اسلامی نظامِ معیشت کی خصوصیات
تحریر: جناب الشیخ
حافظ عبدالحمید ازہر
عصر حاضر کو ترقی کا دور کہا جاتا ہے اور کچھ غلط بھی نہیں کہ
سائنسی اکتشافات کا سلسلہ بلا توقف جاری ہے۔ ایجادات کا سیل رواں ہے تھمنے میں نہیں
آتا ۔ وسائل سفر سے لے کر ذرائع ابلاغ تک میں انقلاب آچکا ہے۔ زمین اپنے خزانے اگل
رہی ہے یا اس سے اگلوائے جارہے ہیں۔ اناج ،سبزیاں پھل اور میوے اس قدر بہتات سے ہیں
کہ انباروں میں سما نہیں سکتے‘ ذخیرہ کرنے پڑتے ہیں لیکن ہر چیز کی فراوانی کے پہلو
بہ پہلو انسانی محرومی کی بھی کوئی حد نہیں ۔ آدمیت سسک رہی ہے جذبات سلگ رہے ہیں
۔غریب غربت کے بوجھ تلے دب رہا ہے اور سرمایہ دار بے مقصدیت کے عذاب واذیت سے گذر رہا
ہے۔ یہ نہیں کہ حالت میں تبدیلی کی کوشش نہیں ہوئی‘ تاریخ شاہد ہے کہ احساسات اور جذبات
نے کئی مرتبہ طوفان کی شکل اختیار کی لیکن صورت حال کچھ یوں ہی رہی ؎
سو بار تیرا دامن ہاتھوں میں مرے آیا
جب آنکھ کھلی دیکھا تو اپنا ہی گریباں تھا
رومن ایمپائر ، دور غلامی ، جاگیرداری اور پھر آخر میں نظام
سرمایہ داری کا تماشہ اور پھر اشتراکی کوچہ گردوں کی آشفتہ سری ،تمام کی تمام شکست
آرزو کے عنوانات ہیں‘ ان تمام کوششوں کے باوجود یہی نہیں کہ حالت نہیں بدلی بلکہ کیفیت
کچھ یوں رہی کہ ع
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
حقیقت یہ ہے کہ تمام نظامہائے معیشت الگ الگ اور متضاد نام کے
حامل ہونے کے باوصف اصل میں سارے ایک ہیں۔ ایک ہی تصویر کے دو مختلف رخ اور زاویے ہیں
اور نام اس کا خود رائی ہے۔ انسان نے معیشت کو اس کے اصل مقام و مرتبہ سے بڑھا کر ایسا
غلو کیا ہے کہ اپنا مرتبہ اور مقصد فراموش کر بیٹھا ۔ نتیجہ وہی ہوا جو ذریعہ کو مقصد
بنانے کا ہوتا ہے ۔انسان صرف پیٹ کا نام نہیں بلکہ اس میں دل و دماغ بھی ہے اور اس
کے دیگر اعضاء بھی ہیں ،اگر کوئی شخص دل و دماغ کے بجائے پیٹ سے سوچنا شروع کردے تو
اس کی جو کیفیت ہوسکتی ہے وہ نظامِ معیشت کو مرکز و محور بنانے سے پوری انسانیت کی
ہوچکی ہے۔ ایک بھوکے کو اجرام فلکی بھی روٹیاں نظر آسکتی ہیں لیکن اس سے نظام شمسی
میں خلل آسکتا ہے اور نہ علم فلکیات کی اہمیت کم ہوسکتی ہے ۔ انسان تنگ نظر اور جذباتی
مخلوق ہے اس لئے اسکی سب سے بڑی غلطی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنے اور اس کائنات
کے خالق سے رجوع کرنے کے بجائے خود ہی ان کا حل کرنے بیٹھ جائے۔ حالت مرض میں اپنا
علاج خود کرنا خطرناک ہے تو اجتماعی زندگی میں اس کے اثرات کتنے مہلک ہوسکتے ہیں‘ دنیا
کی موجودہ صورت حال اس کا ثبوت ہے۔ ایسی صورت میں ایک انسان کو اس سے اچھا مشورہ نہیں
دیا جاسکتا کہ ؎
دست ہرنا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
انسانیت پر اس سے بڑا احسان نہیں ہوسکتا کہ انسانی معاشرے کو
اجتماعی طور پر اپنے اور اس سارے جہان کے خالق و مالک کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کی
جائے۔ انبیاءo اسی
لئے انسانیت کے محسن ہیں اور پیغمبر آخر و اعظم انسانیت کے محسن اعظم ہیں۔
وہ بندوں کو
اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں:
’’لوگو! تم کدھر
جارہے ہو؟یہ (قرآن ) جہان بھر کے لوگوں کے لئے نصیحت ہی تو ہے۔‘‘ (التکویر)
قرآن حکیم نے نہ صرف مرض کی تشخیص فرمائی بلکہ اس کے علاج کے
لئے نسخہ ء کیمیا بھی عطا کیا ۔
ارشاد باری تعالی ہے:
’’اللہ تعالیٰ ایک
بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو (ہر طرح) امن و اطمینان سے تھی‘ ہر طرف سے رزق بافراغت
وہاں چلا آتا تھا۔ مگر اس کے رہنے والوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو
اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر نا شکری
کا مزہ چکھا دیا اور ان کے پاس انہی میں سے ایک پیغمبر آیا تو انہوں نے اسے جھٹلایا‘
سو انہیں عذاب نے آپکڑا جبکہ وہ ظالم تھے۔ پس اللہ نے تم کو جو حلال طیب رزق دیا ہے،
اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر بجا لاؤ اگر اسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘ (النحل:
۱۱۲-۱۱۴)
یعنی اشیاء کی فراوانی اور نعمتوں کی ارزانی پر اللہ رب العزت
جو منعم حقیقی ہے کا شکر ادا کرنے کے بجائے کفر کرنا موجب ہے ان نعمتوں کے چھن جانے
کا ۔ اللہ کی ناشکری کا مظہر یہ ہے کہ اس کی طرف سے بھیجے گئے رسول پر ایمان لانے‘
ان کی تکریم کرنے اور اطاعت کا دم بھرنے کی بجائے تکذیب و استہزاء کا راستہ اختیار
کیا ۔اس عذاب سے نجات کاایک ہی راستہ ہے کہ اللہ کا حلال کیا ہوا رزق کھاؤ اور اس کی
نعمتوں کا شکر بجا لاؤ اور صرف اسی کی عبادت کرو ، کہ مالک الملک اور عزیز مقتدر ہے‘
اس کی اطاعت کروگے تو آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے تم پر کھول دے گا ۔ ارشاد باری
ہے:
’’اور اگر ان بستیوں
کے لوگ ایمان لے آتے اور ہماری نافرمانی سے بچتے تو ان پر آسمان اور زمین کی برکات
کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی سو ان کے اعمال کی پاداش میں ہم نے ان
کو پکڑ لیا ۔‘‘ (الاعراف: ۹۶)
اللہ تعالیٰ جب کسی بستی سے نعمتیں چھین لینا چاہے تو بظاہر
ان کی معیشت کتنی ہی مضبوط ہو سزا کا قانون الہٰی ان پر نافذ ہوکر ہی رہتا ہے ۔ ارشاد
الٰہی ہے:
’’اور ہم نے بہت
سی بستیوں کو تباہ کر ڈالا جو اپنی معیشت(کی فراخی) پر اترارہے تھے پھر یہ ان کے محلات
ہیں جو ان کے بعد بہت ہی کم آباد ہوئے اور ان کے پیچھے ہم ہی ان کے وارث ہوئے۔‘‘
(القصص: ۵۸)
اسی لئے انسانیت کی فلاح دین حنیف دین اسلام کے دامن میں پناہ
لینے میں ہے ۔جب وہ پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوں گے کہ اس کے نظام اقتصاد یات کی
برکات سے بھی بہرہ مند اور مستفید ہوں گے‘ اس لئے کہ اسلام کا نظام معیشت اسلام سے
الگ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اسی شجرہ طیبہ کی ایک سرسبز و ثمر بار شاخ ہے۔ ارشاد
باری تعالی ہے :
’’کیا تم نے نہیں
دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال کیسی بیان فرمائی ہے؟ وہ ایسے ہے کہ جیسے
ایک پاکیزہ درخت جس کی جڑ مضبوط یعنی زمین کو پکڑے ہوئے ہے اور شاخیں آسمان میں ہیں۔
اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل لاتا ہے ۔‘‘ (ابراہیم)
یہ اسلام کے تعلیم کردہ راسخ عقائد، قرآن حکیم اوررسول کریمe کے
مقرر کردہ اور تعلیم فرمودہ حکیمانہ عبادات اور عظیم ترین اور کامل ترین نظام اخلاق
کی سرزمین میں اگلنے والا شجر طیبہ ہے اور خون میں پیوست شاخ ہے ۔ جو ہر طرف سے اور
ہر طرح سے محفوظ ہے ۔ موسموں کے تغیرات اور افراد کی تلون مزاجی اس پر نظر انداز نہیں
ہوتی ۔
اس اعتبار سے اسلامی نظام معیشت کی بنیاد ی اور اولین خصوصیت
تو یہی ہے کہ یہ نظام ربانی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں باقی تمام نظامہائے معیشت (اگر
ان کو نظام کہاجاسکے) تو انسانی بلکہ محض شیطانی ہیں ۔ اس لئے کہ بندہ جب رحمن کا نہیں
ہوتا تو شیطان کا ہوتا ہے‘ تیسرا اختیار یہاں پر سرے سے موجود نہیں، اللہ تعالی کا
فرمان ہے:
’’وہ اپنے گروہ کے
(لوگوں) کو پکارتا ہے تاکہ وہ دوزخ میں جانے والے بن جائیں۔‘‘ (فاطر: ۶)
دوسری جگہ فرمایا:
’’شیطان نے انکو
