Sunday, January 05, 2020

درس قرآن وحدیث 01-20


درسِ قرآن
اللہ کا ترازو
ارشادِ باری ہے:
﴿وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۰۰۸ وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ﴾ (الأعراف)
’’اور اس روز وزن بھی واقع ہو گا، پھر جس شخص کا پلڑا بھاری ہوگا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ٹھہریں گے اور جس شخص کا پلڑا ہلکا نکلا تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنا نقصان کرلیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے دنیا کا نظام قائم کر رکھا ہے اور بواسطہ وحی انسانوں کو نظام زندگی چلانے کے اصول و ضوابط بھی عطاء فرمائے ہیں لیکن انسان خواہشات نفس کی پیروی میں ان اصولوں سے منحرف ہو کر راہ حق سے فرار اختیار کرتے ہوئے ظلم و زیادتی اور ناانصافی کی راہ اپناتا ہے‘ لیکن اللہ نے اس کے ایک ایک عمل کا حساب لینا ہے اور اس عالم الغیب سے کوئی عمل اور کوئی چیز بھی مخفی نہیں۔
آیت مذکورہ میں اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے دن اعمال کو اللہ کے ترازو میں تولا جائے گا‘ جو ترازو انسان کے بنائے ہوئے ان ترازؤوں اور اصولوں سے بالکل مختلف ہوگا‘ جو فقط دھوکہ اور فریب کا سامان مہیا کرتاہے۔ اللہ کا ترازو کسی گناہگار کے پلڑے میں ایک رتی برابر زیادتی نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی نیک انسان کے پلڑے میں کسی نیکی کی کمی کی جائے گی:
﴿وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ۰۰۴۷﴾ (الأنبيآء)
’’قیامت کے دن ہم تولنے والے ترازو کو درمیان میں لا رکھیں گے پھر کسی پر کچھ بھی ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا تو ہم اسے حاضر کردیں گےاور حساب کے لیے کافی ہیں۔‘‘
﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗؕ۰۰۷ وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ۰۰۸﴾
’’پس جس نے ذرہ برابرنیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ بھی اسے دیکھ لے گا۔‘‘ (الزلزال)
جبکہ کامیابی اسی کا مقدر ہوگی جس کی نیکیوں کا پلڑا بھاری ہوگا اور جس کا پلڑا ہلکا نکلا وہ اپنے گناہوں اور زیادتیوں کی وجہ سے گھاٹے میں رہے گا۔ کیسی کامیابی اور ناکامی؟ اس کی وضاحت بھی قرآن نے کردی:
﴿فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗۙ۰۰۶ فَهُوَ فِيْ عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍؕ۰۰۷ وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗۙ۰۰۸ فَاُمُّهٗ هَاوِيَةٌؕ۰۰۹ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَاهِيَهْؕ۰۰۱۰ نَارٌ حَامِيَةٌ۰۰۱۱﴾ (القارعة)
’’پھر جس کے پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو دل پسند‘ آرام کی زندگی میں رہے گا لیکن جس کے پلڑے ہلکے نکلے اس کا ٹھکانہ ہاویہ ہے اور آپ کو کیا معلوم کے وہ (ہاویہ) کیا ہے؟وہ تندو تیز آگ ہے۔‘‘
انسان محاسبہ نفس کی خاطر اگر ذہن میں محض اس ترازو کا تصور ہی رکھ لے تو وہ اپنےدامن کو  بہت سارے گناہوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔

درسِ حدیث
سنت نبوی ﷺ کی پیروی کرنا
فرمان نبویﷺ ہے:
[عَنْ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، قَالَ: قَدِمَ نَبِيُّ اللهِﷺ الْمَدِينَةَ، وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ، فَقَالَ: "مَا تَصْنَعُونَ؟" قَالُوا: كُنَّا نَصْنَعُهُ، قَالَ: "لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا". فَتَرَكُوهُ، فَنَقَصَتْ، قَالَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: "إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ، وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ مِنْ رَأْيِي، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ".] (رواہ مسلم)
سیدنا رافع بن خدیجt سے روایت ہے‘ انہوں نے کہا کہ نبی کریمe (ہجرت کر کے مدینہ) تشریف لائے تو آپe نے دیکھا کہ لوگ کھجوروں کو پیوند کیا کرتے تھے تو آپe نے دریافت فرمایا: ’’تم یہ کیا کرتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا: ہم شروع سے ایسا کرتے ہیں۔ تو آپe نے فرمایا: ’’اگر تم یہ (پیوندکاری) نہ کرو تو بہتر ہو گا۔‘‘ انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا جس کے نتیجے میں پیداوار میں کمی واقع ہو گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے آپe سے تذکرہ کیا جس پر آپe نے فرمایا: ’’میں انسان ہوں جب میں تمہیں تمہارے دین کے متعلق کوئی حکم دوں تو اس پر عمل کرو اور جب میں تمہیں اپنی رائے سے کوئی بات کہوں تو میں ایک انسان ہوں۔‘‘ یعنی میری رائے کو تسلیم نہ کرو۔ (مسلم)
جب رسول اللہ e ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپe نے دیکھا کہ لوگ اپنے باغات میں کھجوروں کی پیوندکاری کرتے ہیں۔ نر کھجوروں کے درختوں سے مخصوص طریقے سے چھال اتار کر مادہ کھجور کے درخت پر لگاتے تھے جس کے نتیجے میں پھل زیادہ لگتا تھا۔ جب رسول اللہe نے مدینہ پہنچ کر اس کام کو دیکھا تو آپe نے منع فرما دیا۔ حضورe کا موقف یہ تھا کہ اللہ کی بنائی ہوئی چیز میں تبدیلی کرنا ہے۔ صحابہ کرام] نے آپe کے فرمان پر پیوندکاری روک دی جس کے نتیجے میں پھل کم آیا۔ جس پر صحابہ کرام ] نے حضورu کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم نے آپ کے مشورے کے مطابق عمل کیا جس کی وجہ سے پھل کم اور ناقص آیا ہے۔ یہ سن کر آپe نے فرمایا: ’’میں انسان ہوں‘ انسانی سوچ کے نتیجے میں غلطی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا دنیاوی  معاملات میں اپنی مرضی کرو‘ لیکن جو بات میں تمہیں دین کے معاملے میں بتاؤں اس پر عمل کرو اس لیے کہ دین کے بارے میں آپ اپنی مرضی سے کچھ نہیں فرماتے۔ بلکہ وہی کہتے ہیں جو اللہ کی طرف سے آپ پر نازل کیا ہوتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ ہم اپنے دنیاوی معاملات میں جہاں کسی کی حق تلفی نہ ہوتی ہو اور شریعت کی مخالفت نہ ہوتی ہو اس میں ہمیں اختیار ہے۔ لیکن دین کے معاملے میں کسی کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ جو کام ثواب حاصل کرنے کے لیے کیا جائے وہ لازمی طور پر سنّت رسول کے مطابق ہونا چاہیے اور قرآن وسنت سے اس کی دلیل ملتی ہو اس کے علاوہ سب کچھ لا حاصل ہے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)