شدید غصے میں دی گئی طلاق کا حکم
تحریر: الشیخ مبشر
احمد ربانی﷾
غصے
کی طلاق کا حکم معلوم کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ غصے کے تین درجے ہیں:
1 اعلیٰ
وانتہائی: جس
غصے میں انسان کی عقل بالکل زائل ہو جاتی ہے‘ اس وقت جو بات اس کے منہ سے نکلتی ہے
اسے اس کی نہ کوئی خبر ہوتی ہے کہ کیا بول رہا ہے اور نہ ہی قصد وارادے سے بات کر رہا
ہوتا ہے۔
2 اوسط
ودرمیانی حالت: جس
میں عقل تو بالکل زائل نہیں ہوتی لیکن قصد وارادہ نہیں رہتا‘ اس وقت اس کے منہ سے جو
بات نکلتی ہے وہ بلا قصد وارادہ نکلتی ہے لیکن اس قدر اس کو خبر ہوتی ہے کہ کیا بول
گیا ہے۔
3 ادنی
حالت: جس
میں نہ آدمی کی عقل زائل ہوتی ہے نہ قصد وارادہ۔ جو بات وہ منہ سے نکالتا ہے قصد وارادہ
سے نکالتا ہے اور جانتا بھی ہے کہ وہ کیا بول رہا ہے۔
پہلی
دو صورتوں میں راجح اور صحیح بات یہی ہے کہ طلاق واقع نہیں ہوتی اور ادنی درجے کے غصے
میں طلاق ہو جاتی ہے۔
آدمی
خود یا اس کے طلاق کے موقع پر موجود بیوی یا دیگر دوست احباب دیکھیں کہ اس کے غصے کی
حالت کیا تھی؟ امام ابن القیمa نے زاد المعاد ۲/۲۰۴۴ اغاثۃ
اللہفان فی حکم طلاق الغضبان‘ علامہ عبدالرحمن بن محمد الجزیری نے کتاب الفقہ علی المذاہب
الاربعہ ص ۹۷۳‘ شیخ
محمد بن صالح العثیمینa نے الشرح الممتع علی زاد المستقنع
۱۳/۲۷
میں غصے کی یہ تین حالتیں بیان کی ہیں۔
شدید
غصے کی حالت میں جب آدمی کے ہوش وحواس قائم نہ رہیں‘ عقل ماؤف ہو جائے اور جنون کی
کیفیت طاری ہو‘ برتن اٹھا اٹھا کر توڑ رہا ہے۔ دیواروں کو ٹکریں مار رہا ہو۔ مصحف اٹھا
کر پھینک دے تو ایسے آدمی کی طلاق کا وقوع نہیں ہوتا‘ وہ مرفوع القلم شمار ہوتا ہے۔
سیدنا
علی t سے روایت ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا:
[رفع القلم عن ثلاثة
عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم وعن المجنون حتی یعقل] (ابوداؤد: ۴۴۰۳، ترمذی:
۱۴۳۳، ابن ماجه: ۲۰۴۲، مسند احمد: ۹۴۰)
’’تین آدمی مرفوع القلم ہیں: سویا ہوا یہاں تک
کہ وہ بیدار ہو جائے اور بچہ یہاں تک کہ وہ بالغ ہو جائے اور مجنون یہاں تک کہ وہ بات
سمجھنے لگ جائے۔‘‘
جن
اہل علم کے ہاں شدید غصہ میں طلاق واقع نہیں ہوتی ان کی ایک دلیل وہ حدیث بھی ہے جسے
ام المؤمنین سیدہ عائشہr نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہe
نے فرمایا:
[لا طلاق ولا عتاق
فی غلاق] (سنن أبی داؤد: ۲۱۹۳، سنن ابن ماجه: ۲۰۴۶، مسند ابی یعلی: ۴۴۴۴، المستدرك
للحاكم: ۲/۱۹۸، السنن الكبریٰ للبیهقی: ۷/۳۸۷)
حالت
غصہ میں طلاق دینا اور غلام آزاد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بعض روایات میں غلاق کی
