جرابوں پر مسح
تحریر: جناب حافظ
عبدالاعلیٰ درانی
سردیوں
کے موسم میں بالخصوص جرابوں پر مسح اللہ تعالیٰ کی ان مہربانیوں میں سے ایک ہے جس پر
اہل ایمان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ یوں بھی جرابوں پر مسح کرنا رسول اللہe
کے قول و فعل سے بطریق صحیح احادیث ثابت ہے اورجرابوں پر مسح نہ کرنے
کے بارے میں کوئی بھی دلیل ثابت نہیں۔ سنت مصطفوی کے علاوہ متعدد جلیل القدر صحابہ]
سے بھی جرابوں پرمسح کرنا ثابت ہے، جن کی تعداد تیرہ تک پہنچتی ہے۔
کسی ایک صحابی سے بھی اس کی مخالفت مروی نہیں۔ امام ابوداؤد نے جرابوں پر مسح کرنے
کے بارے میں مستقل باب باندھا ہے اور اس باب میں حدیث مغیرہ نقل کرنے کے بعد اس کی
تائید میں فرماتے ہیں کہ اصحاب رسول میں سے سیدنا علی، عبداللہ بن مسعود، براء بن عاذب،
انس بن مالک، ابوامامہ سہل بن سعد، عمرو بن حریث] نے جرابوں پرمسح کیا۔ اسی طرح
عمر بن خطاب، ابن عباس، عمار بن یاسر، ہلال بن عبداللہ بن ابی اوفٰی اورابن عمر]
سے نقلاً اور فعلاً جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے۔
امام
ابن حزم الاندلسیa نے المحلّٰی میں سیدنا علی،
ابن عمر اور انس بن مالک] وغیرہم کا عمل بھی ثابت کیا
ہے کہ یہ سب حضرات جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ تہذیب السنن میں ابن قیمa
فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبلa جرابوں پر مسح کو سنت جانتے
ہیں کیونکہ یہ اصحاب رسول سے ثابت ہے اورقیاساً بھی۔ کیونکہ موزوں اورجرابوں پر مسح
کرنے کاایک ہی حکم ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا،نہ ہی حکما موزوں اورجرابوں
میں مسح میں کوئی فرق ہے۔ لہٰذا موزوں اورجرابوں دونوں پر مسح کرنے پر اکثر اہل علم
کا قول ہے۔ تابعین میں سے سفیان ثوری، ابن مبارک، عطا،حسن بصری، سعید بن مسیبS
بھی جرابوں پر مسح کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہa
کے اصحاب میں سے ابویوسفa اور محمدa
موٹی جرابوں پر مسح کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہa
ابتداء موٹی جرابوں پر بھی مسح کے قائل نہ تھے لیکن اپنی وفات سے
تین یا سات روز قبل اس کے جواز کے قائل ہوگئے تھے بلکہ انہوں نے خود بھی مسح کیااور
اپنی عیادت کیلئے آنے والوں کو اپنے اس رجوع سے آگاہ کرتے رہے کہ اب میں وہ کچھ کررہاہوں
جس سے پہلے منع کیا کرتاتھا۔
[وَكانَ اَبُوْحَنِیْفَة
لَایَجُوْزُ الْمَسْحُ عَلَی الْجَوْرَبِ الثِّخِّیْنٍ ثُمَّ رَجَعَ اِلٰی الْجَوَازِ
قَبْلَ مَوْتِهٖ بِثَلَاثَة اَوْ بِسَبْعَة وَمَسَحَ عَلَی جَوْرَبَیْه الثِّخِّیْنِ
فِیْ مَرَضِهٖ وَقَالَ لِعُوَّادِهٖ فَعَلْتُ مَا كنْتُ اَنْهیْ عَنْه۔] (معالم السنن
للخطابی: ۱/۱۲۱، فقه السنة: ۱/۶۱)
السید
سابقa فقہ السنۃ میں فرماتے ہیں:
