درسِ قرآن
صبر ... شیوۂ
پیغمبری (1)
ارشادِ باری ہے:
﴿وَ اصْبِرْ عَلٰى
مَاۤ اَصَابَكَ١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِۚ۰۰۱۷﴾ (لقمان)
’’اور جو تکلیف تمہیں
پہنچے اس پر صبر کرو، بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘
بطور مسلمان ہماری رہنمائی کی گئی ہے کہ دنیا آزمائش کی جگہ
ہے تاکہ اعمال کے لحاظ سے اچھے اور برے کا
فرق واضح کردیا جائے۔ آزمائش خو ش حالی دے کر بھی کی جاسکتی ہے اور فقر و فاقہ
و تنگ دستی اور غم و مصائب میں مبتلا کرکے بھی
بندے کو آزمایا جاسکتاہے۔ قرآن کریم نے مصیبتوں اور غموں کی دو وجوہات بیان
کی ہیں:
1 آزمائش
کے لیے کہ اللہ دیکھیں اس کا بندہ حالت غم میں جزع فزع کرنے لگ جاتا ہے یا صبر و استقامت
کی روش اپناتا ہے:
مزید ارشاد باری ہے:
﴿وَ لَقَدْ فَتَنَّا
الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ
الْكٰذِبِيْنَ۰۰۳﴾ (العنکبوت)
’’اور ہم نے ان لوگوں
کو آزمایا جو ان سے پہلے تھے ، اللہ ان لوگوں کو ضرور ظاہر کرے گا جنہوں نے سچ بو
لا اور ضرور ان کو بھی ظاہر کرے گا جو (اپنے دعوی ایمان میں) جھوٹے ہیں۔‘‘
2 انسان
کی بد اعمالیوں اور اللہ کی نافرمانی کے سبب مصیبتیں اور ہموم و غموم انسان کو گھیر
لیتے ہیں:
ارشاد ہے:
﴿وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ
مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ ﴾ (الشوریٰ)
’’اور تمہیں جو بھی
مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی کرتوتوں کی وجہ سے ہے۔‘‘
یہ مصیبت اور پریشانی
بطور آزمائش ہے یا اپنی بد اعمالی کا نتیجہ ہے‘ اس کو دیکھنے کے لیے مصیبت کے وقت انسان کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ اس سے
معلوم کیا جاسکتا ہے ۔ اگر اپنی بد اعمالی کی وجہ سے مصیبت آئی ہے تو انسان اس پر
گلے شکوے اور اللہ سے شکایات شروع کردے گا۔اسی رویہ کا ذکر قرآن میں کچھ یوں بیان
ہوا ہے:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿فَاَمَّا الْاِنْسَانُ
اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ رَبُّهٗ فَاَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ رَبِّيْۤ اَكْرَمَنِؕ۰۰۱۵
وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابْتَلٰىهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهٗ١ۙ۬ فَيَقُوْلُ رَبِّيْۤ
اَهَانَنِۚ۰۰۱۶﴾
’’اس انسان کا حال
یہ ہے کہ جب اس کا خدا امتحان کرتا ہے پھر اسے عزت و نعمت بخشتا ہے تو وہ خیال کرتا
ہے کہ میرے رب نے میری شان بڑھائی۔ اور جب وہ اسے جانچتا ہے پھر (اس غرض سے) رزق میں
تنگی کرتا ہے تو کہتا ہے کہ میرے رب نے مجھے ذلیل کر ڈالا۔‘‘ (الفجر)
لیکن ایسے حالات اور پریشانی کے اوقات میں ایک مسلمان کا رد
عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ صبر کا دامن تھامے رکھتا
ہے اور اللہ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے۔ قرآن
مجید کے مطابق سب سے بڑا صلہ جس چیز کا ملنا ہے ، وہ صبر ہے ۔اسی طرح قوموں کی زندگی
میں عروج پانے اور دوسری اقوام کے مقابلے میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے بھی صبر ہی اسلحہ
و جہاد کی حیثیت رکھتا ہے ۔یعنی انفرادی زندگی میں فرد اگر حق پر قائم رہے گا تو اللہ
اسے جنت میں اعلیٰ مقامات عطا فرمائے گا۔ اگر کوئی قوم اپنے اجتماعی وجود میں حق پر
قائم رہتی ہے تو وہ دنیا میں فائزالمرامی پائے گی ۔ قرآن مجید نے فرمایا: ’’آج میں
نے ان کوان کے صبر کا بدلہ دیا ہے اور آج یہ فائزالمرام (کامیاب وکامران ) ہیں
۔‘‘
اگر شدائد شدید تر ہوں تو صبر کا یہ صلہ دوہرے اجر سے بڑھ کر
بے حساب صبر کی شکل بھی اختیار کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’جو ثابت قدم
رہنے والے ہوں گے، ان کا صلہ بے حساب پورا کیا جائے گا۔''
جذبات کو قابومیں رکھنے اور صبر و تحمل کی فضیلت اور ثواب کی
کثرت اس بنیاد پر بھی ہے کہ اس میں ایک شخص کو امتحان کی مختلف راہ سے گزرنا پڑتا ہے۔
کہیں ملتے ہوئے فائدوں سے محرومی کو گوارا کرنا پڑتا ہے، کبھی خارجی مجبوری کے بغیر
خود سے اپنے آپ کو کسی چیز کا پابند کرلینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی بے عزتی کو برداشت
کرنا پڑتا ہے۔ کہیں زیادہ کو چھوڑ کر کم پر قانع ہونا پڑتا ہے، کہیں قدرت رکھتے ہوئے
اپنے ہاتھ پاوٴں کو روک لینا پڑتا ہے۔ کہیں اپنی مقبولیت کو دفن کرنے پر راضی ہونا
پڑتا ہے، کہیں شہرت اور استقبال کے راستے کو چھوڑ کر گمنامی کے طریقے کو اختیار کرنا
پڑتا ہے۔
درسِ حدیث
آمین .. آمین .. آمین!