قابو میں کرلیا ہے اور انہیں اللہ کی یاد بھلا دی ہے‘ یہ لوگ شیطان کا لشکر ہیں اور
آگاہ رہو شیطان کا لشکر نقصان اٹھانے والا ہے۔‘‘ (المجادلہ: ۱۷)
اسلام اللہ تعالی کا مقرر کردہ اور پسندیدہ فرمودہ نظام حیات
ہے‘ تمام انبیاءo اس
کی دعوت دیتے رہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
’’دین تو اللہ کے
نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘(ال عمران: ۱۹)
لیکن براہین و بینات سے آنکھیں موندنے والے نت نئے عقیدے بناتے
اور نظام تراشتے رہے ۔ اپنے علم یا علوم کے غرور میں مختلف انسانی گروہ انبیاءo کی
دعوت اور نصیحت کو ٹھکراتے رہے اور اس کے نتیجے میں عذاب پر عذاب چکھتے رہے ۔ ارشاد
باری تعالی ہے :
’’کیا ان لوگوں نے
زمین پھر کر دیکھا نہیں کہ انہیں نظر آتا کہ جو لوگ ان سے پہلے اس راستے پر تھے ان
کا انجام کیسا ہوا حالانکہ وہ ان سے تعداد میں زیادہ اور طاقت میں ان سے زیادہ مضبوط
تھے اور زمین میں نشانات بنانے میں ان سے کہیں بڑھ کر تھے‘ تو جو کچھ وہ کرتے رہے ان
کے کسی کام نہیں آیا۔ جب ان کے پیغمبر ان کے پاس کھلی نشانیاں اور واضح دلائل لے کر
آئے تو وہ اس علم پر اترانے لگے جو ان کے پاس تھا ، نتیجہ جس چیز کا وہ مذاق اڑاتے
تھے اسی نے ان کو آگھیرا۔‘‘ (المومن: ۸۲-۸۳)
مثال کے طور پر شعیبu کی قوم نے تو مالی معاملات میں ان کی حکیمانہ نصیحت
کومداخلت بے جا قرار دیکر اس پر انتہائی ناگواری کا اظہار کیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
’’اور اہل مدین کی
طرف ان کے بھائی شعیب کومبعوث کیا انہوں نے (اپنی قوم) سے کہا اے میری قوم! صرف اللہ
کی عبادت کرو‘ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ تول میں کمی نہ کیا کرو میں
تم کو آسودا حال دیکھتا ہوں اور تمہارے بارے میں ایک ایسے دن کے عذاب کا خوف ہے جو
تم کو گھیرے گا۔ اور اے میری قوم! ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور
لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو، اور زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو ۔ اللہ تعالیٰ
کا دیا ہوا منافع تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم مومنوں میں سے ہواور میں تم پر نگران نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اے شعیب! کیا تمہاری نماز ، تمہیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم اپنے معبودوں
کو چھوڑ دیں جنہیں ہمارے آباء و اجداد پوجتے آئے ہیں یا ہم اپنے مالوں میں اپنی مرضی
سے تصرف کرنا چھوڑ دیں‘ تم تو بڑے نرم خو اور راست باز ہو ۔‘‘ (ہود: ۸۴-۸۷)
تا آنکہ پیغمبر آخر و اعظم حضرت محمدe اسلام
کی کامل ترین اور واضح ترین صورت یعنی کتاب وسنت پر مشتمل دین حنیف کے ساتھ مبعوث ہوئے
۔ جس میں رات بھی دن کی طرح روشن ہے۔ اور اللہ تعالی نے {اَلْیَوْمَ اَكمَلْتُ لَكمْ دِینَكمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْكمْ
نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَكمُ الْإِسْلَامَ دِینًا}فرماکر رہتی دنیا تک کے انسانوں پر حجت قائم اور تمام کردی۔
{لِیَهلِك مَنْ
هلَك عَنْ بَیِّنَة وَّیَحْییٰ مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَة} اور واضح طور پر
بتادیا کہ دنیا و آخرت کی فلاح اسی نظام کی کامل اتباع و تنفیذ کے ساتھ وابستہ و مشروط
ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’المّ ۔یہ قرآن
وہی کتاب منتظر ہے (اس کے کلام اللہ ہونے) میں کوئی شک نہیں ، اہل التقوی کے لئے ہدایت
ہے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں ، آداب کے ساتھ نماز ادا کرنے اور جو کچھ ہم نے انہیں
