فضائل ماہِ رجب
تحریر: جناب مولانا
محمد طیب معاذ (کراچی)
اللہ
تعالی نے اپنی حکمت کے تحت بعض دنوں، راتوں اور مہینوں کو بعض پر فضیلت دی ہے تاکہ
عبادت گزار لوگ نیکی کے کاموں میں جُت جائیں اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال بجا لائیں۔
لیکن انس وجن کے شیاطین ان کو صحیح راہ سے روکنے میں لگے ہوئے ہیں اور ان کو اپنا شکار
بنانے کے لئے ہر گھات میں بیٹھے ہوئے ہیں تاکہ نیک لوگوں کے اور خیر کے کاموں کے درمیان
رکاوٹیں کھڑی کردیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک گروہ کے سامنے یہ بات خوش نما کرکے دکھائی
کہ فضل ورحمت کے موسم میں لذات وشہوات کے دنگل سجائیں۔ نیز ایک دوسرے گروہ کو جس کی
نیک نیتی پر شک نہیں کیا جاسکتا، مگر وہ جہالت کا مارا ہوا ہے، یا جو دین ودنیوی چودھراہٹ
اور مصلحت کے اسیر ہیں اور اپنی مصلحت، اپنی ریاستی حیثیت کھوجانے سے خائف ہیں ، ان
کو موسم خیر وسنت کے برعکس اس موسم میں بدعت پر اکساتے ہیں جس کی اللہ نے کوئی سند
نہیں اتاری۔ حسان بن عطیہؒ فرماتے ہیں: "کوئی قوم اپنے دین میں بدعت نہیں ایجاد
کرتی مگر اللہ تعالی اس سے اس جیسی سنت کو اٹھا لیتا ہے اور قیامت تک اس کو واپس نہیں
لوٹاتا"۔ ، بلکہ ایوب سختیانی ؒنے تو یہاں تک فرمایا: "بدعتی جتنا زیادہ
بدعتی کاموں میں منہمک ہوتاجاتا ہے، اتنا ہی وہ اللہ تعالی سے دور ہوتا چلا جاتا ہے"۔
شاید
ان موسمی بدعتوں میں سب سے نمایاں وہ بدعات ہیں جو بہت سے ملکوں میں کچھ عباد وزہاد
ماہ رجب میں انجام دیتے ہیں۔ اس لئے میں نے اس مضمون میں ان لوگوں کے بعض اعمال کو
موضوع بحث بنایا ہے اور امت کی خیر خواہی و نصیحت کے لئے انہیں شرعی نصوص اور اقوال
اہل علم پر پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ شاید اس سے کسی قلب کو ہدایت مل جائے، بدعت
کی تاریکیوں اور جہالت کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہی کسی آنکھ اورکان کو دیکھنا وسننا
نصیب ہوجائے۔
کیا
ماہ رجب کو دیگر مہینوں پر فضیلت حاصل ہے؟
حافظ
ابن حجرa فرماتے ہیں: "خود ماہ
رجب کی ، نہ اس کے روزہ کی، نہ اس کے کسی خاص دن کی اور نہ اس کی کسی خاص رات کی فضیلت
میں کوئی ایسی صحیح حدیث آئی ہے جو قابل حجت ہو، مجھ سے قبل یہی بات جزم کے ساتھ امام
حافظ اسماعیل ہروی بھی کہہ چکے ہیں، انکی نیز ان کے علاوہ دوسروں کی یہ بات جس کے متعلق
صحیح سند سے ہم نے روایت نقل کی ہے"۔
حافظ
موصوف مزید فرماتے ہیں: "رہی وہ احادیث جو ماہ رجب کی فضیلت کے سلسلہ میں ہیں،
یا اس کے روزوں کی، یا اس کے چند دنوں کی فضیلت کے بارے میں صراحت کے ساتھ آئی ہیں
تو اس کی دو قسمیں ہیں: ضعیف اور موضوع، ہم ضعیف حدیثوں کو بیان کریں گے اور موضوع
احادیث کی طرف واضح اشارہ بھی کریں گے، پھر موصوف نے ان احادیث کو بیان کیا۔
صلاۃ
ا لرغائب
اولا:
صلاۃ الرغائب کا طریقہ :