بجائے اغلاق کا لفظ ہے۔ امام ابوداؤد نے اس کا معنی غصہ کیا ہے۔ ابن الاعرابی کی ابوداؤد
سے روایت میں ہے:
[قال أبوداؤد: ’الغلاق‘
أظنه فی الغضب]
’’میں سمجھتا ہوں ’’غلاق‘‘ کا معنی غصہ کی حالت
میں طلاق دینا ہے۔‘‘
اسی
لیے اس حدیث پر باب باندھا: [باب الطلاق علی غیظ] شدید
غصے میں طلاق کا بیان۔ امام ابن القیمa فرماتے ہیں: ’’امام احمد بن
حنبلa نے اغلاق کا معنی غیظ وغضب
کیا ہے اور ابوعبیدہ وغیرہ نے اکراہ اور بعض نے جنون۔ (ملاحظہ ہو زاد المعاد: ۵/۱۹۵)
پھر
فرماتے ہیں:
[قال شیخنا وحقیقة
الإغلاق أن یغلق علے الرجل قلبه، فلا یقصد الكلام أو لا یعلم به كأنه انغلق علیه قصده
وإرادته۔]
’’ہمارے شیخ امام ابن تیمیہa
نے کہا ہے کہ اغلاق کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی کے لیے اس کا دل بند کر
دیا جائے۔ پس وہ کلام کا قصد کرے نہ اسے جانے گویا کہ اس پر اس کا قصد وارادہ بند ہو
گیا ہو۔‘‘
اس
میں ہر وہ شخص داخل ہے جس پر جبر واکراہ کیا گیا ہو یا اس پر جنون ودیوانگی کی حالت
طاری ہو یا سکر ونشے اور شدید غصے سے اس کی عقل جاتی رہے‘ اس کا قصد وارادہ جاتا رہے
اور جو وہ منہ سے بول رہا ہے اس کی اسے معرفت نہ رہے۔ برصغیر کے اکابر اہل حدیث علماء
کا یہی فتویٰ ہے جیسے شارح ترمذی مولانا عبدالرحمن مبارکپوریa (مجموع فتاویٰ از مبارکپوری ص ۴۱۶)‘ استاذ الاساتذہ
حافظ محمد عبداللہ محدث غازی پوریa (مجموع فتاوی از محدث غازی پوری ص ۵۴۲ تا
۵۴۵)
شیخ
ابن باز a فرماتے ہیں:
[أما طلاق الغضبان
فالذی أفنے به الوقوع ما لم یشتد حتے یغیر الشعور أو یذكر المطلق أنه لا یعلم ما وقع
منه إلا بقول الحاضرین معه۔] (مجموع فتاویٰ ومقالات متنوعة: ۲۱/۲۸۱)
’’بہر کیف غصے والے شخص کی طلاق تو جس طلاق کے
وقوع کا میں فتویٰ دیتا ہوں وہ طلاق ایسی ہے کہ اس کا غصہ شدید نہ ہو یہاں تک کہ اس
کا شعور تبدیل کر دے یا طلاق دہندہ ذکر کرے کہ اس کو کچھ یاد نہیں کہ اس کے منہ سے
کیا الفاظ واقع ہوئے سوائے حاضرین کے قول کے ساتھ۔‘‘
اسی
طرح اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں: [والصواب عدم وقوع طلاق الغضبان] درست
قول یہی ہے کہ شدید غصے والے شخص کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
شیخ
محمد بن صالح العثیمینa کا بھی یہی موقف ہے جو انہوں
نے تفصیل کے ساتھی اپنی کتاب الشرح الممتع علی زاد المستقنع ( ۱۳/۲۶-۳۰، ط دار ابن الجوزی)
میں لکھتے ہیں:
[ومنهم من قال: لا
طلاق علیه لأن النبی ﷺ یقول: ’لا طلاق ولا عتاق فی أغلاق‘ وهذا لا شك أنه مغلق علیه،
فكأن أحدا أكرهه حتی طلق، وعلے هذا فیكون الطلاق غیر واقع وهذا هو الصحیح وهو اختیار
