میرے محسن ومربی ... مولانا محمد عالم رحمہ اللہ
تحریر: جناب مولانا
مشتاق الرحمن سلفی
اس
جہانِ رنگ وبو میں بڑے صاحب علم وتقویٰ‘ فہم وذکاء عالم با عمل پیدا ہوئے اور پھر اپنے
اپنے ادوار میں علم وعمل کی شمعیں روشن کر کے بقائے دوام کی جانب سوئے منزل ہوئے۔ مگر
کچھ اس گلستان حیات میں ایسے صاحب تقویٰ وصاحب بصیرت افراد ہوتے ہیں جو اپنے علمی‘
تبلیغی‘ دعوتی‘ تدریسی امور کی وجہ سے حلقہ احباب کے دلوں میں خوشگوار یادیں منقش کر
جاتے ہیں جو بھلائیں بھی تو نہیں بھولتیں۔
انہی
نابغۂ روزگار شخصیتوں میں میرے مشفق ومہربان اور میرے محسن ومربی والد گرامی قدر مولانا
محمد عالمa ہیں جو باپ سے بڑھ کر استاد
زیادہ تھے۔ جنہوں نے تربیت دینی میں بڑی تگ ودو کی اور ہمیشہ منہج توحید وسنت اور مسلک
کے احیاء کو مقدم رکھا۔ اگر آج میں انہی کے منبر ومحراب کی مسند پر فائز ہوں تو یہ
ان کی تربیت ہی کا اثر ہے۔ اللہم اغفر لہم وارحمہم!
پیدائش:
آپ
۱۹۳۸ء
کے اوائل میں ضلع جالندھر (بھارت) میں چوہدری محمد اسماعیل کے گھر پیدا ہوئے جن کا
پیشہ زمیندار اور بیوپار (تجارت) کا وسیع کاروبار تھا جو علاقے میں معروف علمی‘ ادبی
گھرانہ تھا۔ اکثر برادریوں کے فیصلے آپ کے والد محمد اسماعیل پنجائیت کی صورت میں اپنے
ڈیرے پر ہی کرتے تھے۔ گاؤں ضلع جالندھر کی تحصیل بیکنار کے نواح میں جھگیاں گوماں خاں
تھا جو اکثریت اہل حدیث مسلک کے احباب پر مشتمل تھا۔ اس لیے خالص دینی ماحول میں بچپن
کے ایام گذارے اور تحریک پاکستان میں آپ کے والد محترم متحرک مسلم لیگی کارکن تھے جو
حفیظ جالندھری مرحوم (خالق قومی ترانہ) سے مل کر قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی تحریک
میں ہراول دستہ بن کر اپنی تحصیل میں کام کر رہے تھے۔ حتی کہ پاکستان کے معرض وجود
میں آنے کے وقت ۱۰۰
چکوک کے لوگوں کو اکٹھا کر کے قافلوں
کی شکل میں روانہ ہوئے۔ مگر راستے میں سکھوں‘ ہندوؤں سے پنجہ آزمائی کرتے ہوئے جانب
منزل روانہ تھے اور مڈبھیڑ میں شہادت کے منصب جلیل پر فائز ہو گئے۔ آپ کی والدہ بھی
شہید کر دی گئیں۔ خاندان کے اکثر بزرگ شہید ہو گئے۔ آپ تن تنہا محمد عالم گنڈا سنگھ
بارڈر عبور کرتے ہوئے اپنے پھوپھا کے قافلے سے جا ملے‘ اس وقت آپ کی عمر فقط ۹ سال
تھی۔ پاکستان کی سرزمین پر پہنچ کر اپنے والدین کا سایہ سر سے جدا پایا۔ شفیق پھوپھا
نے دست شفقت رکھتے ہوئے پرورش کا فریضہ نبھایا۔
ابتدائی تعلیم:
قیام
پاکستان کے فورا بعد ضلع بہاولنگر کی تحصیل ہارون آباد کے گاؤں 6/106-R
میں یہ خاندان آبسا۔ یوں مولانا عبدالستارa
فاضل دہلی سے کچھ پارے حفظ کیے اور ترجمہ وتفسیر بھی انہی سے سیکھا۔
پھر جامع مسجد اہل حدیث چوک والی 6/106-R
میں شعبہ درس نظامی کا آغاز ہوا تو حدیث‘ صرف ونحو‘ مولانا عبدالستارa
سے مکمل کیا اور خالص علمی ودینی ماحول میسر آیا۔ چونکہ یہ گاؤں ضلع
