ایصالِ ثواب کا صحیح طریقہ
تحریر: جناب مولانا
عبداللطیف
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{كلُّ نَفْسٍ ذَائقَة
الْمَوْتِ ثُمَّ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ} (العنكبوت: ۵۷)
’’ہر شخص کو موت
کا مزا چکھنا ہے۔ پھر تم ہماری طرف ہی لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
موت کوکثرت سے
یاد کرنا چاہیے! سیدناعبداللہ ابن عمرw سے روایت ہے کہ میں نبیe کے
ساتھ تھا اتنے میں ایک انصاری مرد آپ کے پاس آیا اور سلام کیا پھر عرض کیا یا رسول
اللہ! کونسا مومن افضل ہے تمام مومنوں میں سے؟ آپ نے فرمایا کہ جس کے اخلاق اچھے ہوں
پھر اس نے پوچھا کون سا دا نا ہے ان میں سے؟ آپ eنے فرمایا:
[اَكثَرُهمْ لِلْمَوْتِ
ذِكرًا وَاَحْسَنُهمْ لِمَا بَعْدَه اسْتِعْدَادًا اُوْلَئِك الْاَكیَاسُ](ابن ماجه:
۴۲۵۹)
’’جو موت کو بہت
یاد کرتا ہے اور موت کے بعد کے لئے اچھی تیاری کرتا ہے وہی عقلمند ہے۔‘‘
مسلمان کی دعا:
{وَالَّذِیْنَ جَآئُوْ
مِنْ بَعْدِهمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا
بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ
اِنَّك رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ} (الحشر)
’’نیز (یہ مال) ان
لوگوں کا (حق ہے) جوان سب کے بعد آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! بخش دے ہمیں
بھی اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں
ایمان والوں کے لئے کسی قسم کا کوئی کھوٹ نہ رکھ‘ اے ہمارے رب! بلاشبہ تو بڑا ہی شفیق
انتہائی مہربان ہے۔‘‘
سیدہ ام درداءr بیان
کرتی ہیں کہ اللہ کے رسولe فرمایا
کرتے تھے کہ:
[دَعْوَة الْمَرْئِ
الْمُسْلِمِ لِاَخِیْه بِظَھْرِ الْغَیْبِ مُسْتَجَابَة،عِنْدَ رَاْسِه مَلَك مُوَكلٌ
كلَّمَا دَعَا لِاَخِیْه بِخَیْرٍ،قَالَ الْمَلَك الْمُوَكلُ آمِیْنَ وَلَك بِمِثْلٍ۔]
’’مسلمان آدمی کی
وہ دعا قبول ہو تی ہے جو وہ اپنے بھائی کے لیے پیٹھ پیچھے کرتا ہے۔اس کے سر کے پاس
ایک فرشتہ مقرر ہے،جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے دعا کرتا ہے تو مقرر فرشتہ کہتا ہے
آمین اور تجھے بھی اس کی مثل عطا کیا جائے۔ (مسلم: ۲۷۳۳ کتاب الذکر والدعاء
والتوبۃ والاستغفار باب فضل الدعاء للمسلمین بظھر الغیب)
سیدہ عائشہr بیان
کرتی ہیں کہ نبی کریم e نے
فرمایا: بلا شبہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان (اہل قبور) کے لیے دعا کروں۔ (صحیح:
احکام الجنائزو بدعھا: ۲۳۹‘ مسند احمد: ۶/۲۵۲)
میت کی طرف سے
روزوں کی قضائی دینا!
