Sunday, January 26, 2020

حضرت لقمانؓ کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں 04-20


حضرت لقمان ﷤ کی اپنے بیٹے کو نصیحتیں

امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ابن عبدالعزیز بلیلہ d
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو۔ نیکی کا وقت ختم ہونے سے پہلے خوب نیکیاں کر لو، دنیا کی زیب وزینت اور اس کی آسائشیں تمہیں مشغول نہ کر دیں، یہ بار بار دھوکہ دے کر تباہ کر دینے والی چیز ہے۔
{وَاَلْقَتْ مَا فِیها وَتَخَلَّتْ} (الِانْشِقَاقِ: ۴)
’’اور جو کچھ اس کے اندر ہے اُسے باہر پھینک کر خالی ہو جائے گی۔‘‘
دیکھو! موت اچانک آ جاتی ہے اور آخرت میں سب کو اللہ کے سامنے کھڑے ہونا ہے۔ تو اپنی نیکیوں کے حوالے سے فکر مند رہو، گناہوں کے حوالے سے ڈرتے رہو، تیزی سے اللہ کی طرف سفر طے کر لو، اس سے پہلے کہ موت کا وقت آ جائے۔
اس کو پڑھیں:  پبلک پراپرٹی کی حرمت
اے مسلمانو! قرآن حکیم کی نصیحتوں میں دانشمندوں کے لیے بڑے سبق ہیں، یہ بھی اللہ کے عظیم نور کا ایک حصہ ہیں۔ جس کے ذریعے وہ اپنے جن بندوں کو چاہتا ہے، انہیں ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ قرآنی نصیحتوں میں ایسے راز حیرت انگیز چیزیں ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن ہی نہیں اور جن کی گہرائی تک پہنچا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ بھی کوئی حیرت والی بات نہیں، کیونکہ یہ حکیم اور علیم کا کلام ہے۔
{وَإِنَّك لَتُلَقَّی الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكیمٍ عَلِیمٍ} (النَّمْلِ: ۶)
’’اور (اے محمد!) بلاشبہ تم یہ قرآن ایک حکیم و علیم ہستی کی طرف سے پا رہے ہو۔‘‘
 بہترین نصیحت وہی ہے جو دانشمندی کے چراغ سے نکلے اور جو شفقت اور رحمت کے لباس میں ملبوس ہو۔ یقینًا! ایسی ہی نصیحتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے لقمان کے حوالے سے قرآن کریم میں نقل کی ہیں۔ وہ بھی اللہ کے ایک نیک بندے تھے، جن کے دل میں اس نے حکمت کے چشمے جاری کر دیے تھے، اسی حکمت کی خالص مٹھاس ان کی زبان پر آ گئی اور ان کی سمجھداری لوگوں میں ایک مثال بن گئی۔ کیا ہی شاندار زبان تھی  اور کیا ہی بہترین نصیحتیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
{وَلَقَدْ آتَیْنَا لُقْمَانَ الْحِكمَة اَنِ اشْكرْ لِلّٰه وَمَنْ یَشْكرْ فَإِنَّمَا یَشْكرُ لِنَفْسِهٖ وَمَنْ كفَرَ فَإِنَّ اللّٰه غَنِیٌّ حَمِیدٌ} (لُقْمَانَ: ۱۲)
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی کہ اللہ کا شکر گزار ہو جو کوئی شکر کرے اُس کا شکر اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی کفر کرے تو حقیقت میں اللہ بے نیاز اور محمود ہے۔‘‘
پھر اس نے لقمان کی دس نصیحتیں ذکر فرمائیں۔ یہ نصیحتیں انتہائی بیش قیمت ہیں، انتہائی پختہ اور فصیح ہیں، اچھی خوبیوں کو جمع کرنے والی ہیں، بہترین اخلاق اپنے اندر سمیٹنے والی ہیں۔ بلند ذکر والا الٰہ فرماتا ہے:
{وَإِذْ قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهٖ وَهوَ یَعِظُه یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِك بِاللّٰه إِنَّ الشِّرْك لَظُلْمٌ عَظِیمٌ}
’’یاد کرو جب لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہا تھا تو اس نے کہا: بیٹا! خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا، حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ (لُقْمَانَ: ۱۳)
