موت کی تیاری
امام الحرم المدنی فضیلۃ الشیخ علی الحذیفیd
ترجمہ: جناب عاطف الیاس
حمد و ثناء کے بعد!
اللہ سے ڈرو اور اس کی خوشنودی کے طالب رہو، اس کی نافرمانیوں
سے بچو، کیونکہ اللہ کے ڈر سے تمھاری زندگی کے حالات درست ہوجائیں گے اور اس سے تمہاری
آئندہ کی تیاری بھی ہوجائے گی جس سے تمہیں خوف ہے۔ یہ تقویٰ تباہ کاریوں سے بچاؤ
کا ذریعہ ہے اور تقویٰ اختیار کرنے پر اللہ نے جنتوں کا وعدہ کیا ہے۔ بندگان الٰہ!
ہر ایک اپنی زندگی میں فائدے سمیٹنے اپنے معاملات درست کرنے اور معاش حاصل کرنے کی
کوشش کرتا ہے، چنانچہ کچھ اپنی دنیا کی اصلاح کے ساتھ دین کی اصلاح بھی کرتے ہیں، یہ
وہ لوگ ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی اچھائی اور آخرت میں بھی اچھائی عطا
کردی ہے اور انھیں آگ کے عذاب سے بچا لیا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دنیا کے لیے تو
سعی کرتے ہیں لیکن اپنی آخرت کو بھول چکے ہیں یہ لوگ دنیا سے لطف اندوز ہورہے ہیں
اور جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں‘ سو ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ہر ارادے اور عمل کی ایک انتہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ اور یہ کہ آخر
کار پہنچنا تیرے رب ہی کے پاس ہے۔‘‘
پاک ہے وہ پروردگا جس نے ہر دل کو مشغول کردیا ہے اور ہر دل
میں غم رکھ دیے ہیں اور ایک کے لیے ارادے اور عزائم پیدا کیے ہیں، وہ دل جب چاہے کوئی
کام کر لے اور جب چاہے چھوڑ دے، اللہ کا ارادہ اور مشیئت ہر شخص کے ارادے پر حاوی ہے۔
فرمان الٰہی ہے:
’’اور تمہارے چاہنے
سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔‘‘
جو اللہ چاہے وہی ہوتا ہے جو اللہ نہ چاہے وہ ہو نہیں سکتا۔
زمین پر موجود ہر مخلوق کی انتہا موت ہے، اس دنیا میں ہر زندہ کو موت آنی ہے، اللہ
تعالیٰ نے ہر ایک پر حتی کہ جبریل، میکائیل، اسرافیل‘ ملک الموت اور تمام فرشتوں پر
موت واجب کردی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ہر چیز جو اس زمین
پر ہے فنا ہو جانے والی ہے۔ اور صرف تیرے رب کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی
ہے۔‘‘
موت دنیوی زندگی کی انتہا اور آخرت کا آغاز ہے کیونکہ موت
کے ساتھ ہی دنیوی زندگی کے فوائد منقطع ہوجاتے ہیں اور مرنے والا موت کے بعد یا تو
عظیم نعمتیں دیکھتا ہے یا پھر دردناک عذاب۔
موت ایک ایسی نشانی ہے جو اللہ کی قدرت کاملہ پر دلالت کرتی
ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’ اپنے بندوں پر
وہ پوری قدرت رکھتا ہے اور تم پر نگرانی کرنے والے فرشتے مقرر کر کے بھیجتا ہے، یہاں
تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو اس کے بھیجے ہوئے فرشتے اس کی
جان نکال لیتے ہیں اور اپنا فرض انجام دینے میں ذرا کوتاہی نہیں کرتے ۔‘‘
موت اللہ تعالیٰ کا عدل ہے جس میں تمام مخلوقات برابر ہیں۔ اللہ
تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ہر جاندار کو موت
کا مزا چکھنا ہے، پھر تم سب ہماری طرف ہی پلٹا ئے جاؤ گے ۔‘‘
موت لذتوں کو منقطع کردیتی ہے اور بدن کی حرکت ختم کردیتی ہے،
