اُمّہات المؤمنینg کی سیرت ... چند درخشاں پہلو
تحریر: جناب مولانا ابوعبداللہ
امہات المؤمنین اور حقوق نسواں کی حفاظت ونگہداشت:
امہات المؤمنین امت مسلمہ کی رحیم ماں‘ شفیق محسنہ اور قابل
احترام معلمہ تھیں۔ انہوں نے پوری زندگی اپنی روحانی اولاد کی تعلیم وتربیت‘ اس کی
خیر خواہی وہمدردی اور اسے مشکوٰۃ نبوت سے منور کرنے میں صرف کر دی۔ اس عمومی شفقت
کے باوجود صنف نازک کے ساتھ ان کی دلچسپی اور دل سوزی کی کیفیت خاص رنگ لیے ہوئے تھی۔
اس کی ایک وجہ تو اس طبقہ کے ساتھ ان کی فطری مناسبت تھی‘ دوسری وہ اس حقیقت سے بخوبی
آگاہ تھیں کہ اسلام سے پہلے تمام انسانی معاشروں میں عورت انسانی عز وشرف اور بنیادی
حقوق سے محروم رہی۔ اسی فطری تعلق اور دین اسلام کے ترجمان وشارح ہونے کی حیثیت سے
طبقۂ نسواں کے حقوق کی بحالی ان کی عزت نفس بلند کرنے اور ان کی فطری مجبوریوں کے
پیش نظر انہیں خصوصی مراعات کا مستحق قرار دینے میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے اس
کی تفصیلات سے اسلامی قانون کی پوری کتاب بھری پڑی ہے۔
امہات المؤمنین اپنے کردار اور طرز عمل سے پوری دنیا پر یہ
ثابت کرنے میں کامیاب ہوئیں کہ عورت علمی مذہبی اجتماعی پند وموعظت‘ اصلاح وارشاد اور
ملک وملت کی بھلائی کے کام انجام دے سکتی ہے۔ اس طرح انہوں نے اپنی ہم جنسوں کے سامنے
ولولہ انگیز نمونہ پیش کیا جس سے ان میں اپنے مرتبے اور مقام کی برتری کا احساس اجاگر
ہوا اور بے پناہ قوت عمل بیدار ہوئی۔ جس کے نتیجے میں امت میں ایسی بے شمار ہستیاں
پیدا ہوئیں کہ گو ان کا تعلق جنس نسوانی سے تھا لیکن ائمہ کرام تک ان کے خرمن فیض سے
خوشہ چینی کرنا اپنے لیے اہم سعادت تصور کرتے تھے۔ اُمہات المؤمنین نے حقوق نسواں
کی حفاظت اور نگہداشت کرتے ہوئے جاہلی رسوم کی تمام باریکیوں پر نظر رکھی اور معاشرے
میں ان کے رواج پر نکیر بھی فرمائی۔ مثلاً اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں۔
سیدنا عثمان بن مظعونt عبادت
گذار اور پارسا صحابی رسول تھے‘ ان کی طبیعت پر زہد اور رہبانیت کا غلبہ تھا۔ ایک روز
ان کی بیوی سیدہ عائشہr کے
پاس آئیں‘ وہ ہر قسم کی نسوانی زیب وآرائش سے خالی تھیں۔ سیدہ عائشہr نے
طبیعت کی ویرانی کا سبب پوچھا تو انہوں نے شوہر کی عبادت وریاضت کا حال بتلایا‘ جب
آپe تشریف
لائے تو سیدہ عائشہr نے
سیدنا عثمان بن مظعونt کا
واقعہ بتلایا۔ آپe فوراً
ان کے پاس گئے اور فرمایا: ’’عثمان! ہمیں رہبانیت کا حکم نہیں ملا‘ کیا میرا طرز زندگی
پیروی کے لائق نہیں؟‘‘
اس کے بعد سیدنا عثمان بن مظعونt نے اپنے طرز عمل میں اعتدال کی روش اپنا لی۔ اسی طرح
سیدہ عائشہr چوری
کی سزا یافتہ خاتون سے ملتی تھیں اور اس کی درخواست بھی رسول اللہe کے
حضور پیش کرتی تھیں جبکہ مدینہ کی دوسری خواتین ان سے بولنا پسند نہیں کرتی تھیں۔ سیدہ
عائشہr نے
حقوق نسواں کی حفاظت کرتے ہوئے معاشرے کے اس کمزور پہلو کی طرف بھی رسول اللہe کی