اس
نماز کی کیفیت سیدنا انسt کی ایک موضوع حدیث میں اس طرح
بیان ہوئی ہے: "جو شخص ماہ رجب کی پہلی جمعرات کو روزہ رکھے اور جمعہ کی رات عشاء
اور تاریکی ہونے کے درمیان بارہ رکعت نماز پڑھے، ہر رکعت میں سورہ الفاتحہ ایک مرتبہ
اور (انا انزلناہ فی لیلۃ القدر ) تین مرتبہ اور (قل ھو اللہ احد) بارہ مرتبہ اور ہر
دو رکعت میں سلام پھیرے۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوجائے تو مجھ پر ستر مرتبہ درود بھیجے
، پھر دو سجدے کرے، پہلے سجدے میں ستر مرتبہ (سبوح قدوس رب الملائکۃ والروح) پڑھے ،
پھر سجدے سے سر اٹھائے اور ستر مرتبہ (رب اغفر وارحم وتجاوز عما تعلم، انک انت العزیز
الاعظم) کہے پھر دوسرا سجدہ کرے اور اس میں بھی یہی دعا پڑھے، پھر اللہ تعالی سے اپنی
حاجت کا سوال کرے ، تو اللہ تعالی اس کی حاجت پوری فرمائے گا۔ اس ذات کی قسم جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے! جو بندہ یا بندی اس نماز کو پڑھے تو اللہ اس کے تمام گناہوں
کو معاف کردے گا خواہ اس کے گناہ سمندر کی جھاگ، ریت کے ذرات ، پہاڑوں کے وزن اور درختوں
کے اوراق کے برابر ہوں، نیز قیامت کے دن وہ اپنے خانوادے سے ستر جہنم واجب لوگوں کی
شفاعت کرے گا۔
ثانیا:
صلاۃ الرغائب کے
سلسلہ میں اہل علم کے اقوال: علامہ نوویa فرماتے ہیں: "یہ نماز
نہایت قبیح ومنکر بدعت ہے اور کئی منکرات کو شامل ہے، لہذا اس کے ترک ،اعراض اور پڑھنے
والے پر نکیر ثابت ہوجاتا ہے۔
علامہ
ابن النحاسa فرماتے ہیں: یہ بدعت ہے اور
اس سلسلہ میں وارد حدیث باتفاق محدثین موضوع ہے۔
شیخ
الاسلام ابن تیمیہa فرماتے ہیں: "جہاں تک
صلاۃ الرغائب کا تعلق ہے تو اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ بدعت ہے۔ لہٰذا اسے نہ تن تنہا
پڑھنا مستحب ہے نہ باجماعت، کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث میں نبی کریمe
نے جمعہ کی رات کو تہجد کے لئے اور دن کو روزہ کے لئے خاص کرنے سے
منع فرمایا ہے۔ صلاۃ الرغائب کے سلسلہ میں جو حدیث بیان کی جاتی ہے وہ باتفاق علماء
جھوٹی اور موضوع ہے، کسی ایک بھی سلف اور امام
کا ذکر تک منقول نہیں ہے"۔
علامہ
طرطوشیa نے تو اس کے ایجاد کی ابتدا
اس طرح بیان کی ہے: "مجھ کو ابومحمد مقدسی نے خبر دی ، انہوں نے کہا: "ہمارے
یہاں بیت المقدس میں صلاۃ الرغائب کا وجود نہیں تھا جو رجب وشعبان میں پڑھی جاتی ہے،
یہ نماز ہمارے یہاں 448 ھ میں اس طرح ایجاد کی گئی
کہ ابن ابی الحمراء نام کا ایک شخص نابلس سے بیت المقدس آیا، وہ نہایت اچھا قرآن
پڑھتا تھا، اس نے مسجد اقصی میں شعبان کی پندرہویں رات کو نماز پڑھی۔ علامہ موصوف نے
آگے فرمایا: "اور جہاں تک رجب کی نماز ہے تو یہ ہمارے یہاں بیت المقدس میں 480ھ کے بعد ہی شروع کی گئی، اس سے پہلے
ہم نے اسے نہ کسی کو پڑھتے دیکھا نہ ہی کسی
سے سنا تھا۔
علامہ