عطا کیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں، اور جو کتاب و شریعت (اے نبی!) تم پر نازل
کی گئی اور جو کتاب و شریعت تم سے پہلے نازل کی گئی سب پر ایمان لاتے اور اور آخرت
پر یقین رکھتے ہیں‘ یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح
پانے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ: ۱-۵)
اسلام کے لائے ہوئے نظام معیشت کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ربانی
ہے‘ اس کے بعد ایک صاحب ایمان کو کچھ اور جاننے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ تا ہم رسم دنیا
نبھانے کے لئے اوراجتماع احباب کے نادر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے، اس نظام معیشت
کے امتیاز ی خصائص پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اس اذعان و یقین کے ساتھ کہ اس کے خصا
ئص و امتیازات کا احاطہ حد امکان سے باہر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
’’اور ایمانداروں
کا ایمان زیادہ ہو اور اہل کتاب اور ایماندار کسی شک میں نہ رہیں۔‘‘ (المدثر: ۳۱)
اسلامی نظام معیشت کے چند امتیازی خصائص
۱۔ حقانیت :
اسلام کا نظام معیشت ہی حقیقت میں ایک نظام ہے۔ باقی نظاموں
کو نظام صرف اس طرح کہا جاتا ہے جیسے کہ اسلام کے سوا باقی مذاہب کو بھی دین کہہ لیا
جاتا ہے ،لیکن جس طرح ہمارا ایمان ہی نہیں ہمارا دعوی ہے کہ لا الہ الا اللہ ۔ کہ اللہ
کے سوا کوئی الہ نہیں۔ اسی طرح ہمارا یقین ہے کہ اسلامی نظام معیشت کے سوا کوئی نظام
نہیں بلکہ اس نظام کے خلاف بغاوت سے عبارت ہیں ۔
تمام نظام ہائے معیشت
جو اصل میں سارے ایک ہیں۔ جو انسانوں کے وضع کردہ ہیں‘ وہ خالق ومالک کے دیئے
ہوئے نظام کے مقابلے میں سراسر ناکام ہیں اور معلوم ہے کہ ؎
خشت اول چوں نہدمعمار کج
تاثر یامی رود دیوار کج
اسلام کے نظام معیشت کا قصر رفیع حق اور حقائق کی بنیاد پر استوار
ہے۔ یہ امر محتاج بیان اور محتاج دلیل نہیں کہ حق تعالی سے بڑھ کر ان اشیاء کی حقیقت
کون جانے گا ۔ {اَ لَا یَعْلَمُ
مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ} وہی بتاتا ہے کہ
انسان کو بے مقصد پیدا کیا گیا نہ بے مہار چھوڑا گیا‘ وہ خلافت ارضی کا تاجدار اور
اس عظیم امانت کا امانت دار ہے ۔ فرمان الٰہی ہے:
’’ہم نے یہ امانت
آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور
اس سے ڈر گئے او ر انسان نے اسے اٹھا لیا بلاشبہ وہ ظالم اور جاہل تھا۔‘‘ (الاحزاب:
۷۲)
اسی نے بتایا کہ اس نے مال کو زندگی کے قیام کا ذریعہ بنا یا
ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:
’’اور اپنے مال جسے
اللہ نے تمہارے لئے قیام زندگی بنایا ہے بے وقوفوں کے حوالے نہ کرو۔‘‘ (النساء: ۶)
اور یہ بھی کہ یہ اللہ کا فضل ہے ۔ ارشاد فرمایا:
’’پھر جب نماز ہوچکے
تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔‘‘ (الجمعہ: ۱۰)
یہ بھی سمجھا دیا کہ مال و منال ایک ضرورت ہونے کے ساتھ آزمائش
ہیں جس سے انسان گزرتا ہے:
’’اور جان رکھو کہ
تمہارے مال اور تمہاری اولاد درحقیقت تمہارے لئے ایک آزمائش ہیں ۔ (اور اس میں پورا
اترنے والوں کے لئے )اللہ کے ہاں بہت بڑا اجر وثواب ہے۔‘‘ (الانفال: ۲۸)
۲۔ مقصدِ تخلیق سے ہم آہنگی:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی لئے پیدا کیا کہ یہ اس کی عبادت
کرے‘ اس کی بندگی بجالائے اور اس کے لئے اپنے پسندیدہ دین میں نظام معیشت بھی ایسا
عطا کردیا جو اس کے مقصد تخلیق سے موافقت رکھتا ہے اور مکمل طور پر اس سے ہم آہنگ
ہے ۔ ارشاد فرمایا :
’’اے اہل ایمان!
جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں ان کو کھاؤ اور اللہ کا شکر بجالاؤ اگر
تم حقیقت میں اسی کی بندگی کرتے ہو۔‘‘ (البقرہ: ۱۷۲)
یہ اس لئے بھی ضروری تھا کہ انسان کے کردار کا اس کی خوراک سے
بہت گہرا تعلق ہے۔ تمام ذہنی اور جسمانی صلاحیتیں اور قوتیں غذا سے بنتی اور پنپتی
ہیں‘ اگر غذا درست ہوگی تو عمل صالح ہوگا ۔ارشاد باری تعالی ہے:
’’اے گروہ رسولاں!
پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو ۔‘‘ (المؤمنون: ۵۱)
اگر جسم کی نشو ونما کا سبب بننے والی غذا ہی درست اور حلال
نہ ہو تو عمل صالح نہیں ہو سکتا۔ اسی حقیقت کو رسول اللہe کی زبان وحی ترجمان نے یوں بیان فرمایا ہے:
’’جو گوشت حرام سے
پرورش پاکر بڑھتا ہے اس کا اصل ٹھکانا آگ ہی ہے۔‘‘ (ترمذی: ۶۱۴)
۳۔ اصالت:
اسلامی نظام معیشت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مستقل اور
سب سے ممتاز نظام ہے ۔ انسانی تجربات کے نتیجے میں وجود میں نہیں آیا اور نہ یہ کسی
قسم کے رد عمل کا ثمر ہے ۔باقی تمام نظامہائے معیشت ردعمل کے طور پر وجود میں آئے
۔ تجربات ہیں یا تجربات سے اخذ کیا ہوا نتیجہ ۔جاگیر داری نظام دور غلامی کی کوکھ سے
پیدا ہوا‘ اس لئے اس کے تمام خصائص کا حامل تھا ۔غلامی میں آقا ایک فرد ہوتا تھا تو
نظام جاگیرداری میں پورا نظام، پھر زمانے نے ایک کروٹ لی اور جاگیر داری نظام نے سرمایہ
داری نظام کی شکل اختیار کرلی ۔ جاگیر دار سرمایہ دار بن گیا اور کاشتکار مزدور ٹھہرا۔
آزاد معیشت کے نام پر ایسا استبداد مسلط ہوا کہ لوگ دور غلامی اور جاگیرداری کی سختیاں
بھول گئے۔ اس کے رد عمل میں سوشلزم نے جنم لیا لیکن استحصال کے خاتمے کا دعویٰ لیکر
اٹھنے والی تحریک ریاست کی طاقت سے لیس ہو کر استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ۔
اور ترقی پسندی کے نام پر ترقی معکوس کرتے ہوئے انسانیت کو بدترین غلامی کے دور میں
پہنچادیا۔ یہ انسانی شعور اور معاشی نظریات کے ارتقاء کی مختصر تاریخ ہے ۔اس کے مقابل
اسلام کا نظام اقتصادیات اللہ ربّ العزت والجلال کے علم وحکمت کا مظہر اور اس کی رحمت
کا نشان ہے ۔ اور تہوز ، انتقام ، طیش وغیرہ رد عمل کے ہر نقص سے مبرا ہے ۔
۴۔ وضاحت:
اسلام کے نظام معیشت میں کوئی پیچیدگی نہیں ،وہ بالکل واضح اور
ہر قسم کے ابہام سے پاک ہے۔ قرآن آیات بینات پر مشتمل ہے اور رسول اللہe کا
ارشاد ہے: [الحلال بین والحرام
بین] حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔
اسی طرح اسلامی نظام معیشت میں معاہدہ یا خرید وفروخت کرنے والوں
کو بھی یہی حکم ہے کہ صداقت ووضاحت سے کام لیں ۔ارشاد نبویe ہے:
یعنی سودے کے دونوں فریقوں کو (سودا کرنے کی جگہ سے) الگ الگ
