احسان کا مقام ومرتبہ
امام الحرم المکی فضیلۃ الشیخ ابن عبدالعزیز بلیلہd
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اے مسلمانو! اللہ سے ڈرو۔ وہی اس لائق ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔
کھلے اور پوشیدہ کاموں میں اسے یاد رکھو۔ بہترین طریقے سے اس کی طرف متوجہ رہو، یوں
وہ آپ پر احسان کرے گا، رحم فرمائے گا اور بشارتیں دے گا۔
ان لوگوں کا بھلا ہو، جن کے دل اپنے واحد محبوب کے ذکر سے معمور
رہتے ہیں، جن کے اوقات اسی کے ساتھ بات چیت اور گفتگو میں گزرتے ہیں۔ جن کے وقت میں
کسی اور کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ بولتے ہیں تو اس کے ذکر سے، ہلتے ہیں تو اس کے حکم
سے، خوش ہوتے ہیں تو اس سے قریب ہونے کی وجہ سے، پریشان ہوتے ہیں تو اس کی ناراضگی
پر۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس سے دوری برداشت نہیں کرتے، اسے ناراض کرنے والا ایک لفظ
بھی نہیں بولتے۔
اے مسلمانو! کچھ مرتبے بڑے قابل اطمینان ہوتے ہیں، ایسے مقام
اپنوں کو عظمت دلا دیتے ہیں، انہیں عزت کی نشستوں پر فائز کرا دیتے ہیں، انہیں لوگوں
کے لیے بہترین نمونہ اور مثال بنا دیتے ہیں، انہیں اللہ کی خوشنودی اور رضا کے واضح
راستے پر ڈال دیتے ہیں۔ اللہ کے بندو! ان مقامات میں سر فہرست احسان کا مقام ہے۔ جو
ہر کام بہترین شکل اور کامل ترین طریقے سے کرنے کی ترغیب دلاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو
عظمت سے کمال حاصل کرتا ہے۔ چونکہ اسلام ہی اچھے اخلاق کا سرچشمہ ہے، اس لیے اسی میں
یہ مقام بھی اپنی کامل ترین صورت اور بلند ترین کیفیت میں پایا جاتا ہے۔ بلکہ یہ تو
اسلام کی ایک اہم عبادت بھی ہے۔ جیسا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اللہ عدل واحسان
اور صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔‘‘ (النحل: ۹۰)
محسنوں کے امامe کا
فرمان ہے:
’’اللہ نے ہر چیز
میں احسان کا حکم دیا ہے۔‘‘ (مسلم)
احسان کی ابتدا خود اپنے آپ پر احسان کرنے سے ہوتی ہے۔ خود کو
اپنے خالق اور پروردگار سے متعارف کرانے سے، اللہ پاک کے لیے توحید اپنانے سے، اسے
ہمیشہ یاد رکھ کر، پورے اخلاص اور محنت کے ساتھ اسے یاد رکھ کر اس کی عبادت کرنے سے
ہوتی ہے۔ رسول اللہe کے
فرمان کے مطابق:
’’احسان یہ ہے کہ
تو اللہ کی عبادت یوں کرے، گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے، اگر تو اسے نہیں دیکھ سکتا
تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (بخاری ومسلم)
دین کا یہی مقصد ہے ، اس کا بلند ترین مرتبہ اور اس کا اعلیٰ
ترین مقام ہے۔ اس سے بڑھ کر مسلمان کی کوئی آرزو بھی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس سے مؤمن
یوں محسوس کرنے لگتا ہے کہ وہ اپنے بلند وبالا پروردگار کو دیکھ رہا ہے۔ پھر مت پوچھیے اس خشیت اور خوف کے بارے میں،
اس کے خشوع، خضوع اور انکساری کے بارے میں۔ جب وہ جان لیتا ہے کہ اس کا پروردگار ہر
حال میں اسے دیکھ رہا ہے، اس کے چھوٹے سے چھوٹے رازوں کو جانتا ہے، لمحہ بھر کے لیے
بھی اس سے غافل نہیں ہوتا، تو وہ بہترین اور افضل طریقے سے عبادت کرنے لگتا ہے، کمی
یا کوتاہی سے بچتے ہوئے اسے مکمل کرتا ہے۔ پھر وہ عبادت کے معاملے میں تھکاوٹ اور اکتاہٹ
سے بچ جاتا ہے۔