ابن الجوزی، حافظ ابو الخطاب اور ابو شامہ نے اس نماز کے سلسلہ میں وارد حدیث کے موضوع
ہونے کا حکم لگایا ہے، جبکہ علامہ ابن الحاج اور ابن رجب نے اس نماز کو بدعت قرار دیا
ہے، نیز حافظ ابن رجب نے ابو اسمعیل انصاری،
ابو بکر سمعانی، ابو الفضل بن ناصر اور دوسروں
سے بھی اس کے بدعت ہونے کی بات نقل کی ہے۔
ثالثا:
عوام کا دل رکھنے کے لئے صلاۃ الرغائب پڑھنا:
علامہ
ابو شامہ نے فرمایا: مجھ سے چند اماموں نے بیان کیا کہ وہ صلاۃ الرغائب صرف اس لئے
پڑھتے ہیں تاکہ عوام کے قلوب کی دل جمعی کریں تاکہ وہ مسجد کو پکڑے رہیں، نہ پڑھنے
کی صورت میں خطرہ ہے کہ کہیں وہ لوگ چھٹک نہ جائیں۔
اس
بیان میں ایک خرابی تو ان کا بلاصحیح نیت کے نماز پڑھوانا ہے، دوسرا اللہ تعالی کے
حضور کھڑے ہونے کی توہین و ناقدری ، اس بدعت میں اگر دیگر خرابیاں نہ ہوتیں تب بھی
اتنا کافی تھا اور جو شخص بھی اس نماز پر ایمان رکھے گا یا اچھا سمجھے گا وہ اس بدعت
کی ترویج میں معاون بنے گا، عقیدہ کے سلسلہ میں اپنے عوام کو فریب دے گا جس کی بنا
پر وہ شریعت پر جھوٹ بولنے میں ان کا شریک کار ہو گا۔ اگر ان عوام کی آنکھیں کھول دی جائیں اور سال بسال انہیں اس کی حقیقت معلوم
کرا دی جاتی رہے تو وہ اس نماز کو سرے سے پڑھنا چھوڑ دیں گے اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکیں
گے اور باطل قراردیں گے، لیکن ایسا کرنے سے بدعت کے شائقین اور اس کی آبیاری کرنے
والوں کا قبضہ ختم ہوجائے گا، سرداری واقتدارکے زوال کا یہی خوف ہی اہل کتاب کے چودھریوں
کو اسلام قبول کرنے سے مانع رہا اور انہی کے سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی:
’’ان لوگوں کے لئے ویل ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی
ہوئی کتاب کو اللہ تعالی کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں
کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل (ہلاکت) اور افسوس ہے۔‘‘
اسراء ومعراج
نبی
کریمe کے عظیم معجزات میں آپ کو
راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی کی سیر کرانا اور پھر وہاں سے ساتوں آسمان اور اس
سے بھی اوپر معراج کرایا جانا ہے۔ بعض ملکوں میں اسی اسراء ومعراج کی یادگار کے طور
پر ستائیس رجب کی رات کو جشن منایا جاتا ہے، جبکہ اس رات میں معراج ہونا صحیح نہیں
ہے، حافظ ابن حجرؒ ابن دحیہ سے نقل فرماتے
ہیں کہ: "بعض قصہ گو لوگوں نے یہ بیان کیا ہے کہ معراج ماہ رجب میں پیش آئی تھی،
انہوں نے فرمایا کہ یہ کذب ہے۔ علامہ ابن رجبa فرماتے ہیں: "معراج والی
روایت قاسم بن محمد سے ایسی سند سے مروی ہے جو صحیح نہیں کہ نبی کریمe
کو ستائیس رجب کو معراج ہوئی تھی۔ ابراہیم حربی وغیرہ نے اس بات کا
انکار کیا ہے"۔
علامہ
ابن تیمیہa فرماتے ہیں: "معراج کے
مہینہ ، عشرہ اور دن کے بارے میں کوئی قطعی دلیل ثابت نہیں، بلکہ اس سلسلہ میں نقول
