Sunday, January 19, 2020

احکام ومسائل


احکام ومسائل

جناب مولانا الشیخ حافظ ابومحمد عبدالستار الحمادd
خط وکتابت:  مرکز الدراسات الاسلامیہ ۔ سلطان کالونی‘ میاں چنوں‘ خانیوال‘ پاکستان  ای میل:  markaz.dirasat@gmail.com

آپریشن کے بعد خون جاری رہنا
O بچے کی ولادت کے موقع پر میرا آپریشن ہوا لیکن خون بند نہیں ہوا‘ اس سلسلہ میں بہت پریشان ہوں‘ شرعی احکام کی پابندی کہاں تک کرنا ہو گی؟ کتاب وسنت کی روشنی میں میری رہنمائی فرمائیں۔
P مخصوص ایام کے علاوہ عورتوں کو جو خون آتا ہے اسے استحاضہ کہا جاتا ہے‘ حدیث کی رو سے اس کی تین وجوہات حسب ذیل ہیں:
\          انقطاع رگ: … جب رگوں میں حد سے زیادہ خون بھر جاتا ہے تو رگ پھٹ جاتی ہے اور اس سے خون بہنے لگتا ہے۔
\          الحاق مرض: … کسی ہنگامی بیماری کی وجہ سے خون آنا شروع ہو جاتا ہے جو بند نہیں ہوتا۔
\          رکضۂ شیطان: … شیطان کے کچوکا مارنے سے خون جاری ہو جاتا ہے‘ جو دیر تک جاری رہتا ہے۔
صورت مسئولہ میں ایک ہنگامی حالت کے پیش نظر خون جاری ہوا ہے جو مذکورہ بالا وجوہات میں سے دوسری وجہ معلوم ہوتی ہے‘ رحم کے آپریشن کی وجہ سے خون جاری ہونے کی دو صورتیں ممکن ہیں:
\          آپریشن کے موقع پر رحم کو نکال دیا جائے یا اسے مسدود کر دیا جائے‘ ایسے حالات میں یقینی طور پر حیض جاری نہیں ہو سکے گا کیونکہ وہ رحم سے آتا ہے اور وہ نکال دیا گیا ہے یا اسے بند کر دیا گیا ہے۔ ایسی صورت حال کے پیش نظر جاری شدہ خون کا حکم اس زرد رنگ کے پانی یا رطوبت جیسا ہو گا جو حیض سے فراغت کے بعد برآمد ہوتا ہے ایسی عورت نماز اور روزے کی پابندی کرے گی اور اس سے جماع کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔ الا یہ کہ عورت تکلیف محسوس کرے‘ اسے چاہیے کہ نماز کے وقت خون دھو کر شرمگاہ پر پٹی باندھ لے تا کہ مزید خون نکلنا بند ہو جائے۔ پھر اگر فرض نماز پڑھنا ہے تو دخول وقت کے بعد اور اگر نوافل وغیرہ پڑھنے ہیں تو ان کی ادائیگی سے پہلے وضو کر لیا جائے‘ اس کے بعد نماز اور نوافل ادا کر لیے جائیں۔
\          دوسری صورت یہ ہے کہ آپریشن کے موقع پر رحم کو نہ نکالا جائے اور نہ ہی اسے بند کیا جائے‘ یعنی حیض آنے کا امکان باقی رہے۔ ایسی صورت میں بھی جاری شدہ خون‘ حیض نہیں بلکہ اس کے متعلق بھی استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔ جیسا کہ رسول اللہe نے فاطمہ بنت ابی حبیش r سے فرمایا تھا: ’’یہ رگ کا خون ہے‘ ہاں جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دینا۔‘‘ (بخاری‘ الوضوء: ۲۲۸)
اس فرمان نبوی سے رہنمائی ملتی ہے کہ جس عورت کو حیض آ سکتا ہے اور اس کے آنے جانے کا بھی پتہ ہو تو حیض کے علاوہ د وسرا خون استحاضہ کا ہے اور جس کے حیض کا امکان ہی نہیں جیسا کہ پہلی صورت میں ہے۔ اس کا خون زرد رنگ کے پانی یا رطوبت کا حکم رکھتا ہے۔
صورت مسئولہ میں سائلہ‘ مذکورہ وضاحت سے رہنمائی لے کر عمل کرے‘ اس مسئلہ کے متعلق مزید تفصیل یہ ہے کہ مستحاضہ‘ پاک عورت کے حکم میں ہے‘ صرف درج ذیل دو اقسام اس کے ساتھ خاص ہیں۔
\          مستحاضہ کو ہر نماز کے لیے نیا وضوء کرنا ہو گا جیسا کہ رسول اللہe نے سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیشrکو حکم دیا تھا کہ وہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرے۔ (بخاری‘ الوضوء: ۲۲۸)
