Saturday, February 01, 2020

درس قرآن وحدیث 05-20


درسِ قرآن
سکونِ قلب
ارشادِ باری ہے:
﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ١ؕ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُؕ۰۰۲۸﴾ (الرعد)
’’جولوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے۔‘‘
راحت وسکون اور اطمینان قلب انسان کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ – پرسکون زندگی گزارنے کی آرزو اور جستجو ہی  انسان کو متحرک رکھتی  ہے- لیکن المیہ یہ ہے کہ جس ذات نے اس انسان کو پید ا فرمایا اور اس کے لیے بیش بہا نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس نعمت عظمی کا بندوبست فرمایا‘ اس کی طرف انسان کا دھیان بہت کم ہے۔ مالک حقیقی کی طرف رجوع ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جو انسان کو ذہنی ، جسمانی اور دماغی‘ ہر لحاظ سے سکون اور راحت فراہم کرسکتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس انسان جتنے بھی جتن کرلے اور اس ذریعہ حقیقی کو نہ اپنائے تو اسے ناصرف یہ کہ ذہنی آسودگی حاصل نہ ہوگی بلکہ ہر چہار اطراف سے پریشانیوں میں گھرا رہے گا۔ ارشادِ باری ہے:
﴿وَ مَنْ يُّعْرِضْ عَنْ ذِكرِ رَبِّهٖ يَسْلُكهُ عَذَابًا صَعَدًاۙ۰۰۱۷﴾ (الجن)
’’اور جو شخص اپنےٍ پروردگار کے ذکر سے منہ موڑ لے گا تو پھر اللہ تعالی بھی اسے سخت عذاب میں مبتلا کردے گا۔‘‘
ایسی صورت میں اس پر ایک شیطان کو مسلط کردیا جاتاہے جو ہروقت اسے بے راہ روی ، نفسانی خواہشات کی اتباع میں مگن رکھتا ہے- ضمیر کی آواز کو دبانے کی وجہ سے ہمیشہ پریشان حال اور افسردہ رہتا ہے:
﴿وَ مَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكرِ الرَّحْمٰنِ نُقَيِّضْ لَهٗ شَيْطٰنًا فَهُوَ لَهٗ قَرِيْنٌ۰۰۳۶﴾ (الزخرف)
’’اور جو کوئی رحمٰن کے ذکر سے غافل رہے ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں جو اس کے ساتھ رہتا ہے۔‘‘
معیشت کی تباہی کی اصل وجہ بھی اللہ کے راستے اور اس کی یاد سے دوری واعراض اور شیطان کی پیروی ہے:
﴿وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكرِيْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكا وَّ نَحْشُرُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اَعْمٰى۰۰۱۲۴﴾ (طٰهٰ)
’’اور هاں جو کوئی بھی میری یاد سے روگردانی کرے گا تو اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے بروز قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے۔‘‘
اسی لیے قرآن میں صبح و شام اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے کی تلقین فرمائی گئی ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكرُوا اللّٰهَ ذِكرًا كثِيْرًاۙ۰۰۴۱ وَّ سَبِّحُوْهُ بُكرَةً وَّاَصِيْلًا۰۰۴۲﴾(الأحزاب)
’’اے ایمان والو! اللہ کو خوب کثرت سے یاد کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘

درسِ حدیث
فتنہ وفساد
فرمان نبویe ہے:
[عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا، حَتَّى يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ يَوْمٌ لَا يَدْرِي الْقَاتِلُ فِيمَ قَتَلَ، وَلَا الْمَقْتُولُ فِيمَ قُتِلَ". فَقِيلَ: كَيْفَ يَكُونُ ذٰلِكَ؟ قَالَ: "الْهَرْجُ، الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ".] (مسلم)
سیدنا ابوہریرہt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے فرمایا: ’’مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! دنیا اس وقت تک ختم نہ ہو گی جب تک لوگوں پر ایسا وقت نہ آجائے کہ قاتل کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے کس سبب سے قتل کیا ہے اور مقتول کو یہ علم نہ ہو کہ وہ کس جرم میں قتل ہوا ہے۔‘‘ آپe سے عرض کیا گیا کہ ایسے کس طرح ہو گا؟ فرمایا: ’’فتنہ فساد کے ذریعے۔ قاتل اور مقتول دونوں آگ میں ہوں گے۔‘‘
رسول مقبولe نے رب تعالیٰ کی قسم کھا کر اپنی امت کو یقین دلانے کے لیے فرمایا کہ دنیا کے ختم ہونے سے پہلے بہت سے فتنے فساد سر اٹھائیں گے‘ ان میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہو گا کہ قاتل کو یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ اپنے مدمقابل کو کیوں قتل کر رہا ہے اور نہ ہی مقتول کو  علم ہو گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا جا رہا ہے۔
حضورe کو یقین دلانے کے لیے قسم کھانے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ وہ امن کا دور تھا‘ ایثار وقربانی ان کی عادت تھی‘ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ بلا جواز اور بلاوجہ قتل وغارت شروع ہو جائے گی۔ اگرچہ صحابہ کرام] حضورe کی ہر بات کسی دلیل اور قسم کے بغیر مانتے تھے پھر بھی حضورe نے تاکید اور تائید کے لیے قسم کھائی۔ ان حالات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت آچکا ہے‘ شرپسند عناصر بے گناہ شہریوں کو بے دھڑک قتل کر رہے ہیں‘ دہشت گردوں کے مظالم کچھ بھی ہوں مگر جس شخص کو قتل کرتے ہیں اس سے ان کی کوئی ذاتی رنجش نہیں ہوتی اور نہ ہی اس معصوم شہری سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔
فتنہ وفساد کا زمانہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ اس دور میں حکومت کی ذمہ داری بہت حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ تمام قسم کے وسائل کو بروئے کار لا کر شہریوں کی جان ومال کا تحفظ کرے اور شرعی قانون کے مطابق سزائیں دے۔ فتنے کے دور میں ہر کوئی دوسرے کو قتل کرنے کے درپے ہوتا ہے‘ اس لیے حضورe نے فرمایا: ’’قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔‘‘ قاتل اس لیے کہ اس نے ناحق قتل کیا ہے اور مقتول اس لیے کہ وہ اپنے قاتل کو قتل کرنا چاہتا تھا مگر کامیاب نہ ہو سکا‘ لیکن اگر کوئی ظلماً قتل ہو جائے تو وہ اس زمرے میں نہیں آتا۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)