صحبت صالح ترا صالح کند
تحریر: جناب مولانا
سعید الرحمن
یہ
سچ ہے کہ ایک انسان کی پہچان اس کے اپنے رفقاء اور ساتھیوں سے ہوتی ہے۔ یہ بھی مسلمہ
حقیقت ہے کہ انسان اپنے دوست واحباب کے عادات واطوار سے بہت حد تک متاثر ہوتا ہے اور
اثر پذیر بھی۔ آپ اپنے قرب وجوار کا جائزہ لیں تو اس حقیقت کا بآسانی ادراک کر لیں
گے کہ نیک لوگوں اور اچھے حضرات کی صحبت میں رہنے والے انسان کی پوری دنیا تعریف کرتی
ہے‘ اسے قابل اعتماد اور بھروسہ کے لائق جانتی ہے۔ اسے تمام طرح کے شکوک وشبہات سے
بالاتر سمجھا جاتا ہے۔ بلکہ اگر سماج ومعاشرہ میں کوئی واردات وقوع پذیر ہوتی ہے تو
شک کی سوئی اس پر نہیں جاتی اور اگر شرپسند عناصر غلطی سے اس پر اتہام پردازی اور دشنام
طرازی کی کوششیں کرتے ہیں تو اس کی طرف سے دفاع کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود
ہوتی ہے۔ لیکن دوسری طرف جو انسان برے لوگوں کی صحبت میں رہتا ہے اور بدطینت اور بدکردار
افراد کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے‘ معاشرہ میں بدنام اشخاص کے ساتھ بود وباش اختیار کرتا
ہے تو معاشرہ میں اسے بھی لوگ بری نظروں سے دیکھتے ہیں‘ معاشرے میں ایسے انسان کی شبیہ
بھی منفی بن جاتی ہے اور فطری طور پر معاشرہ میں وقوع پذیر برائی اور انجام پذیر واردات
کے لیے دنیا اسے مشکوک ومتہم گردانتی ہے۔ لوگ اس برائی سے اس کو جوڑ کر دیکھتے ہیں
جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر موقع پر اپنی طرف سے دفاع کرنے میں ہی لگا رہتا ہے اور
اسے ہمہ وقت اپنی ذات سے صفائی پیش کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت
اسلامیہ نے اپنے متبعین کو دوست وہم نشین‘ اصحاب واحباب‘ رفقاء اور ساتھیوں کے انتخاب
واختیار کے تعلق سے مکمل ہدایت اور رہنمائی فرمائی ہے کہ کن لوگوں کی صحبت ہمارے لیے
مفید اور کارگر ہے۔ کن اخلاق واطوار کے حاملین کو دوست بنایا جا سکتا ہے اور وہ کون
سے لوگ ہیں جن کی صحبت ورفاقت سے بہتر اثرات اور اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے؟!
دوسری طرف مذہب اسلام نے قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کے اندر ایسے لوگوں کی بھی نشاندہی
کر دی ہے جن کی دوستی اور ہم نشینی ہمارے مذہب وایمان‘ اخلاق وکردار اور اعمال وکردار
کے لیے زہر ہلاہل اور مضر ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت ومعیت سے
ہمیں ہر ممکن دور رہنا ہے۔
سب
سے پہلے ہمیں اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ لوگوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ تو
بھلائی اور اچھائی کے پیامبر ہونے کی بناء پر نیکی اور بھلائی کی طرف رہنمائی کرتے
ہیں اور کچھ برائی کے حامل ہونے کی وجہ سے بدی کی طرف کھینچتے ہیں۔
سیدنا
انس بن مالکt سے مروی حدیث میں وارد ہے کہ
اللہ کے رسولe نے ارشاد فرمایا:
’’یقینا کچھ لوگ نیکیوں کے جاری کرنے والے اور
برائیوں کو بند کرنے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ برائیوں کے جاری کرنے والے اور نیکیوں
کو بند کرنے والے ہوتے ہیں۔ خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نیکی جاری
کرنے والا بنا دے اور ہلاکت ہے اس کے لیے جس کے ہاتھوں کو اللہ تعالیٰ برائیوں کو جاری
کرنے والا بنادے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۲۳۷)
اس