فیروز پور (بھارت) کے اہل حدیث لوگوں کا تھا جو علمائے اہل حدیث کو سالانہ کانفرنس
میں بڑی عقیدت سے بلاتے تھے۔ مولانا محمد داؤد غزنویa‘ مولانا محمد اسماعیل سلفیa‘ مولانا محمد اسماعیل روپڑیa‘ مولانا عبدالقادر روپڑیa‘ مولانا علی محمد صمصامa‘ مولانا شیخ سعید الفتa‘ مولانا محمد ابراہیم کمیر پوریa
ودیگر جید علماء کرام کانفرنس کی زینت بنتے۔ سہ روزہ کانفرنس گاؤں
میں منعقد ہوتی تھی۔
عملی زندگی:
علمی
زندگی کا آغاز گاؤں کی مسجد میں امامت سے شروع ہوا پھر ۱۹۶۶ء میں اپنے ضلع
جالندھر کے گاؤں کے لوگ جو وہاڑی میں آبسے تھے وہ آپ کو لینے کے لیے ہارون آباد پہنچے
مگر آپ کے اقرباء آپ کو ہرگز دور بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے۔ کیونکہ والد گرامی اپنے
والدین کے اکلوتے بیٹے تھے۔ پھوپھی صاحبہ ان کو جان سے عزیز سمجھتی تھیں۔ مگر صاحب
علم وتقویٰ لوگ کب گھر کو مجبوری بناتے ہیں‘ یوں وہاڑی کے بزرگوں نے آپ کو اپنے پاس
گاؤں کی جامع مسجد اہل حدیث میں بطور خطیب ڈیوٹی سونپی اور پھر تا حیات وہاڑی کے نواحی
گاؤں میں تا دم آخریں درس وتدریس وخطابت کے منصب سے منسلک رہے۔ یاد رہے کہ آپ نے ساری
عمر جماعت سے لوجہ اللہ بلا معاوضہ فرائض انجام دیے۔ خود کاروبار کر کے اپنے بال بچوں
کا پیٹ پالتے رہے۔ کبھی جماعت سے تنخواہ وصول نہ کی اور بحمد اللہ اپنے چار بیٹوں اور
چار بیٹیوں کو دین ودنیا کی تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کیا۔
پورا
گاؤں آج بھی ان کی للہیت‘ تقویٰ وعمل سے متاثر ہے۔ شادی بیاہ کی رسومات کو سختی سے
روکتے‘ عورتیں اس قدر حیا کرتیں کہ جب بازار سے گذرتے تو وہ باپردہ ہو کر ایک طرف ہو
جاتیں۔ آج بھی مسجد کے در ودیوار شاہد ہیں کہ پھر وہ بہار میسر نہ رہی۔
وہاڑی
میں بڑی کانفرنس کروانا والد محترم کا خاصا تھا‘ گاؤں وہاڑی شہر سے سات میل کی دوری
پر تھا۔ مہمان نواز اس قدر تھے کہ اکثر علماء کرام بن بلائے پروگرام کر جاتے اور میزبانی
ابا جان مرحوم خود کیا کرتے۔ مولانا عبدالقادر روپڑیa اکثر آیا کرتے۔ خوب محفلیں
جمتیں۔ اسلاف کے تذکرے ہوتے۔ علمی بحثیں ہوتیں۔ آج وہ علمی بہاریں یاد آتی ہیں تو حسرت
ویاس ہوتی ہے۔ وہ بزرگ شب زندہ دار ہوتے۔
قاری
عبداللطیفa خطیب مرکزی جامع مسجد مبارک
اہل حدیث جناح روڈ وہاڑی جو بڑے ولی کامل تہجد گذار عالم با عمل تھے جو ابا جان مرحوم
کے ابتدائی قریبی ساتھی تھے۔ مولانا ثناء اللہ شیخوپوریa‘ مولانا عبدالرحمن رنگپوریa شیخ الحدیث جامعہ اہل حدیث
لکڑ منڈی وہاڑی بڑے نفیس ترین انسان تھے جن سے والد محترم کی گہری دوستی تھی۔ یہ احباب
اکثر وبیشتر ہمارے گاؤں ہماری مسجد میں پروگرام کے لیے تشریف لاتے رہتے تھے اور اس
قدر بے لوث‘ خود دار تھے کہ کبھی پروگرام کا معاوضہ طلب نہ کرتے۔ اللہ ان سب بزرگوں
کو جنت الفردوس کا مہمان بنائے۔ آمین!
