درسِ قرآن
شرعی امور میں تبدیلی پر سزا
ارشادِ باری ہے:
﴿فَبَدَّلَ الَّذِيْنَ
ظَلَمُوْا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِيْ قِيْلَ لَهُمْ فَاَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا
رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ﴾ (البقرة)
’’پھر ان لوگوں نےٍ
جنہوں نے ظلم کیا ، بات کو بدل دیا جو ان سے کہی گئی تھی ، تو ہم نے ان لوگوں پر جنہوں
نے ظلم کیا تھا، آسمان سے ایک عذاب نازل کیا ، اس لیے کہ وہ نافرمان تھے۔‘‘
آیت مذکورہ میں بنی اسرائیل کے ایک ایسے نامناسب رویہ کی طرف اشارہ ہے جو انتہائی سنگین
ہے ۔ آج مسلمانوں میں سے بھی بعض افراد اپنی نادانی اور ناسمجھی کی وجہ سے اسی غیر
مناسب رویہ کا شکار ہیں۔ سیدنا موسیu کی
سرپرستی میں جب بنی اسرائیل نے بیت المقدس
یا اس کے آس پاس کے کسی شہر کو فتح کیا تھا تو اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا
تھا کہ اس فتح کی شکر گزاری میں اللہ تعالی کے عاجز بندوں کی طرح سجدہ ریز ہو کر اپنے
گناہوں اور اپنی لغزشوں ،کوتاہیوں کی بخشش مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہوں ، آپ یوں
سمجھ لیں کہ یہ ویسا ہی حکم تھا جیسا کہ سورہ نصر میں فتح مکہ کے موقع پر تسبیح اور
استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔
مگر ان لوگوں نے اللہ کے حکم کو پس پشت ڈالا ، اورحکم کے بالکل الٹ کام کیا ، بستی میں داخل
ہوتے ہوئے سجدہ ریز ہونے کی بجائے اکڑ کر سرینوں کے بل گھسٹے ہوئے داخل ہوئے ، اور
توبہ استغفار کرنے کی بجائے اپنی زبان سے ٹھٹھہ کرتے ہوئے حنطة فی شعرة (یعنی بالی
میں دانہ ) کہتے ہوئے آگے بڑھے، ان کے اس مذاق اور اللہ کے بتائے کئے الفاظ ’’حطة‘‘
یعنی بخش دیجئے، کہنے کی بجائے اپنی زبانوں سے جان بوجھ کر کچھ اور بکنے کے سبب ان
پرقدرت کی طرف سے طاعون کا عذاب نازل کیا گیا تھا۔
اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے الفاظ کو جان بوجھ کر بدلنا اور اس کے ساتھ مذاق کرنا گویا اللہ کےعذاب کو دعوت
دینا ہے ، ذرا غور کیجئے کہ بعض اوقات ہم بھی اشاروں کنایوں ، ہنسی مذاق
اور محفل کو گرمانے اور خوش طبعی کے لیے فرشتوں ، قبر، جنت ، دوزخ اور اس میں
موجود نعمتوں جیسے حور و قصور اور ان جیسی دیگر اصطلاحات کاغلط استعمال کرتے ہیں ،
جبکہ ہمیں علم ہے کہ یہ اصطلاحات خاص ہیں اور ان کے خاص معانی ہیں ۔
یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن و حدیث میں مستعمل الفاظ و کلمات کو
حقیقی معانی کی بجائے غلط مفہوم میں استعمال کرنا اور حقائق اشیاء کو بدل کر بیان کرنا
بالخصوص جن کا تعلق شریعت سے ہے انتہائی سنگین
اور قابل مؤاخذہ جرم ہے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ایسی
حرکتوں، خوش طبعیوں اور لطیفوں سے احتراز کرنا چاہیے جس میں ان الفاظ و کلمات کو حقیقت
کے برعکس بیان کیا گیاہو۔
درسِ حدیث
تین مقدس مساجد
فرمان نبویﷺ ہے:
[لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا،
وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى] (متفق علیه)
سیدنا ابوسعید خدریt سے
روایت ہے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمe نے فرمایا: ’’رخت سفر نہ باندھا جائے مگر ان تین مساجد
کی طرف: مسجد حرام، میری یہ مسجد اور مسجد اقصیٰ۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اس حدیث میں کسی متبرک مقام کی طرف باقاعدہ تیاری کر کے
جانے کے متعلق ہدایات دی جا رہی ہیں۔ باقاعدہ نیت کر کے سازو سامان کے ساتھ سفر کا
ارادہ کرنا تا کہ وہاں جا کر برکت حاصل کی جائے صرف تین مقامات کی طرف جانے کی اجازت
ہے۔ وہ بھی مساجد ہیں، کسی مزار‘ میلے یا جشن کے لیے جانا درست نہیں۔ کیونکہ مومن کے
ہر کام میں خیر اور ثواب کا پہلو شامل ہوتا ہے۔
لہٰذا ان تین مساجد کی طرف سفر بھی عبادت شمار ہو گا۔ ان مساجد کی وضاحت خود
رسول اکرمe نے
فرما دی ہے: وہ ہیں مسجد حرام یعنی مکہ مکرمہ میں بیت اللہ، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی
اور فلسطین میں مسجد اقصیٰ۔
ان تین مساجد کی زیارت‘ اعتکاف اور عبادت کی غرض سے جائز ہے۔
اس لیے کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے اور بیت اللہ میں مناسک حج اور عمرہ
ادا ہوتے ہیں جس میں نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ہے۔ اور مسجد نبوی میں ایک
نماز کا ثواب پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہوتا ہے۔ مسجد نبوی کی طرف سفر کرنے کی نیت
سے ثواب ملے گا لیکن اگر کوئی اس نیت سے سفر کرتا ہے کہ وہاں روضۂ رسول ہے تو یہ درست
نہ ہو گا۔ سفر مسجد نبوی کی زیارت کی نیت سے کیا جائے وہاں پہنچ کر روضۂ رسولe پر
حاضری لازمی طور پر دی جائے بعض روایات میں مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار نماز
کے برابر ہوتا ہے۔ اس حدیث میں ان تین مساجد کی عظمت ومرتبہ کو بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا
ان مساجد کی زیارت کی نیت کر کے سفر کرنا جائز ہے‘ ان کے علاوہ کسی دوسرے مقام اور
جگہ کو متبرک سمجھ کر اور مقدس جان کر اس کی طرف سفر کا ارادہ کرنا جائز نہیں- ہاں
تعلیم اور تجارت کے لیے سفر کرنا کسی مسلمان کی بیمار پرسی یا تعزیت کے لیے جانا یا
کسی خوشی میں شریک ہونا جائز ہے۔ اس قسم کے سفر تبرک اور عبادت کے لیے نہیں ہوتے۔
مزارات اور عرس وغیرہ کے لیے لوگ عبادت سمجھ کر سفر کرتے ہیں
اس لیے ان سے منع کیا جاتا ہے۔ مذکورہ تینوں مساجد کا اپنا اپنا مقام ہے لہٰذا ان مساجد
کو اللہ تعالیٰ نے اپنی شعائر یعنی نشانیاں قرار دیا ہے۔ ان مساجد سے مراد صرف وہی
جگہ نہیں جو آپe کے
دور میں ہوتی تھی بلکہ توسیع کے بعد پوری جگہ نماز اور اعتکاف کے لیے ثواب کے لحاظ
سے برابر ہے۔
No comments:
Post a Comment