دوستوں سے جدا کر دیتی ہے اور یہ موت محبتوں کے درمیان حائل ہوجاتی ہے‘ زندگی صرف اللہ
کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ کا فرمان ہے:
’’وہی زندگی بخشتا
ہے اور وہی موت دیتا ہے‘ دن رات کا آنا جانا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے‘ کیا تمہاری
سمجھ میں یہ بات نہیں آتی؟‘‘
موت کو کوئی پہریدار روک نہیں سکتا، نہ ہی کوئی دربان رکاوٹ
بن سکتا ہے، موت سے مال، اولاد اور دوست چھڑا نہیں سکتے، کوئی چھوٹا یا بڑا‘ امیر اور
غریب اس سے بچ نہیں سکتا۔ فرمان خداوندی ہے:
’’رہی موت، تو جہاں
بھی تم ہو وہ بہرحال تمہیں آکر رہے گی خواہ تم کیسی ہی مضبوط عمارتوں میں ہو۔ اگر
انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان
پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ تمہاری بدولت ہے کہو، سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے‘ آخر
ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔‘‘
اور فرمایا:
’’اِن سے کہو،
"جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تو تمہیں آ کر رہے گی پھر تم اس کے سامنے پیش کیے
جاؤ گے جو پوشیدہ و ظاہر کا جاننے والا ہے، اور وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ
کرتے رہے ہو ۔‘‘
موت بغیر اطلاع کے اچانک آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’حالانکہ جب کسی
کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آ جاتا ہے تو اللہ اُس کو ہرگز مزید مہلت نہیں دیتا،
اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘
موت انبیاء کے سوا کسی سے اجازت نہیں لیتی، البتہ انبیاء اللہ
کے ہاں محترم و مکرم ہیں اس لیے ان سے موت اجازت لیتی ہے، چنانچہ ہر نبی سے موت نے
اجازت لی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:
’’ہر نبی کو اللہ
نے اختیار دیا کہ وہ ہمیشہ دنیا میں رہے پھر جنت میں جائے یا موت اس کو آلے تو ہر
نبی نے موت کو اختیار کیا۔ کیونکہ دنیا حقیر ہے اور اللہ کے ہاں بڑا اجر و ثواب ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ابن آدم کو موت کے ذریعےسے دنیا سے نکالنا چاہتے
ہیں تاکہ مومن سے اس دنیا کا تعلق ختم ہوجائے اور بال برابر بھی اس کی دنیا سے محبت
نہ رہے۔ سیدنا انس سے روایت ہے نبیe نے
فرمایا: ’’کوئی شخص بھی ایسا نہ ہوگا جو جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا میں دوبارہ
جانے کی خواہش کرے سوائے شہید کے کہ وہ چاہے گا کہ دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے اور
دس مرتبہ شہید ہو کیونکہ اس نے شہید کا عزت و احترم دیکھ لیا ہے۔ موت ایسی مصیبت ہے
جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں، موت کی تکلیف سے کوئی موت کی شدت کا اندازہ نہیں کرسکتا
کیونکہ روح بدن کے رگ و ریشے سے کھینچی جاتی ہے اور دنیا کی ہر تکلیف موت سے کم ہے۔
سیدہ عائشہr فرماتی
ہیں جس نے رسول اللہe کو
موت کے وقت دیکھا کہ آپ کے پاس پانی کا بھرا ہوا پیالہ تھا، آپe موت