’’جرابوں پر مسح جائز ہے۔ اس ضمن میں بہت سے صحابہ
کرام] سے روایات موجود ہیں۔ان میں
سے چند روایات پیش کی جاتی ہیں۔‘‘
عمل نبویؐ سے جرابوں پر مسح کا
ثبوت:
سیدنا
مغیرہ بن شعبہt سے روایت ہے کہ نبیe
نے وضو فرمایا اوراپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح کیا۔‘‘ (ابوداؤد حدیث:
۱۵۹،
ترمذی: ۱/۲۹،
ابن ماجہ، حدیث: ۵۵۹،
مسند احمد: ۳/۲۵۲)
امام
طحاوی حنفیa اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے
کہتے ہیں:
یعنی آپ نے جوتوں
پر مسح کیا ان کے نیچے جرابیں تھیں اور آپ کا ارادہ اس کے ساتھ جرابوں کا مسح کرنے
کا ہی تھانہ کہ جوتوں کایعنی آپ کی مراد جوتوں پر مسح کرنا نہیں تھی۔اگر آپ کی جرابیں
بغیر جوتے کے بھی ہوتیں تو ان پر مسح کرنا جائزہے۔ اس سے مراد آپ کی جرابوں پر مسح
کرنے کی تھی۔ (شرح معانی الآثار: ۱/۷۶)
سیدنا
بلالt کی روایت ہے کہ رسول اللہe
موزوں اور جرابوں پر مسح کیا کرتے تھے۔ اس حدیث کو طبرانی نے صحیح
سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔مزید یہ کہ حنفیہ کی مشہور و متداول کتاب الدرایۃ فی تخریج
احادیث الہدایۃ میں ہے کہ اس حدیث کو طبرانی نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا۔ جن میں
سے ایک کے سب راوی ثقہ ہیں۔
سیدنا
ابوموسیٰ اشعریt سے روایت ہے کہ حضورe
نے وضو کرتے ہوئے جرابوں اور جوتیوں پر مسح کیا۔ اس پر امام ابن قدامہa
فرماتے ہیں:
’’یعنی جوتیوں پر مسح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول
اللہe نے اپنی جوتی کے تسموں پر مسح
کیا جو پاؤں کے ظاہری حصے پر ہوتے ہیں اس کے نچلے اور پچھلے حصے پرمسح کرنا خلف سے
ثابت نہیں۔‘‘ (المغنی: ۱/۱۸۲)
سیدنا
ابوموسیt کی دوسری روایت ہے کہ میں نبیe
کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا تو آپ نے میری موجودگی میں اپنی جرابوں
اور جوتیوں پر مسح کیا اور عمامے پر بھی (یاد رہے کہ جوتیوں سے مراد چپل نما تسموں
والی جوتی ہے، نبیe کی نعلین کے دوتسمے تھے۔) اس
شکل کی جوتی پر مسح کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ آنحضورe
نے جرابوں والے پاؤں کو چپل نما جوتوں میں رکھے ہوئے پر مسح فرمایا۔امام
ابن قدامہ المغنی میں فرماتے ہیں کہ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہe
نے اپنی جوتیوں کے تسموں اور جرابوں پر مسح فرمایا۔اس سے معلوم ہوا
کہ جن جوتوں میں پاؤں ڈھکے رہیں ان پر مسح نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر سر پر پگڑی ہو
اور اسے اتارا نہ جائے تو اس پر بھی مسح کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح موزوں پر مسح کرنا مرفوع
احادیث سے ثابت ہے اسی طرح جرابوں پر مسح کرنا بھی مرفوع احادیث ہی سے ثابت ہے۔یہ تو
حضورe کے عمل سے ثابت ہوا۔
جرابوں
پرمسح کے بارے ارشادات نبویہ:
سیدنا
