درسِ قرآن
امن‘ مہذب
معاشرہ کی ضرورت
ارشادِ باری ہے:
﴿اَوَ لَمْ يَرَوْا
اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ﴾ (العنكبوت)
’’کیا یہ نہیں دیکھتے
کہ ہم نے حرم کو باأمن بنا دیا حالانکہ اس کے ارد گرد سے لوگ اُچک لیے جاتے ہیں۔‘‘
معاشرتی امن و سلامتی
افراد معاشرہ کی بنیادی ضروریات میں سے ہے اور امن وامان کا ماحول انسان کو مہذب اور
متمدن بنانے کا باعث بنتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس وہ معاشرہ جہاں خوف کے بادل چھائے رہیں
اور امن وامان کی صورتحال مخدوش رہے اور اس کے ساتھ ساتھ افراد معاشرہ کو جہالت کی
تاریکی کابھی سامناہو تو وہاں لوگ تہذیب کے دائرہ سے نکل کرایسے افعال کا ارتکاب کر
بیٹھتے ہیں جو بحیثیت مجموعی اقوام و ملل پر اثر انداز ہوتے ہیں، کیونکہ انسان اپنی
حفاظت کے لیے کسی غیر مہذب فعل کا ارتکاب کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتا ۔جبکہ
اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو نعمت امن سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے جو اس کی راہ پر چلتے
ہیں اور اس کی نازل کردہ شریعت پر عمل پیراہوتے ہیں:
﴿وَعَدَ اللّٰهُ
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي
الْاَرْضِ ...﴾
’’جو لوگ ایمان لائے
اور نیک اعمال کی بجاآوری کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا ‘اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ضرور
خلیفہ بنائے گا ....... اور ان کے خوف وخطر کو امن وامان سے بدل دے گا۔‘‘ (النور)
جب مسلمان شریعت
الٰہی پر استقامت ‘ تعلیمات نبوی کو اپنا رہبر اور رضائے الٰہی کو اپنی منزل بنالیں
گے اور اپنے تمام امور زندگی میں منہج اسلامی کو اپنائیں گے تبھی جاکر وہ اس وعدۂ
الٰہی کے حقدار قرار پائیں گے اور اللہ تعالی انہیں ہرقسم کی اندرونی وبیرونی دہشت
سے آزادی نصیب فرمائیں گے۔
﴿فَاَيُّ الْفَرِيْقَيْنِ
اَحَقُّ بِالْاَمْنِ١ۚ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَۘ۰۰۸۱ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ
يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۰۰۸۲﴾
(الانعام)
’’ان دو جماعتوں
میں سے امن کاکون زیادہ مستحق ہے۔جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے
ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں۔‘‘
اسی لیے کہا گیا
ہے کہ: ’’امن و امان ‘غربت و افلاس کے غم کو کم کردیتا ہے جبکہ ڈر اور خوف کے حالات
میںمال ودولت کی ریل پیل بھی سکون نہیں دلا سکتی۔‘‘
حکمرانان وقت کو
چاہیے کہ وہ اس نعمت عظمٰی کے حصول کے لیے ان تمام ذرائع اور اسباب کو بروئے کار لائیں
جن کی طرف شریعت الٰہیہ ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ان میں سب سے اہم توحید الٰہی کی اشاعت
و ترویج اور قرآن وسنت پر عمل اور ان کی تعلیمات کا عملا نفاذ ہے۔ یہی ایک حقیقی صورت
ہے جو معاشرتی امن کو بحال کرسکتی ہے۔
درسِ حدیث
عمدہ نصیحتیں
[عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِﷺ قَالَ: "لاَ تَبَاغَضُوا،
وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلاَ تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللَّهِ إِخْوَانًا، وَلاَ
يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ".] (بخاری
ومسلم)
سیدنا انس سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم ایک دوسرے سے تعلق منقطع
نہ کرو‘ نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو‘ نہ ایک دوسرے سے بغض رکھو‘ نہ آپس میں حسد کرو‘
اور اے اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے
(مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھے۔‘‘
اسلام دین فطرت
ہے لہٰذا اس میں فطری امور اور معاملات کی مناسب حد تک رعایت رکھی گئی ہے‘ جب دو مسلمانوں
میں کسی وجہ سے لڑائی جھگڑا ہو جائے تو طبیعت میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا پیدا ہو
جانا فطری بات ہے جس کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے سے بولنا اور تعلق قائم رکھنا نہیں
چاہتے۔ شریعت نے اس فطری کیفیت کو تسلیم کیا اور تین دن تک بول چال بند رکھنے کی اجازت
دے دی لیکن تین دنوں سے زائد مدت کے لیے قطع تعلق کی اجازت نہیں دی۔ اس لیے کہ ترک
تعلق کی وجہ سے بغض وعداوت پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس سے معاشرتی فساد میں اضافہ اور
رشتہ داریوں میں خلل پیدا ہونے کا امکان ہے‘ اس بنا پر عارضی تلخی اور کشیدگی کو تین
دن سے زیادہ برقرار رکھنے سے روک دیا۔ رسول اللہe نے تعلیم دی کہ ایک دوسرے سے تعلق منقطع نہ کرو اس لیے
کہ تعلق توڑنے سے معاشرے میں خرابی پیدا ہوتی
ہے۔ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو‘ ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو کہ جب آپس میں ملیں
تو ایک کا چہرہ اور طرف ہو اور دوسرے کا چہرہ دوسری طرف‘ بلکہ فرمایا کہ اپنے مسلمان
بھائی کو مسکرا کر ملو اور پیٹھ نہ پھیرو۔ یعنی ناراضگی کا اظہار نہ کرو۔ آپس میں
پیار ومحبت کی فضا پیدا کرو اور دوسروں کے خلاف اپنے دل میں بغض اور نفرت نہ رکھو۔
اس لیے کہ بغض رکھنے سے محبت ختم ہو جاتی ہے اور تعلق ورشتہ داریاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ مزید
فرمایا کہ آپس میں حسد نہ کرو‘ حسد نیکیوں کو ختم کر دیتا ہے اور ایسا گناہ ہے جس
سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حسد کی آگ میں جلنے والا انسان اپنا ہی نقصان کرتا ہے اور
ہر قسم کی بھلائی سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کی ہر وقت یہی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ وہ
نعمت میرے کسی عزیز کو ملی ہے اس سے چھن جائے اور مجھے مل جائے حالانکہ ملتا وہی ہے
جو مقدر میں ہوتا ہے۔ لہٰذا ان دل کی بیماریوں کو چھوڑ کر آپس میں بھائی بھائی بن
جاؤ اور آپس میں خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرو۔ شرعی سبب کے بغیر اپنے کسی بھائی کو
تین دن سے زیادہ عرصے کے لیے نہ چھوڑا جائے۔ آپس میں محبت کرو‘ اللہ آپ سے محبت کرے
گا۔
No comments:
Post a Comment