لقمان نے اللہ کے حق سے شروع کیا، جو عظیم ترین، سب سے پہلا اور سب سے اولیٰ حق ہے۔ توحید خالص کا حق، ایسی توحید جو شرک سے پاک ہو۔ انسان توحید سے بے نیاز کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ اسے چھوڑ دے تو  اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو آسمان  سے گر پڑے، اسے یا تو پرندے اچک لیجائیں گے، یا ہوا کسی دور دراز مقام پر جا پھینکے گی۔ لقمان نے شرک کی ہولناکی بیان کی اور اسے ایک بہت بڑا ظلم قرار دیا، کیونکہ اس میں خالق کو مخلوق کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ اس خالق کو جس کے ہاتھ میں ہر چیز ہے اس مخلوق کے برابر کر دیا جاتا ہے جس ہاتھ میں کچھ نہیں۔ بھلا انسان، جو بذات خود مخلوق ہے، وہ اپنے جیسی ہی دوسری مخلوق چیز کے سامنے کیوں جھکے؟ وہ بھی ایسی چیز کے سامنے جو اس کا کوئی نفع یا نقصان نہیں کر سکتی،  اس کی موت اس کے ہاتھ میں ہے، نہ اس کی زندگی اس کے ہاتھ میں ہے اور نہ اس نے اسے قبر سے اٹھانا ہے۔ تو اے مسلمان! اس پروردگار کے سامنے جھکو جس نے تجھے بندوں کی بندگی سے نکال کر بلند کر دیا، اپنے جیسی مخلوق چیزوں اور برابر کی چیزوں کی بندگی سے بچا لیا۔ جس نے بتوں کو سجدہ کرنے سے تجھے محفوظ کر لیا۔ جس نے بہت پہلے ہی تیرے حق میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ جو نعمتیں اس نے تمہیں دی ہیں، وہ پوری کر کے چھوڑے گا۔ صرف اسی  سے محبت کر۔ صرف اسی پر بھروسہ کر۔ اسی کی خوشی کو ترجیح دے۔ اسی کی خوشی اور رضا کو اپنے دل کا کعبہ بنا، اسی کے گرد طواف کرتا رہ، اسی کے ستونوں کو بوسہ دیتا رہ۔
اللہ کے بندو! اللہ کے حق کے بعد کوئی حق والدین کے حق جتنا اہم نہیں۔ اسی لیے توحید کے ساتھ ہی لقمان نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے احسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی نصیحت کی۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْه حَمَلَتْه اُمُّه وَهنًا عَلٰی وَهنٍ وَفِصَالُــــه فِی عَامَیْنِ اَنِ اشْكرْ لِی وَلِوَالِدَیْك اِلَیَّ الْمَصِیرُ} (لُقْمَانَ: ۱۴)
’’حقیقت یہ ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے‘ اُس کی ماں نے ضعف پر ضعف اُٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اُس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اِسی لیے ہم نے اُس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔‘‘
اللہ اکبر! والدین کے ہاتھ کس عمدگی سے اولاد کی حفاظت کر رہے ہوتے ہیں؟ ان کی آنکھیں کتنی توجہ سے ان کی نگہبانی کر رہی ہوتی ہیں؟ ان کے دل اولاد پر کس طرح شفقت کر رہے ہوتے ہیں؟ ان کے نفس اولاد کے لیے کس طرح تیار، مستعد اور چوکنے رہتے ہیں؟ اللہ کی قسم! یہ ایثار اور نیکی کے ایک بے مثال معجزے سے کم نہیں ہے۔ بلکہ یہی نگہبانی اور فضیلت کا  سرچشمہ ہے۔ ماں کی فضیلت اس لیے زیادہ ہے کہ اسے دہری مشقت اٹھانا پڑتی ہے، تھکاوٹ پر تھکاوٹ سہنا پڑتی ہے، مگر اس کی تھکاوٹ اور مشقت سے اس کی شفقت ہی بڑھتی ہے۔ ماں ہی نسل کو سنبھالنے والا برتن ہے، بچوں کے بیج اگانے والی مٹی ہے۔ بلکہ وہ زندگی کی زینت ہے، بہت فائدہ مند پھول ہے، جلالت کا گھر ہے اور پیار کا مقام ہے۔ کمزوری کی جگہ ہے، اور شفقت کا مرکز ہے۔
اے مسلمانو! اگر والدین اپنی اولاد کو شرک کی طرف بھی بلاتے ہوں، تب بھی ان کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم ہی دیا گیا ہے، مگر اللہ کی نافرمانی اور شرک سے دور رہنے کی بھی تلقین کی گئی ہے۔ اس تعظیم کے بعد اور بھی کوئی تعظیم ہو سکتی ہے؟ اس اہمیت کے بعد اور بھی کوئی اہمیت ہو سکتی ہے؟ صاحب عزت پروردگار کا فرمان ہے:
{وَإِنْ جَاهدَاك عَلٰٓی اَنْ تُشْرِك بِی مَا لَیْسَ لَك بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهمَا وَصَاحِبْهمَا فِی الدُّنْیَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِیلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكمْ فَاُنَبِّئُكمْ بِمَا كنْتُمْ تَعْمَلُونَ}