ثوبانt کی روایت ہے کہ رسول اللہe
نے ایک جماعت کہیں بھیجی‘ انہیں سفر میں سردی لگی‘ واپس آکر انہوں
نے سردی کی شکایت کی تو آپ نے عماموں اور تساخین پر مسح کرنے کا حکم دیا۔ (مسند احمد:
۵/۲۷۷،
ابو داؤد: ۱۴۶)
امام
ابن ارسلان فرماتے ہیں:
’’تساخین‘ کہتے ہیں جو چیز پاؤں کو گرمی پہنچائے
خواہ وہ چمڑے کے موزے ہوں یا سوتی یا اونی جرابیں ہوں۔‘‘ (عون المعبود شرح ابی دائود:
۱/۵۶)
امام
ابن قدامہa المغنی میں فرماتے ہیں:
’’چونکہ صحابہ نے جرابوں پر مسح کیا اور دور صحابہ]
میں کسی سے اس کی مخالفت منقول نہیں ہوئی لہٰذا یہ متفق علیہ مسئلہ
ہوا۔ اس حدیث سے بات بالکل صاف ہوگئی کہ ہر وہ چیز جس سے پاؤں کو سردی سے بچایا جائے
اس پر مسح کرنا جائز ہے۔اس لیے موزوں پر مسح ماننا اور جرابوں کے مسح سے انکار کرنا
بے دلیل ہے۔‘‘ (جلد ۱‘ ص ۱۵۱)
لغت عرب سے جورب کا معنی:
\ قاموس میں ہے کہ جورب‘ لفافۃ الرجل‘ جو چیز
لفافے کی طرح پاؤں میں پہنی جائے وہ جورب ہے۔ علامہ عینی لکھتے ہیں: ’’جورب بٹے ہوئے
اون سے بنتی ہے جسے پاؤں میں ٹخنے سے اوپر تک پہنا جاتا ہے۔‘‘
\ علامہ سیوطیa لکھتے ہیں: ’’جورب عربی میں
پاؤں کو ڈھانپنے کیلئے اون سے بنی ہوئی جراب کو کہتے ہیں۔‘‘
\ عارضۃ الاحوذی میں امام ابوبکر شارح ترمذی
فرماتے ہیں: ’’پاوں کو ڈھانپنے کیلئے اون سے بنائی جاتی ہے۔‘‘
\ عمدۃ الرعایۃ میں ہے: ’’جرابیں روئی اور
بالوں سے بنائی جاتی ہیں۔ ‘‘
\ غایۃ المقصود (شرح ابوداود از علامہ شمس
الرحمن ڈیانوی ) میں ہے کہ جورب چمڑے، اون اور سوت کی بھی ہوتی ہے اور ہرایک کو جراب
ہی کہا جاتا ہے۔مندرجہ بالا لغات اور شروح احادیث سے بڑی وضاحت سے ثابت ہوا کہ ہر وہ
چیز جس سے پاؤں کو ڈھانپا جائے خواہ وہ چمڑے سے بنی ہو جیسے موزے یا اون یا سوت سے
بنی ہو اسے جراب کہا جائے گا اور اس پر مسح کیا جاسکے گا۔
عدم
مسح پر اجماع کا باطل دعویٰ
بعض
لوگ کہتے ہیں کہ جرابوں پر مسح نہ کرنے پر علماء کا اجماع ہے یہ دعوی بلا دلیل ہے۔
امام ابن تیمیہa فرماتے ہیں کہ، لفافۃ الرجل
یعنی موزوں اور جرابوں پر مسح کرنا جائز ہوا اور اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں۔ جو
آدمی اجماع کا دعوی کرتا ہے وہ علم کے بغیر بات کرتا ہے۔وہ تو دس مشہور علماء سے بھی
ثابت نہیں کرسکتا۔چہ جائیکہ اس پر اجماع ثابت کرے‘ جو شخص الفاظ نبوی پر غور کرتا ہے
اور قیاس کا حق ادا کرسکتاہے وہ جان سکتا ہے کہ اس بارے میں رخصت کا میدان بہت وسیع
ہے اور یہ ہماری شریعت کے محاسن میں سے ہے۔(فقہ السنۃ) اس کے برعکس جرابوں پر مسح ایک
اجماعی مسئلہ ہے۔
اصحاب رسول کا عمل:
\ تہذیب السنن امام ابن قیم میں ہے کہ سیدنا
عمرt نے اپنی جرابوں پر مع چپل کے
اوپر کے تسموں پر مسح کیا۔
\ محلی ابن حزم میں سیدنا علیt
کے بارے میں کعب بن عبداللہ کا بیان ہے کہ سیدنا علیt