ہونے تک اختیار ہے‘ اگر دونوں صداقت اور وضاحت سے کام لیں گے تو انکے سودے میں برکت
ہوگی اور اگر جھوٹ اور فریب سے کام لیں گے تو سودے کی برکت ختم کردی جائے گی۔ (متفق
علیہ)
ایک مرتبہ نبی اکرمe بازار میں تشریف لے گئے، اناج کے ایک ڈھیر میں ہاتھ
ڈالا تو تری محسوس کی تو دکاندار سے فرمایا: یہ کیا ؟ اس نے کہا کہ حضور! رات کو اس
پر بارش پڑگئی تھی‘ فرمایا: تو گیلا حصہ اوپر کرنا تھا [من غش فلیس منا۔] جس نے ہمیں اندھیرے میں رکھا وہ ہم میں سے نہیں .(مسلم)
یہی وجہ ہے کہ محاقلہ اور مزابنہ سے منع کردیا گیا ہے (کھیت
میں سٹوں اور بالیوں میں موجود اناج کو خشک اناج کی معلوم و معین تعداد کے بدلے فروخت
کرنا محاقلہ کہلاتا ہے۔ درختوں یا بیلوں میں لگے پھل کو اسی نوع کے خشک پھل کی معلوم
و معین مقدار کے عوض بیچنا مزابنہ کہلاتا ہے۔) بیع سلم میں بھی یہی حکم دیا گیا ہے
۔ ارشاد نبوی e:
’’ اگر کوئی پیشگی
ادائیگی کرتا ہے تو اس چیز کاماپ تول اور ادائیگی کی مدت معلوم ہونی چاہیے۔‘‘ (بخاری
ومسلم)
اسی طرح عقد قراض یا مضاربہ میں بھی ضروری ہے کہ صاحب مال (Invester) اور عامل (worker) دونوں آپس میں تقسیم منافع کا تناسب طے کرلیں۔ اس میں ابہام
نہیں ہونا چاہئے۔
الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ (۳۳/۱۱۲) میں قراض کی تعریف ہی یہ
بیان کی گئی ہے:
’’یعنی قراض یا مضاربہ
اس کو کہا جاتا ہے کہ ایک شخص اگر دوسرے کو مال مہیا کرے کہ وہ اس میں تجارت کرے گا
اورمنافع ان دونوں کے درمیان طے شدہ نسبت کے ساتھ تقسیم کیا جائے گا۔‘‘
اس کے بعد مشہور لغوی الازہری کے حوالے سے اس کی وجہ تسمیہ یوں
بیان کی گئی ہے [لان لكل واحد منهما
فی الربح شء مقروضا لا یتعداه] اس معاہدے کو قراض
اس لئے کہا جاتاہے کہ فریقین میں سے ایک کو منافع میں سے قطعی طور پر طے شدہ ملتا ہے
اس سے زیادہ نہیں لے سکتا ۔
۵۔ صداقت و امانت:
اسلام اپنے پیروؤں کو اور خاص طور پر رجال معیشت و اقتصاد کو
امانت اور صداقت کا حکم دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ
’’اللہ تعالیٰ تمہیں
حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو پہنچادو۔‘‘ (النساء: ۵۸)
سیدنا ابو سعید خدریt سے روایت ہے کہ معلم شریعت محسن انسانیتe نے
ارشاد فرمایا:
’’صداقت شعار اور
امانت دار تاجر انبیاء‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘ (ترمذی)
سیدنا ابو ہریرہt سے
مرفوعا ً روایت ہے کہ
’’اللہ تعالی فرماتا
ہے کہ میں شراکت داروں کا تیسرا ہوتا ہوں جب تک ان میں سے کوئی دوسرے کی خیانت نہ کرے
پھر جب کوئی خیانت کا مرتکب ہوتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتا ہوں۔‘‘ (ابوداؤد: ۳۳۸۳) … (جاری ہے)
No comments:
Post a Comment