منقطع ومتضاد ہیں جن سے کسی تاریخ کی قطعیت ثابت نہیں ہوسکتی"۔
مزید
براں اگر اسراء ومعراج کی رات کی تعیین ثابت ہو بھی جائے تب بھی کسی شخص کے لئے یہ
جائز نہیں کہ اس رات کو کسی عمل کے لئے خاص کرلے، کیونکہ نبی کریمe
سے ایسا کوئی عمل ثابت ہے نہ آپ کے کسی صحابی سے اور نہ کسی تابعی
سے کہ انہوں نے معراج کی رات کی دوسری راتوں کے مقابلہ میں کوئی خصوصیت ثابت کی ہو،
چہ جائیکہ اس کی یاد میں کسی قسم کا جشن مناتے ہوں، اس کے ساتھ ساتھ اس رات کو محفل
قائم کرنے میں کئی طرح کی بدعات ومنکرات پائی جاتی ہیں۔
ماہ رجب میں جانور ذبح کرنا:
ماہ
رجب میں اللہ کی رضاکے لئے مطلقا جانور ذبح کرنا دیگر مہینوں کی طرح منع نہیں، لیکن
اہل جاہلیت اس ماہ میں ایک ’’عتیرہ‘‘ نام کا ذبیحہ ذبح کرتے تھے۔ اہل علم نے اس ذبیحہ
کے حکم کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے، چنانچہ علماء کی اکثریت اس بات کی طرف گئی ہے کہ
اسلام نے اسے باطل قراردے دیا ہے ، ان کا استدلال بخاری ومسلم کی ابوہریرہt
کی اس حدیث سے ہے کہ : [لا فرع ولا عتیرۃ]
نہ فرع جائز ہے نہ عتیرہ درست۔
جبکہ
ابن سیرینa اور بعض دیگر اہل علم اس طرف
گئے ہیں کہ "عتیرہ" مستحب ہے، ان کا استدلال ان احادیث سے ہے جو اس کے جواز
پر دال ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابو ہریرہt کی احادیث ان احادیث سے زیادہ
صحیح اور زیادہ پایہ ثبوت کو پہنچی ہوئی ہیں، لہٰذا ابوہریرہt
کی حدیث پر عمل مقدم ہوگا، بلکہ علامہ ابن منذرa
نے تو اسے منسوخ قرار دیا ہے، کیونکہ ابوہریرہt
بہت بعد میں مسلمان ہوئے اور جواز والی حدیث ابتدائے اسلام کی ہے،
پھر بعد میں یہ منسوخ ہوگئی اور یہی راجح قول ہے۔
حسن بصریa
فرماتے ہیں: "اسلام میں عتیرہ نہیں ہے، یہ تو جاہلیت کی بات
تھی کہ آدمی روزہ رکھتا تھا اور عتیرہ بھی قربان کرتا تھا"۔
علامہ
ابن رجبa فرماتے ہیں: ماہ رجب میں ذبح
کے مشابہ یہ بھی ہے کہ اسے خاص موسم اور عید بنالیا جائے، مثلا اس ماہ میں حلوی وغیرہ
اور دیگر مخصوص کھانے کا اہتمام کرنا وغیرہ، عبد اللہ بن عباسw
سے مروی ہے کہ وہ ماہ رجب کو عید بنا لینا مکروہ جانتے تھے۔
ماہ
رجب کو روزہ یا اعتکاف کے لئے خاص کرنا
علامہ
ابن رجبa فرماتے ہیں: "جہاں تک
ماہ رجب میں روزوں کا تعلق ہے تو خاص کر اس کے روزوں کی فضیلت کے سلسلہ میں نہ نبی
کریمe سے کچھ ثابت ہے اور نہ آپ
کے صحابہ کرام سے "۔
علامہ
ابن تیمیہa فرماتے ہیں: "جہاں تک
خصوصیت کے ساتھ ماہ رجب کے روزوں کا تعلق ہے تو اس کی تمام احادیث ضعیف بلکہ موضوع
ہیں، ان میں سے کسی پر بھی اہل علم اعتماد نہیں کرتے اور یہ ان ضعیف احادیث میں سے
بھی نہیں ہیں جو فضائل میں روایت کی جاتی ہیں، بلکہ تمام کی تمام جھوٹی اور موضوع ہیں۔
امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں عبد اللہ بن عباسw سے روایت نقل کی ہے کہ نبی