فرمان نبویﷺ ہے:
سیدنا ابوہریرہt بیان
کرتے ہیں کہ نبی کریمe منبر
پر چڑھے تو کہا: ’’آمین، آمین، آمین۔‘‘ آپ سے دریافت کیا گیا، اے اللہ کے رسول!
آپ نے پہلے کبھی ایسا نہیں کہا؟ آپe نے فرمایا: ’’مجھے جبریلt نے
کہا: اس بندے کا ناک خاک آلود ہو جو اپنے والدین کو یا ان میں سے ایک کو پا لیتا ہے
اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کر لیتا۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر انہوں نے کہا:
اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو جس کے ہوتے ہوئے رمضان المبارک آیا اور اس بندے کی مغفرت
نہ ہوئی۔ میں نے کہا: آمین۔ پھر انہوں نے کہا: اس آدمی کا ناک بھی خاک آلود ہو جس
کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ پر درود نہ بھیجے، میں نے کہا: آمین۔‘‘
حدیث مذکور بالا میں تین اہم ترین مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا
ہے:
1 والدین کے ساتھ
حسن سلوک کی ترغیب اور ان کی خدمت کر کے ثواب حاصل کرنے کی عظمت بیان ہوئی ہے خصوصاً
بڑھاپے اور ضعف کے وقت ان کی خدمت بجا لانا اور ان پر خرچ کرنا، جنت میں داخلے کا باعث
ہے اور جو اس میں کوتاہی کا مرتکب ہو وہ ذلیل ہو گا اور جنت سے بھی محروم ہو گا۔ والدین
ایسی نعمت ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں اس نعمت کے چھن جانے کے بعد ان کی قدر کا
احساس ہوتا ہے۔ والدین کی وفات کے بعد والد کے دوست اور والدہ کی سہیلیوں کی قدر کرنی
چاہیے۔ ایک صحابیt نے
حضور اقدس e سے
جہاد میں شرکت کے لیے اجازت طلب کی تو آپe نے دریافت فرمایا: ’’تیرے والدین زندہ ہیں؟‘‘ اس نے
کہا ہاں! تو آپe نے
فرمایا: ’’ان کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے۔‘‘
2 دوسرا وہ شخص
جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس نے اس بخشش کے مہینے کو غفلت میں گذار
دیا اور اللہ سے اپنے گناہ نہ بخشوائے۔ زندگی اور رمضان کی آمد کو غنیمت جاننا چاہیے۔
3 جہاں تک نبی
اکرم e پر
درود وسلام پڑھنے کا تعلق ہے جو انسان اس میں غفلت کرتا ہے وہ بھی اللہ کی رحمت اور
جنت سے دور رہے گا۔ لہٰذا جب بھی آپe کا نام نامی سنے یا پڑھے تو زبان سے بے ساختہ ’’صلی
اللہ علیہ وسلم‘‘ نکلنا چاہیے۔ یہ عبادت بھی ہے اور نجات کا ذریعہ بھی۔
دنیا وآخرت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی اطاعت،
والدین کے ساتھ نیک سلوک، رمضان المبارک کی قدر دانی اور نبی کریمe پر
درود بھیجنا از حد ضروری ہے ورنہ نجات ممکن نہیں۔
No comments:
Post a Comment