مومن اپنی نماز بھی بہترین طریقے سے ادا کرتا ہے، جو کہ در حقیقت
اس کی اپنے محبوب کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے، اپنے پروردگار کے ساتھ ہم کلامی ہوتی ہے۔
وہ اسے انتہائی مکمل طریقے سے ادا کرتا ہے، رکوع اور سجدے اطمینان سے کرتا ہے، اس میں
کوتاہی نہیں کرتا، پرندوں کی طرح ٹھونگیں نہیں مارتا۔ خیالی پلاؤ پکاتے ہوئے انہیں
ادا نہیں کرتا، بلکہ مکمل سکون اور اطمینان کے ساتھ، انکساری اپنا کر، حاضر دماغی،
حضور قلبی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ وہ اپنی زکوٰۃ بھی احسن طریقے سے دیتا ہے۔ جو اس کے
پیسوں کو پاکیزہ کرتی ہے ، اس کے مال کو بڑھاتی ہے، فاقہ زدہ بھائیوں کو تسلی دیتی
ہے۔ وہ اسے بروقت حقداروں تک پہنچاتا ہے، اس میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر، خوش دلی
کے ساتھ نکالتا ہے۔ پھر احسان نہیں جتاتا، نہ مانگنے والے کو کوئی اذیت دیتا ہے۔ اس
کے بعد نفلی صدقہ میں بھی کنجوسی نہیں کرتا، بلکہ نیکی میں اضافہ کرتا ہے، اور احسان
میں آگے بڑھتا ہے۔
مومن روزہ بھی بہترین طریقے سے رکھتا ہے، جو اللہ تعالیٰ کے
لیے خواہش کو چھوڑنے کا نام ہے، وہ اس کے ذریعے صرف اللہ کی عبادت کرتا ہے اور احسان
کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جاتا ہے۔ محبوب ترین چیزوں کو چھوڑ دیتا ہے اور قریب ترین لوگوں
کو خبر بھی نہیں ہونے دیتا، تاکہ یہ صرف اس کے اور غیب جاننے والے کے درمیان ایک راز
رہے، اس کی نگرانی اسے یاد رہے۔ یہی احسان اور مراقبت کا لب لباب اور جوہر ہے۔ روزہ
احسان کا مقام حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور کیا ہی بہترین اور خوبصورت وسیلہ
ہے۔
مؤمن حج بھی بہترین انداز میں کرتا ہے، جو محبت کرنے والوں کی
جانب سے اپنے محبوب کی پکار پر لبیک کہنے کا مظہر ہے۔ اس کے گھر کی زیارت کا ارادہ
ہے۔ مؤمن اپنے سارے کام اللہ تعالی کے لیے پورے کرتا ہے۔ دورانِ حج وہ بے حیائی، گناہوں
اور بحث مباحثے سے دور رہتا ہے۔ وہ مکمل طور پر اپنے پروردگار کی طرف متوجہ رہتا ہے،
دل ہی دل میں کعبے والے کی جلالت محسوس کرتا رہتا ہے۔ وہ محتاط رہتا ہے کہ کہیں اس
کا پروردگار اسے اپنے گھر اور اپنے حرم میں، اس کے دسترخوان پر، آداب کو توڑتا، فرائض
اور کاموں میں کوتاہی کرتا نظر نہ آئے۔ اس کا حج احسان کے بڑے مظاہر میں سے ایک ہوتا
ہے۔ بلکہ اس کی عظیم شکلوں میں سے ایک ہوتی ہے۔
مومن کا احسان دوسروں کو بھی فائدہ دیتا ہے، اس کا احسان سب
کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے، جب وہ خود اپنی ذات پر احسان کی صورتیں جمع لیتا ہے،
تو پھر وہ خود کو مخلوق پر احسان کا عادی بنانے لگتا ہے۔ احسان کے لا متناہی کھلے دروازوں
کا رخ کرتا ہے۔ جیسے سخاوت کرنا، خندہ پیشانی سے پیش آنا، نیکی کرنا، مصیبت زدہ کی
مدد کرنا، سختی میں پڑنے والے کے لیے آسانی کرنا، پریشان حال کو تسلی دینا، فقر وفاقہ
کو ختم کرنا، حاجتیں پوری کرنا، فقیروں کو کھلانا، یتیموں کی کفالت کرنا، بیوہ عورتوں
کی مدد کرنا اور غیر شادی شدہ کی شادی کرانا، بیماروں کی تیمار داری کرنا، جاہلوں کو
تعلیم دینا ، گمراہ لوگوں کو راہ دکھانا، اور اسی طرح بے شمار نیکیاں کرنا۔
اے مسلمانو! احسان کی کچھ اور شکلیں بھی عبادت گزاروں کے لیے