کریمe نے ماہ رجب کے روزے سے منع
فرمایا، اس کی سند میں کلام ہے، جبکہ سیدنا عمر بن خطابt
سے صحیح طور سے ثابت ہے کہ وہ لوگوں کے ہاتھوں کو ڈنڈے سے مارتے تھے
تاکہ وہ ماہ رجب میں اپنے ہاتھوں کو کھانوں میں ڈال دیں۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ماہ
رجب کو رمضان کے مشابہ نہ بناؤ۔ جہاں تک روزوں کو رجب، شعبان اور رمضان تین مہینوں
کے اعتکاف کے ساتھ خاص کرنے کی بات ہے تو اس سلسلہ میں مجھے کسی بات کا علم نہیں ،
البتہ جو مسلمان مشروع روزہ رکھے اور ان روزوں کے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے تو بلا شک
یہ جائز ہے اور اگر بلا روزہ کے اعتکاف کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں ابل علم کے دو مشہور
قول ہیں:
ماہ رجب کے خصوصی
روزہ کی فضیلت کے سلسلہ میں کچھ وارد نہ ہونے
کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ماہ رجب میں کوئی نفل روزہ نہیں بلکہ جن روزوں کے بارے میں
عام نصوص وارد ہوئی ہیں جیسے پیر اور جمعرات کے روزے نیز ہر ماہ کے تین روزے اور صوم
داؤد یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن ترک
کرنا تو یہ سب جائز ہیں ، جیسا کہ علامہ طرطوشی نے ذکر کیا ہے مگر صرف رجب کا وہ روزہ
ہے جس میں درج ذیل تین صورتوں میں سے کوئی ایک صورت پائی جائے:
1 جب مسلمان ماہ رجب کو ہر سال عوام اورشریعت
سے ناواقف لوگوں کی رغبت کے مطابق خاص موسم بنالیں اور اس کے روزے مثل رمضان فرض ہونا
سمجھے جانے لگیں۔
2 لوگوں کا یہ اعتقاد بن جائے کہ رجب کا روزہ
ایک ثابت سنت ہے جسے نبی کریمe نے سنن راتبہ کی طرح روزے کے
ساتھ خاص کیا ہے۔
3 یہ اعتقاد بنالیا جائے کہ رجب کے روزے کو
دیگر مہینوں کے روزوں کے مقابلہ میں خاص فضیلت حاصل ہے، اور یہ بھی عاشوراء کے روزے
اور آخری رات کے تہجد کی فضیلت کے ہم درجہ ہے، لہذا یہ فضائل کے باب سے ہیں نہ کہ
سنن وفرائض کے باب سے۔اگر یہ بات ہوتی تو نبی کریمe اسے ضرور بیان کرتے یا زندگی
میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور عمل کرتے۔ جب آپe نے ایسا نہیں کیا تو ماہ رجب
کا کسی مخصوص فضیلت کے ساتھ خاص ہونا باطل ٹھہرا۔
ماہ
رجب میں عمرہ کی ادائیگی
کچھ
لوگ ماہ رجب میں عمرہ کرنے کے بڑے حریص ہوتے ہیں، ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ماہ رجب میں
عمرہ کو خاص فضیلت وخصوصیت حاصل ہے۔ یہ بے بنیاد وبے اصل بات ہے۔ امام بخاریa
نے ابن عمرw سے روایت کی ہے کہ انہوں نے
فرمایا:
نبی
کریمe نے چار عمرے ادا کئے جن میں
ایک ماہ رجب کا عمرہ تھا۔ سیدہ عائشہ صدیقہr اس کے رد میں فرماتی ہیں: اللہ
تعالی ابو عبد الرحمن پر رحم کرے، نبی کریمe نے جو بھی عمرہ ادا کیا میں
آپ کے ساتھ تھی، آپe نے رجب میں کوئی عمرہ ادا نہیں
کیا۔
علامہ
ابن العطارa نے فرمایا:
