احکام ومسائل
جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت: مرکز
الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان ای میل: markaz.dirasat@gmail.com
ایک تہائی سے زیادہ وصیت
O میرے
ماموں فوت ہوئے‘ ان کے دو بھائی زندہ ہیں جو صاحب حیثیت ہیں‘ ماموں مرحوم نے اپنی تمام
جائیداد بطور وصیت ایک مسجد کے نام کر دی ہے۔ میرے دوسرے ماموں یعنی مرحوم کے بھائی
اپنے حصے کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس مسئلہ کی وضاحت فرما دیں۔
P ہمارے معاشرے میں کچھ دیندار حضرات بہت انتہاء پسند
ہوتے ہیں۔ انہیں اپنے شرعی ورثاء کو محروم کر کے اپنی آخرت بنانے کی فکر دامنگیر رہتی
ہے۔ لیکن رسول اللہe نے
اس فکر کو پسند نہیں فرمایا۔ جیسا کہ سیدنا سعد بن ابی وقاصt اپنا
واقعہ خود بیان کرتے ہیں جبکہ وہ فتح مکہ کے موقع پر بیمار ہوئے اور رسول اللہe ان
کی تیمار داری کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا! اللہ کے رسول! کیا میں اپنے
مال کی وصیت کر سکتا ہوں؟ رسول اللہe نے فرمایا کہ تم ایسا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے عرض کیا:
اپنے نصف مال کی؟ آپe نے
فرمایا: نہیں۔ نصف مال کی بھی وصیت نہیں کر سکتے۔ پھر انہوں نے عرض کیا: کیا ایک تہائی
کی وصیت کر سکتا ہوں؟ آپe نے
فرمایا: ہاں! تیسرے حصے کی وصیت درست ہے لیکن یہ بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے
ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں تنگ دست ومحتاج چھوڑو اور
وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔ تم جو مال بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے
لیے صدقہ ہو گا۔ حتی کہ وہ لقمہ جسے تم توڑ کر اپنی بیوی کے منہ میں ڈالو گے وہ بھی
صدقہ ہے۔ (بخاری‘ الوصایا: ۲۷۴۲)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وصیت ایک تہائی سے زیادہ نہیں ہونا
چاہیے۔ اگر کوئی اس حد سے بڑھ جائے تو اسے نافذ نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے کم کر کے
ایک تہائی تک لایا جائے گا۔ ہاں اگر وارث اجازت دیں تو ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت
کی جا سکتی ہے۔ نیز اگر اس کے وارث نہ ہوں تو بھی ایک تہائی سے زائد وصیت کرنے میں
کوئی مضائقہ نہیں۔
صورت مسئولہ میں سائل کے ماموں نے اپنے تمام مال کی مسجد کے
نام وصیت کی ہے جو شرعا ناجائز ہے جبکہ اس کے بھائی وراثت کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔ اس
کا حل یہ ہے کہ متروکہ جائیداد کے تین حصے کر دیئے جائیں۔ ایک حصہ مسجد کے نام رہنے
دیا جائے اور باقی دو حصے مرحوم کے دونوں بھائیوں کو دے دیئے جائیں۔ واللہ اعلم!
ہم جنس اشیاء کا اضافے کے ساتھ تبادلہ کرنا
O ہمارے
ہاں صرافہ بازار میں ایک کاروبار چلتا ہے کہ اعلیٰ کوالٹی کے سونے کا تبادلہ گھٹیا
کوالٹی کے سونے کے ساتھ کمی بیشی سے کیا جاتا ہے۔ کیا شرعی طور پر ایسا کرنا جائز ہے؟
کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
P کتاب وسنت کے مطابق ہم جنس اشیاء کا کمی بیشی کے ساتھ
تبادلہ کرنا سود ہے خواہ نقد بنقد ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہe نے
اس قسم کی خرید وفروخت سے منع فرمایا ہے اور برابر‘ برابر لینے دینے کا حکم دیا ہے۔
جیسا کہ ایک حدیث میں اس امر کی صراحت آتی ہے۔ (مسلم‘ المساقاۃ: ۱۵۹۳)
ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے‘ سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ رسول اللہe نے
ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا‘ وہ عمدہ قسم کی کھجوریں لے کر آپe کی
خدمت میں حاضر ہوا تو آپe نے
فرمایا: ’’کیا خیبرکی تمام کھجوریں ایسی ہی ہوتی ہیں؟‘‘ اس نے عرض کیا اللہ کے رسول!