حدیث میں علانیہ طور پر رسول اکرمe نے لوگوں کی دو قسمیں بتائی
ہیں۔ ایک جو خیر اور افعال خیر کے داعی ہوتے ہیں اور ہمیشہ خیر کی ترویج اور اشاعت
کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ خیر کے معدن اور سرچشمہ کی حیثیت رکھتے ہیں‘ وہ بولتے ہیں
تو خیر بولتے ہیں اور اپنے عمل وکردار سے بھی خیر کی ترویج کرتے ہیں تو ایسے لوگوں
کی رفاقت ہمارے لیے نفع کا سودا ہے اور خیر سے اپنے نفس کو مزین کرنے میں حد درجہ معاون
بھی ہے۔ وہیں دوسری طرف اچھے لوگوں کے مقابلے میں اشرار اور برے افراد کی ہے جو فتنہ
میں ملوث رہتے ہیں۔ برائیوں کو پھیلاتے ہیں اور برائیوں میں ہمیشہ لت پت ہوتے ہیں جن
کی قربت ہمارے لیے برائیوں میں ملوث ہونے کے مترادف ہوا کرتی ہے تو ہمیں ایسے افراد
سے دور رہنے میں ہی عافیت ہے۔ اس حدیث کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں اللہ کے
رسول e نے ابوموسیٰ اشعریt
سے مروی حدیث میں ارشاد فرمایا ہے:
یعنی ’’نیک ساتھی
کی مثال کستوری بیچنے والے انسان جیسی ہے اور برا ساتھی لوہار جیسا ہے۔ کستوری بیچنے
والا یا تو از خود تجھے خوشبو دے دے گا یا تو اس سے خرید ہی لے گا۔ (اگر یہ دونوں باتیں
نہ ہوئیں تو) یا کم از کم تجھے اس کی خوشبو (مہک) تو حاصل ہوتی ہی رہے گی۔ رہا لوہار
یا تو وہ تیرے کپڑے جلا دے گا یا پھر تجھے ناگوار دھواں تو پھانکنا ہی پڑے گا۔‘‘ (صحیح
بخاری: ۵۵۲۴‘ مسلم:
۶۳۸۲)
یہ
حدیث واضح طور پر بتاتی ہے کہ اچھے انسان کی صحبت اور رفاقت انسان کے رہن سہن کے طور
طریقہ‘ فکر وخیال‘ عادات وافعال‘ اخلاق وکردار اور اس کے تعامل کے لیے مستحسن اور بہتر
ہے۔ نیز بہتر ساتھی اور اچھا ہم نشیں دین ودنیا کی بھلائیوں کے حصول کا ذریعہ ہے وہیں
صحبت بد اور برے انسان کی ہم نشینی اور ہم رکابی انسان کے فکر وخیال‘ طور وطریقہ اور
اخلاق وعادات کے لیے مضر اور سب پر برا اثر ڈالتی ہے۔ امام نوویa
نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث میں اہل خیر‘ اہل
مروت اور با اخلاق‘ پرہیزگار‘ اہل علم اور با ادب نیک لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت
بیان کی گئی ہے اور برے‘ اہل بدعت‘ لوگوں کی چغلی کرنے والے اور جن کی برائیاں‘ فسادات
اور جھوٹی باتیں بڑی لمبی چوڑی ہوں‘ ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے روکا گیا ہے۔
(شرح صحیح مسلم: ۶/۱۸۷)
حافظ
ابن حجر عسقلانیa نے اس حدیث کے ضمن میں لکھا
ہے کہ جس شخص کی وجہ سے دین ودنیا کا نقصان ہو‘ اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے حدیث میں
منع کیا گیا ہے اور جس کی وجہ سے دین ودنیا کا نفع ہو اس کے ساتھ بیٹھنے کی حدیث میں
ترغیب دی گئی ہے۔ (فتح الباری: ۴/۳۲۴)
یقینا
اہل خیر‘ علمائے کرام اور نیک لوگوں کی ہم نشینی بے پناہ فوائد وثمرات کی جامع ہے۔
آپ تصور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کتے کا تذکرہ قرآن پاک میں محض اس وجہ سے کیا کہ
اس نے نیک لوگوں سے محبت کی اور نیک لوگوں کے ساتھ رہا۔ چنانچہ فرمایا:
یعنی ’’ان کا کتا
غار کے دہانے پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے۔‘‘
اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک لوگوں کے ہم نشیں کو ان کی صحبت کی برکت شامل حال ہوتی ہے
اور ان سے اس کو عام بھلائی حاصل ہوتی ہے اگرچہ اس کا عمل ان کے برابر نہ ہو۔ اس کی
