجودگی میںآپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے کندھے اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ اور
اپنے قدم اپنے ساتھی کے قدم کے ساتھ چپکایاکرتے تھے۔ جس کی شہادت دو جلیل القدر صحابیوں
انس بن مالک اورنعمان بن بشیرw نے
دی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارے اکثرائمہ مساجد اس سنت متواتر ہ سے محروم ہیں اوراس
تواترعملی کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے ،شاید ان کی اس پر نظر نہیںیا کوئی اوروجہ
ہے ۔
[محمد قال اخبرنا
ابو حنیفة عن حماد عن ابراهیم انه كان یقول : سووا صفوفكم وسووا مناكبكم تراصوا او
لیخلَّلنّكم الشیطان كاولاد الحذف ان اللّٰه
وملئكته یصلون علی مقیم الصفوف ، قال محمد وبه نأخذ لا ینبغی ان یترك الصف
وفیه الخلل حتی یسووا، ھو قول ابی حنیفة۔] (الشیبانی، محمد بن حسن، الامام: كتاب الآثار:
كتب خانه مجیدیه، ملتان: ص: ۲۳)
’’محمد نے کہا کہ
ہم کو ابوحنیفہa نے
حماد سے (اس نے ) ابراہیم سے خبر دی کہ وہ کہا کرتے تھے: تم اپنی صفیں برابر کرو! تم
اپنے کندھے برابر کرو! تم ایک دوسرے سے مل جائو یا پھر تمہارے درمیان شیطان چھوٹی بھیڑوں
کے بچوں کی طرح گھس آئے گا‘ بلاشبہ اللہ اوراس کے فرشتے صفیں سیدھی کرنے والوں پر صلاۃ
بھیجتے ہیں۔ محمد نے کہا کہ ہم اسی کو اختیار کرتے ہیں ،صف سیدھی کیے بغیر نہیں چھوڑنی
چاہیے کہ اس میں خلل رہ جائے، یہی ابوحنیفہa کا قول ہے۔‘‘
امام ابراہیم نخعیa کا یہ اثر مندرجہ بالا احادیث صحیحہ میں وارد شدہ تواتر
عملی سے مطابقت رکھتا ہے۔
عیدین میں خطبہ عید، نماز کے بعد ہونا تواتر عملی ہے:
یہ رسول اللہe کا
معمول رہاہے اورخلفاء راشدین کے عمل متواتر سے بھی یہی طریقہ ثابت ہے۔ لیکن نماز سے
پہلے خطبہ دینا یہ تواتر عملی کے خلاف ہے۔ اس بدعت کا موجد مروان ہے ۔
[عن ابی سعید الخدری
قال :كان النبیﷺ یخرج یوم الفطر و الاضحی الی المصلیٰ فاول شیٔ یبدأ به الصلاة، ثم ینصرف فیقوم مقابل الناس، والناس جلوس
علی صفوفھم فیعظھم و یوصیھم و یأمرھم ، فان كان یرید ان یقطع بعثاًقطعه اویامر بشیٔ
امر به ثم ینصرف، فقال ابو سعید فلم یزل الناس علی ذلك حتی خرجت مع مروان وھو امیرالمدینة
فی اضحی اوفطر، فلما اتینا المصلی اذا منبر بناه كثیربن ا لصلت فاذا مروان یرید ان
یرتقیه قبل ان یصلی فجذبته بثوبه فجبذنی، فارتفع فخطب قبل الصلاة فقلت له غیر تم واللّٰه ، فقال:اباسعید ! قد ذهب
ما تعلم فقلت مااعلم خیر واللّٰه مما لااعلم
فقال: ان الناس لم یكونوا یجلسون لنا بعد الصلاة فجعلتھا قبل الصلاة۔] (امام بخاری:
صحیح البخاری: كتاب العیدین: باب الخروج الی المصلی بغیر منبر: حدیث: ۹۵۶)
’’ابو سعید خدریa (م۷۴ھ) نے کہا کہ نبیe عید
الفطر اورعید الاضحی کے روز عیدگاہ کی طرف نکلاکرتے تھے‘ سب سے پہلے جس کا آغاز کرتے
وہ نماز ہوتی تھی، پھر پلٹ کر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے اورلوگ اپنی صفوں پربیٹھے
ہوئے ہوتے تھے، آپ ان کو وعظ کرتے، وصیت کرتے اور حکم دیا کرتے تھے، اگر کوئی لشکر
بھیجنا ہوتا تو اسے بھیج دیتے یا کسی چیز کا حکم دینا ہوتا تو دے دیتے پھر (گھر کو)
پلٹ آتے، ابو سعید نے کہا کہ لوگ اسی طریقہ پر گامزن رہے یہاںتک کہ میںمدینہ کے گو
رنر مروان کے ساتھ عید الاضحی یا عید الفطر میں نکلا تو جب ہم عید گاہ پہنچے تووہاں
منبر موجود تھا جسے کثیر بن ا لصلت نے بنایا
تھا ، مروان نماز پڑھانے سے پہلے اس پر چڑھنے لگا تو میں نے اسے اس کے کپڑے سے پکڑ
کر کھینچ لیا تواس نے مجھے کھینچا پھر (منبر پر ) چڑھ کر نماز سے پہلے خطبہ دیا تو