نہیں‘ اللہ کی قسم! ہم اس عمدہ کھجور کے ایک صاع کو دوسری کھجوروں کے دو صاع کے عوض
اور دو صاع کو تین صاع کے عوض خرید لیتے ہیں۔ اس پر رسول اللہe نے
فرمایا: ’’ایسا مت کیا کرو‘ بلکہ تم ان ردی کھجوروں کو دراہم کے عوض فروخت کر کے پھر
ان دراہم سے عمدہ کھجور خرید لیا کرو۔‘‘ (بخاری‘ البیوع: ۲۲۰۲)
اسی طرح کا ایک واقعہ سیدنا بلالt سے بھی منقول ہے۔ اس کے متعلق رسول اللہe نے
فرمایا تھا: ’’افسوس! یہ تو بعینہٖ سود ہے۔ آئندہ ایسا مت کرنا۔‘‘ (مسلم‘ المساقاۃ:
۱۵۹۴)
اس ضابطہ نبوی کے حوالے سے آج کل یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اگر
ایک جنس مثلاً کھجور بہتر قسم کی ہو اور دوسری کمتر کوالٹی کی ہو جیسا کہ مذکورہ واقعات
میں ہے تو دونوں کو ہم مقدار رکھنا کیسے قرین انصاف ہو سکتا ہے؟ جبکہ اسلام نے ہمیں
عدل وانصاف کا حکم دیا ہے۔ اس سوال کا جواب بایں طور دیا گیا ہے کہ مدفوع کی کھجور
یا گندم بنیادی طور پر انسان کی بھوک مٹاتی ہے‘ محض تنوع یا ذائقے میں فرق رکھنے کے
اعتبار سے تبادلے کی گنجائش ہے لیکن بھوک مٹانے میں دونوں برابر ہیں۔ اس بناء پر تبادلہ
کرتے وقت دونوں کی مقدار برابر رکھی جائے گی۔ عدل وانصاف کا یہی تقاضا ہے۔ اگر کوئی
شخص یہ سمجھتا ہے کہ غذائی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک نوع دوسری نوع سے بہتر ہے‘ اس
لیے ان دونوں کا تبادلہ کرتے وقت فرق کو ملحوظ رکھا جائے‘ عام آدمی کے پاس تو ایسا
کوئی آلہ یا ترازو نہیں جو عدل وانصاف کے مطابق ایک کوالٹی کے دوسری کوالٹی سے تبادلے
میں دونوں کی مقداریں صحیح طور پر متعین کر سکے‘ اس لیے رسول اللہe نے
اس کا حل یہ بتایا ہے کہ گھٹیا کوالٹی کی نقدی کے ذریعے سے قیمت طے کر لو اور اسے طے
شدہ نقدی کے عوض فروخت کر دو پھر اعلیٰ کوالٹی کی قیمت بھی بذریعہ نقدی طے کر لو اور
اسے نقدی کے عرض خرید لو‘ اس طرح عدل وانصاف کے تقاضے صحیح معنوں میں پورے ہو جائیں
گے۔ کوالٹی کا فرق کتنا ہے؟ اس کو وزن یا ماپ کے ذریعے متعین نہیں کیا جا سکتا۔ اسے
قیمت کے ذریعے ہی معلوم کیا جا سکتا ہے۔ کوالٹی کے تعین کے لیے قیمت ہی ایک غیر جانبدار
اور مناسب ترین ذریعہ ہے۔ اگر قیمت کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ محض وزن کی کمی
بیشی کے ذریعے سے کام چلانے کی کوشش کی جائے تو دونوں میں ایک فریق کا حق ضرور مارا
جائے گا۔ کوالٹی کا فرق متعین کرنے کے لیے اگر وزن کو معیار بنایا گیا تو باہمی رضا
مندی کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوں گے جو صحت کاروبار کے لیے ضروری ہیں۔
صورت مسئولہ میں بھی اچھی کوالٹی کے سونے کا تبادلہ کمتر سونے
سے کمی بیشی کے ساتھ کیا جا رہا ہے جسے رسول اللہe نے سود قرار دیا ہے۔ اس سودی معاملہ سے بچنے کے لیے
وہی طریقہ اختیار کیا جائے جو رسول اللہe نے تجویز فرمایا ہے کہ اگر زیادہ قیراط والے سونے کے
عوض کم قیراط والے سونے کو کمی بیشی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہو تو پہلے عمدہ سونے کو
روپے کے عوض فروخت کر دیا جائے پھر حاصل ہونے والے روپے کے عوض سونا خرید لیا جائے۔
لیکن جنس کی کمی بیشی کے ساتھ تبادلہ نہ کیا جائے کیونکہ ایسا کرنا صریح سود ہے جیسا
کہ رسول اللہe نے
فرمایا ہے۔ واللہ اعلم!
