اسلام ایک
کامل دین
بعض مغرب زدہ لوگوں کی خام خیالی ہے کہ اسلام کے عقائد‘ اس کی تہذیب‘ تمدن‘ روایات
اور خیالات چودہ سو سال پرانے ہیں اور زمانے کے تقاضے نئے ہیں۔ اس لیے انہیں جدید حالات
کی روشنی میں ڈھالنا ضروری ہے۔ یہ نظریہ اسلامی اقدار کے سراسر خلاف اور اس کے کسی
پہلو سے بھی مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ اسلام اتنا ہی جدید مذہب ہے جتنا کہ قدیم ہے۔
پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام ایک متحرک اور عالمگیر دین ہے جو ترقی پذیر اور ہر لمحہ
تغیر پذیر زندگی کے لیل ونہار کی رہنمائی کر سکتا ہے۔ اسلام زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں
میں خود نہیں ڈھلتا بلکہ اپنی عالمگیر‘ آفاقی اور نکتہ رس حکمت وتدبیر کے سانچوں میں
ان تقاضوں کو ڈھال لیتا ہے اس لیے کہ ہر دور کے تقاضوں کی تکمیل واصلاح کے بغیر اس
کی ابدیت پر حرف آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو
ا سلام کو دنیا بھر کے لیے دین کامل بنایا ہے اور اس کی عظمت وبرکت کے بارے
میں ارشاد فرمایا ہے: {اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ
لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ
دِیْنًا} ’’میں نے آج اس دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی
نعمت کی تکمیل کر کے تمہارے لیی دین اسلام کو پسند کیا ہے۔‘‘ دوسرے مقام کا مطلب یہ
ہے کہ اسلام کے علاوہ جو کوئی دوسرا دین لائے گا اللہ تعالیٰ کے ہاں اسے قبول نہیں
کیا جائے گا۔ یہ بات کسی جذباتیت کی بنا پر نہیں بلکہ علی وجہ البصیرت کہی جا سکتی
ہے کہ انسانیت کی فلاح وبہبود اسلام اور صرف اسلام سے وابستہ ہے کیونکہ یہی وہ دین
ہے جسے خالق کائنات نے انسانوں کی ہدایت کے لیے اپنے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے
بھیجا۔ جس کی آخری اور مکمل ترین اور آفاقی صورت انسانیت کو خاتم المرسلین رحمۃ للعالمینe کے ذریعے عطا ہوئی ہے اور بھلائی کا راز صرف اور صرف اس دین کی مخلصانہ پیروی
میں مضمر ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آج بھٹکی ہوئی انسانیت رشد وہدایت کے اس واحد ازلی سرچشمے
کی طرف کب رجوع کرتی ہے؟ اس کا بڑی حد تک انحصار اس کے ا فکار واعمال اور آخرت کی
زندگی کی فکر سے وابستہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ
حیات ہے جس کی اپنی تہذیب‘ اپنے عقائد‘ اپنی روایات واقدار ہیں جو انسان کی انفرادی
اور اجتماعی زندگی میں ایک صحتمند انقلاب برپا کر سکتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
اسے اپنے فکر وعمل کی اساس بنایا جائے۔ اسلام ایسے اصول اور اسلوب حیات پیش کرتا ہے
جو انسان کی دنیا وآخرت میں بھلائی کا موجب ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس میں حقوق انسانی
کی مکمل ضمانت موجود ہے۔ یہی وہ مذہب ہے جو انسانی مساوات اور عالمی اخوت کا پیامبر
ہے۔ رسول اکرمe کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’تمام انسان اللہ تعالیٰ کے نزدیک برابر ہیں۔ گورے کو
کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت نہیں مگر تقویٰ ہی وجۂ امتیاز ہے۔ جیسا کہ
قرآن مجید کا ارشاد ہے: {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ} یعنی ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تقویٰ میں سب سے آگے ہے۔‘‘