اس کا مطلب یہ ہے کہ بر وقت ادا کی جانے والی نماز کے لیے دخول وقت کے بعد وضوء کیا جائے اور جن نوافل کا وقت مقرر نہیں انہیں ادا کرنے سے پہلے وضوء کرنا ہو گا۔
\          جب وضوء کرنے کا ارادہ ہو تو پہلے خون کے نشانات کو دھویا جائے پھر شرمگاہ پر روئی رکھ کر اس پر پٹی باندھ لی جائے تا کہ مزید خون بہنا بند ہو جائے۔ جیسا کہ رسول اللہe نے سیدہ حمنہr کو فرمایا تھا کہ ’’شرمگاہ پر روئی رکھ کر اس پر پٹی باندھ لے۔‘‘ عرض کیا‘ اللہ کے رسول! اس سے خون بند نہیں ہو گا۔ آپe نے فرمایا: ’’پھر کپڑا رکھ لو۔‘‘ عرض کیا ایسا کرنے سے بھی خون جاری رہتا ہے۔ فرمایا: ’’لنگوٹ باندھ لو۔‘‘ (ابوداؤد‘ الطہارہ: ۲۸۷)
اگرا س کے بعد بھی خون نہ رکے تو کوئی حرج نہیں‘ ایسی حالت میں نماز پڑھ لی جائے۔ واللہ اعلم!
جنبی کا پانی میں ہاتھ ڈالنا
O میرے میاں صبح صبح اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہیں‘ میں نے ان کے لیے ناشتہ تیار کرنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات حالت جنابت میں آٹا گوندھنا پڑتا ہے اور بار بار پانی میں بھی ہاتھ ڈالنا ہوتے ہیں‘ کیا اس میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں۔ وضاحت فرما دیں۔
P مسلمان انسان اس بات کا پابند ہے کہ وہ حلال اور طیب چیز کو اپنے استعمال میں لائے‘ حرام اور گندی چیزوں سے اجتناب کرے‘ اللہ تعالیٰ امام بخاریa کو فیضان رحمت سے ہمکنار کرے انہوں نے زندگی کے انتہائی حساس معاملات میں ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ مذکورہ سوال کے متعلق بھی انہوں نے رہنمائی کرتے ہوئے ایک عنوان قائم کیا ہے: ’’کیا جنبی اپنے ہاتھ دھونے سے پہلے انہیں برتن میں ڈال سکتا ہے؟ جبکہ جنابت کے علاوہ اس کے ہاتھ پر کوئی گندگی نہ ہو۔‘‘ (بخاری‘ الغسل‘ باب نمبر ۹)
اس سلسلہ میں انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمرw اور سیدنا براء بن عازبt کے آثار پیش فرمائے ہیں کہ دونوں حضرات بعض اوقات اپنے ہاتھ دھونے سے پہلے انہیں غسل کے پانی میں ڈال لیتے تھے۔ نیز امام شعبی بیان کرتے ہیں کہ بعض صحابہ کرام] اپنے ہاتھ دھوئے بغیر پانی میں ڈال دیتے حالانکہ وہ حالت جنابت میں ہوتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: ج۱‘ ص ۱۸۴)
امام بخاریa کے عنوان اور پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جنابت میں جو نجاست ہے وہ حکمی اور معنوی ہے‘ حسی نہیں کہ ظاہر میں اس کا اثر ہوتا ہو۔ اس لیے اگر جنبی حالت میں آدمی پانی یا برتن میں ہاتھ ڈال دے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس کے ہاتھ پر اور کوئی نجاست نہ لگی ہو۔ کیونکہ اگر ہاتھ پر کوئی اور نجاست لگی ہے تو اس صورت میں پانی پلید ہو جائے گا۔ شریعت نے خاص خاص چیزوں میں نجاست حکمی کا اعتبار کیا ہے۔ مثلاً
\          جنبی آدمی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔
\          جنبی حالت میں قرآن مجید کو چھو کر تلاوت نہیں کر سکتا۔
\          جنبی آدمی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ وغیرہ
اگرچہ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جنبی آدمی اپنے ہاتھ دھوئے بغیر پانی میں نہ ڈالے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرw سے بھی مروی ہے کہ آپ وضوء یا غسل سے پہلے ہاتھ دھو لیتے تھے اور انہیں دھوئے بغیر پانی میں نہیں ڈالتے تھے۔ (مصنف عبدالرزاق: ج۱‘ ص ۲۵۸)