واضح دلیل سیدنا ابوہریرہt سے مروی وہ حدیث ہے جس میں
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’اللہ کے کچھ خاص فرشتے ہیں جو راستوں میں گھوم
کر ذکر واذکار کرنے والوں کو تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ جب انہیں ذکر واذکار کرنے والے مل
جاتے ہیں تو باہم ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ اپنی مراد کی طرف آؤ۔ پھر انہیں اپنے
پروں سے آسمان دنیا تک ڈھانپ لیتے ہیں۔ اس موقعہ پر پروردگار فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ
میرے بندے کیا کہہ رہے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح‘ تکبیر‘ تحمید اور
تمجید کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ فرشتے جواب
دیتے ہیں کہ نہیں‘ اللہ کی قسم! انہوں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ رب تعالیٰ پوچھتا ہے کہ
اگر وہ مجھے دیکھ لیں تو ان کی حالت کیا ہو گی؟ فرشتے جوابا عرض کرتے ہیں کہ اگر وہ
لوگ تجھے دیکھ لیں گے تو مزید کثرت سے تیری عبادت کرنے لگیں گے‘ تمجید زیادہ سے زیادہ
انجام دیں گے اور تسبیح کا ورد مزید تر کرنے لگیں گے۔ رب تعالیٰ پھر پوچھتا ہے کہ وہ
لوگ کس چیز کا سوال کر رہے ہیں؟ فرشتے بتاتے ہیں کہ وہ لوگ تجھ سے جنت مانگ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے جنت دیکھ رکھی ہے؟ فرشتے گویا ہوتے ہیں کہ نہیں‘
اللہ کی قسم! انہوں نے جنت نہیں دیکھ رکھی۔ رب تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر وہ جنت دیکھ لیں
تو پھر ان کی کیا حالت ہو گی؟ فرشتے گویا ہوتے ہیں کہ اگر وہ جنت دیکھ لیں گے تو جنت
کے لیے ان کی حرص بڑھ جائے گی۔ وہ مزید محنت سے اس کا مطالبہ کرنے لگیں گے اور ان کی
رغبت زیادہ ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پھر سوال کرتا ہے کہ وہ لوگ کس چیز سے
پناہ طلب کر رہے ہیں؟ فرشتے بتاتے ہیں کہ وہ لوگ جہنم کی پناہ چاہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ
دریافت کرتا ہے کہ کیا انہوں نے جہنم دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں: نہیں‘ اللہ کی قسم!
انہوں نے جہنم نہیں دیکھی۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر وہ لوگ جہنم دیکھ لیں تو ان
کی کیا کیفیت ہو؟ فرشتے بتاتے ہیں کہ اگر وہ لوگ جہنم دیکھ لیں تو اس سے سختی سے بھاگنے
لگیں اور زیادہ خوف کھانے لگیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تم سبھی کو گواہ بناتا
ہوں کہ میں نے انہیں معاف کر دیا۔ اس دوران ایک فرشتہ عرض کرتا ہے کہ فلاں شخص ان میں
سے نہیں تھا‘ وہ کسی ضرورت کی وجہ سے آیا تھا۔ اللہ کہے گا: میں نے اسے بھی معاف کر
دیا کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کا ہم نشیں بھی (ثواب سے) محروم نہیں
رہ سکتا۔‘‘ (بخاری: ۴۶۰۸‘ مسلم:
۲۶۸۹)
نیک
اور اچھے دوست اور ہم نشیں کے انتخاب کا ایک اہم فائدہ یہ ہے کہ نیک لوگوں کا ہم نشیں
ان سے متاثر ہوتا ہے کیونکہ آدمی کے لیے اپنے ہم نشیں کی اقتداء طبعی بات ہے اور اس
کے علم‘ عمل‘ عادات اور وہ اس کے طور طریقے سے متاثر ہوتا ہے۔ اس مفہوم کی مزید وضاحت
سیدنا ابوہریرہt کی اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں
رسول اکرمe نے ارشاد فرمایا ہے:
یعنی ’’آدمی اپنے
دوست کے دین (طور طریقہ) پر ہوتا ہے لہٰذا تم اس میں سے ہر ایک کو سوچ سمجھ کر دوست
