طب وصحت ... جَو (Barley) شفا بخش غلہ
تحریر: حکیم راحت نسیم سوہدروی
نام:۔ جو کو عربی میں شعیر، بنگالی میں جب، سندھی میں جؤ، سنسکرت
میں بوہ یا باوا اور انگریزی میں (Barley) کہا جاتا ہے۔
صفات و شناخت:۔ خوردنی اجناس میں سے ایک عام چیز ہے۔ گندم سے
پہلے پک کر تیار ہو جاتا ہے۔ وہ جؤ زیادہ بہتر ہوتے ہیں جو سرخ زمین میں کاشت کیے
گئے ہوں اور ان کو برسات کا پانی ملتا رہا ہو۔ پوری طرح پکا ہوا اور وزن میں بھاری
ہو، تازہ جو ٔزیادہ بہتر ہوتے ہیں۔ اگر ایک سال پرانے ہو جائیں تو زیادہ فائدہ مند
نہیں ہوتے۔
مزاج:۔ سرد خشک مزاج رکھتے ہیں۔
خواص و فوائد:
اس میں گیہوں کی نسبت نشاستہ کم ہوتا ہے۔
نبی کریمe اسے
بہت پسند کرتے تھے۔ آپe کی
ذات گرامی کے ساتھ اس کا واسطہ بطور روٹی، دلیہ اور بطور ستو احادیث نبویe سے
ثابت ہے۔ حضرت ام المنذرr بیان
کرتی ہیں کہ میرے پاس نبی کریمe، حضرت علیt کے
ہمراہ تشریف لائے۔ ہمارے ہاں کھجور کے خوشے پکے ہوئے موجود تھے۔ وہ ان کی خدمت میں
پیش کیے گئے۔ اس میں سے انہوں نے تناول فرمایا۔ جب حضرت علیt تھوڑے
کھا چکے تو رسول اللہe نے
روک دیا اور فرمایا کہ: ’’تم ابھی بیماری سے اٹھے ہو اور مزید مت کھائو۔‘‘ اس کے بعد
میں نے ان کے لیے جؤ تیار کیے۔ نبیe نے علیt سے کہا: ’’ تم اس میں سے کھائو یہ تمہارے لیے مفید ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت مالک بن انسt فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبیe کی
دعوت کی اور جؤ کی روٹی کے ساتھ گوشت پکایا۔ حضورe بڑی محبت سے سالن سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے تناول فرماتے
تھے۔ رسول اللہe کے
اہل خانہ سے جب کوئی بیمار ہوتا تھا تو حکم ہوتا تھا کہ اس کے لیے جو کا دلیہ تیار
کیا جائے۔ پھر آپe فرماتے
تھے کہ یہ بیمار کے دل سے غم کو اتار دیتا ہے اور اس کی کمزوری کو دور کر دیتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہr بیمار
کے لیے جؤ کو دودھ میں پکا کر اس میں شہد ڈال کر تلبینہ تیار کرواتی تھیں اور فرماتی
تھیں کہ اگرچہ بیمار اس کو ناپسند کرتا ہے لیکن یہ اس کے لیے بہت مفید ہے۔ تلبینہ تھکن
اور پریشانی کو بھی دور کرتا ہے۔ حضور نبی کریمe تلبینہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس خدا کی قسم! جس
کے قبضہ میں میری جان ہے یہ تمہارے پیٹوں سے غلاظت کو دور کرتا اور دل کے جملہ عوارض
کا علاج ہے۔ آپe اس
تلبینہ کو قابل برداشت گرم گرم، بار بار اور خالی پیٹ تناول فرماتے تھے۔
جؤ کے بارے میں بو علی سینا نے لکھا ہے کہ جؤ کھانے سے خون
پیدا ہوتا ہے۔ یہ خون معتدل، صالح اور کم گاڑھا ہوتا ہے۔ فردوس الحکمت میں لکھا ہے
کہ جؤ کو اس کے وزن کے پندرہ گنا پانی میں اتنی دیر تک ہلکی آنچ پر پکایا جائے کہ