یہ ایک احتیاطی معاملہ ہے تا کہ شیطان کو وضوء یا غسل کرنے والے کے دل میں وسوسہ اندازی کا موقع نہ ملے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرw سے مروی اثر کا بھی یہی مطلب ہے کہ اگر آپ کو یقین ہوتا کہ ہاتھ پر کوئی نجاست نہیں تو دھوئے بغیر ہاتھوں کو پانی میں ڈال دیتے۔ اگر اس کا یقین نہ ہوتا تو احتیاط کے پیش نظر انہیں پہلے دھو لیتے پھر برتن میں ڈالتے۔ اگرچہ صدیقہ کائنات سیدہ عائشہr کا بیان ہے کہ رسول اللہe جب غسل جنابت فرماتے تو پہلے اپنا ہاتھ دھوتے تھے پھر اسے پانی میں ڈالتے۔ (بخاری‘ الغسل: ۲۶۲)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت کی نظر میں پسندیدہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ دھو لیے جائیں پھر انہی ہاتھوں کو ڈالا جا سکتا ہے۔ بہرحال جنابت‘ ایک نجاست حکمی ہے اس کی موجودگی میں آٹا گوندھا جا سکتا ہے۔ عورت بچے کو دودھ بھی پلا سکتی ہے‘ روٹی پکا سکتی ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ حالت جنابت میں کم از کم ہاتھ ضرور دھو لیے جائیں تا کہ کھانے پینے کی چیزیں تیار کرنے میں ان سے تعاون لیا جا سکے۔ واللہ اعلم!
تیمم کرتے وقت ہاتھوں پر پھونک مارنا
O وضوء کرتے وقت‘ تمام اعضاء وضوء پر پانی پہنچنا ضروری ہے۔ کیا تیمم میں بھی یہ ضروری ہے کہ تمام اعضاء وضوء پر مٹی کے اثرات پہنچائے جائیں۔ اس کی وضاحت کردیں۔
P بعض اہل علم کا موقف ہے کہ تیمم کے وقت جب تک مٹی کا اثر چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں نہ ہو اس وقت تک تیمم کے لیے مٹی کا استعمال درست نہیں۔ کچھ شوافع بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تیمم کے لیے زمین پر ہاتھ مارنے کے بعد یہ ضروری ہے کہ غبار ہاتھوں کو لگ جائے تب تیمم درست ہو گا۔ حضرت شاہ ولی اللہ a کا بھی یہی موقف معلوم ہوتا ہے کہ تیمم چونکہ وضوء کا قائمقام ہے اس لیے پانی کی طرح بظاہر تمام اعضاء پر مٹی پہنچانے کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ جبکہ امام بخاریa یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی طرح مٹی کے اثرات کا چہرے اور ہاتھوں پر نمایاں ہونا ضروری نہیں‘ ان کے نزدیک مٹی سے آلودہ ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنا طہارت ونظافت کے خلاف ہے۔ چنانچہ انہوں نے صحیح بخاری میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جب تیمم کرنے والا تیمم کے لیے مٹی پر ہاتھ مارے تو کیا ہاتھوں پر پھونک ماری جا سکتی ہے۔‘‘ (بخاری‘ التیمم‘ باب نمبر ۴)
اس سلسلہ میں انہوں نے ایک روایت پیش کی ہے کہ رسول اللہe نے تیمم کے وقت اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے‘ پھر ان میں پھونک ماری‘ اس کے بعد آپ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کا مسح فرمایا۔ (بخاری‘ التیمم: ۳۳۸)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تیمم کے لیے مٹی پر ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں پر پھونک مار کر زائد مٹی کو اڑا دیا جائے‘ اس کے بعد چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا جائے‘ مٹی کے اثرات کا چہرے اور ہاتھوں پر ہونا ضروری نہیں۔ واللہ اعلم!


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)