کی تکلیف سے پانی میں ہاتھ ڈبو کر بار بار چہرے پر مل رہے تھے اور فرمارہے تھے: ’’اے
اللہ موت کی تکلیفوں اور موت کی گھاٹیوں میں میری مدد فرما۔‘‘ اس کو ترمذی نے روایت
کیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ موت کے وقت بے ہوشیاں ہوتی ہیں۔
ایک آدمی نے موت کے وقت اپنے باپ سے کہا کہ بطور عبرت موت کی
تکالیف بیان کریں، تو باپ نے کہا: ’’گویا کانٹے میرے پیٹ سے کھینچے جارہے ہیں گویا
میں سوئی کے سوراخ سے سانس لے رہا ہوں۔
ایک اور آدمی کو موت کے وقت پوچھا گیا کہ تیرا کیا حال ہے؟
تو اس نے کہا: گویا میرے پیٹ میں چھریوں کو الٹ پلٹ کیا جارہا ہے۔
ایک اور آدمی سے پوچھا گیا کہ موت کی تکلیف کتنی ہے؟ تو اس
نے کہا گویا میرے پیٹ میں آگ بھڑک رہی ہے۔ جو موت کو ہمیشہ یاد رکھتا ہے اس کا دل
نرم ہوجاتا ہے‘ اس کے حالات اور اعمال درست ہوجاتے ہیں، وہ نافرمانیوں کی جرأت نہیں
کرتا اور نہ فرائض سے کوتاہی کرتا ہے، دنیا کی زیب و زینت اس کو اچھی نہیں لگتی، وہ
جنت کی نعمتوں اور اپنے رب کی ملاقات کا شوقین ہوتا ہے، اور جو موت کو بھول گیا اس
کا دل سخت ہوجاتا ہے، وہ نیا میں مگن ہوجاتا ہے، اس کے اعمال بُرے ہوجاتے ہیں، امیدیں
لمبی ہوجاتی ہیں، سو سب سے بڑے واعظ موت کو یاد رکھا کرو۔
سیدنا ابوہریرہt سے
مروی ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا: لذتوں کو ختم کردینے والی موت کو زیادہ یاد رکھو۔ (ترمذی‘ نسائی) حدیث کا معنی
یہ ہے کہ موت لذتوں کو توڑنے اور ختم کردینے والی ہے۔
سیدنا اُبی بن کعبt سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب ایک تہائی رات گزر
جاتی تو رسول اللہ بستر سے اٹھ جاتے اور فرماتے: اے لوگو! اللہ کو یاد کرو‘ جھنجھوڑنے
والی آرہی ہے اس کے پیچھے آئے گی‘ پیچھے آنے والی یعنی موت آرہی ہے۔ (ترمذی)
سیدنا ابودرداءt فرماتے
ہیں: موت کا وعظ کافی ہے، زمانہ تم سے جدا ہونے والا ہے، تم آج گھروں میں ہو تو کل
قبروں میں ہو گے۔ تمام تر سعادت مندی، ہمہ قسم کی توفیق اور ہر قسم کی کامیابی موت
کی تیاری کرنے میں ہے، چنانچہ موت یا تو جنت کے دروازے کا آغاز ہے یا جہنم کے دروازے
کا آغاز۔
موت کی تیاری توحید کو ماننے سے ہے اور توحید یہ ہے کہ صرف اللہ
کی عبادت کی جائے، اس کے ساتھ شرک نہ کیا جائے اور ہر قسم کے شرک سے بچا جائے۔
سیدنا انسt فرماتے
ہیں کہ میں نے نبیe سے
سنا آپ فرما رہے تھے: ’’اللہ کا فرمان ہے: اے آدم کے بیٹے اگر تو زمین کے برابر خطائیں
لے کر آئے جن میں شرک نہ ہو تو میں اتنی مغفرت عطا کردوں گا۔ (ترمذی)
موت کی تیاری حدود و فرائض کی پابندی سے ہوتی ہے۔ اللہ کا فرمان
ہے:
’’اللہ کی طرف بار
بار پلٹنے والے، اُس کے بندگی بجا لانے والے، اُس کی تعریف کے گن گانے والے، اُس کی
خاطر زمین میں گردش کرنے والے، اُس کے آگے رکوع اور سجدے کرنے والے، نیکی کا حکم دینے
والے، بدی سے روکنے والے، اور اللہ کے حدود کی حفاظت کرنے والے، (اس شان کے ہوتے ہیں
وہ مومن جو اللہ سے خرید و فروخت کا یہ معاملہ طے کرتے ہیں) اور اے نبی! ان مومنوں
کو خوش خبری دے دو۔‘‘