توجہ دلائی جس میں بعض مسلمان بیویاں اپنے شوہروں کی تعذیب کا شکار تھیں۔ اس کے بعد
ہی رسول اللہe نے
فرمایا:
’’اے لوگو! اللہ
کی باندیاں یعنی اپنی بیویوں کو نہ مارو‘ اپنی بیویوں کو مارنے والے تم میں سے بہتر
لوگ نہیں۔ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔‘‘
حقوق نسواں کی نگہداشت ونگرانی کرتے ہوئے سیدہ عائشہr نے
سیدنا ابوہریرہt کی
اس روایت کی بھی اصلاح فرمائی کہ عورت‘ کتا یا گدھا نمازی کے آگے سے گزر جائے تو نماز
نہیں ہو گی۔ سیدہ نے کہا:
’’تم نے کتنا برا
کیا کہ ہم عورتوں کو کتے اور گدھے کے برابر کر دیا‘ کیا عورت بھی ناپاک جانور ہے؟ میں
رسول اللہe کے
سامنے پاؤں پھیلائے سوئی رہتی‘ حجرے میں جگہ نہ تھی جب نبی کریمe نماز
میں مصروف ہوتے اور سجدے میں جاتے تو ہاتھ مار دیتے‘ میں پاؤں سمیٹ لیتی اور جب آپ
کھڑے ہوتے تو پھر پاؤں پھیلا لیتی۔ کبھی ضرورت ہوتی تو بدن چرا کر سامنے سے نکل جاتی۔‘‘
بدشگونی اور نحوست والی روایت کی بھی اصلاح فرمائی تھی۔ ناپاکی
کے غسل میں عورت کا چوٹی کھولنا‘ حج میں عورتوں کا بال کٹوانے والی روایت کی تصحیح
ہی نہیں کی بلکہ عبداللہ بن عمرw اور
ابن زبیرw پر
ناراضگی بھی ظاہر کی کہ جن سے یہ روایت منسوب ہے۔ حقوق نسواں کی حفاظت میں سیدہ عائشہr نے
وراثت میں پوتیوں کے حصے کی وکالت بھی کی اور مجبوری کی طلاق کو غلط بتلایا۔
حقوق نسواں کی حفاظت میں صرف سیدہ عائشہr ہی
پیش پیش نہیں تھیں بلکہ دوسری ازواج مطہرات نے بھی اپنے فرائض انجام دیئے۔ ہمیں یاد
رکھنا چاہیے کہ سیدہ سودہr کی
وجہ سے ہی پردے کا حکم نازل ہوا تھا۔ امہات المؤمنین نے صرف اشاعت دین اور معاشرے
کی تربیت کے فرائض ہی انجام نہیں دیئے بلکہ اپنے ہم جنس کے حقوق کا برابر خیال رکھا
اور مسلم معاشرے میں عورتوں کے حوالے سے پھیلی جاہلی دور کی غلط فہمی کو بھی دور کرنے
کی کوشش کی۔ اسی طرح ان نفوس قدسیہ نے بچوں کے ساتھ بچیوں کی خصوصی تعلیم وتربیت کی
طرف توجہ دی تا کہ وہ گمراہی سے محفوظ رہیں۔
امہات المؤمنین کی فقر وفاقہ کی زندگی اور انفاق فی سبیل اللہ:
انفاق فی سبیل اللہ کے حوالے سے بھی امہات المؤمنین کا طرز
عمل ہمارے لیے مثالی اور قابل تقلید ہے۔ یہ نفوس قدسیہ فقر وفاقہ کی زندگی میں بھی
صدقہ وخیرات کرتی رہیں اور ذخیرہ اندوزی اور مستقبل کے لیے کچھ بچا کر رکھنے کے عمل
سے محفوظ رہیں۔ اصل میں عقیدۂ آخرت نے اس عمل کو مہمیز کرنے کا کام کیا۔ درہم ودینار
نہ تو ان کی خواہش تھی اور نہ ہی ذخیرہ اندوزی کر کے وراثت چھوڑنا چاہتی تھیں تا کہ
جوابدہی سے محفوظ رہیں۔
رسول اللہe کا
گھر فقر وزہد کی مثال تھا‘ ان کی معاشی حالت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا
ہے کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو چراغ جلانے کے لیے گھر میں تیل نہیں تھا اور نہ درہم
ودینار تھے کہ اس سے بازار سے منگوا لیا جاتا۔ رسول اللہe کی
زرہ کے عوض سیدہ عائشہr نے