’’لیکن اگر وہ تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہرگز نہ مان‘ دُنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اُس شخص کے راستے کی کر جس نے میری طرف رجوع کیا ہے پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اُس وقت میں تمہیں بتا دوں گا کہ تم کیسے عمل کرتے رہے ہو۔‘‘ (لُقْمَانَ: ۱۵)
لقمان  اپنے بیٹے کو عظیم نصیحتیں کرتے چلے جاتے ہیں: شفقت، نرمی اور کمال درجے کے پیار کے ساتھ کہتے ہیں:
{یَا بُنَیَّ إِنَّها إِنْ تَك مِثْقَالَ حَبَّة مِنْ خَرْدَلٍ فَتَكنْ فِی صَخْرَة أَوْ فِی السَّمَاوَاتِ أَوْ فِی الْأَرْضِ یَأْتِ بِها اللَّه إِنَّ اللَّه لَطِیفٌ خَبِیرٌ}(لُقْمَانَ: ۱۶)
’’بیٹا، کوئی چیز رائی کے دانہ برابر بھی ہو اور کسی چٹان میں یا آسمانوں یا زمین میں کہیں چھپی ہوئی ہو، اللہ اُسے نکال لائے گا‘ وہ باریک بیں اور باخبر ہے۔‘‘
سب کے سامنے بھی اور تنہائی میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔ جہاں تیرا ہونا اسے پسند نہیں، وہاں کبھی مت جاؤ۔ جہاں تیرا ہونا اسے پسند ہے، وہاں سے کبھی مت جاؤ۔ وہ تجھے دیکھ رہا ہے اور تیرے حال سے واقف ہے۔ کوئی پوشیدہ چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں، چاہے وہ بہت چھوٹی یا حقیر ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ کی قسم! یہ نصیحت بالکل ٹھیک ترتیب سے کی گئی ہے۔ لقمان نے اپنی نصیحت کی ابتدا سب سے عظیم حکم سے شروع کی، جو کہ خالص توحید ہے، پھر انہوں نے دل کی پاکی اور دل کے اعمال کا ذکر کیا، کیونکہ یہی اعمال اللہ کے یہاں سب سے عظیم اور قابل قدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ شکلوں اور صورتوں کو نہیں دیکھتا، بلکہ دلوں اور کاموں کو دیکھتا ہے۔
اے مسلمانو! لقمانu اپنے بیٹے کو بہترین خصلتوں، اچھے اخلاق اور شاندار اقدار کی نصیحت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ جب عقیدہ پاکیزہ کرنے اور توحید خالص کرنے کی نصیحت کر چکے تو دل کے اعمال کا رخ کیا، یعنی اللہ کو یاد رکھنا، اسی سے ڈرنا، اسی سے امید رکھنا۔ پھر انہوں نے دوسرے اعمال کی طرف بھی اشارہ کیا۔ ان میں بھی افضل ترین اور اہم ترین کا ذکر کیا۔ یعنی نماز قائم کرنے کا حکم دیا۔ نصیحت کرتے ہوئے کہا:
[یَا بُنَیَّ اَقِمِ الصَّلَاة۔] (لُقْمَانَ: ۱۷)
’’بیٹا، نماز قائم کر۔‘‘
اللہ کے بندو! نماز مؤمنوں کا شعار ہے، عبادت گزاروں کی راحت ہے اور رجوع کرنے والوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اسلامی شریعت میں اس کی شکل انتہائی کامل اور شاندار ہے۔ اس کے ذریعے خالق تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس میں اللہ کی حمد وثنا، اس کی بڑائی کا بیان، اس کی تسبیح، تکبیر اور شہادتِ حق، سب موجود ہیں۔ اس میں ہر طرح کی تدبیریں کرنے والے کے سامنے عاجزی اور انکساری کے ساتھ کھڑا ہوا جاتا ہے، اس سے دعا کی جاتی ہے اور اسی کے کلام سے اس کا قرب مانگا جاتا ہے۔ پھر عاجزی  اور خشوع کے ساتھ اس کے سامنے سر جھکایا جاتا ہے، پھر مزید عاجزی کے اظہار کی تیاری میں کھڑا ہوا جاتا ہے، پھر قیام کی حالت سے سجدے میں جا کر اپنی قیمتی ترین چیز  یعنی ماتھے کو رب تعالیٰ کے سامنے خشوع کے اظہار میں مٹی پر رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ بھی ا س کی  عظمت کے سامنے جھکنے، اس کی عزت کے سامنے انکساری اپنانے کا کمال طریقہ ہے۔ یہاں انسان کا دل بھی نرم ہو چکا ہوتا ہے، جسم بھی مکمل عاجزی کا اظہار کر رہا ہوتا ہے، انسان کے تمام اعضاء بھی اس کے سامنے خشوع وخضوع میں ہوتے ہیں۔ پھر انسان بیٹھ کر اللہ سے دعا کرتا ہے، اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے فضل عظیم کا سوال کرتا ہے۔ پھر دوبارہ عاجزی، خشوع اور بے بسی کے اظہار کے لیے سجدے میں گر جاتا ہے۔ نماز میں مسلسل وہ یہی کام کرتا رہتا ہے۔ نماز ختم کرنے سے پہلے وہ اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے لیے بیٹھ جاتا ہے، نبی اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام بھیجتا ہے، پھر رسول اللہ e پر درود بھیجتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ سے خیر، نیکی اور اس کی مہربانی کا سوال کرتا ہے۔ کون سی عبادت ہے جو اس عبادت جیسی حسین ہو، اس کمال سے بڑھ کر کون سا کمال ہو سکتا ہے؟ اس بندگی سے بڑھ کر اور کون سی بندگی ہو سکتی ہے؟
اللہ کے بندو! جب لقمان اپنے نفس کی تکمیل کی نصیحت کر چکے تو دوسروں کی تکمیل کی نصیحت شروع کی۔ بہترین لوگ وہی ہوتے ہیں جو بذات خود کامل ہوں اور دوسروں کو کامل کرنے والے ہوں۔ فرمایا:
{وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْه عَنِ الْمُنْكرِ} (لُقْمَانَ: ۱۷)  ’’نیکی کا حکم دے۔‘‘
اس کو پڑھیں:   اللہ کی رحمت سے مایوسی
نیکی ایک ایسا جامع لفظ ہے جس میں ہر خیر و بھلائی  کا کام آ جاتا ہے جسے لوگ اچھا سمجھتے ہیں۔ اسی طرح برائی ایسا جامع لفظ ہے جس میں ایسا ہر برا کام آ جاتا ہے جسے لوگ برا سمجھتے ہیں۔ یعنی یہاں ہر اچھے کام کی تلقین کا حکم دیا گیا، اور ہر برے کام سے روکنے کی نصیحت کی گئی۔ نیکی کا حکم دینا اور برائی  سے روکنا برتری کا ذریعہ ہے، امت محمدیہ کی تفضیل کا راز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{كنْتُمْ خَیْرَ اُمَّة اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهوْنَ عَنِ الْمُنْكرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّه} (آلِ عِمْرَانَ: ۱۱۰)
’’دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے‘ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
پھر لقمان نے کہا:
{وَاصْبِرْ عَلَی مَا اَصَابَك إِنَّ ذَلِك مِنْ عَزْمِ الْاُمُورِ} (لُقْمَانَ: ۱۷)
’’اور جو مصیبت بھی آن پڑے اس پر صبر کر‘ یہ وہ باتیں ہیں جن کی بڑی تاکید کی گئی ہے۔‘‘
یہاں اللہ کے لیے کام کرنے والے ہر انسان کو صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ نماز کو تمام فرائض اور ارکان کے ساتھ، رکوع اور سجود کے ساتھ اور خشوع کے ساتھ ادا کرنے میں صبر، محنت اور بڑی سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت میں یہ بہت مشکل کام ہے مگر خشوع اپنانے والوں کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں۔ اسی طرح نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں بھی صبر اور اذیتیں برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی نفس کا بدلہ لینے اور اس کی خواہشات پوری کرنے کا کوئی موقع نہیں۔
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اے مسلمانو! اس پر نور نصیحت کے آخر میں ان آداب کا ذکر ہے جو اپنے نفس کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ اپنانے چاہئیں، اسی نصیحت کے پہلے حصے میں انسان کے اپنے رب کے ساتھ تعلق، عقیدے اور عمل پر زور دیا جا چکا ہے۔ لوگوں کے ساتھ ادب کے حوالے سے پاکیزہ الٰہ کا فرمان ہے:
{وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّك لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللّٰه لَا یُحِبُّ كلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ} (لُقْمَانَ: ۱۸)
’’اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر، نہ زمین میں اکڑ کر چل، اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