ابراہیم لنکن نے دنیا میں اس وجہ سے بڑی شہرت حاصل کی ہے کہ اس نے شمالی امریکہ
میں غلاموں کو آزادی دی تھی جبکہ پیغمبر اسلام e نے صدیوں پیشتر یہ عمل خود کر کے دکھایا تھا۔ آپ غلاموں کو خرید کر آزاد
کر دیا کرتے تھے۔ اس وقت معاشرے میں غلاموں کو جس قدر حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا
تھا اس سے بڑھ کر عظمت عطا کی۔ صہیب رومی ہو یا بلال حبشی بظاہر حبش کے سیاہ فام جو
کئی سال غلامی کی زنجیروں میں جکڑ ے رہے اور عرب جنہیں قبائلی حد بندیوں اور تفوق وبرتری
پر ناز ہوتا تھا۔ اس معاشرے میں سیدنا بلالt کو یہ عظمت بخشی کہ انہیں مؤذن بنا کر بلند وبالا کر دیا جبکہ ان کا تلفظ بھی
بہت اچھا نہیں تھا۔ اس سے واضح ہوا کہ جناب رسول اللہe ظاہری الفاظ کو اہمیت نہ دیتے تھے بلکہ ان کی نظریں اس جذبہ وخلوص پر تھیں
جو سیدنا بلالt کے دل کی گہرائیوں میں کروٹیں لے رہا تھا۔
اس وقت دنیا میں دو معاشی نظام برسر پیکار ہیں۔ ایک طرف سرمایہ داری نظام ہے اور
دوسری طرف سوشلزم جو کمیونزم کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ دونوں نظام انسانیت کو تباہی کی
طرف لے جا رہے ہیں۔ دنیا اس حقیقت کو فراموش کر چکی ہے کہ سوشلزم اور مغرب کی مادی
قدروں کے ما بین اسلام ہی وہ فطری نظام حیات ہے جو انسانیت کو تباہی اور ہلاکت سے بچا
سکتا ہے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان اسلامی قدروں کو اپنا کر فلاح وصلاح کا
رستہ اختیار کریں۔ رسول اکرمe کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ وہ دنیا کو گمراہی سے نکال کر صراط مستقیم پر
گامزن کر دیں۔
ہمیں یہ بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں بچوں کے اغواء کی وارداتیں
جس تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہیں وہ ہر حساس شخص اور صاحب اولاد کے لیے باعث تشویش ہیں۔
جن ماؤں کے لخت جگر ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہوں اور وہ ان کے حالات سے بے خبر
ہوں کہ وہ کن مشکلات سے دو چار ہوں گے۔ ان کے شب وروز کس کرب سے گذرتے ہوں گے یہ بات
بڑی اندوہناک ہے۔ اغواء کاروں نے اغواء برائے
تاوان کے مختلف طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ عام دیکھنے والوں کو پتہ نہیں چلتا کہ بچہ
اپنی مرضی سے کہیں جا رہا ہے یا کسی نے اسے ساتھ چلنے کے لیے پابند کر لیا ہے۔ اغواء
کار اسے مناسب مقام پر لے جا کر اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ
اغواء برائے تاوان کے مجرموں اور ان کے معاونین کو پکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں لا کر
قرار واقعی سزا دی جائے۔
حقیقی بات یہ ہے کہ آج سسکتی ہوئی انسانیت اس دور کی متلاشی ہے جب کوئی انسان بھوکا نہیں سوتا تھا۔ جب بڑھیا کی جھونپڑی شاہی
محل کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ جب عدل وانصاف لوگوں کی دہلیز پر میسر آجاتا تھا۔ جب ڈکیتی
اور قتل ناحق کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ جب حکمران رات کو چوکیدار کا فرض انجام دیتا تھا۔
یہ حالات اس وقت میسر آئیں گے جب ہم اللہ وحدہٗ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز اور رسول اللہe کی سیرت طیبہ پر پوری طرح عمل پیرا ہو جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment