سیرت رسول ﷺ بزبان خادمِ رسولؐ
تحریر: جناب مولانا
عبدالسلام
سیدنا انس بن مالکt جب نو سال کی عمر کو پہنچے تو ان کی والدہ محترمہ نے
ان کو نبیu کی
خدمت میں ان کی خدمت گذاری کے لیے پیش کیا‘ جیسا کہ خود سیدنا انسt بیان
فرماتے ہیں کہ میری والدہ مجھے رسول اللہe کے پاس لے گئیں اور کہا: اے اللہ کے رسول !
[خُوَیْدِمُك اَلَا
تَدْعُو لَه؟ قَالَ: اللَّهمَّ، اَكثِرْ مَالَه وَوَلَدَه، وَاَطِلْ حَیَاتَه، وَاغْفِرْ
لَه۔ فَدَعَا لِی بِثَلَاثٍ، فَدَفَنْتُ مِائَة وَثَلَاثَة، وَإِنَّ ثَمَرَتِی لَتُطْعِمُ
فِی السَّنَة مَرَّتَیْنِ، وَطَالَتْ حَیَاتِی حَتَّی اسْتَحْیَیْتُ مِنَ النَّاسِ،
وَاَرْجُو الْمَغْفِرَة۔] (االادب المفرد: ۶۵۳)
’’آپ کا یہ چھوٹا
سا خادم ہے اس کے لیے دعا کیجیے۔ آپe نے
دعا فرمائی: اے اللہ! اس کے مال واولاد میں برکت فرما، اسے لمبی عمر عطا کر اور اسے
بخشش دے۔ سیدناانسt فرماتے
ہیں کہ میرے لیے تین مرتبہ دعاکی پس میں نے ۱۰۳ اشخاص کو (اپنے
دستِ مبارک سے)دفن کیا، اور میرے پھل دار درخت سال میں دو مرتبہ پھل دیا کرتے اور میری
عمر اتنی لمبی ہوئی کہ میں اپنے گھر والوں سے شرم محسوس کرتا ہوں۔ اب صرف چوتھی دعا
باقی رہ گئی ہے یعنی مغفرت۔‘‘
سیدنا انس بن مالکt کا اپنا قول ہے کہ:
[خَدَمْتُ رَسُولَ
اللهﷺ عَشْرَ سِنِینَ۔] (صحیح مسلم: ۶۰۱۱)
میں نے (تقریباً) دس سال تک رسول اللہ e کی
خدمت کی۔ ان کے مطابق دس سال کے عرصے میں امام الانبیاءu کی
سیرت کو جو خادم رسول سیدنا انسt نے
دیکھا اور نوٹ کیا وہ آگے بیان کیا جن میں سے مختصر چند پہلو آپ کی خدمت میں پیش
کر رہے ہیں۔
خادم رسول سیدنا انس بن مالکt نبی کائناتu کے حسن جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
[كانَ رَبْعَة مِنَ
الْقَوْمِ، لَیْسَ بِالطَّوِیلِ وَلَا بِالْقَصِیرِ، اَزْهرَ اللَّوْنِ لَیْسَ بِاَبْیَضَ،
اَمْهقَ وَلَا آدَمَ، لَیْسَ بِجَعْدٍ قَطَطٍ وَلَا سَبْطٍ رَجِلٍ اُنْزِلَ عَلَیْه
وَهوَ ابْنُ اَرْبَعِینَ، فَلَبِثَ بِمَكة عَشْرَ سِنِینَ یُنْزَلُ عَلَیْه، وَبِالْمَدِینَة
عَشْرَ سِنِینَ وَقُبِضَ وَلَیْسَ فِی رَاْسِه وَلِحْیَتِه عِشْرُونَ شَعَرَة بَیْضَائَ۔
قَالَ رَبِیعَة: فَرَاَیْتُ شَعَرًا مِنْ شَعَرِه فَإِذَا هوَ اَحْمَرُ فَسَاَلْتُ،
فَقِیلَ: احْمَرَّ مِنَ الطِّیبِ۔]
آپ e آدمیوں
میں متوسط تھے نہ درازقد اور نہ پست قامت‘ آپ کا رنگ چمک دار تھا، نہ خالص سفید اور
نہ نراگندمی۔ آپ کے بال بھی درمیانے درجے کے تھے، نہ سخت پیچ دار (گھنگریالے) اور
نہ بہت سیدھے۔ چالیس سال کی عمر میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔ آپ دس سال مکہ میں رہے
وحی نازل ہوتی رہی اور دس برس مدینہ میں رہے۔ جس وقت آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے سراور
داڑھی میں بیس بال بھی سفید نہ تھے۔ (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ میں نے آپe کے
بالوں میں سے ایک بال دیکھا تو وہ سرخ تھا۔ میں نے پوچھا تو کہا گیا کہ یہ بال خوشبو
کے استعمال سے سرخ ہو گیا ہے۔ (صحیح بخاری: ۳۵۴۷) سیدنا انسt کا
کہنا ہے:
[كانَ النَّبِیُّﷺ
ضَخْمَ الْیَدَیْنِ وَالْقَدَمَیْنِ حَسَنَ الْوَجْه لَمْ اَرَ بَعْدَه وَلَا قَبْلَه
مِثْلَه، وَكانَ بَسِطَ الْكفَّیْنِ۔] (بخاری: ۵۹۰۷)
’’نبی کریم e کی
ہتھیلیاں اور قدم مبارک گوشت سے پُر تھے۔ میں نے آپ جیسا (خوبصورت) کوئی نہ پہلے دیکھا
ہے اور نہ بعد میں۔ آپ کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔‘‘
اور فرمایا:
[وَلَا مَسِسْتُ
خَزَّة وَلَا حَرِیرَة اَلْیَنَ مِنْ كفِّ رَسُولِ اللَّهﷺ، وَلَا شَمِمْتُ مِسْكة
وَلَا عَبِیرَة اَطْیَبَ رَائِحَة مِنْ رَائِحَة رَسُولِ اللَّه ﷺ۔] (صحیح بخاری:
۱۹۷۳)
’’اور میں نے کوئی
ریشم اور مخمل رسول اللہ e کی
ہتھیلیوں سے زیادہ نرم نہیں دیکھا اور نہ میں نے کوئی مشک اور عنبر رسول اللہ e کے
پسینے کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار سونگھا۔‘‘
نبی کریم eکے بالوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
[كانَ شَعَرُ رَسُولِ
اللَّهﷺ رَجِلًا لَیْسَ بِالسَّبِطِ وَلَا الْجَعْدِ بَیْنَ اُذُنَیْه وَعَاتِقِه۔]
’’رسول اللہ e کے
بال درمیانہ تھے‘ نہ بالکل سیدھے لٹکے ہوئے اور نہ گھونگھریالے اور وہ کانوں اور مونڈھوں
کے بیچ تک تھے۔‘‘ (بخاری: ۵۹۰۵)
سیدنا انسt کا
کہنا ہے کہ
[فَخَدَمْتُه فِی
الْحَضَرِ وَالسَّفَرِ، فَوَاللَّه مَا قَالَ لِی لِشَیْئٍ صَنَعْتُه لِمَ صَنَعْتَ
هذَا هكذَا، وَلَا لِشَیْئٍ لَمْ اَصْنَعْه لِمَ لَمْ تَصْنَعْ هذَا هكذَا۔] (صحیح
بخاری: ۶۹۱۱)
’’میں نے نبی کریم
e کی
خدمت سفر میں بھی کی اور گھر پر بھی۔ واللہ! نبی کریم e نے
کبھی مجھ سے کسی کام کے متعلق جو میں نے کر دیا ہو یہ نہیں فرمایا کہ: یہ کام تم نے
اس طرح کیوں کیا اور نہ کسی ایسی چیز کے متعلق جسے میں نے نہ کیا ہو آپ نے یہ نہیں
فرمایا کہ: یہ کام تم نے اس طرح کیوں نہیں کیا۔‘‘
خادم رسول سیدنا انس بن مالکt کی مذکورہ روایت سے نبیء کائنات e کا
اخلاق حسنہ واضح ہوتا ہے کہ آپu کس
قدر شفیق ومہربان تھے‘ کبھی بھی اپنے خادم کو کوئی تکلیف نہیں دی حتی کہ اف تک نہیں
کہا۔ ہمارے معاشرے کی طرف نظر دوڑائی جائے تو بالکل اس کے الٹ ہی نظر آتا ہے، ہماری
زبان کے شر کی وجہ سے بعض لوگ راستہ بدل لیتے ہیں‘ ہمارے برے کردار سے بچنے کے لیے
ہی لوگوں نے ہم سے ملنا چھوڑدیا ہے۔ خدارا! اپنے پیارے پیغمبرu کا
اخلاق پڑھیں اور غور کریں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟! آپu اگر کسی مسلمان بھائی کو نہ دیکھتے تو اس کے متعلق پریشان
ہوجاتے اور صحابہ کرام] سے
ان کے متعلق پوچھا کرتے‘ جیسا کہ سیدنا انسt سے مروی ہے:
اَنَّ غُلَامًا مِنَ الْیَهودِ كانَ مَرِضَ، فَاَتَاه النَّبِیُّﷺ یَعُودُه، فَقَعَدَ
عِنْدَ رَاْسِه، فَقَالَ لَه: اَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَی اَبِیه وَهوَ عِنْدَ رَاْسِه،
فَقَالَ لَه اَبُوه: اَطِعْ اَبَا الْقَاسِمِ، فَاَسْلَمَ، فَقَامَ النَّبِیُّﷺ، وَهوَ
یَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّه الَّذِی اَنْقَذَه بِی مِنَ النَّارِ۔] (سنن ابی داود:
۳۰۹۵)
’’ایک یہودی لڑکا
بیمار ہوا تو نبی اکرم e اس
کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا: تم مسلمان ہو
جاؤ، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا:
ابوالقاسم کی اطاعت کرو، تو وہ مسلمان ہو گیا، آپ e یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے: تمام تعریفیں اس ذات کے
لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی۔‘‘
ہمارے پیارے پیغمبرu تو یہودیوں کے بچوں سے بھی خیرخواہی کرتے‘ جیسا کہ خادم
رسول کا کہنا ہے:
سیدنا انسt سے
مروی ہے کہ:
اَنَّ رَجُلًا سَاَلَ النَّبِیَّﷺ غَنَمًا بَیْنَ جَبَلَیْنِ، فَاَعْطَاه إِیَّاه،
فَاَتَی قَوْمَه فَقَالَ: اَیْ قَوْمِ اَسْلِمُوا، فَوَالله إِنَّ مُحَمَّدًا لَیُعْطِی
عَطَائً مَا یَخَافُ الْفَقْرَ فَقَالَ اَنَسٌ: إِنْ كانَ الرَّجُلُ لَیُسْلِمُ مَا
یُرِیدُ إِلَّا الدُّنْیَا، فَمَا یُسْلِمُ حَتَّی یَكونَ الْإِسْلَامُ اَحَبَّ إِلَیْه
مِنَ الدُّنْیَا وَمَا عَلَیْها۔] (صحیح مسلم: ۶۰۲۰)
’’ایک شخص نے نبی
کریم e سے
دوپہاڑوں کے درمیان (چرنے والی) بکریاں مانگیں، آپ نے وہ بکریاں اس کو عطا کر دیں
پھر وہ اپنی قوم کے پاس آیا اور کہنے لگا: میری قوم اسلام لے آؤ، کیونکہ اللہ کی
قسم!بیشک محمد e اتنا
مال عطا کرتے ہیں کہ فقر وفاقہ کا اندیشہ بھی نہیں رکھتے۔ سیدنا انسt نے
کہا: بے شک کو ئی آدمی صرف دنیا کی طلب میں بھی مسلمان ہو جا تا تھا، پھر جو نہی وہ
اسلام لا تا تھا تو اسلام اسے دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے بڑھ کر محبوب ہو جاتا
تھا۔ سیرت رسول e پڑھیں‘
باربارپڑھیں اور اپنا کردار بھی ایک دفعہ ضرور دیکھیں۔ کافر مشرک یہودی دور کی بات
ہے ہم مسلمان اور مسلمانوں کے بچوں سے کیا سلوک کرتے ہیں؟!‘‘
سیدنا انس بن مالکt سے مروی ہے فرماتے ہیں:
[مَا رَاَیْتُ اَحَدًا
كانَ اَرْحَمَ بِالْعِیَالِ مِنْ رَسُولِ اللهﷺ۔] (صحیح مسلم: ۴۲۸۰)
’’رسول اللہe سے
زیادہ میں نے بچوں پر رحم کرنے والا کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
ایک روایت میں سیدنا انسt سے مروی ہے کہ
[مَرَّ علیْنَا رسول
اللهﷺ ونحنُ صِبْیانٌ فقال: السَّلامُ علیْكم یا صِبْیانُ۔] (صحیح ابن حبان: ۶۳۲۳)
’’رسول اللہ e ہمارے
پاس سے گزرے،ہم بچے ہی تھے۔ آپ نے فرمایا:اے بچو! السلام علیکم۔‘‘
گویا آپu بچوں
سے بے تحاشا پیار کرتے اور ان کی اخلاقی تربیت بھی کرتے۔آپu اگر
کسی مسلمان کو نہ دیکھتے تو پریشان ہوجاتے اور ان کے گھر عیادت کے لیے جاتے ہم مسلمان
بھائی کو دیکھ کر پریشان ہوتے ہیں یعنی اپنے مسلمان بھائی کی آمد پر خوش نہیں ہوتے‘
اس کی تکریم نہیں کرتے بلکہ اسے ایذاء و تکالیف دیتے ہیں۔ سیدنا انسt سے
مروی ہے:
[كانَ النَّبِیُّﷺ
اَحْسَنَ النَّاسِ خُلُقًا، وَكانَ لِی اَخٌ یُقَالُ لَه: اَبُو عُمَیْرٍ قَالَ: اَحْسِبُه
فَطِیمًا، وَكانَ إِذَا جَائَ قَالَ: یَا اَبَا عُمَیْرٍ، مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ؟
نُغَرٌ كانَ یَلْعَبُ بِه، فَرُبَّمَا حَضَرَ الصَّلَاة وَهوَ فِی بَیْتِنَا، فَیَاْمُرُ
بِالْبِسَاطِ الَّذِی تَحْتَه فَیُكنَسُ وَیُنْضَحُ، ثُمَّ یَقُومُ وَنَقُومُ خَلْفَه،
فَیُصَلِّی بِنَا۔] (بخاری: ۶۲۰۳)
’’نبی کریم e حسن
اخلاق میں سب لوگوں سے بڑھ کر تھے، میرا ایک بھائی ابوعمیر نامی تھا۔ بیان کیا کہ میرا
خیال ہے کہ بچپن کا دودھ چھوٹ چکا تھا۔ نبی کریم e جب تشریف لاتے تو اس سے مزاحاً فرماتے [یا ابا عمیر ما فعل النغیر] اکثر ایسا ہوتا کہ نماز کا وقت ہو جاتا اور نبی کریم e ہمارے
گھر میں ہوتے۔ آپ اس بستر کو بچھانے کا حکم دیتے جس پر آپ بیٹھے ہوئے ہوتے، چنانچہ
اسے جھاڑ کر اس پر پانی چھڑک دیا جاتا۔ پھر آپ کھڑے ہوتے اور ہم آپ کے پیچھے کھڑے
ہوتے اور آپ ہمیں نماز پڑھاتے۔ یعنی نبی کریمe انتہائی اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ اپنے صحابہ سے بے تحاشا
پیار کرتے اور ان کے ہاں جاتے اور ان سے مزاح کیا کرتے‘ ان کو خوش کرنے کی کوشش کرتے‘
ان کی تربیت کرتے‘ انہیں دینی امور میں ترغیب دلاتے۔آپ علیہ السلام عدل انصاف کے پیکر
تھے‘ کبھی بھی کسی سے نا انصافی نہیں کی‘ ہر چھوٹے اور بڑے کو اپنا حق ادا فرمایا۔
جیسا کہ امام زھری رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ: مجھے خادم رسول سیدنا انس بن مالک نے بتایا:
اَنَّها حُلِبَتْ لِرَسُولِ اللَّهﷺ شَاة دَاجِنٌ وَهیَ فِی دَارِ اَنَسِ بْنِ
مَالِك، وَشِیبَ لَبَنُها بِمَائٍ مِنَ الْبِئْرِ الَّتِی فِی دَارِ اَنَسٍ، فَاَعْطَی
رَسُولَ اللَّهﷺ الْقَدَحَ، فَشَرِبَ مِنْه حَتَّی إِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِیه،
وَعَلَی یَسَارِه اَبُو بَكرٍ، وَعَنْ یَمِینِه اَعْرَابِیٌّ، فَقَالَ عُمَرُ: وَخَافَ
اَنْ یُعْطِیَه الْاَعْرَابِیَّ، اَعْطِ اَبَا بَكرٍ یَا رَسُولَ اللَّه عِنْدَك، فَاَعْطَاه
الْاَعْرَابِیَّ الَّذِی عَلَی یَمِینِه، ثُمَّ قَالَ: الْاَیْمَنَ فَالْاَیْمَنَ۔]
’’رسول اللہ e کے
لیے گھر میں پلی ہوئی ایک بکری کا دودھ دوہا گیا، جو انس بن مالکt ہی
کے گھر میں پلی تھی۔ پھر اس کے دودھ میں اس کنویں کا پانی ملا کر جو انسt کے
گھر میں تھا، نبی کریم e کی
خدمت میں اس کا پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ e نے اسے پیا۔ جب اپنے منہ سے پیالہ آپ نے جدا کیا تو
بائیں طرف ابوبکرt تھے
اور دائیں طرف ایک دیہاتی تھا۔ عمرt ڈرے کہ آپ e یہ پیالہ دیہاتی کو نہ دے دیں۔ اس لیے انہوں نے عرض
کیا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر (t) کو دے دیجیے۔ آپ
e نے
پیالہ اسی دیہاتی کو دیا جو آپ کی دائیں طرف تھا اور فرمایا کہ دائیں طرف والا زیادہ
حقدار ہے۔ پھر وہ جو اس کی داہنی طرف ہو۔‘‘ (صحیح بخاری: ۲۳۵۲)
آپu حقوق
العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کے پورے پابند تھے بلکہ آپ eہمارے لیے اسوہ
ہیں‘ حقوق اللہ یعنی صوم صلاۃ صدقات خیرات میں سب سے آگے اور خوب اہتمام کرنے والے
تھے۔ جیسا کہ خادم رسول سیدنا انسt سے
مروی ہے کہ
[مَا كنْتُ اُحِبُّ
اَنْ اَرَاه مِنَ الشَّهرِ صَائِمًا إِلَّا رَاَیْتُه، وَلَا مُفْطِرًا إِلَّا رَاَیْتُه،
وَلَا مِنَ اللَّیْلِ قَائِمًا إِلَّا رَاَیْتُه، وَلَا نَائِمًا إِلَّا رَاَیْتُه۔]
(صحیح بخاری: ۱۹۷۳)
’’جب بھی میرا دل
چاہتا کہ آپ کو روزے سے دیکھوں تو میں آپ کو روزے سے ہی دیکھتا اور بغیر روزے کے
چاہتا تو بغیر روزے سے ہی دیکھتا۔ رات میں کھڑے (نماز پڑھتے) دیکھنا چاہتا تو اسی طرح
نماز پڑھتے دیکھتا اور سوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تو اسی طرح دیکھتا۔‘‘
No comments:
Post a Comment