اسی
طرح گگو منڈی میں مولانا عطاء اللہ طارق بڑے متحرک با ذوق خطیب تھے۔ مواعظ طارق خطبات
انہی کا سلسلہ تبلیغی ہے۔ وہ بھی والد محترم کے قریبی ساتھی تھے۔ حالات کی برق رفتاری
بھی کیا عجیب ہے کہ وقت گذرتے دیر نہیں لگتی۔ آج یہ ملنسار صاحب تقویٰ بزرگ جو مرحومین
ہو چکے یاد آتے ہیں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آج کے اس قحط الرجال میں یہ ہیرے کس قدر
نایاب ہیں اور یہ ان علماء کرام کے لیے مشعل راہ ہیں جو اپنا نام کمانے کے چکر میں
سرگرداں نظر آتے ہیں۔ مگر عمل‘ عبادت‘ ریاضت سے تہی دست ہیں۔ اللہ ہمیں اپنے اسلاف
کے طریقہ پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین!
مولانا
محمد عالمa ایک عہد‘ ایک تحریک تھے‘ کبھی
بھی انہوں نے حق بیان کرتے ہوئے لچک سے کام نہ لیا بلکہ بہ بانگ دہل اعلائے کلمۃ اللہ
کے پرچم کو سربلند رکھا۔ کبھی کوئی کام خلاف شریعت نہ کیا اور نہ کرنے دیا۔ جب خطبہ
جمعہ ارشاد فرماتے تو گرجدار آواز‘ حق گوئی وبے باکی کی تصویر ہوتے۔ فجر کے بعد ساری
زندگی درس قرآن کا اہتمام رکھا اور ہمیں نماز پنجگانہ کا ہمیشہ بچپن سے سختی سے پاند
بنائے رکھا۔ اللہ کا خاص فضل تھا کہ سارا گاؤں ان کے زہد وتقویٰ کی وجہ سے بہت قدر
کرتا تھا۔ آج بھی لوگ ان کی مثالیں دیا کرتے ہیں تو دعائیں سینہ دل سے بے اختیار نکلتی
ہیں۔
آپ
ہمیشہ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث کے ساتھ منسلک رہے اور تا دم آخریں ساتھ نبھایا‘ قافلوں
کی شکل میں ساتھیوں کو سالانہ پروگرام بورے والا مرضی پورہ میں سہ روزہ کانفرنس ہو
یا شہر وہاڑی کی کانفرنسز ہوں بھر پور طریقے سے شمولیت اختیار کرتے۔ آپ کے حلقہ احباب
میں ہمارے گاؤں کے قریب چک ۳۲ دوگلاں
والا معروف قصبہ ہے جو کہ نذر محمد دوگلa سابق (ایم پی اے) وہاڑی کا
گاؤں ہے وہاں چوہدری نذر محمد چٹھہa اکثر جمعۃ المبارک آپ کے پاس
مسجد میں ادا کرتے اور وہ مقلد تھے۔ مگر جب آپ کی صحبت اختیار کی تو مسلک حق اہل حدیث
کو اختیار کر لیا اور اپنے گاؤں میں مسجد اپنی جیب سے تعمیر کروائی جو بلاشبہ ان بزرگوں
کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔ ہم وہاڑی سے تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے ۱۹۹۷ء میں لاہور منتقل
ہوئے تو والد محترم وہاڑی سے لاہور ہماری دیکھ بھال کے لیے تشریف لاتے رہے۔ بڑے بیٹے
پروفیسر محمد عباس کلیم کو جامعہ تعلیم الاسلام مامونکانجن داخل کروایا۔