نے وضو کرتے ہوئے جرابوں پر مسح کیا۔
\ سیدنا عبداللہ بن عمرw
کے بارے میں بھی یہی الفاظ محلی میں ذکر ہوئے ہیں۔
\ امام ابن حزم نے ابن انس کے بارے میں ذکر
کیا کہ انہوں نے وضو کرتے ہوئے اپنی ٹوپی ا ور سیاہ رنگ کی جرابوں پر مسح کیا اور پھر
نماز پڑھی۔ ان ساری تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا سنت نبوی
کے علاوہ عمل صحابہ کرام سے بھی صحیح سند سے ثابت ہے۔
فقہاء کے اقوال وافعال:
\ فقہائے مشہورین میں امام مالکa، امام شافعیa اور احمد بن حنبلa
تو جرابوں پر مسح کے قائل و فاعل ہیں۔امام ابوحنیفہa
کے بارے میں جیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ ان کے اصحاب میں
سے ابویوسفa اور محمد بن حسن شیبانیa
صرف موٹی جرابوں پر مسح کے قائل تھے۔ (ہدایہ: ۱/۶۰)
لیکن
ابتدا میں امام ابوحنیفہa موٹی جرابوں پر بھی مسح کے
قائل نہ تھے لیکن ان کا آخری فتوی اور عمل اسی پر تھا۔ معلوم نہیں فقہائے حنفیہ کس
دلیل کی بنا پر اس کی مخالفت کے قائل ہیں۔ امام ابوحنیفہa
کے اس آخری فتوے کے خلاف کچھ ثابت نہیں۔ رہی یہ بات کہ گرم پانی
موجود ہے اس لیے پاؤں دھونا مسح کرنے سے افضل ہے بے دلیل بات ہے۔ کونسی چیزافضل ہے
اور کونسی غیر افضل ہے اس کا فیصلہ کرنا شارعu کا منصب ہے۔ اس لحاظ سے کسی
بھی روایت سے ہمیں یہ بات نہیں ملتی کہ مسح کرنا غیر افضل ہے۔ اللہ تعالی نے دین کو
آسان بنایا‘ اس پر اللہ کا اشکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ بنی اسرائیل کی طرح آسان پر
عمل چھوڑ کرمشکل راستہ اختیار کیا جائے۔جنہیں اللہ تعالی نے گائے ذبح کرنے کا حکم دیا
تھا وہ رنگ ڈھنگ پوچھنے لگ گئے یوں ایک آسان حکم کو خود ہی مشکل بنا ڈالا۔ آیت وضو
سورۃ المائدہ میں وضو کے احکام بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ تم پر تنگی نہیں کرنا
چاہتا۔ جو لوگ جرابوں پر مسح کرنے کے قائل نہیں ہیں وہ سخت سردی میں بھی سنت پر عمل
سے محروم ہوکر مشکل میں پڑتے ہیں حالانکہ ان میں کوئی خیر ہے نہ تقویٰ بلکہ سنت بنی
اسرائیل پر عمل ہے۔
جرابوں پر مسح کے دیگر احکام:
\ مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دائیں اور بائیں ہاتھ
کی پانچوں انگلیاں پانی سے تر کرکے دونوں پاؤں کے پنجوں سے شروع کرکے ٹخنوں کے اوپر
تک کھینچ کر لے جائیں تو مسح ہوجائے گا۔
\ مسح صرف انہی جرابوں یا موزوں پر کیا جاسکتا
ہے جنہیں وضوء یا غسل کے بعد پہنا گیا ہو۔ جیسا کہ حدیث مغیرہ میں ہے کہ میں نے نبیe
کو وضو کرایا۔ جب موزے اتارنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ رہنے دو میں
نے انہیں وضوء کرکے پہنا ہے۔
\ اگر موزوں اور جرابوں پر کچھ سوراخ ہوں لیکن
عموما وہ پہنی جاتی ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ
مہاجرین اور انصار کے موزے بھی عام لوگوں کی طرح سوراخوں سے بچے نہیں ہوتے تھے۔اگر