سیدہ عائشہr سے
مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[مَنْ مَاتَ وَعَلَیْه
صِیَامٌ صَامَ عَنْه وَلِیُّه۔]
’’جو شخص فوت ہوجائے
اور اس کے ذمے روزے ہوں تو اس کا ولی اسکی طرف سے روزے رکھے گا۔‘‘
میت کی نذرپوری
کرنا:
سیدنا سعد بن عبادہt نے رسول اللہ e سے دریافت کیا کہ:
[اِنَّ اُمِّیْ مَاتَتْ
وَعَلَیْھَا نَذْرٌ لَم ْتَقْضه فَقَالَ: اِقْضِه عَنْھَا۔]
’’بیشک میری والدہ
وفات پا گئی ہے اور اس کے ذمے نذر ہے (تو میں کیا کروں)؟آپ e نے فرمایا کہ تم اس کی طرف سے نذرپوری کردو۔‘‘ (صحیح
ابو داؤد: ۲۸۲۸)
میت کی طرف سے
قرض کی ادائیگی:
سیدنا سلمہ بن اکوعt سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ e کی
خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔لوگوں نے آپ e سے
عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔اس پر آپ e نے پوچھا: [فَھَلْ عَلَیْه دَیْنٌ؟] کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ ہاں اس پر قرض ہے۔
آ پ e نے
دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی مال نہیں چھوڑا۔
آپ e نے اس کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا تو ایک
صحابی نے آگے بڑھ کر اس قرض کی ذمہ داری لی تو آپe نے پھر نماز پڑھائی۔
صالح اولاد جو
بھی نیک کام کرے:
{وَاَنْ لَّیْسَ
لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰی}(النجم: ۳۹)
’’ اور یہ کہ انسان
کے لیے وہی ہے جو اس نے کمایا۔‘‘
اور اولاد انسان کی کوشش اور کمائی میں سے ہی ہے جیسا کہ حدیث
نبویe ہے
کہ
[اِنَّ مِنْ اَطْیَبِ
مَا اَكلَ الرَّجُلُ مِنْ كسْبِهٖ، وَوَلَدُه مِنْ كسْبِهٖ۔]
’’بے شک سب سے پاکیزہ
چیز جسے انسان کھاتا ہے وہ اس کی (اپنے ہاتھوں کی)کمائی ہے اور اس کی اولاد بھی اس
کی کمائی میں سے ہی ہے۔‘‘(صحیح ابوداؤد: ۳۰۱۳)
اس طرح نیک اولاد جو بھی اعمال صالحہ کریں گے اس کا اجر ان کے
والدین کو بھی ملے گا۔
جنت میں درجات
کی بلندی!
سیدناابو ہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایاکہ
[اِنَّ الله لَیَرْفَعُ
الدَّ رَجَة لِلْعَبْدِ الصَّا لِحِ فِیْ الْجَنَّة، فَیَقُوْلُ: یَا رَبِّ!اَنَّ لِیْ
ھٰذِه؟ فَیَقُوْلُ: بِاِسْتِغْفَارِ وَلَدِك۔]
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ
جنت میں نیک بندے کا درجہ بلند فرماتے ہیں تو بندہ عرض کرتا ہے کہ اے اللہ!یہ درجہ
مجھے کیوں دیا گیا؟اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یہ درجہ تیرے لیے تیرے بیٹے کی استغفار
سے حاصل ہوا ہے۔‘‘ (احمد: ۶/۴۱‘ ابوداؤد: ۵۱۴۲‘ ابن ماجہ: ۳۶۶۹)
میت کی طرف سے
حج کرنا!
سیدنا بریدہt سے
روایت ہے کہ
[بَیْنَا اَنَا جَالِسٌ
عِنْدَ رَسُولِ اللّٰهﷺ إِذْ اَتَتْه امْرَاَة فَقَالَتْ إِنِّی تَصَدَّقْتُ عَلَی
اُمِّی بِجَارِیَة وَإِنَّها مَاتَتْ قَالَ: فَقَالَﷺ: ’وَجَبَ اَجْرُك وَرَدَّها عَلَیْك
الْمِیرَاثُ۔‘ قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰه! إِنَّه كانَ عَلَیْها صَوْمُ شَهرٍ اَفَاَصُومُ
عَنْها؟ قَالَﷺ: ’صُومِی عَنْها۔‘ قَالَتْ: إِنَّها لَمْ تَحُجَّ قَطُّ اَفَاَحُجُّ
عَنْها؟ قَالَ: ’حُجِّی عَنْها۔‘]
’’میں رسول اللہ
e کے
پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنی ماں پر ایک باندی
صدقہ کی تھی اور وہ فوت ہوگئی ہے‘ آپ eنے فرمایا کہ تیرا اجر لازم ہے اور وراثت نے تجھ پر اسے لوٹا
دیا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ اس پر ایک ماہ کے روزے بھی لازم تھے کیا میں اس کی طرف
سے روزے رکھوں؟ آپ e نے
فرمایا کہ تو اس کی طرف سے روزے رکھ لے۔ اس عورت نے عرض کیا کہ میرں ماں نے حج نہیں
کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی کر لوں؟ آپe نے فرمایا کہ اس کی طرف سے حج بھی کر لے۔‘‘ (مسلم: ۱۱۴۹)
صدقہ جاریہ اور
اچھے اثرات!
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
{اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ
الْمَوْتٰی وَنَكتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهم}
(یٰسین)
’’بلاشبہ ہم ہی مردوں
کو زندہ کرتے ہیں۔ ہم ان کے وہ اعمال بھی لکھتے جاتے ہیں جو وہ آگے بھیج چکے اور وہ
آثار بھی جو پیچھے چھوڑ گئے۔‘‘
سیدنا ابوہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ
انْقَطَعَ عَنْه عَمَلُه إِلَّا مِنْ ثَلَاثَة إِلَّا مِنْ صَدَقَة جَارِیَة اَوْ عِلْمٍ
یُنْتَفَعُ بِه اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَه۔]
’’جب انسان مر جاتا
ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں: 1 صدقہ جاریہ 2 وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے 3 نیک
اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔‘‘ (مسلم: ۱۶۳۱ )
مسجد یا مسافر خانے کی تعمیر جو وہ اپنی زندگی میں کر گیا ہو!