’’مجھے اہل مکہ کے بارے میں یہ معلوم ہوا ہے کہ
وہ لوگ کثرت سے ماہ رجب میں عمرہ ادا کرتے ہیں جس کی میرے علم میں کوئی اصل وبنیاد
نہیں ہے۔‘‘
علامہ
ابن بازa تصریح فرماتے ہیں: افضل مہینہ
جس میں عمرہ ادا کیا جائے ماہ رمضان ہے، کیونکہ نبی کریمe
نے ارشاد فرمایا: [العمرۃ فی رمضان تعدل حجۃ۔]
ماہ رمضان میں عمرہ کی ادائیگی ثواب میں
حج کے برابر ہے۔ اس کے بعد ماہ ذو القعدہ میں عمرہ افضل ہے، کیونکہ نبی کریمe
نے تمام عمرے اسی ماہ میں اداکئے تھے، جبکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
’’تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ذات میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب: ۲۱)
ماہ رجب میں زکوۃ کی ادائیگی:
بعض
ملکوں میں لوگوں نے اپنا شیوہ بنا لیا ہے کہ وہ خصوصیت کے ساتھ ماہ رجب میں زکوۃ نکالتے
ہیں، اس سلسلہ میں علامہ ابن رجب فرماتے ہیں: "سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں اور
نہ ہی کسی سلف سے یہ معروف ہے۔ بہرحال زکوۃ واجب ہوتی ہے جب مال نصاب پر ایک سال مکمل
ہوجائے، لہذا ہر شخص کا اس کے مالک نصاب ہونے کے دن سے سال پورا ہوتا ہے ، اس لئے جب
اس کا سال پورا ہوجائے تو زکوۃ ادا کرنا واجب ہے خواہ مہینہ کوئی بھی ہو، پھر موصوف
نے وقت سے پہلے زکوۃ ادا کرنے کے جواز پر روشنی ڈالی تاکہ فضیلت والے زمانہ کو حاصل
کرسکے، یا اس شخص کو زکوۃ دینے کا موقع مل سکے جس سے بڑھ کر ضرورت مند سال کے مکمل
ہونے کے وقت دوسرا نہ مل سکے"۔
علامہ
ابن عطارؒ فرماتے ہیں: "اس دور میں جو لوگ ماہ رجب میں اپنی زکوۃ نکالتے ہیں دوسرے
مہینوں کو چھوڑ کر تو اس کی کوئی اصل نہیں، بلکہ شارع کا یہ حکم ہے کہ سال پورا ہونے
پر مال کی زکوۃ نکالنا واجب ہے خواہ رجب کا مہینہ ہو یا کوئی دوسرا۔
ماہِ
رجب میں کونڈوں کی رسم ادا کی جاتی ہے، اس ماہ کے آخری عشرہ کی بعض راتوں میں حلویٰ
پوڑی، کھیر وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس سے متعلق من گھڑت واقعات بیان کیے جاتے
ہیں۔ یہ رسم سراسر بدعت ہے، اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ رسول اللہe
کے زمانے کے بہت بعد کی ایجاد ہے۔
ماہ
رجب میں کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا
علامہ
ابن رجبa فرماتے ہیں:
’’چند روایات میں آیا ہے کہ ماہ رجب میں بڑے
حادثات واقع ہوئے ہیں، جبکہ ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں، مثلا یہ مروی ہے کہ نبی کریمe
رجب کی پہلی رات کو پیدا ہوئے اور آپ کو ستائیس رجب کو نبی بنایا
گیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ پچیس رجب کو نبی بنایا گیا، جبکہ ان میں سے کچھ بھی صحیح
طور سے ثابت نہیں۔‘‘
بعض
داعیوں کے ساتھ ایک وقفہ تامل
آج
کل بعض داعی بدعت رجب جیسی مختلف قسم کی موسمی بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں جبکہ وہ ان