ایک یہودی سے قرضہ لیا اور اپنے حجرے میں چراغ جلائے‘ ایسی معاشی حالت میں بھی امہات
المؤمنین نے صدقہ وخیرات کی اعلیٰ روایت قائم کی۔
امہات المؤمنین نے فقر وفاقہ کی زندگی بسر کی۔ چمڑے اور ٹاٹ
کے بستر اور چٹائیوں پر قناعت کیا۔ جَو کی روٹی اور کھجور کے مقدر پر شکر کرتی رہیں
اور کم سے کم متاع حیات پر اپنی زندگی کو رواں دواں رکھا لیکن شکوہ شکایت‘ ذخیرہ اندوزی‘
مستقبل کے لیے سیونگ اور درہم ودینار کے لیے تگ ودو سے باز رہیں۔ وہ عبادت وریاضت اور
صدقہ وخیرات میں مقابلہ کرتی تھیں۔ تنگی وعسرت اور فقر وفاقہ کے باوجود ان کے پاس جب
بھی کبھی مال ودولت کی فراوانی ہوتی تو فوراً اسے غرباء ومساکین میں تقسیم کر دیتیں۔
مثلاً سیدہ سودہr کے
پاس سیدنا عمر فاروقt نے
درہم کی ایک تھیلی بھیجی‘ جب تک اسے تقسیم کر کے ختم نہ کر دیا سکون سے نہ بیٹھیں اور
اپنے لیے کچھ بھی پس انداز نہ کیا۔ سیدہ زینب بنت خزیمہr ام
المساکین کے لقب سے مشہور تھیں‘ ان کے انتقال پر سیدہ عائشہr نے
گواہی دی کہ غریبوں اور مسکینوں کا سہارا اُٹھ گیا۔
رسول اللہe کے
گھروں کا زہد وفقر معمول تھا لیکن ان کے اہل خانہ کی تربیت ایسی ہوئی تھی کہ وہ اس
زندگی کو ترجیح دیتی تھیں۔ امہات المؤمنین اور سیدہ فاطمہr کی
زبان سے کبھی نان ونفقہ کا مطالبہ نہیں کیا گیا۔ ایک دفعہ ایسا واقعہ پیش آیا لیکن
وہ بھی عارضی ثابت ہوا۔ فقر وفاقہ کی زندگی میں بھی جبکہ دوسری خواتین ومرد حضرات پس
انداز کرنے کی نفسیات میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور صدقہ وخیرات جیسے نیک اور قابل تقلید
عمل کو نظریاتی بنا دیتے ہیں۔ آپe کے اہل خانہ برعکس زندگی گذار کر معاشرے کے استحکام‘
مساوات اور اونچ نیچ کے فرق کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امہات المؤمنین کی سیرت
تو توکل علی اللہ کا خوبصورت نمونہ تھی۔
اُمہات المؤمنین کا سوکن کے ساتھ حسن سلوک اور عائلی زندگی
کو خوشگوار بنانا:
امہات المؤمنین نے اپنی عائلی زندگی بھی خوش گوار گذاری اور
سوکنوں کی موجودگی میں بھی توازن برقرار رکھا۔ بعض دفعہ کچھ ناخوشگوار واقعات پیش آئے
لیکن وہ انسانی فطرت اور بشریت کے تقاضے کے عین مطابق تھا۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں میں
حسد ورقابت کا جذبہ کچھ زیادہ رکھا ہے‘ امہات المؤمنین پر اگر کبھی اس جذبے نے اثر
کیا تب بھی ان کی عائلی زندگی خوش گار تھی۔
تاریخ وسیر کی کتابیں عائلی زندگی کی خوش گواریت کا ثبوت فراہم
کرتی ہیں لیکن برعکس معاملے کی وضاحت پر بالکل خاموش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہe کے
گھرانے میں ایسا کوئی معاملہ ہوا ہی نہیں کہ مؤرخ اس پر لب کشائی کرتے اور اس کو نقد
وتجزیہ کے عمل سے گذارتے۔ تاریخ وسیر کی کتابوں میں کچھ واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جو
بشری تقاضے کے تحت وقوع پذیر ہوئے لیکن اس سے نہ تو نبی کریمe کبیدہ
