قرآن حکیم اور مغربی شدت پسندی
تحریر: جناب راشد علی
سدیس
بعض ریاستیں سیکولرزم کے لبادہ میں زمین پر شیاطین کے ایجنڈے
کو ہوا دینے کے لیے کمزبستہ رہتی ہیں ۔دنیا ایک گاؤں بن چکی ہے ۔منافقت ،ظلم وجبر کسی
سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی بھاشا بولنے والے مذہبی انتہاپسندی
کی سرپرستی کررہے ہیں۔ ناروے ریاست نے گزشتہ دو عشروں سے اسلام مخالفین کو کھلی آزادی
دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ گذشتہ ہفتے قرآن حکیم کو جلانے کی ناپاک جسارت کا
اقدام اسی ریاست کی سرپرستی میں ہوا۔مسلم حریت پسند نوجوان نے اس قبیح حرکت کرنے والے
پر دھاوا بولا تاکہ اس گمراہ کو سیدھی راہ دکھائی جائے مگر وہاں موجود پولیس نے اسے
گرفتار کرلیا ۔متعدد سوالات میرے ذہن میں گردش کررہے ہیں ۔ایک سو ارب سے زیادہ مسلمان
کیوں اسلامی تہذیب اورقرآن حکیم کی حفاظت نہیں کرپارہے ؟قرآن ہی کو کیوں جلایا جاتا
ہے؟ مغربی لوگ کیوں اسلام کے خلاف توہین آمیز حرکات کررہے ہیں ؟اسلام مخالف قوتوں کا
ایجنڈا واضح ہوچکا ہے ۔مسلم ممالک کی صفوں میں دراڑیں دیکھی جاسکتی ہیں ۔اسرائیل فلسطینیوں
کو بے دخل اوریہودیوں کی آبادی کاری کے لیے کوشاں ہے، عرب ممالک درپردہ اسرائیل کو
تسلیم کرنے کا ارادہ کرچکے ۔اسلامو فوبیا اوراسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر مغربی بیمار
ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے کے باوجود
اسلام اورقرآن سے مخاصمت صہیونیوں کے تاریخی پس منظر کو واضح کرتی ہے ۔
قرآن مجید جس عہد اور جس سماج میں نازل ہوا اس کا سب سے تکلیف
دہ پہلو لاقانونیت اورمذہبی انتہاپسندی، قتل وغارت اورنسب میں لعن طعن تھا‘ انصاف کا
کوئی واضح نظام موجودنہیں تھا‘ جزیرۃ العرب میںباضابطہ کسی حکومت کا وجود نہیں تھا،
قبائلی طرز کی حکومتیں قائم تھیں، وہاں عدل وانصاف کا قائم ہونا ممکن نہیں تھا۔ ایسے
ماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا،اس کتاب میں جو سب سے پہلی
آیت نازل ہوئی اس میں علم اور قلم کی اہمیت کو بتایا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ تمام
انسان ایک باپ کی اولاد ہیں یعنی آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ اس میں انسانی وحدت کی
طرف اشارہ تھا۔ علم انسان کو قانون کا پابند بناتا ہے اور انسانی مساوات کے تصور سے
عدل کا جذبہ ابھر تا ہے اور تکریم انسانیت کی فکر پروان چڑھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محبوب
کائنات کو مبعوث فرما کر جہالت کی بستیوں میں علم کی شمع روشن فرمائی۔ ایسا ملک جہاں
امن وآشتی کا نام ونشان تک نہیں تھا وہاں انسانیت و اخوت کے پھول مہکنے لگے۔ ان پھولوں
کی خوشبوچاراطراف پھیلنا شروع ہوئی۔ مشرکین مکہ نے اس خوشبوکو ختم کرنے کی بے سود کوشش
کی جسے اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا۔ پھر وہ زمانہ آیا جس کی شہادت رسول رحمت ؐ نے
فرمائی تھی کہ ایک خاتون تنہا اونٹنی پر سوار ہوکر صنعاء یمن سے شام تک کا سفر کرے
گی اس نے اپنے متبعین کے لئے دو ایسی تعبیرات اختیار کیں۔ جن کے معنی ہی امن و امان
اور صلح وسلامتی کے ہیں، یعنی مومن اور مسلم۔ مومن کے معنی امن دینے والے کے ہیں اور
مسلم کے معنی صلح اور دوسروں کی سلامتی کا لحاظ رکھنے والے کے۔ اس کتاب کی ابتدا بسم
اللہ الرحمن الرحیم سے ہوئی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت عامہ اور آپ ؐکے مہربان
ہونے کا ذکر ہے۔ پہلی سورت کی پہلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ کو تمام کائنات کا رب قرار
دیا گیا ہے۔ لفظ رب بے پناہ شفقت اور ممتا کو ظاہر کرتا ہے اور تمام عالم کا رب کہہ
کر پوری انسانیت ایک کنبہ اور خاندان کا درجہ عطا کرتا ہے۔ غرض کہ قرآن مجید امن و
امان، انسانیت‘ اخوت اور آفاقیت کا علمبردار ہے۔ اسلام نے اپنے پیرکارو ں کے لیے قاعدہ
مقرر کردیا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی۔
قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے۔ وہ اسباب جو
دہشت گردی اورانتہاپسندی کا باعث بنتے ہیں ایسے اسباب پر دستور وضع کیا تاکہ انتہاپسندی
اورنفرت معاشرے میں پروان نہ چڑھ سکے۔ جیسے اللہ نے کسی دوسرے مذہب پر تنقید کرنے سے
منع کیا کیونکہ اس سے مذہبی منافرت پروان چڑھنے کے اسباب موجود تھے۔ سورہ الانعام میں