کے غیر مشروعیت اور ناجائز ہونے کے قائل ہیں، اپنے اس دعویٰ کے لئے وہ یہ دلیل دیتے
ہیں کہ اگر لوگ اپنے بدعتی کاموں کو ترک کردیں گے تو ان کے عبادت کے کاموں کو چھوڑ
کر دیگر ناجائز کاموں میں مشغول ہوجانے کا
خطرہ بڑھ جاتاہے ، حالانکہ بدعت شرک کے بعد سب سے بڑا اورخطرناک گناہ ہے، مگر یہ دعوت
کا نہایت ہی خطرناک رجحان ہے اور اصلاح کا
بہت ہی بڑا نقصان دہ طریقہ ، نیز سب سے بڑی بات یہ کہ نبی کریمe
کے طریقہ کی مخالفت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو اس خالص سنت
کی طرف بلایا جائے جس کے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی۔ امام ثوریa
فرماتے ہیں:"فقہاء کہتے ہیں: "قول عمل کے بغیر درست نہیں
ہوسکتا، اور قول وعمل نیت کے بغیر صحیح نہیں ہوسکتے، اور قول، عمل اور نیت سنت کی مطابقت
کے بغیر درست نہیں ہو سکتے۔
ان
لوگوں پر یہ فرض تھا کہ وہ سنت کی تعلیم لیتے اور دوسروں کو تعلیم دیتے اور خود کو
اور گرد وپیش کے لوگوں کو اس پر عمل کی دعوت دیتے، کیونکہ نبی کریمe
ارشاد فرماتے ہیں: [من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد۔]
’’جو شخص ایسا عمل کرے جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ ابو العالیہa
نے کتنی اچھی بات کہی ہے، انہوں نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
"اسلام کی تعلیم لواور جب اس کی تعلیم لے لو تو اس کو چھوڑ کر دوسری طرف رغبت
نہ کرو، تم پر صراط مستقیم پر چلنا واجب ہے ، کیونکہ اسلام ہی صراط مستقیم ہے اور صراط
مستقیم سے ذرہ برابر دائیں بائیں نہ ہٹو، اور تم پر اپنے نبیe
کی سنت پر عمل فرض ہے اور تم ان خواہشات سے اجتناب کرو جو لوگوں میں
بغض وعداوت پیدا کرتی ہیں"۔
اسی
طرح سیدنا حذیفہt نے فرمایا:
’’اے قاریوں کی جماعت! راہ راست پر قائم رہو،
تم سبقت لے جانے میں بہت دور جاچکے ہو، اگر تم نے دائیں بائیں کا راستہ پکڑلیا تو تم
بہت دور کی گمراہی میں جاپڑوگے۔‘‘
آخر
میں آج داعیوں اور ان کے ساتھ تمام امت مسلمہ سے یہ مطلوب ہے کہ تمام حالات میں مکمل
طور پر نبی کریمe کی خالص اتباع کریں جیسے ان
تمام سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ خالص اللہ تعالی کی عبادت کریں، اگر وہ اپنی نجات اور دین
کی مدد وعزت اور غلبہ چاہتے ہیں ، ارشاد ربانی ہے:
’’تو جسے بھی اپنے پروردگار سے ملنے کی آرزو
ہو اسے چاہیے کہ نیک اعمال کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو بھی شریک نہ
کرے۔ ‘‘
نیز
ارشاد الٰہی ہے:
’’جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی
مدد کریگا، بے شک اللہ تعالی بڑی قوتوں والا، بڑے غلبے والا ہے۔‘‘
اللہ
تعالی تمام مسلمانوں کو خیر ونیکی کے کاموں کی توفیق دے، وہی سیدھی راہ کی ہدایت دینے
والا ہے۔
No comments:
Post a Comment