کبیرہ گناہوں سے بچنا بھی موت کی تیاری ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اگر تم اُن بڑے
بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی
برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے
۔‘‘
مخلوق کے حقوق پورے طریقے سے ادا کرنا اور ان کو ضائع نہ کرنا
بھی موت کی تیاری میں شامل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ شرک کے سوا اپنے حقوق تو معاف کرسکتا
ہے لیکن حقوق العباد کو اللہ کبھی معاف نہیں فرمائے گا سوائے اس کے کہ ظالم سے مظلوم
کو اس کا حق دلوادے۔ موت کی تیاری یہ بھی ہے کہ کسی بھی وقت موت آنے کے لیے تیار رہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی:
’’پس (یہ حقیقت ہے
کہ) جسے اللہ ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اُس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے
۔‘‘
تو نبیe نے
فرمایا: یہ ایک نور ہے جو اللہ تعالیٰ دل میں ڈال دیتے ہیں۔ صحابہ نے پوچھا اے اللہ
کے رسول! اس کی علامت کیا ہے تو آپe نے فرمایا: دار الغرور سے دوری اور دار الخلود سے قربت
اور موت آنے سے قبل اس کی تیاری۔
سعادت اور خوش بختی یہ ہے کہ مرنے والے کا خاتمہ بالخیر ہو۔
حدیث شریف میں آتا ہے: ’’اعمال کا دارومدار
خاتمے پر ہے۔‘‘ سنن ابودائود اور مستدرک حاکم میں صحیح سند کے ساتھ حدیث موجود ہے۔
سیدنا معاذ tبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’’جس شخص کو آخری وقت میں لا الہ الا اللہ پڑھنا
نصیب ہوگیا وہ جنت میں جائے گا۔‘‘
اس خوش بختی کے حصول کی خاطر ہی تو شریعت میں یہ حکم ہے کہ قریب
المرگ انسان کو کلمۂ توحید کی تلقین کرنی چاہیے لیکن احتیاط اور نرمی سے، کیونکہ اس
وقت انسان بڑی تکلیف سے گزر رہا ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کے پاس لا
الہ الا اللہ پڑھا جائے تاکہ اسے بھی یا دآ جائے اور اس کی زبان پر بھی یہ کلمہ جاری
ہو جائے۔ صحیح مسلم میں سیدنا ابو سعید خدری tکی روایت ہے کہ رسول اللہ eنے فرمایا: ’’اپنے فوت ہونے والے (قریب المرگ) لوگوں کو لا الہ
الا اللہ کی تلقین کیا کرو۔
وہ انسان بڑا ہی بدبخت ہے جو موت کو بھول جائے، اس سے غفلت کا
شکار ہو جائے، اس کے لیے تیاری کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور گناہوں
کی دلدل میں پھنس جائے، اللہ کی توحید کو ضائع کرنے لگے، لوگوں کو ناحق قتل کرنا، ان
کا مال ہڑپ کرنا اور ان کے حقوق غصب کرنا اس کی عادت بن جائے اور شہواتِ نفسانی اور
محرمات میں اس قدر ڈوب جائے کہ اسی حالت میں اسے موت آ جائے اور پھر سوائے ندامت اور
شرمندگی کے اس کے ہاتھ کچھ بھی نہ آئے۔
اللہ تعالیٰ نے موت کا جو وقت مقرر کر دیا ہے اس میں ایک لمحے
کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
’’(یہ لوگ اپنی کرنی
سے باز نہ آئیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی تو کہنا شروع کر
دے گا کہ "اے میرے رب! مجھے اُسی دنیا میں واپس بھیج دیجیے جسے میں چھوڑ آیا
ہوں امید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا" ہرگز نہیں، یہ بس ایک بات ہے جو وہ بک