بحمد
اللہ انہوں نے وہاں سے سند فراغت حاصل کی جو والد صاحب کے لیے صدقہ جاریہ ہیں اور اسلام
آباد میں پروفیسر ہیں۔ اسی طرح راقم مدرسہ سلفیہ ستیانہ بنگلہ اور جامعہ اہل حدیث روپڑیہ
سے فیض علم اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اسلامیات وعربی کی ڈگریاں حاصل کر چکا ہے۔
(ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء) یہ بابا مرحوم کی تربیت کا اثر ہے۔
۲۰۰۲ء میں آپ کو دوران خطابت بیماری نے آگھیرا۔
بخار رہنے لگا تو کچھ دیر لاہور گلاب دیوی ہسپتال داخل رہے پھر طبیعت میں بہتری پر
وہاڑی گاؤں تشریف لائے اور دوبارہ کاروان دعوت کو اپنا لیا مگر تقدیر غالب آکر رہتی
ہے۔ طبیعت پھر اچانک بگڑ گئی اور کمزور ہو گئے۔ بستر مرگ پر کبھی نماز کو نہ چھوڑا‘
تیمم کر کے نماز وقت پر پڑھتے اور کبھی بے اختیار رو دیتے کہ کاش! میں اپنی مسجد میں
جا سکتا۔ رحلت سے ایک دن پہلے پوری جماعت کو بلا کر سب سے ملے اور کہا کہ میرے ساتھیو!
میں نے آپ کے درمیان ۵۰
سال سے زیادہ عرصہ گذرا‘ اگر میری زبان
سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معاف کر دینا۔ ساتھی رونے لگے کہ حضرت آپ نے تو کبھی
کسی کا دل نہیں دکھایا‘ آپ تو ہمارے مشفق امام وخطیب ہیں۔
اگلے
دن طبیعت زیادہ بگڑ گئی تو تمام گھر والوں کو پاس بلا کر نماز کی تلقین کرنے لگے کہ
میرے بعد نماز کو نہ چھوڑنا‘ میرے ساتھ وعدہ کرو۔ آخری وصیت بحیثیت باپ اپنی اولاد
کو نماز کی کر رہے تھے اور بیٹوں‘ عزیزوں شاگردوں کو پیار دے رہے تھے جیسے جانے والا
مہمان رخصتی کے وقت دیتا ہے۔ احباب کا گھر میں تیمار داری کا تانتا بندھا ہوا تھا۔
عصر
کے وقت کلمہ شہادت با آواز بلند پڑھتے ہوئے ہاتھ اٹھائے روح پرواز کر گئی۔ یوں ایک
مشفق ومہربان خطیب مدرس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ اگلے دن شہر
وہاڑی میں اعلانات جنازہ ہوئے۔ اس وقت کے خطیب شہر مولانا محمد ادریس ضیاء a
جو والد صاحب کے جگری دوست تھے نے نماز جنازہ انتہائی رقت آمیز انداز
میں پڑھائی۔ جنازہ سے قبل حضرت حافظ صاحب نے خطاب بھی کیا اور والد مرحوم کی یادیں
آنسوؤں کے ساتھ بیان کیں۔ ایک جم غفیر نماز جنازہ میں شریک تھا۔ پھر انہیں گاؤں کے
قبرستان میں آنسوؤں اور سسکیوں میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
اللہم اغفر لہ وارحمہ!
No comments:
Post a Comment