سوراخوں والے موزوں یا جرابوں پر مسح کرنا جائز نہ ہوتا تو روایتوں میں اس کا ذکر آتا۔
(الفقہ علی المذاہب الاربعۃ: ۱/۱۲۸)
\ مسح کیلئے اس طرح کی شرائط لگا ناکہ جرابیں
اتنی موٹی اور مضبوط ہو جنہیں پہن کر اگر تین چار میل پیدل چلا جائے تو پھٹے نہیں یا
یہ کہ ان پر پانی کے قطرات ڈالے جائیں اور پاؤں گیلا نہ ہو وغیرہ، بڑی ہی مضحکہ خیز
باتیں ہیں۔ اس قسم کی غیر معقول شرائط کیلئے اللہ و رسولe نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔
عام جراب جسے انسان اپنے پاؤں کو سردی اور گردو غبار سے بچانے کیلئے پہنتا ہو اس پر
مسح جائز ہے۔ خواہ مخواہ تکلفات میں پڑنا بنی اسرائیلیوں کی طرح اپنے اوپر خود تنگی
کرنا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اللہ ہرگز نہیں
چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی ڈالے بلکہ وہ تمہارے لیے دین کو آسان بنانا اور تم کو پاک
کرنا چاہتاہے تاکہ تم پر اپنی نعمت پوری کرے۔‘‘
صحیح
بخاری میں سیدنا ابوہریرۃt کی روایت ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا: ’’یہ دین آسان ہے‘ اس میں آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔‘‘
(بخاری: ۳۹)
سخت
سردی کا موسم ہو اور جرابیں پہنی ہوئی ہوں انہیں اتارکرپنجوقتہ نماز کیلئے پانچ ٹائم
آپ پاؤں دھوئیں جبکہ شریعت مطہرہ میں مسح کی سہولت موجود ہو۔ اس سے بڑی ناشکرگزاری
کیا ہوسکتی ہے ؟ اور بنی اسرائیلیوں کے طریقے کی پیروی ہے جنہیں ایک سادہ سا حکم دیا
اور انہوں نے خود ہی اسے مشکل بنا لیا۔
\ مسح صرف جرابوں یا موزوں کے اوپر والے حصے
پر کیا جائے‘ سیدنا علیt کی مشہور روایت ہے کہ اگر دین
رائے صرف قیاس اور رائے پر مبنی ہوتا تو مسح اوپر کی بجائے تلوؤں پر کیا جاتاکیونکہ
گرد و غبار نیچے سے لگتا ہے۔(ابوداود، دارقطنی)
\ مسح کا وقت مقیم کیلئے ایک رات دن اور مسافر
کیلئے تین رات دن تک رخصت ہے۔(ترمذی ونسائی)
\ یاد رہے کہ جرابوں پر موزوں والے احکام صادر
ہوتے ہیں۔ یعنی جتنی مدت مسح کی موزوں کی ہے اتنی ہی مدت جرابوں پر مسح کی ہے۔یہی قول
صحابہ، تابعین اور مابعد کے فقہاء مثلاً سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، ا حمد، اسحاق
بن راہویہ وغیرہ کا ہے۔ (عون المعبود شرح سنن ابی داود: ۱/۱۳۲)
\ وضوء یا غسل کے بعد جرابیں پہن لی جائیں
تو اس کے بعد اتنی مدت تک مسح کیا جاسکتا ہے‘ مدت پوری ہونے یا احتلام یا حیض نفاس
اور غسل جنابت کی ضرورت لاحق ہوجانے سے مسح ختم ہوجاتا ہے۔ سیدنا صفوان بن عسالt
کی روایت ہے کہ دوران سفر رسول اللہe نے ہمیں حکم دیاکہ ہم اپنے
موزے تین دن اورتین رات پہنے رکھیں اور پاخانہ و پیشاب اور سوتے وقت نہ اتاریں سوائے
جنابت کے۔ (نسائی: ۱۵۸، ترمذی: ۹۶)
No comments:
Post a Comment