کا انتخاب کرنا چاہیے۔‘‘ (ابوداؤد: ۴۸۳۳‘ ترمذی: ۲۲۷۸‘ مسند احمد: ۸۰۴۸)
یہاں
یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا چاہیے جن کی امانتداری
اور دینداری پر ہمیں اطمینان ہو کیونکہ آدمی اپنے دوست وہم نشیں کے سانچے میں ڈھل جاتا
ہے استقامت واصلاح میں بھی اور ان کے برعکس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلاف کرام کہا کرتے
تھے کہ جب کسی انسان کے بارے میں جاننا ہو تو اس کے دوست واحباب کے بارے میں آگاہی
حاصل کر لو تو اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی۔ عدی بن زیدt اپنے منظوم کلام میں کہتے ہیں:
عن المرء لا تسأل وسل عن قرینه
فكل قرین بالمقارن یقتدی
إذا كنت فی قوم فصاحب خیارهم
ولا تصحب الأردی فتردی بالردی
یعنی ’’آدمی کے
بارے میں پوچھنے سے پہلے اس کے د وست کے بارے میں پوچھ لو‘ کیونکہ آدمی اپنے دوست کی
پیروی کرتا ہے۔ جب تم لوگوں میں مل جل کر رہو تو ان میں سے بہتر شخص کو اپنا ساتھی
بناؤ اور گھٹیا کو ہم نشیں نہ بناؤ کیونکہ گھٹیا تجھے بھی ہلاک کر دے گا۔‘‘ (ادب الدنیا
والدین: ۱۶۷)
اچھے
دوست بنانے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ہمارے عیوب کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کمزوریوں
کو بتاتے ہیں اور کوتاہیوں کی طرف توجہ مبذول کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب انسان
کو اس کے نقائص پر ٹوکنے والے موجود ہوں گے تو وہ ان عیوب کے علاج‘ اصلاح اور ازالہ
کی طرف توجہ دے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے پیارے رسولe نے ایک مومن کو دوسرے مومن
کے لیے آئینہ قرار دیا اور کہا ہے: [المؤمن مراٰة المؤمن]
چنانچہ جب ہم کسی مومن اور نیک انسان
کو اپنا دوست اور ہم نشیں بنائیں گے تو یقینی طور پر اس طرح سے ہمیں اپنے عیوب کو سدھارنے
کا سنہرا موقع ہاتھ لگے گا۔
اس
کے سوا بھی صالح دوست‘ اچھے احباب‘ بہتر مصاحب‘ عمدہ ہم نشیں اور اخلاق مند ساتھی کے
بہت سارے فائدے ہیں جیسے کہ آپ کے احباب کا دائرہ وسیع ہو گا‘ آپ کی زندگی سے برائیوں
کا خاتمہ ہو گا‘ آپ چین وسکون سے زندگی گذارنے لگیں گے‘ غیبت اور چغلی جیسی خرابیوں
سے بچے رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔
یہ
باتیں اچھے دوست سے متعلق تھیں۔ دوسری طرف برا ساتھی ہے جو ہر لحاظ سے اپنے ہم نشیں
کے لیے سراپا مضر اور بالکلیہ نقصان دہ ہے۔ برے ساتھی کی نحوست اپنے رفیق اور ہم نشیں
کے لیے د نیا ہی نہیں آخرت میں بھی متعدی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایسے انسان
کی ندامت وحسرت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ اپنے ہم نشیں کی ضلالت وگمراہی کی
وجہ سے خود بھی گمراہ ہو گیا ہو:
یعنی ’’جس دن ظالم
اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کہ اے کاش! میں نے رسول کے ساتھ راستہ اختیار کیا ہوتا‘
ہائے شامت! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھ کو نصیحت کے بعد
میرے پاس آ کر مجھ کو بہکا دیا اور شیطان وقت پر انسان کو دغا دینے والا ہے۔‘‘ (الفرقان:
۲۷-۲۹)
غور
کرنے کا مقام ہے کہ برے دوست کی نحوست کس قدر سنگین اور دین ودنیا کے لیے نقصان دہ
ہے کہ انسان بروز قیامت اس دوستی پر پچھتائے گا ہی نہیں بلکہ ندامت وشرمندگی کے آنسو