خاطر ہوئے اور نہ ہی ازواج النبیe میں رقابت وحسد کا جذبہ پیدا ہوا‘ یہ انسانی فطرت کے
وقتی مسائل تھے جو بہتر تربیت کی وجہ سے از خود حل ہو گئے۔ مثلاً ام المؤمنین سیدہ
میمونہr نے
ایک دفعہ یہ سمجھ کر کمرے کا دروازہ بند کر لیا کہ نبی کریمe پاک
ان کی باری میں دوسری ازواج کے پاس گئے تھے‘ ان کی اس غلط فہمی کو حضور پاکe نے
یہ کہہ کر ختم کیا کہ میں باہر پیشاب کرنے گئے تھے۔ ایک مرتبہ سیدہ سودہr سیدہ
عائشہr کے
پاس تشریف لائیں تو انہوں نے کھانے کا حلوہ پیش کیا۔ سیدہ سودہr نے
وہ حلوہ ان کے چہرے پر مل دیا۔ پھر بھی انہوں نے برا نہیں مانا اور نہ ہی تعلقات میں
کمی آئی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ عائشہr اور سیدہ سودہr کی عمر میں کافی تفاوت تھا‘ یہ جوان تھیں اور وہ بوڑھی
پھر بھی سیدہ عائشہr نے
ان سے مذاق کیا۔ سوکناپے کا یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ نبی کریمe سیدہ
زینب بنت جحشr کے
یہاں شہد پیتے جو ان کے پاس کہیں سے آیا تھا‘ اس عمل کی وجہ سے نبی کریمe کچھ
زیادہ وقت وہاں گذارتے تھے۔ اس صورتحال سے سیدہ عائشہr اور سیدہ حفصہr پریشان ہو گئیں۔ انہوں نے وقفے کی مدت کو کم کرنے کا
پلان بنایا کہ جب آپe تشریف
لائیں تو سبھی ازواج کہیں کہ آپe کے
منہ سے مغافیر کی بو آ رہی ہے۔ سو دیگر ازواج نے ایسا ہی کیا اور تدبیر کارگر ثابت
ہوئی۔ رسول اللہe نے
ان کے پاس شہد نہ کھانے کا فیصلہ کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے نکیر فرمائی۔
اس واقعہ کے بعد بھی سیدہ زینب بنت جحشr نے
معاف کر دیا۔ اگر رسول اللہe کی
بیویوں میں عام عورتوں کی طرح حسد‘ جلن اور رقابت کا جذبہ ہوتا تو وہ واقعہ افک کا
بھر پور فائدہ اٹھاتیں اور سوکناپے کی روایت پر عمل کرتیں۔ کیونکہ رسول اللہe کو
سیدہ عائشہr سے
جس قسم کا قلبی لگاؤ تھا وہ تمام ازواج کے سامنے تھا لیکن ان نفوس قدسیہ نے ایسا نہیں
کیا۔ اس موقع پر جب کہ لوگ آپ کو دوسری شادی کرنے اور سیدہ عائشہr کو
طلاق دینے کا مشورہ دے رہے تھے سیدہ زینب بنت جحشr نے سوکناپے کی روایت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقت
حال اور کلمات خیر ہی ادا کیے۔ جس سے رسول اللہe کو یک گونہ قلبی سکون حاصل ہوا۔
سیدہ زینبr اپنی
سوکن کے لیے مددگار ومعاون ثابت ہوئیں۔ سیدہ سودہr نے سیدہ خدیجہr کی بچیوں کی مکہ میں اس وقت پرورش اور سرپرستی کی جب
بچے حقیقی ماں سے محروم ہو گئے تھے اور والد ہجرت کر کے مدینہ منورہ جا چکے تھے۔
مصائب وشدائد کے باوجود سیدہ سودہr نے خلق عظیم کا شیوہ اپنایا جو ان کے شوہر کا امتیاز
تھا۔ سیدہ عائشہr نے
سیدہ فاطمہr کی
شادی کے انتظامات خود کیے تھے۔ مثلاً انہوں نے سوتیلی بیٹی کے سسرالی مکان کی لیپا
پوتی کی‘ بستر تیار کیے‘ کھجور کی چھال دھن کر تکیے بنائے‘ مشک اور کپڑے لٹکانے کے
لیے لکڑی کی کھونٹی بنائی‘ دعوت میں چھوارے اور منقے پیش کیے۔ یہ سب کرتے ہوئے سوتیلا