اللہ تعالیٰ نے کسی دوسرے مذہب کے بارے منفی بات کہنے سے منع کردیا۔ منع اس لیے کیا
گیا کہ کوئی گروہ دوسروں کے مذہبی مقتدا اور پیشواؤں کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کے
پیشوا کوبرا بھلا کہے گا جو نفرت کا باعث بنے گا۔ یعنی اسلام تو کسی دوسرے مذہب کے
خلاف بری بات کرنے سے بھی منع کرتا ہے تو اسلام کا پیروکار قاتل کیسے ہوسکتاہے۔ جبکہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا
جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے
لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔ رسول اللہe نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا تھا کہ تمہارے خون، اموال
اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں، اِس دن عرفہ، اس مہینہ ذوالحجہ اور اس شہرمکہ کی
حرمت کی مانند! کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا جی ہاں! مسلمان کو گالی
دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔ مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا
سبب ہے۔ لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے جب دو مسلمان اپنی تلواریں
لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔ صحابہ نے دریافت کیا کہ
اے اللہ کے رسول!ایک تو قاتل ہے، اس لیے جہنم میں جائے گالیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا
کہ اس لیے کہ اس نے اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔ مندرجہ بالا آیت اور احادیث
کی روشنی میں کسی بھی فرد کو شک نہیں ہوناچاہیے کہ بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے
والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ یہ لوگ پوری
انسانیت کے قاتل ہیں‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جس نے کسی انسان کو خون کے
بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں
کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جھوٹی خبر پھیلانے سے منع کیا‘ سورہ الحجرت میں فرمایا:
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر تمہارے پاس کوئی فاسق خبر لے کر آئے توپہلے اس کی تصدیق
کرلو ۔تصدیق کی دعوت اس لیے دی جارہی ہے تاکہ معاشرہ بدامنی سے محفوظ رہے اورجھوٹی
خبر یقینا بدامنی کا باعث ہوسکتی ہے۔ میثاق مدینہ جو دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور
تھا جس کو ریاست مدینہ میں نافذ کیا گیا‘ اس امن معاہدہ میں تمام مذاہب اور فکر کواکٹھا
کرکے پر امن معاشرے کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ معاہدہ بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے
باہمی کے لیے یہ اقوام عالم کا پہلا معاہدہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم دانشور، محققین،
فلاسفر اور مؤرخین بھی آپ کی انسانیت کے لئے خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ انگریزی
زبان کے مشہور ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شاہ
The Genuine Islam میں رقمطراز ہیں کہ میں نے محمد کے بارے میں بہت پڑھا اور میری ذاتی رائے میں
ان کے جیسی شخصیت کوئی نہیں۔ وہ انسانیت کی بقا کے ضامن رہے، اگر ان کی تعلیمات پر
عمل کیا جائے تو دنیا کے مسائل حل کر کے اسے خوشیوں اور امن کا گہوارہ بنایا جا سکتا
ہے۔ پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے اپنی کتاب The
preaching of Islam میں اعتراف کیا ہے کہ اگر اسلام
جلوہ گر نہ ہوتا تو دنیا شائد زمانہ دراز تک انسانیت، تہذیب اور شائستگی سے روشناس
نہ ہوتی۔ غیر مسلم مفکر آر ۔ایچ جارج رقم طراز ہے کہ HE
(P.B.U.H) WAS THE ONLY MAN IN THE HISTORY WHO WAS SUPREEME SUCCESSFUL ON BOTH
THE RELIGIOUS AND SECULAR GROUND. ۔کاونٹ ٹالسٹائی۔ حضرت محمدe کا طرز عمل اخلاق انسانیت کا حیرت انگیز کارنامہ ہے۔
ہم یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ حضرت محمدe کی تبلیغ و ہدایت خاص سچائی پر مبنی تھی۔ مختصر یہ کہ
قرآن کریم اورمحسن انسانیت کی تعلیمات سے امن ومحبت کا درس ملتاہے ،اسلام امن کا داعی
ہے اوررہے گا۔ اس لیے بین الاقوامی دنیا کو مذہبی انتہاپسندی کو روکنے کے لیے ٹھوس
اقدامات کرنے چاہئیں ۔
No comments:
Post a Comment