درسِ قرآن
نصرتِ الٰہی
کیسے ممکن ہے؟!
ارشادِ باری ہے:
﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ
اٰمَنُوْۤا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ۰۰۷﴾
(محمد)
’’اے ایمان والو!
اگر تم اللہ(کے دین)کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مددکرے گا اور تمہیں ثابت قدم بھی رکھے
گا۔‘‘
قانون الٰہی ہے
کہ اللہ تعالیٰ اس قوم اور ملت کو عزت و افتخار سے نوازتے ہیں جو قوم ثابت کردکھائے
کہ وہ اسی افتخار اور وقار کے لائق ہے۔ اس کے خاص عوامل اور اسباب ہیں جن کا اختیار
کرنا ایک قوم اور ملت کے لیے ضروری ہے۔ان میں سے سب سے اہم اس عہد الٰہی سے وفا ہے
جو ایک مسلمان کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کرکے کرتا ہے۔یعنی توحید الٰہی اور محمد
کریمe کی
لائی ہوئی شریعت سے محبت اور اس کا عملاً اظہار ۔اللہ کی مدد و نصرت کا حصول صرف اسی
صورت ممکن ہے کہ افراد امت توحید الےہی کو اپنائیں، تعلیمات محمدیe کو
اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں اور شرک ومعاصی سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ اگر ایسا کرنے
میں آج کا مسلمان کامیاب ہوجاتا ہے تو پھرتمام قرآنی وعدوں کے مظاہر بھی انسان خود
دیکھ لے گا۔ یہ اللہ کا وعدہ کہ تم اللہ کے ہوجائو اللہ تمہارا حامی ومددگار بن جائے
گا۔ تب نہ تو دشمن کے ہتھکنڈے کسی کام کے رہیں گے اور نہ ہی اغیار کی شان وشوکت مسلمانوں
پر غلبہ پاسکے گی اور اللہ کی معیت و نصرت مسلمانوں کو ہر دم حاصل رہے گی۔
﴿وَ كَانَ حَقًّا
عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۴۷﴾ (الروم)
’’ہم پر مومنوں کی
مد د کرنا لازم ہے۔‘‘
جو اللہ سے عہدِ
وفا نبھائے گا اللہ بھی اسے عزت وتکریم سے نوازیں گے اورشان وشوکت والی زندگی عطاء
فرمائیں گے۔ جو اللہ سے کیے وعدے سے روگردانی کرے گا تو پھر دنیا میں بھی ذلت ورسوائی
اسکا مقدر ہوگی اور آخرت میں بھی ناکامی اور خسران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب مسلمان
قوم اور حکومتوں کے لیے دین الٰہی کا پرچار ونفاذسب سے اہم اور بنیادی مسئلہ اور مقصد
حیات بن جائے گا‘ اور اسی کو وہ اپنے لیے دستور العمل سمجھیں گے اور تمام معاملات زندگی
میں اسی سے رہنمائی لینے لگیں گے تب نصرت الٰہی بھی شامل حال ہوگی اور شان وشوکت اور
عظمت و بلندی انہیں کا مقدر ٹھہرے گی اور آخر ت میں بھی کامیابی انہیں کا دامن تھامے
گی۔یہ اللہ کاوعدہ ہے۔
﴿وَ لَيَنْصُرَنَّ
اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيْزٌ۰۰۴۰﴾ (الحج)
’’ جو اللہ کی مدد
کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا۔بے شک اللہ بڑی قوتوں اور غلبے والا ہے۔‘‘
﴿اِنَّا لَنَنْصُرُ
رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ۰۰۵۱﴾(غافر)
’’یقیناہم اپنے رسولوں
کی اورایمان والوں کی مددزندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے
والے کھڑے ہوں گے۔‘‘
مسلمانوں کا توحید
الٰہی کو‘ تمام لوازمات کے ساتھ اپنانا اور شریعت محمدیہ eکا اپنے تمام معاملات زندگی میں صحابہ کرام] کی
طرز پر نفاذ ہی اس چیزکا ضامن ہے کہ مسلمانوں پر سے خوف کے بادل چھٹ جائیں اور عزت
و وقار والی پرامن زندگی گزاریں۔
درسِ حدیث
ظلم وبخل سے بچو
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
[عَنْ جَابِرٍ أَنَّ
رَسُولَ اللهِ ﷺ، قَالَ: "اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ
الْقِيَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ،
حَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ.] (رواه
مسلم)
سیدنا جابر بن عبداللہw
سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہe
نے فرمایا: ’’تم ظلم کرنے سے ڈرو، اس لئے کہ ظلم قیامت کے دن ظلم
کرنے والوں کے لئے اندھیرا ہوگا اور بخیلی سے بچو اس لئے کہ بخیلی نے تم سے پہلے لوگوں
کو ہلاک کر ڈالا، انہیں اس بات پر آمادہ کیا کہ انہوں نے خون بہائے اور حرام کردہ
چیزوں کو حلال کر لیا۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث میں رسول اللہe
نے ظلم اور بخیلی سے بچنے کا حکم دیا، اس لئے کہ یہ دونوں کام انسان
کو دنیا اور آخرت میں نقصان دیتے ہیں۔ ظلم کرنے والا اپنے ظلم کے نتیجے میں قیامت
کے روز تاریکی میں ہوگا اور اللہ کی رحمت سے محروم ہو جائے گا۔ چونکہ ظالم نے دنیا
میں کسی پر ظلم کر کے اس کا مستقبل تاریک کر دیا تھا جس کے نتیجے میں وہ قیامت کے دن
روشنی سے محروم ہو گا اور اپنے ظلم کی سزا پائے گا۔
دوسری بات حضورe نے یہ فرمائی کہ بخیلی سے بچو،
اس لئے کہ بخل کرنے والا اپنی تباہی کا راستہ خود ہموار کرتا ہے۔ لوگ اس سے نفرت کرتے
ہیں اور رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم سے پہلے جن قوموں نے بخل
سے کام لیا وہ ہلاک ہوئے اور آپس میں خون خرابہ کرتے رہے۔ قتل و غارت کا بازار گرم
کیا، کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی جان و مال۔ بخیل انسان کو اپنی عزت کا بھی خیال
نہیں ہوتا وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں اس طرح اپنا مال محفوظ کر رہا ہوں لیکن حقیقت میں
وہ مال تلف کرتا ہے۔ لوگ اسے بُرے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
ظلم وبخل ایسی معاشرتی برائی ہے جس سے
قتل و غارت گری شروع ہو جاتی ہے اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہے۔ جو
قوم اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھنا شروع کر دے اور حرام کاموں کو حلال کرے
وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا معاشرتی ترقی اور اللہ کے ہاں مقرب بننے کے لئے
ظلم اور بخیلی سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔
No comments:
Post a Comment