رہا ہے‘ اب اِن سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ حائل ہے دوسری زندگی کے دن تک۔‘‘
(المومنون100-99)
جن لوگوں نے موت کے لیے تیاری کرنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ
کیا ہو گا، قیامت کے دن انہیں بہت زیادہ خفت اٹھانا پڑے گی اور وہ کف افسوس ملتے ہوں
گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
اور پیروی اختیار کر لو اپنے رب کی بھیجی ہوئی کتاب کے بہترین پہلو کی، قبل اِس
کے کہ تم پر اچانک عذاب آئے اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں
کوئی شخص کہے: افسوس میری اُس تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا، بلکہ میں
تو الٹا مذاق اڑانے والوں میں شامل تھا۔یا کہےکاش اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہوتی تو
میں بھی متقیوں میں سے ہوتا۔ یا عذاب دیکھ کر کہے "کاش مجھے ایک موقع اور مل جائے
اور میں بھی نیک عمل کرنے والوں میں شامل ہو جاؤں۔ (اور اُس وقت اسے یہ جواب ملے کہ)
"کیوں نہیں، میری آیات تیرے پاس آ چکی تھیں، پھر تو نے انہیں جھٹلایا اور تکبر
کیا اور تو کافروں میں سے تھا۔‘‘ (الزمر: 59-55)
دوسرا خطبہ
حمد وثناء کے بعد:
اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے، کامیابی صرف انہی
لوگوں کو ملے گی جو مقتی ہوں گے۔ جبکہ دین
میں شک کرنے والے، بے عمل اور اہل باطل لوگوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اے مسلمانو! اچھی موت چاہتے ہو تو اس کے اسباب کو اپناؤ، دین
اسلام کے پانچوں ارکان کو ادا کرو اور گناہوں اور ظلم و ستم سے خود کو دور رکھو۔
خاتمہ بالخیر کے بہترین اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ
تعالیٰ سے حسن خاتمہ کی بکثرت دعا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’تمہارا رب کہتا
ہے،مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت
سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘(غافر:60)
ہر قسم کی بھلائی اور خیر کے مجموعے کا نام دعا ہے۔ ابودائود
اور ترمذی میں سیدنا نعمان بن بشیر wکی روایت ہے، رسول اللہ eنے فرمایا: ’’دعا عین عبادت ہے۔‘‘ ایک اور حدیث شریف میں آتا
ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بکثرت مانگے وہ آزمائش کے بغیر ہی فوت ہو گا۔
دعا کے الفاظ یہ ہیں: ’’اے اللہ! ہمارے تمام معاملات کا انجام بہتر کر دے اور ہمیں
دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا لے!‘‘
بری موت اور برے خاتمے کے بھی کئی اسباب ہیں، جن میں سے چند
ایک یہ ہیں: اللہ کے حقوق کو پامال کرنا، مخلوق کے حقوق غصب کرنا، کبیرہ گناہوں اور
نافرمانیوں پر اصرار کرنا، اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کو ہلکا سمجھنا، دنیا کی طرف
جھک جانا اور آخرت کو بالکل فراموش کر دینا۔
اے اللہ! ہمارے اور تمام مسلمانوں کے فوت شدگان کی مغفرت فرما۔
اے اللہ! ان کی قبروں کو کشادہ کر دے اور انہیں نور سے بھر دے! اے ذوالجلال والاکرام!
تجھے تیری رحمت کا واسطہ ہے کہ انہیں عذابِ قبر سے محفوظ فرما۔ آمین!
No comments:
Post a Comment