شیخ الإسلام وابن القیم فی كتابه إغاثة اللهفان فی طلاق الغضبان وذكر ستة وعشرین وجها
تدل علے عدم وقوعه۔]
’’بعض اہل علم نے کہا ہے کہ شدید غصے کی طلاق
واقع نہیں ہوتی‘ اس لیے کہ نبی کریمe نے فرمایا: ’’طلاق اور غلام
کی آزادی مغلوب العقل (شدید غصے) کی حالت میں نہیں ہے۔‘‘ اور اس طلاق کے واقع نہ ہونے
میں کوئی شک نہیں اس لیے کہ اس کے اوپر بندش ہے گویا کہ کسی نے اس پر جبر کر رکھا ہے
اور اس نے طلاق دے دی۔ اس صورت میں طلاق واقع نہیں ہو گی اور یہی صحیح مذہب ہے۔ شیخ
الاسلام ابن تیمیہ اور امام ابن القیمa نے اپنی کتاب اغاثۃ اللہفان
فی طلاق الغضبان میں اسے ہی اختیار کیا ہے اور امام ابن القیمa
نے ایسی طلاق کے واقع نہ ہونے کی چھبیس وجوہات بیان کی ہیں۔‘‘
شیخ
عبداللہ بن عبدالرحمن البسام عضو ھیئۃ کبار العلماء اپنی کتاب توضیح الاحکام من بلوغ
المرام (ط دار الانصار ص ۱۰۵۵ تحت
حدیث رقم ۹۲۸ [ابغض الحلال الی الله الطلاق])
امام ابن قیمa کی بیان کردہ غصے کی تین حالتیں
ذکر کرتے ہیں جن میں سے دو صورتوں میں طلاق واقع نہیں ہوتی کو نقل کر کے برقرار رکھا
ہے۔
امام
بخاریa نے صحیح بخاری کتاب الطلاق
میں سیدنا علی t کا قول نقل کیا ہے:
[كل طلاق جائز إلا
طلاق المَعْتُوْه]
’’معتوہ‘ کے سوا ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے۔‘‘
حافظ
ابن حجر عسقلانیa لکھتے ہیں[ المراد بالمعتوه الناقص العقل]
(فتح الباری) معتوہ سے مراد ناقص العقل آدمی ہے۔
یعنی
جس شخص کی عقل کم ہو خواہ پیدائشی طور پر یا کسی وقتی حادثہ کی وجہ سے عقل میں خلل
آچکا ہو اور شدید غصہ بھی عقل میں کمی کرنے کا قوی سبب ہے‘ بلکہ بسا اوقات شدید غصہ
کی حالت میں عقل بالکل کام ہی نہیں کرتی۔ جس کی عقل کام نہ کرے وہ ’معتوہ‘ ہے اس کی
طلاق واقع نہ ہو گی۔
سیدنا
علی t کا یہ قول امام بیہقی نے السنن
الکبری (۷/۳۵۹) میں‘
امام بغوی نے الجمعیات (۲/۳۴) میں
بیان کیا ہے۔ علامہ البانیa نے اسے موقوفا صحیح قرار دیا
ہے۔ (ارواء الغلیل: ۷/۱۱۰)
دکتور
وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں:
[ولا یصح طلاق المجنون،
ومثله المغمی علیه، والمدهوش: وهو الذی اعترته حال انفعال لا یدری فیها ما یقول أو
یفعل، أو یصل به الانفعال إلی درجة یغلب معها الخلل فی أقواله وأفعاله، بسبب فرط
الخوف أو الحزن أو الغضب، لقولهﷺ: ’لا طلاق فی إغلاق‘۔ والإغلاق: كل ما یسد باب الإدراك
والقصد والوعی، لجنون أو شدة غضب أو شدة حزن ونحوها] (الفقه الإسلامی وأدلته:
۷/۳۵۱)
’’مجنون اور اسی طرح بے ہوش اور مدہوش کی طلاق
نہیں ہوتی اور مدہوش وہ ہے کہ وہ مغلوب العقل ہونے کی وجہ سے نہیں جانتا کہ وہ کیا
کہہ رہا ہے یا کیا کر رہا ہے۔ یا اس کی یہ کیفیت ہو جائے کہ زیادہ خوف وغم یا شدت غضب