یاد دہانی کا کام کرتی ہیں۔ راست بازوں کے لیے نور ہیں۔ احسان کرنے والوں کی رہنمائی
کرنے والی ہیں۔ یہ وہ شکلیں ہیں جن کا ذکر اس حدیث میں آیا جس میں ان سات گروہوں کا
ذکر جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا، اور اس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی
سایہ نہیں ہو گا۔ ان میں ایک وہ ہے جسے کوئی عہدیدار اور خوبصورت عورت گناہ کے لیے
بلائے اور وہ یہ کہہ کر انکار کر دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ اسی طرح وہ شخص جس نے
صدقہ اور خیرات اتنی چھپا کر دی کہ اس کے بائیں
ہاتھ کو بھی معلوم نہ ہوا کہ دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے۔ اسی طرح وہ شخص جو تنہائی میں
اللہ کو یاد کرے اور اس کی انکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔ (بخاری ومسلم)
یہ تین چیزیں تو احسان کی وہ عظیم شکلیں ہیں جن کے لیے صرف اللہ
کے چنیدہ اور منتخب لوگ ہی اٹھتے ہیں۔ جہاں تک پہلی صورت کی بات ہے: تو یہ ایک ایسے
شخص کی ہے جو کسی خوبصورت اور حسین عورت کے فتنے میں گرفتار ہو گیا ہو، جو با عزت اور
اچھے خاندان کی ہو، وہ خود اسے بلائے، جبکہ وہ اس کے عشق میں گرفتار بھی ہو چکا ہو،
اور وہ اس پر حاوی ہوا چاہتی ہو۔ تاہم اللہ جل وعلا کی نگرانی کی آگ اس کے دل میں جل
جائے، اور خواہش کے جذبات پر غالب آ جائے۔ اللہ اللہ! اپنے نفس پر غالب آنے کے بعد
اس کی یہ بات کتنی شاندار ہے۔ وہ کہتا ہے: میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ یہ الفاظ زبان پر
تب ہی آتے ہیں جب ان کی جڑیں دل میں انتہائی مضبوط ہو چکی ہوں، انتہائی راسخ ہو چکی
ہوں۔ اس مقام تک وہی پہنچ سکتا ہے جو احسان اور مراقبت میں بہت آگے پہنچ گیا ہو۔
جہاں تک دوسری صورت کی بات ہے: وہ ایک شخص کی ہے جس نے اپنے
پیسوں سے غریب کی مدد کی ہے، پھر اخلاص کا خیال کرتے ہوئے اسے خوب چھپایا۔ ایسے کرنے
والا شخص احسان کے مقام پر فائز ہو چکا ہوتا ہے، پہلے وہ سخاوت اور صدقے سے احسان کرتا
ہے، پھر اس کے بعد ایک اور احسان کرتا ہے، جو پہلے احسان سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ وہ
مخلوق کی نظروں سے اپنا صدقہ چھپاتا ہے، یہی احسان کا جوہر ہے۔ کہ بندہ اپنی عبادت
میں غیر اللہ کی نگرانی سے مکمل طور پر دور ہو جائے۔ صرف اللہ کی نگرانی اور اس کے
مکمل علم کا خیال کرے۔
جہاں تک تیسری صورت کی بات ہے: تو وہ ایسے شخص کا ہے جو لوگوں
سے دور تنہائی میں اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں،
اللہ کی خشیت اور اس کی محبت میں، اس سے امید اور اس کے شوق میں۔ ایسا شخص اپنے دین
کو اللہ کے لیے خالص کر چکا ہوتا ہے، اپنے کاموں میں احسان اپنا رہا ہوتا ہے۔ جب وہ
لوگوں کی نگرانی کو نظر انداز کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور خالق تعالیٰ کی نگاہ کا
خیال رکھنے لگتا ہے۔ پھر اپنے پروردگار کی نگرانی کو یاد رکھتا ہے، تو ایسا شخص بہت
سی نیکیاں اکٹھی کر رہا ہوتا ہے۔ خلوت کی، مناجات کی اور رونے کی۔ یعنی وہ احسان کے
مختلف رنگوں میں سیر کر رہا ہوتا ہے۔
چونکہ ان لوگوں نے عبادت میں صرف اپنے پروردگار کی نگرانی کا
خیال کیا ہوتا ہے، اسی لیے اللہ انہیں ان کے اعمال کے مطابق ہی بہترین جزا دے گا۔ وہ