میں نے اس سے کہا :واللہ! تم نے (دین میں) تبدیلی کردی تواس نے کہا :اے ابو سعید
’’جسے تم جانتے ہووہ جاتارہا‘‘تومیں نے کہا ’’اللہ کی قسم! جو میں جانتا ہوں وہ اس
سے بہتر ہے جسے میں نہیں جانتا ‘‘ تواس (مروان) نے کہا: ’’بلاشبہ لوگ نماز کے بعد ہمارے
لیے نہیں بیٹھتے تھے اس لیے میں نے اس (خطبہ) کو نماز سے پہلے کردیا۔‘‘
اس حدیث سے بہت سارے مسائل مستنبط ہوتے ہیں، اس میں یہ بات واضح
طور پر موجود ہے کہ نماز عید سے پہلے خطبہ دینا اور عید گاہ میں منبر لے جانا رسول
اللہe اور
مروان تک آنے والے تمام علماء سے ثابت ہونے والی تواتر عملی کے خلاف ہے اور یہ بدعت
ہے۔ کیونکہ سنت صرف رسول اللہe اور
آپ کے اصحاب کرام] کا
عمل ہوتا ہے نہ کہ کچھ اور،جس عمل متواتر کا نبیe اور آپ کے اصحاب سے صادر ہونا صحیح سند سے ثابت ہوجائے،
خاص کر جو نبی کریم e سے
ثابت ہوجائے اس پر عمل کرنا واجب ہے اور جو صحابہ کے عمل سے صحیح سند کے ساتھ ثابت
ہو اس پر عمل کرنا مستحب ہے۔
امام ابو حنیفہ (م ۱۵۰ھ)فرماتے ہیں:
[اذا جاء الحدیث
عن رسول اللّٰهﷺ فعلی الرأس والعین واذا كان عن الصحابة اخترنا من قولھم واذا كان
عن التابعین زاحمناھم۔] (لكھنؤی، عبدالحیّ انصاری، فرنگی محلی: طبقات الفقهاء: مكتبه
نشر القرآن والحدیث، ص: ۳۵)
’’جب حدیث‘ رسول
اللہ e سے
آئے تو بسرو چشم قبول،اور جب صحابہ سے آئے تو جس کا قول چاہیں گے پسند کریں گے،اور
جب تابعین سے آئے تو ہم ان کی مزاحمت کریں گے۔‘‘
جس سلسلہ رجال کے ذریعہ ہم تک سنت پہنچتی ہے ان رجال کا ثقہ
ثابت ہونا ضروری ہے۔ امام ابو حنیفہa فرماتے
ہیں:
[آخذ بكتاب اللّٰه فمالم اجد فبسنة رسول اللّٰهﷺ والآثار الصحاح التی
فشت فی ایدی الثقات فان لم اجد فبقول الصحابة آخذ بقول ما شئت۔] (الذهبی، محمد بن احمد بن عثمان، شمس الدین:
مناقب الامام ابی حنیفة وصاحبیه۔۔۔الخ: ابوالوفاء افغانی: دارالكتب العربی، مصر: ص:
۲۰)
’’میں اللہ کی کتاب
کو لیتا ہوں پھر جو (قرآن میں)مجھے نہ ملے تو میں رسول اللہ e کی سنت اور صحیح آثار(احادیث )کو لیتا ہوں جو ثقات رواۃ
سے (منقول ہو کر)ثقات کے ہاتھوںمیں پھیلے ہوئے ہیں ۔اگر احادیث وآثارِرسول اللہ e نہ
ملیں تو آپ کے اصحاب میں سے جس کا قول لینا چاہتا ہوں لے لیتا ہوں ۔‘‘
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ e کی طرف سے حدیث یا سنت کی نسبت کرنے والے رواۃ کا ثقہ
ثابت ہوناضروری ہے بصورتِ دیگر یعنی رواۃ سنت کے ضعیف ووضاع ثابت ہونے کی صورت میں
ان کی روایت کردہ سنت ،خواہ اسے متواترہ ثابت کرنے کی ہی کوشش کیوں نہ کی گئی ہو،مسترد
ہوگی۔
اس کی درج ذیل مثال پیش کی جاتی ہیں:
حافظ ابنِ قیمa لکھتے
ہیں کہ ابو البختری، ہارون الرشید (عباسی خلیفہ) کے ہاں حاضر ہوا اور ہارون الرشید
کبوتر اُڑا رہا تھا (ہارون نے ابوالبختری سے) کہا: تجھے اس (کبوتر بازی)کے بارے میں
کچھ یاد ہے؟ تو اس نے کہا:
[حدثنی ھشام بن عروة
، عن أبیه عن عائشة ان النّبیﷺ كان یطیر الحمام۔]
تو ہارون الرشید نے کہا: نکل جا میرے پاس سے! پھر (ہارون الرشید نے) کہا: اگر یہ
قریشی نہ ہوتا تو میں اسے عہدہ قضا سے معزول کردیتا۔ (ابن قیم الجوزیہ، محمد بن ابی
بکر ، ابوعبداللہ شمس الدین حنبلی دمشقی: المنار المنیف فی الصحیح والضعیف: مکتب المطبوعات
الاسلامیۃ: ۱۳۹۰ھ/۱۹۷۰ء، ص: ۱۰۷)
دیکھئے :ابوالبختری نے قضا کے عہدہ پر فائز ہونے کے باوجود دیدہ
دلیری سے حدیث گھڑ کرکبوتر بازی کو رسول اللہ e کا متواتر عمل ثابت کرنے کی جسارت کی۔ فلعنۃ اللّٰہ
علی الکاذبین!
No comments:
Post a Comment