تیسرا حصہ اڑ جائے۔ اس کو ’’آش جؤ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ پانی جسم کی ایک سو بیماریوں کے
لیے مفید ہے۔ شمس الدین ثمرقندی اسے فوائد کے لحاظ سے گندم کو کم تر درجہ دیتا ہے۔
مگر وہ گندم سے اس لحاظ سے فضیلت دیتا ہے کہ یہ جسم کی گرمی اور تپش کو کم کرتا ہے۔
اس کا حریرہ قابض دوائوں کے ساتھ دست روکتا ہے۔ جؤ کے آٹے میں چھاچھ ملا کر پینے
سے صفراوی قے، پیاس کی شدت اور معدہ کی سوزش میں فائدہ مند ہے۔ اطباء نے اعصابی دردوں،
اورام، سوزشوں اور خارش کی مختلف اقسام میں اس کے استعمال کو مفید بتایا ہے۔ اس کا
آٹا سرکہ میں گوندھ کر لگانے سے ہر قسم کی خارش میں مفید ہے۔ یہ سر کی پھپھوندی کو
دور کرتا ہے۔ اس کے آٹے کو شہد کے پانی میں گوندھ کر لیپ کریں تو بلغمی اورام تحلیل
ہوتے ہیں۔ سفرجل (بہی) کا چھلکا اتار کر اسے جؤ اور سرکہ کے ساتھ پیس کر جوڑوں کے
درد اور اعصابی دردوں پر لگانا نفع بخش ہے۔ اس کے ساتھ تخم خیارین (کھیرا) پیس کر پلورسی،
پستان کے درد پر لگانا مفید ہے۔ جؤ اور گیہوں کی بھوسی کو پانی میں ابال کر اس پانی
سے کلیاں کریں تو دانت کا درد جاتا رہتا ہے۔ ہرے دھنیے کے پانی میں جؤ کا آٹا ملا
کر خنازیر اور گرم و سخت اورام تحلیل ہو جاتے ہیں۔ سرکہ میں اس کا آٹا ملا کر پیشانی
پر لیپ کرنے سے گرمی کا درد سر دور ہوتا ہے۔ جؤ صفرا اور خون کو درست کرتا ہے۔ حلق
کے امراض کو نافع ہے۔ بلغم، جریان اور گرمی کو مٹاتا ہے۔ جسم سے چربی کم کر کے موٹاپا
کم کرتا اور جسم کو مضبوط کرتا ہے۔ اس کی پتلی کھچڑی پکا کر اس میں شہد ملا کر ٹھنڈی
کر کے کھانے سے بخار، قے اور صفراوی دردشکم میں بہت مفید ہے۔
اوپری دودھ پینے والے بچوں کو اگر دودھ میں جؤ کا پانی ملا
کر دیا جائے تو ان کی آنتیں زیادہ تنومند رہتی ہیں۔ مثانہ اور پیشاب کی سوزش میں جؤ
کے پانی میں صمغ عربی (کیکر کی گوند) کا سفوف شامل کر کے پلایا جائے تو پیشاب کی جلن
کو جلد آرام آ جاتا ہے۔
جدید مشاہدات:
احادیث مبارکہ میں جؤ کے فوائد کی روشنی میں معدہ و آنتوں
کے السر کے مریضوں کو تلبینہ دیا گیا۔ السر کا ہر مریض دو سے تین ماہ میں درست ہو گیا۔
جب کہ بہترین علاج کے ذریعے یہ علاج دو سال سے کم عرصہ میں ممکن نہ تھا۔
پیشاب میں خون آور پیپ کے مریضوں میں وجہ چاہے کچھ بھی ہو مناسب
علاج کے لیے جؤ کا پانی اگر شہد میں ڈال کر پلایا جائے تو یہ تکلیف پندرہ روز میں
ختم ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات گردے سے پتھری خارج ہو جاتی ہے۔ پرانی قبض کے لیے جؤ کے
دلیہ سے بہتر محفوظ کوئی اور دوا نہیں دیکھی گئی۔
مضر و مصلح :
جَو سرد مزاج والوں کو مضر ہے، جؤ نفخ پیدا کرتا ہے۔ گھی اور
مکھن، شکر، مصری اور گوشت کا شوربہ اس کی اصلاح کرتے ہیں۔ جؤ کو ہمیشہ کھاتے رہنے