انہیں اس دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو
گا۔ اللہ پاک نے سچ فرمایا:
’’نیکی کا بدلہ نیکی
کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ (الرحمن: ۶۰)
دوسرا خطبہ
حمد وصلوٰۃ کے بعد:
اپنے آپ پر اور لوگوں پر احسان کرنے کے ثمرات انتہائی میٹھے
ہیں، اس کے پھل بڑے اچھے ہیں، اس کے اثرات بڑے بہترین ہیں۔ پہلا ثمرہ یہ ہے کہ احسان
کرنے والا محبت کا درجہ پا لیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی محبت جیسی نعمت میں رہتا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر فرمایا ہے:
’’اللہ محسنو ں کو
پسند کرتا ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۹۵)
’’یقینا اللہ نیکو
کاروں ہی کے ساتھ ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۶۹)
دوسرا ثمرہ یہ ہے کہ اللہ کی رحمت محسنوں سے بڑی قریب ہوتی ہے،
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’یقینا اللہ کی
رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے۔‘‘ (الاعراف: ۵۶)
اور تیسرا ثمرہ یہ ہے کہ احسان کرنے والے کے ساتھ احسان بلکہ
مزید احسان کا وعدہ ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:
’’نیکی کا بدلہ نیکی
کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ (الرحمن: ۶۰)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’اور نیکو کاروں
کو مزید فضل و کرم سے نوازیں گے۔‘‘ (البقرۃ: ۵۸)
اور چوتھا ثمرہ یہ ہے کہ احسان کرنے والا اللہ پاک کی بشارت
پانے والا ہے، فرمایا:
’’اے نبی! بشارت
دے دے نیکو کار لوگوں کو۔‘‘ (الحج: ۳۷)
ایک اور جگہ فرمایا:
’’انہیں اپنے رب
کے ہاں وہ سب کچھ ملے گا جس کی وہ خواہش کریں گے‘ یہ ہے نیکی کرنے والوں کی جزا۔‘‘
(الزمر: ۳۴)
پانچواں ثمرہ یہ ہے کہ احسان کرنے والے کا اجر اللہ کے یہاں
محفوظ رہتا ہے، چاہے وہ لوگوں سے پوشیدہ ہو یا لوگ اس کا انکار کر دیں، اللہ تعالیٰ
نے فرمایا:
’’یقینا اللہ کے
ہاں محسنوں کا حق الخدمت مارا نہیں جاتا۔‘‘ (التوبہ: ۱۲۰)
چھٹا ثمرہ یہ ہے کہ احسان کے بعد احسان کرنے والے کے دل میں
ایک خوشی محسوس ہوتی ہے۔ اہل علم بیان کرتے ہیں: ’’دنیا کی سب سے بڑی خوشی احسان کی
خوشی ہے۔‘‘ لگتا ہے کہ یہ خوشی بھی اللہ تعالیٰ
کی خوشخبری میں شامل ہے۔
ان ساری باتوں میں ایک نصیحت ہے، جو لوگوں کو احسان کرنے والوں
کی راہ پر چلنے پر اکساتی ہے۔ ہر بات میں احسان اپنائیں، ہر کام میں احسان اپنائیں،
ہر معاملے میں احسان پر قائم رہیں۔ اللہ ہمیں بھی احسان کرنے والوں کی راہ پر چلائے۔
آمین!
اے اللہ! جو کچھ ہم نے تجھ سے مانگا، وہ ہمیں عطا فرما! جو ہم
نے نہیں مانگا، وہ خود ہی عطا فرما دے۔ دنیا وآخرت کی جن خیر وبرکات سے ہماری امیدیں
قاصر ہیں اور جنہیں پانے کے لیے ہمارے اعمال ناکافی ہیں، وہ بھی ہمیں عطا فرما دے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے ہدایت، تقویٰ، عفت اور بے نیازی کا سوال کرتے ہیں۔ اے اللہ، ہمارے
دلوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنا۔ اے اللہ، ہماری دلوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھنا۔ اے
پروردگار عالم! غیر اللہ سے ہماری امیدیں توڑ دے۔
No comments:
Post a Comment