سیدنا ابو ہریرہt سے
روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
[إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ
الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِه وَحَسَنَاتِه بَعْدَ مَوْتِه عِلْمًا عَلَّمَه وَنَشَرَه
وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكه وَمُصْحَفًا وَرَّثَه اَوْ مَسْجِدًا بَنَاه اَوْ بَیْتًا
لِابْنِ السَّبِیلِ بَنَاه اَوْ نَهرًا اَجْرَاه اَوْ صَدَقَة اَخْرَجَها مِنْ مَالِه
فِی صِحَّتِه وَحَیَاتِه یَلْحَقُه مِنْ بَعْدِ مَوْتِه۔]
’’مومن کے مرنے کے
بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ان میں سے چند اعمال یہ ہیں:
علم جو لوگوں کو سکھا کر پھیلایا (اس میں تدریس، وعظ، تصنیف وافتاء وغیرہ سب داخل ہیں)
اور جو صالح اولاد چھوڑی اور قرآن کریم (مصحف) جو میراث میں چھوڑا یا کوئی مسجد بنائی
یا مسافر خانہ بنایا یا کوئی نہر جاری کی یا جیتے جاگتے صحت وتندرستی میں اپنی کمائی
سے کچھ صدقہ کر دیا ان سب کا اجر اسے مرنے کے بعد ملتا رہے گا۔‘‘ (ابن ماجہ: ۲۴۲-المقدمہ)
کفارومشرکین کووفات کے بعد کسی چیزکا بھی فائدہ نہیں ہوگا!
عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ سے روایت ہے کہ
[اَنَّ الْعَاصَ
بْنَ وَائِلٍ اَوْصَی اَنْ یُعْتِقَ عَنْه مِائَة رَقَبَة فَاَعْتَقَ ابْنُه هشَامٌ
خَمْسِینَ رَقَبَة فَاَرَادَ ابْنُه عَمْرٌو اَنْ یُعْتِقَ عَنْه الْخَمْسِینَ الْبَاقِیَة
فَقَالَ حَتَّی اَسْاَلَ رَسُولَ اللّٰهﷺ فَاَتَی النَّبِیَّﷺ فَقَالَ یَا رَسُولَ
اللّٰه إِنَّ اَبِی اَوْصَی بِعَتْقِ مِائَة رَقَبَة وَإِنَّ هشَامًا اَعْتَقَ عَنْه
خَمْسِینَ وَبَقِیَتْ عَلَیْه خَمْسُونَ رَقَبَة اَفَاُعْتِقُ عَنْه فَقَالَ رَسُولُ
اللّٰهﷺ إِنَّه لَوْ كانَ مُسْلِمًا فَاَعْتَقْتُمْ عَنْه اَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْه
اَوْ حَجَجْتُمْ عَنْه بَلَغَه ذَلِك۔]
’’بے شک عاص بن وائل
نے وصیت کی تھی کہ (مرنے کے بعد) اس کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں۔ پس اس کے بیٹے
ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے اور اس کے دوسرے بیٹے عمر نے بقیہ پچاس غلام آزاد کرنے
کا ارادہ کیا۔ لیکن اس نے کہا کہ پہلے میں اس سلسلہ میں رسول اللہe سے
دریافت کر لوں پس وہ رسول اللہ e کی
خدمت میں آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے باپ نے سو غلام آزاد کرنے کی ہم کو
وصیت کی تھی (میرے بھائی) ہشام نے پچاس غلام آزاد کر دیئے ہیں اور میرے ذمہ بقیہ پچاس
غلاموں کو آزاد کرنا باقی ہے تو کیا میں اپنے باپ کی طرف سے ان کو آزاد کردوں؟ آپ
نے فرمایا کہ اگر وہ (تیرا باپ) مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا
اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کو ان چیزوں کا ثواب ملتا۔
(لیکن چونکہ اس کی موت حالت کفر میں ہوئی ہے اس لئے اب اس کے لئے کوئی عمل مفید نہیں
ہو گا۔‘‘ (ابوداؤد: ۲۸۸۳-الوصایا)
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنے پیارے فوت شدگان کو ایصال ثواب کے
لیے مسنون طریقہ اختیار کیا جائے۔ خود ساختہ اور من گھڑت طریقوں سے اجتناب کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق دے۔ آمین!
وآخردعوان ان الحمد لله رب العٰلمین
No comments:
Post a Comment