Sunday, December 08, 2019

درسِ قرآن وحدیث 46-2019


درسِ قرآن
مومن عورتوں کو حیاء کا حکمِ قرآنی
ارشادِ باری ہے:
﴿وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ يَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُيُوْبِهِنَّ وَ لَا يُبْدِيْنَ زِيْنَتَهُنَّ﴾ (النور)
’’مسلمان عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت (بناؤ سنگھار )کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پراپنی اوڑھنیوں کے بکل مارے رکھیں اور اپنے سنگھار کو ظاہر مت کریں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جس طرح مومن مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم فرمایا وہیں مومن عورتوں کو بھی نظریں جھکانے اور شرمگاہوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے کہ وہ مردوں پر نظر ڈالنے سے اپنی آنکھوں کو بچائے رکھیں کیونکہ یہ چیز فتنہ کی طرف لے جانے والی ہے۔ امہات المومنین جو مسلمان عورتوں کے لیے نمونہ ہیں جن کی تربیت براہ راست حضور اکرمe کے زیر سایہ ہوئی ہےان کے لیے بھی مصلح  اعظمe کا یہی حکم تھا کہ اجنبی مردوں پر نظر پڑنے سے اپنے آپ کو بچائیں۔ سیدنا عبد اللہ بن ام مکتومt جو کہ ایک نابینا صحابی تھے، نبی کریمe کے گھر تشریف لائے تو سیدہ میمونہ اور سیدہ ام سلمہ w نبی کریم e کے پاس تشریف فرما تھیں۔ آپ e نے حکم دیا کہ ’’حجاب کرو۔‘‘  فرمانے لگیں: "وہ تو نابینا ہیں"‘ آپe نے فرمایا: ’’تم تو اسے دیکھ سکتی ہونا!‘‘ گویا شریعت نے ہر اس چیز سے بچنے کا حکم دیا ہے جو فتنہ کی طرف لے جانے والی ہو۔
اسی کے ساتھ مذکورہ آیت میں خواتین کو اپنی زیب وزینت کی نمائش سے بھی روکا گیا ہے اور اس میں خوبصورت لباس، زیورات اور تمام بدن شامل ہے۔ جبکہ صرف اس چیز کی اجازت دی گئی ہے جس کا ظاہر ہونا لازمی ہے۔ لیکن اس [اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا] ’’مگر جو ظاہر ہے‘‘ سے بیسیوں معانی اخذکرتے ہوئے فتنہ کو گھسنے کی جگہ دی جاتی ہے۔ جبکہ سیدنا عبد اللہ بن مسعودt فرماتے ہیں کہ اس سے مراد عام لباس ہے جو ایک عورت ستر پوشی کےلیے پہنتی ہےاور اس کی دلیل قرآن پاک کی آیت ہے: ﴿يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكمْ عِنْدَ كلِّ مَسْجِدٍ﴾ (الاعراف) اے اولاد آدم!تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو"چونکہ ظاہری لباس جس کو عادت کے مطابق پہنا جاتا ہے، کی نمائش کو روکانہیں جاسکتاہے اسی لیے فرمایا "مگر جو اس زینت سے ظاہر ہو‘ "یعنی وہ سادہ لباس جوعام طور پر پہنا جاتا ہے اور اس لباس میں ایسی کوئی چیز نہ ہو جو فتنہ کو دعوت دیتی ہو۔
ان خوبصورت احکامات اور وصیتوں پر اگر عمل کرنے میں اب تک کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں تو اللہ نے آیت کے آخر میں توبہ کی نصیحت کی ہے جو تلافی ماضی کا ایک ذریعہ ہے –ہمیں چاہیے کہ ماضی کی کوتاہیوں پر اشک ندامت بہاتے ہوئے آئندہ کی زندگی اللہ کے احکامات کے مطابق بسر کرنے کاعزم مصصم کریں تاکہ فتنوں اور آزمائشوں سے بچا جاسکے۔

درسِ حدیث
تین بہترین اموال
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ: ﴿وَالَّذِیْنَ یَكنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّة﴾ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ: أُنْزِلَتْ فِي الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ؟ لَوْ عَلِمْنَا أَيُّ المَالِ خَيْرٌ فَنَتَّخِذَهُ؟ فَقَالَ: "أَفْضَلُهُ لِسَانٌ ذَاكِرٌ، وَقَلْبٌ شَاكِرٌ، وَزَوْجَةٌ مُؤْمِنَةٌ تُعِينُهُ عَلَى إِيمَانِهِ."] (جامع الترمذي)
’’ثوبانt سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (جس کا ترجمہ ہے): ’’جو لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں۔‘‘ تا آخر آیت اس وقت ہم نبی کریمe کے ساتھ کسی سفر میں شریک تھے اس آیت کو سن کر بعض صحابہ کرام] نے کہا: یہ آیت سونے اور چاندی (کی مذمت) میں نازل ہوئی ہے۔ کاش ہمیں پتہ چل جائے کہ کونسا مال بہتر ہے ہم (سونے چاندی کے بجائے) وہ مال حاصل کر لیں۔ آپe نے فرمایا: ’’بہترین مال وہ زبان ہے جو اللہ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور وہ دل ہے جو شکر ادا کرتا ہو اور وہ ایمان دار بیوی ہے جو دینی معاملات میں خاوند کی مددگار بنتی ہے۔‘‘ (جامع ترمذی)
صحابہ کرام] کی ہر وقت یہی کوشش ہوتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح نیکیاں حاصل کر لیں اور ایسا عمل کریں جو دنیا و آخرت کے لئے نفع بخش ہو۔ جب سفر کے دوران ﴿وَالَّذِیْنَ یَكنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّة﴾ تا آخر سورہ نازل ہوئی تو انہیں فکر لاحق ہوئی کہ سونا چاندی جمع کرنا تو جہنم کی آگ کو دعوت دینا ہے‘ لہٰذا ہمیں کسی ایسے مال کا علم ہو جائے جو ہمارے لئے نفع بخش ہو‘ ہم وہ مال جمع کر لیں۔
رسول اللہe نے ان کی بات سن کر فرمایا: تین چیزیں بہترین مال ہیں‘ پہلی چیز وہ زبان ہے جس پر ہمیشہ اللہ کا ذکر جاری رہتا ہو۔ اسلام نے زبان کی حفاظت کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے سچی زبان، عمدہ کلام اور خوش گفتاری بہترین مال ہے اور دوسری بہترین چیز جسے رسول اللہe نے عمدہ مال قرار دیا ہے وہ ایسا دل ہے جو اللہ کا شکر ادا کرتا ہو۔ شکر گزار بندہ ہمیشہ صاف دل والا ہوتا ہے اور جو دل اللہ کی یاد سے غافل ہو وہ شکر ادا نہیں کرتا اور تیسری چیز ہے جسے آپe نے عمدہ مال قرار دیا وہ ایمان دار بیوی ہے جو نیکی کے کاموں میں اپنے خاوند کا ہاتھ بٹائے۔ نیک کاموں کی ادائیگی کے لئے اسے فارغ رکھے، ہمیشہ اپنے ہی معاملات میں نہ پھنسائے رکھے بلکہ نیکی کا سبق بھی دے اور نیکی کرنے کے لئے اسے وقت بھی دے۔
آپe نے فرمایا: ’’وہ جوڑا انتہائی خوش بخت جو ایک دوسرے کو نماز کے لئے جگائے اور نیکی میں معاونت کرے۔ ‘‘


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)