پن ظاہر نہیں ہوا‘ روایتیں گواہ ہیں کہ ماں بیٹی کا رشتہ ہمیشہ خوش گوار رہا تھا۔
ان واقعات کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امہات المؤمنین کے
اندر سوکناپے کا جذبہ نہیں تھا‘ ان کی تریت کچھ اس انداز سے ہوئی تھی کہ ان لوگوں نے
اس جذبے کو عبادت وریاضت اور صدقہ وخیرات ودیگر افعال حسنہ کی طرف موڑ دیا تھا۔ انسانی
فطرت وجبلت کے حامل ان لوگوں نے اپنے عمل سے اپنی عائلی زندگی کو خوش گوار بنایا اور
پیغمبرانہ مشن میں معاون ومددگار ثابت ہوئیں۔
امہات المؤمنین کا اپنے والدین سے کسی بھی مطالبے سے پرہیز:
امہات المؤمنین نے پیغمبر آخر الزماں رسول اللہe سے
شادی کی تو انہیں اپنے شوہر کی پیغمبرانہ ذمہ داریوں کا احساس تھا اور ان کے معاشی
معاملات ومشکلات کا بھی قطعی علم رکھتی تھیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ جس حرم
میں جا کر انسانی تاریخ کا ایک باب بننے والی ہیں وہاں اور بھی مستورات بحیثیت بیوی
کے پہلے سے موجود ہیں۔ نان ونفقہ کے حوالے سے بھی وہ باخبر تھیں۔ انہیں علم تھا کہ
وہ ایک ایسے گھرانے اور خاندان کا حصہ بننے والی ہیں کہ جہاں رحمت وبرکت کا ہمہ وقت
ظہور ہو رہا تھا لیکن زہد وفقر کا بول بالا تھا۔
متاعِ حیات کے گراں مایہ کا یہاں نہ تو گزر تھا اور نہ ہی حرص
ولالچ کا کوئی شائبہ‘ مال ومتاع کو پس انداز کرنے کی کوئی روایت بھی نہیں تھی۔ اگر
کچھ تھا تو وہ آخرت کی کامیابی اور حصول یابی کی فکر تھی۔ چنانچہ اہل بیت نے کارخیر
کے کاموں میں دلچسپی دکھائی اور امت کو بطور نمونہ اور مثال‘ عمل کے ذریعہ انفاق فی
سبیل اللہ کا درس دیا۔
سسرالی مسائل ومشکلات اور وہاں کی فقر وفاقہ بھری زندگیوں اور
سوکنوں کے ساتھ رہائش کے مسائل اور نو خیز مسلم امت کی تعلیم وتربیت اور ان کے معاشی
استحکام کے لیے محنت ومشقت اور فقراء ومساکین کی خبر گیری اور کفالت کی شکایت کی اور
نہ ہی اپنے والدین سے ان لوگوں نے کسی قسم کا مطالبہ کیا‘ نہ درہم ودینار مانگے اور
نہ ہی غلام وباندیاں کہ وہ ان کا ہاتھ بٹاتے۔
امہات المؤمنینg نے
شادی کے وقت جو عہد وپیماں کیا تھا اور پیغمبرانہ مشن کے ممبر کی حیثیت سے ذمہ داری
کا جو عہد لیا اس پر وہ تا حیات قائم رہیں اور صبر وشکر کی پیکر بنی رہیں۔ انہوں نے
رب کے علاوہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے قطعی پرہیز کیا اور کسی پر بوجھ نہ بنیں۔
یہ روایت بیان کی جا چکی ہے کہ ایک دفعہ سیدنا عمر فاروقt نے
سیدہ سودہr کے
پاس درہموں کی ایک تھیلی بھیجی تو آپr نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ بتایا گیا کہ اس میں درہم
ہیں‘ بولیں کہ تھیلی میں درہم کھجور کی طرح بھرے ہوئے ہیں‘ اس کے بعد اس مجلس میں وہ
تمام درہم غریبوں اور مسکینوں میں کھجوروں کی طرح تقسیم فرما دیئے۔
یہ صفت اور یہ امتیاز امہات المؤمنینg کا تھا اس لیے انہیں خیر امت کا لقب اور د رجہ حاصل
تھا۔
No comments:
Post a Comment