کی وجہ سے اس کے اقوال وافعال میں خلل واقع ہو جائے۔ نبی کریمe
کے اس فرمان کی وجہ سے کہ ’لا طلاق فی أغلاق‘ اغلاق میں طلاق نہیں
اور اغلاق وہ چیز ہے جو انسان کے ادراک وارادہ اور ضبط کا دروازہ بند کر دیتی ہے۔ جنون
یا شدید غصہ یا زیادہ غم وغیرہ کی وجہ سے۔‘‘
دکتور
وہبہ الزحیلی مزید رکھتے ہیں:
[أن طلاق الغضبان
لا یقع إذا اشتد الغضب، بأن وصل إلی درجة لا یدری فیها ما یقول ویفعل ولا یقصده۔ أو
وصل به إلی درجة یغلب علیه فیها الخلل والاضطراب فی أقواله وأفعاله۔۔] (الفقه الإسلامی:
۷/۳۵۲)
’’غصے والے شخص کا جب غصہ شدت اختیار کر جائے
تو اس کی طلاق واقع نہیں ہوتی جبکہ وہ اس درجہ تک پہنچ جائے کہ اسے پتہ ہی نہ چلے جو
وہ بلا قصد کہہ یا کر رہا ہے۔ یا غصہ اس درجہ تک پہنچ جائے جس میں اس کے اقوال وافعال
میں خلل اور اضطراب واقع ہو جائے۔‘‘
امام
ترمذیa [باب ما جاء فی طلاق المعتوه]
حدیث نمبر ۱۱۹۱ کے
تحت لکھتے ہیں:
[والعمل علے هذا
عند أهل العلم من أصحاب النبی ﷺ وغیرهم أن طلاق المعتوه المغلوب علی عقله لا یجوز إلا
أن یكون معتوها یفیق الأحیان فیطلق فی حال إفاقته۔]
’’اس پر اہل علم اصحاب النبی e
اور دیگر علماء کا عمل ہے کہ معتوہ جس کی عقل پر غلبہ ہو چکا ہو‘
کی طلاق جائز نہیں الا یہ کہ معتوہ بعض اوقات حالت افاقہ میں ہو اور اس حال میں اس
نے طلاق دے دی ہو۔‘‘
مولانا
عبدالرحمن مبارکپوریa لکھتے ہیں کہ ’معتوہ‘ ناقص
العقل کو کہتے ہیں۔ اس میں بچہ‘ مجنون‘ نشئ داخل ہیں اور اس حالت میں جو کچھ بھی ان
سے صادر ہو جمہور کے ہاں اس کا اعتبار نہیں۔ (تحفۃ الاحوذی: ۴/۴۱۴۔ ط۔ دار احیاء
التراث العربی)
مفتی
غلام سرور قادری الفقہ علی المذاہب الاربعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والا
شخص جسے اس کا غصہ اس کی طبیعت اور عادت سے اس طرح باہر کر دے کہ اس کی باتوں اور اس
کے کاموں پر بے مقصدیت غالب آ جائے اس کی طلاق واقع نہ ہو گی‘ اگرچہ وہ جانتا ہو کہ
وہ کیا کہہ رہا ہے اور ارادہ سے ہی کہتا ہو۔ کیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ جس
میں اس کا ادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیر اور تبدیلی آجاتی ہے لہٰذا اس کا قصد وارادہ
صحیح شعور وصحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا۔‘‘
اس
سے ثابت ہوا کہ علماء احناف کے نزدیک بھی انسان کی بہت غصہ میں دی گئی طلاق واقع نہیں
ہوتی۔ (شدید غصہ کی طلاق کا شرعی حکم: ص ۶۱-۶۲)
لہٰذا
اس وضاحت سے معلوم ہوا کہ شدید غصہ کی حالت میں طلاق واقع نہیں ہوتی۔
هذا ما عندی والله اعلم بالصواب، وعلمه اتم وأكمل۔
No comments:
Post a Comment