سے پیٹ میں مروڑ اور ریاح پیدا ہوتے ہیں۔ گرم مصالحہ سے اس کی اصلاح ہوتی ہے۔
بدل:
جؤ کا بدل مونگ ہے۔
وٹامن ’’سی‘‘ کا خزانہ:
جؤ کو پانی سے نم دیں تو وہ پھوٹتے اور اگتے ہیں۔ اس وقت انہیں
بھاڑ یا بھٹی میں خشک کر لیا جائے تو ان میں وافر مقدار میں وٹامن ’’سی‘‘ پیدا ہو جاتے
ہیں۔ یہ پھوٹے ہوئے جؤ زود ہضم اور مقوی ہوتے ہیں۔
جؤ کا ستو:
گیہوں یا جؤ کو صاف کر کے پانی میں بھگو دیا جاتا ہے اور دھوپ
میں خشک کر کے بریاں کیا جاتا ہے۔ پھر اس کو پیس کر استعمال کرتے ہیں۔ طبی حوالے سے
یہ ایک معتدل غذا ہے۔ سریع الہضم ہے۔ مسکن حرارت ہے۔ آج کے دور میں لوگ آٹا چھان
کر روٹی پکاتے ہیں اور بھوسی ضائع کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معدہ اور نظام ہضم کی
متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ یہی بھوسی بغیر چھنے کی شکل میں ستو
کا نعم البدل ہے۔
حضور اکرمe کا
دستور تھا کہ آپe بغیر
چھنے آٹے کو ستو کی شکل میں نوش فرماتے تھے۔ غزوات میں ستو کے استعمال کی بکثرت روایات
ملتی ہیں۔ بلوغ المرام میں مرقوم ہے کہ اہل عرب بغیر چھنے آٹے کے استعمال کو ترجیح
دیتے تھے اور اس کا استعمال مختلف شکلوں میں کرتے تھے۔ ان کھانوں کی مختلف تراکیب ہیں۔
چند نام و ترکیب استعمال نقل کیے جا رہے ہیں۔
1 غذیرہ:ـ جؤ کے
آٹے کے اوپر دودھ دوہا جاتا اور پھر گرم پتھروں پر رکھ کر پکا لیا جاتا تھا۔
2 حریقہ: جؤ کے آٹے کو پانی یا تازہ دودھ میں گوندھ کر
قدرے کھجور کی مٹھاس ڈال کر گاڑھا پی لیا جاتا تھا۔
3 رعیثہ: جؤ کے آٹے کو شیرے میں ملا کر پکایا جاتا تھا۔
4 تلبینہ
: جؤ کے آٹے یا گندم کی بھوسی اور شہد ملا
کر تیار کیا جاتا تھا۔ مگر متفرق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تلبینہ یا گیہوں کو دَل
کر دودھ میں پکایا جاتا تھا۔ جو بیماروں کو کھانے کے لیے بطور خاص دیا جاتا تھا۔
الغرض بغیر چھنا روٹی کی شکل میں یا ستو کی شکل میں، حضور اکرمe نے
تمام زندگی استعمال فرمایا اور اسی طرح استعمال کرنے کی ہدایت فرمائی۔ جس کے متعلق
اطباء جدید اور بسیار تحقیق لائے اور پھر اس کے فوائد بیان کیے۔
مصور ہربل ہینڈ بک کی مصنفہ جو لیٹ وے، پیراکلی لیوی نے لکھا
ہے کہ دوائی خواص کا حامل اناج ہے، خون کے جوش کو کم کرتا ہے اور اندرونی اعضاء کو
مفید ہے۔ خاص طور پر گردوں پر اچھا اثر کرتا ہے، گردوں اور مثانہ کی عام تکلیفوں کے
علاوہ یہ بیماروں اور شیر خوار بچوں کی غذا ہے، اس کا کہنا ہے کہ جؤ کو ابال کر نچوڑ
لیا جائے اور لیموں کا رس ملا کر استعمال کیا جائے۔ ماڈرن انسائیکلو پیڈیا الف ہریز
کے مصنف کا کہنا ہے کہ بیماری سے اٹھنے والوں کے لیے بہترین غذا ہے۔ انہوں نے بھی اب
جؤ استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
No comments:
Post a Comment