قرض کے بدلے کرایہ میں کمی
O میرے
ایک دوست کو قرض لینے کی ضرورت پیش آئی تو اس نے کسی سے دس لاکھ روپیہ چھ ماہ کے لیے
قرض لیا اور اسے اپنا مکان دس ہزار روپیہ ماہانہ کرایہ پر دے دیا جبکہ اس کا کرایہ
پندرہ ہزار روپے تھا۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟!
P شریعت کی نظر میں ایسا کام جائز نہیں۔ کیونکہ اس میں
ایک تو دوسرے کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہے‘ جسے ہمارا اسلام جائز نہیں کہتا۔
پھر اس میں بہت سنگین قسم کی قباحت ہے۔ وہ اس طرح کہ جس نے کسی سے دس لاکھ روپیہ چھ
ماہ کے لیے قرض لیا ہے اسے اس قرض کے عوض پندرہ ہزار ماہانہ کرایہ والا مکان دس ہزار
ماہوار کرایہ پر دے دیا ہے۔ کرایہ میں یہ کمی اس قرض کی وجہ سے ہے جو اس نے چھ ماہ
کے لیے اس سے لیا ہے اور جس قرض سے کوئی بھی فائدہ اٹھایا جائے وہ شریعت کی نظر میں
سود شمار ہوتا ہے‘ جیسا کہ درج ذیل واقعہ سے معلوم ہوتا ہے:
سیدنا ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعریw کہتے ہیں کہ میں کوفہ کی سرزمین سے مدینہ طیبہ آیا تو
سیدنا عبداللہ بن سلامt سے
میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم میرے گھر نہیں آتے؟ میں تمہیں ستو اور کھجور
کھلاؤں گا۔ تم میرے گھر میں آؤجو رسول اللہe کی تشریف آوری کی وجہ سے بابرکت ہے۔ پھر فرمایا: تم
ایسی سرزمین میں رہتے ہو جہاں سودی لین دین کا بہت رواج ہے۔ اگر تمہارا کسی شخص کے
ذمے کوئی حق (قرض) ہو اور وہ تمہیں توڑی کا گٹھڑیا‘ جَو کا گٹو یا چارہ وغیرہ بطور
ہدیہ بھیجے تو اسے قبول مت کرنا کیونکہ یہ سود ہے۔‘‘ (بخاری‘ مناقب: ۳۸۱۴)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کو قرض دیا جائے اس سے کسی
قسم کی بیگار یا سہولت لینا سود ہے۔
صورت مسئولہ میں بھی دس لاکھ قرض دے کر مقروض سے پندرہ ہزار
کرایہ والا مکان دس ہزار میں لیا گیا ہے جو شرعا جائز نہیں۔ ہمارے معاشرہ میں اس طرح
کی متعدد صورتیں رائج ہیں جو شرعا جائز نہیں۔ مثلاً
\ قرض کے عوض
زمین وغیرہ گروی رکھی جاتی ہے۔ اسے کاشت کر کے اس کی پیداوار سے فائدہ اٹھایا جاتا
ہے‘ ایسا کرنا بھی جائز نہیں۔
\ موبائل کمپنیوں
کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم رکھی جاتی ہے وہ اس کے عوض کچھ منٹ یا میسج بھیجنے کی سہولت
دیتے ہیں‘ ایسا کرنا بھی درست نہیں۔ واللہ اعلم!
No comments:
Post a Comment