یہاں لوگوں سے منہ پھیرنے سے منع کیا گیا ہے، یعنی تکبر اور غرور میں آ کر ان سے منہ نہ پھیرا جائے، اسی طرح زمین پر اکڑ کر چلنے سے بھی منع کیا گیا، کیونکہ اس چال میں بھی تکبر اور خود پسندی کی بو آتی ہے۔ اس نصیحت میں تواضع کی تلقین گی گئی، نرمی اور انکساری کی تلقین کی گئی ہے۔ یہ اخلاق وہ شاندار اخلاق ہیں جن سے رب تعالیٰ کی محبت حاصل ہو سکتی ہے اور مخلوق کے دل جیتے جا سکتے ہیں۔ تکبر کرنے والوں کے بارے میں علماء فرماتے ہیں:
’’جب کوئی دو مسئلے یاد کر لیتا ہے، اور اس کے سامنے دو طالب علم بیٹھ جاتے ہیں، یا تھوڑی سی چودھراہٹ مل جاتی ہے تو وہ تکبر کی چال چلنے لگتا ہے، اس کا جی چاہتا ہے کہ اتنا اونچا ہو جائے کہ آسمانوں کو چھو جائے۔‘‘
ایسے لوگ جب اس آیت کو پڑھتے ہیں تو بڑی بے توجہی کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ ایسی تلاوت کا کیا فائدہ یاایسے تلاوت سننے کا کیا فائدہ کہ جب دل تدبر سے کوسوں دور ہو۔
اس کے بعد اپنے آپ کے ساتھ ادب اپنانے کی نصیحت کی گئی۔ قابل تعریف بلندی والا فرماتا ہے:
{وَاقْصِدْ فِی مَشْیِك وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِك إِنَّ أَنْكرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیرِ} (لُقْمَانَ: ۱۹)
’’اپنی چال میں اعتدال اختیار کر، اور اپنی آواز ذرا پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے۔‘‘
یہ بڑا بلند اور بیش قیمت ادب ہے جو انسان کو اچھا اخلاق سکھاتا ہے۔ یعنی مناسب چال چلنا۔ نہ زیادہ آہستہ ٹہلنا اور نہ زیادہ تیز بھاگنا۔ یہاں ہر معاملے میں اعتدال پسندی کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی طرح آواز نیچی رکھنے کا کہا گیا ہے، کیونکہ ضرورت کے بغیر اسے بلند کرنا بہت برا کام ہے۔ اس کی برائی میں کیا یہ کافی نہیں کہ اسے گدھوں کی آواز سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اے مشفق باپ! اے سمجھدار مربی! تیرے سامنے چند پرنور ہیرے ہیں، سونے جیسی بیش قیمت نصیحتیں ہیں، انہیں مضبوطی سے تھام لو۔ تربیت اور اصلاح کے راستے میں انہیں اپنا رہبر مان لو، اس طرح امیدیں پوری ہو جائیں گی اور کامیابی کی راہ نظر آ جائے گی۔
یاد رکھو کہ بہترین نعمت وہ دانشمندی ہے جو خیر کی راہ دکھاتی ہے، اس سے قریب کرتی ہے، برائی کا راستہ دکھاتی ہے، اور اس سے دور کرتی ہے۔ جس کی روشنی کی بدولت انسان دنیا میں مکمل سمجھ اور دلائل میں جیتا ہے، گمراہی سے محفوظ رہتا ہے، قدم پھسلنے سے بھی بچ جاتا ہے، اپنے معاملات کو خوب سمجھتا ہے، قدم بڑھانے سے پہلے خوب سوچتا ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر غضبناک نہیں ہوتا، ہر بڑی چھوٹی چیز اس کے جذبات نہیں ابھارتی۔ فرمایا:
{یُؤْتِی الْحِكمَة مَنْ یَشَآئُ وَمَنْ یُؤْتَ الْحِكمَة فَقَدْ اُوتِیَ خَیْرًا كثِیرًا وَمَا یَذَّكرُ اِلَّا اُولُو الْاَلْبَابِ} (الْبَقَرَة: ۲۶۹)
’’جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘ اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں۔‘‘
درود وسلام بھیجو اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں بہترین ہستی پر، جنہیں اللہ تعالیٰ نے وحی نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا۔ جنہیں رسول بنانے کے لیے منتخب کیا، جن پر رسالت کا سلسلہ ختم فرمایا۔ جن کے ذریعے اپنی رحمت کا دروازہ کھولا، جن کا ذکر بلند کیا، جن کا ذکر دنیا میں بھی بہت بلند ہے، جو سفارش کرنے والے ہیں جن کی سفارش قبول کی جائے گی۔ آپ کے پروردگار نے آپ کو یہی حکم دیا ہے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)