بھی بہائے گا لیکن اب یہ حسرت وندامت کسی بھی طرح سے کارآمد نہیں ہونے والی۔
یہی
و جہ ہے کہ شاعر نے برے ساتھی کی ہم نشینی اور بد کی صحبت سے متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے:
بد
کی صحبت میں مت بیٹھو‘ بد کا ہے انجام برا
بد
نہ بنے تو بد کہلائے‘ بد اچھا بدنام برا
یہی
نہیں‘ ہر وہ دوستی جو دنیاداری‘ مفاد پرستی‘ ذاتی منفعت اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی
کی بنیاد پر بنی ہو گی اور اس کا انحصار للہیت‘ اخلاص‘ دیانت داری اور دینی لگاؤ پر
نہیں ہو گا تو پھر یہ دوستی قیامت کے روز دشمنی میں تبدیل ہو جائے گی۔ قرآن پاک نے
اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
{اَلْاَخِلَّآئُ
یَوْمَپذٍ بَعْضُهمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَ٭} (الزخرف: ۶۷)
برے
انسان کی صحبت چونکہ باہمی خیر خواہی‘ مناصحت ومناصرت اور آپسی تعاون جیسے جذبے سے
عاری ہوتی ہے اور ایسے انسان کی صحبت دین وایمان سے دوری کا سبب بنتی ہے‘ اس لیے یہ
دوستی قیامت کے روز دشمنی میں تبدیل ہو جائے گی اور برے دوستوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے
اور اپنا سب کچھ لٹانے والے لوگ خواہش ظاہر کریں گے کہ ایسے برے رفقاء کو جنہوں نے
انہیں دنیا داری میں دھکیل دیا‘ دین اسلام سے دور کر دیا‘ شراب نوشی اور جوا بازی کا
عادی بنا دیا‘ حرام خوری کا خوگر بنا دیا‘ ایسے بدقماشوں کو ان کے حوالے کیا جائے تا
کہ انہیں پاؤں تلے روند کر ان سے براء ت کا اظہار کریں اور انہیں اسافل اور اراذل کے
زمرے ہی میں گردانیں۔ قرآن پاک نے اسی چیز کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے:
{وَ قَالَ الَّذِیْنَ
كفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ نَجْعَلْهمَا
تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَكوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ٭} (فصلت: ۲۹)
غور
وفکر کا مقام ہے کہ ہم اپنی ہم نشینی کے لیے جس انسان کو چنتے ہیں اس کے تعلق سے ہماری
ادنی سی غفلت ہمیں کتنی برائیوں اور خرابیوں میں ملوث کر دیتی ہے کہ ہم اس کا وبال
اس دنیاوی زندگی میں بھی بھگتتے ہیں اور اخروی زندگی میں ہمارے لیے اس ہم نشینی کی
نحوست منہ پھیلائے کھڑی ہوتی ہے۔
چنانچہ
ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ ہم جس شخص کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں‘ اس کے تعلق سے ہم
جانچ پڑتال کر لیں کہ ایسا تو نہیں کہ اس کی رفاقت ہمارے لیے دین وایمان‘ اخلاق وکردار‘
افعال وعادات‘ قول وقرار اور چال چلن میں کسی طرح سے شریعت اسلامیہ سے دوری کا سبب
بن رہی ہے تو ایسی دوستی کو خیر باد کہہ کر ہمیں ایسے انسان سے دور رہنے کی حتی المقدور
کوشش کرنا چاہیے۔ اگر ہم نے اس کی اصلاح کر لی تو یہ عمل بھی ہمارے لیے ایک صدقہ جاریہ
ثابت ہو گا لیکن اگر کوئی دوستی ہمارے لیے کچھ سیکھنے‘ اسلام سے قریب کرنے‘ اعمال صالحہ
کی ترغیب دینے‘ منہیات ومحرمات سے اجتناب کرنے اور دنیا داری سے بے زار ہونے کا سبب
بنتی ہے تو پھر ایسی دوستی کی قدر کرنا چاہیے اور ہمیشہ ایسے دوست کو حرز جاں سمجھنا
چاہیے تا کہ ہمیں کسی نیک انسان کی رفاقت کے طفیل اور اس کے ہم نشینی کے فیض سے نیکیوں
کو انجام دینے کی توفیق ملے۔ کیونکہ…
صحبت
صالح ترا صالح کند
وصحبت
طالح ترا طالح کند
No comments:
Post a Comment