درسِ قرآن
متاع دنیوی
ومتاع اُخروی
ارشادِ باری ہے:
﴿زُيِّنَ لِلنَّاسِ
حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِيْنَ وَ الْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَةِ
مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِ١ؕ
ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۚ وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۰۰۱۴﴾
(اٰل عمران)
’’مرغوب چیزوں کی
محبت لوگوں کے لیے مزین کردی گئی ہے جیسے عورتیں اور بیٹے، سونے اور چاندی کے جمع کیے
گئے خزانے ، نشان دار گھوڑے‘ چوپائے اور کھیتی، یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور(جبکہ)لوٹنے
کا اچھا ٹھکانا تو اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘
انسان کے لیے یہ دنیا ایک دار الامتحان ہے اور یہ واحد ایساامتحان
ہے جس کے تمام سوالات ممتحن نے بتلا دئیے ہیں تاکہ انسان ان سوالات کی روشنی میں تیار
ی کرکے جیت اور کامیابی کا حقدار ٹھہرے۔ آیت مذکورہ میں ان اشیاء و اسباب کی طرف اشارہ
ہے جو انسان کو اس امتحان کے دوران تیاری سے غافل رکھنے کا باعث بنتے ہیں۔ دنیوی متاع
اور خواہشات نفس سے مستفید ہونا ایک فطر ی بات ہے اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا، لیکن
صرف اسی کے حصول میں مگن رہنا اور خواہشات کا غلام بن کرمقصد حیات اور اُخری و ابدی
متاع کو بھول جانا انسان کے لیے نقصان کا باعث ہے جس سے منع کیا گیا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے بار بار قرآن کریم میں
متاع دنیو ی اور اُخروی کا موازنہ کرکے انسان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اپنی ابدی کامیابی
سے باخبر رہے:
﴿فَاَمَّا مَنْ طَغٰى
ۙ۰۰۳۷ وَ اٰثَرَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَاۙ۰۰۳۸ فَاِنَّ الْجَحِيْمَ هِيَ الْمَاْوٰى ؕ۰۰۳۹
وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى ۙ۰۰۴۰ فَاِنَّ
الْجَنَّةَ هِيَ الْمَاْوٰى ؕ۰۰۴۱﴾
’’اور جس شخص نے
سرکشی کی ہوگی اور دنیوی زندگی کو ترجیح دی ہوگی اس کا ٹھکانا جہنم ہی ہے ہاں جو شخص
اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہشات کی پیروی سے
روکا ہوگا تو اس کا ٹھکانا جنت ہے۔‘‘
حقیقت کو کھول کھول کر بیان کردینے کے باوجود یہ حضرت انسان
اللہ کی تنبیہ پر کان نہیں دھرتا اور دنیا میں ہی مگن رہتا ہے _ اللہ تعالیٰ نے انسان
کے اس رویے کے بارہ میں آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ
الْحَيٰوةَ الدُّنْيَاٞۖ۰۰۱۶ وَ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ؕ۰۰۱۷﴾ (الاعلٰی)
’’لیکن تم دنیا کی
زندگی کو ترجیح دیتےہو اگرچہ تمہارے لیے آخرت کی زندگی بہت بہتر اور ہمیشہ رہنے والی
ہے۔‘‘
گویا قرآن کریم نے بارہا انسان کوآگاہ فرمایا ہے کہ دنیوی
متاع اور عارضی آرام میں محو ہوکر اُخروی متاع اور ابدی راحت سے غافل رہنا انسان کے
شایان شان نہیں _حقیقی فائدہ کے لیے عارضی راحت کو قربان کردینا گھاٹے کا سودا نہیں
ہے اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان دونوں خیارات میں سے اس کو اختیار کرے جو اس کے
لیےدائمی فائدے اور راحت کا سامان فراہم کرے چاہے اس میں کچھ وقتی سکون کی قربانی ہی
کیوں نہ دینا پڑ ے۔
درسِ حدیث
رجب کا مہینہ اور بدعات
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
قرآن وحدیث میں رجب کے مہینے کی کوئی
امتیازی خصوصیت بیان نہیں ہوئی صرف اتنا ہی ہے کہ حرمت والے چار مہینوں میں سے رجب
ایک مہینہ ہے۔ یہ بھی معروف ہے کہ رجب کے مہینے میں حضور اکرمe
کو معراج ہوا مگر اس کے ثبوت کے لیے بھی کوئی صحیح اور مستند حدیث
نہیں ہے۔ اس مہینے میں کوئی مخصوص عمل کرنے کا ثبوت بھی کتاب وسنت سے نہیں ملتا۔
27
رجب کو معراج کا روزہ رکھنا اور اس مہینے میں کثرت سے روزے رکھنے
کا ثبوت بھی نہیں ہے۔ مگر اکثر لوگ ثواب سمجھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ شب معراج کو مساجد
میں چراغاں کیا جاتا ہے اور محافل نعت ومجالس وعظ منعقد کی جاتی ہیں۔ آتش بازی کا
اہتمام کیا جاتا ہے‘ یہ تمام امور خود ساختہ ہیں اور خود ساختہ اعمال پر ثواب مرتب
نہیں ہوتا۔ ان رسومات سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
بعض لوگ زیادہ اجر حاصل کرنے کے لیے رجب
کے مہینے میں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں حالانکہ زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے کوئی خاص مہینہ متعین
نہیں ہے‘ زکوٰۃ کی فرضیت کے لیے دو شرطیں ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ ایک سال گزر جائے
اور دوسری شرط مال اپنی مقرر کردہ حد یعنی نصاب کو پہنچ جائے۔ اگر کسی کے مال پر رجب
کے علاوہ کسی مہینے میں سال پورا ہوتا ہے تو وہ اس وقت زکوٰۃ دے گا لہٰذا رجب کو زکوٰۃ
کا مہینہ قرار دینا بھی قرآن وسنت سے ثابت نہیں۔
اہم واقعات: رجب کے مہینے میں بعض اہم
واقعات رونما ہوئے ہیں‘ مگر کسی کو بھی رسول اللہe نے تہوار کے طور پر نہیں منایا۔
مثلاً رجب 6ھ میں حبشہ کی پہلی ہجرت وقوع پذیر ہوئی
جس میں سیدنا عثمان‘ سیدہ رقیہ‘ سیدنا زبیر‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف‘ سیدنا عبداللہ
بن مسعود اور سیدہ ام سلمہ] شریک تھے۔ رجب میں ہی 10 نبوت
میں حضورe کے چچا ابوطالب نے وفات پائی۔
رجب 2ہجری میں نبیe نے سیدنا عبداللہ بن جحش کو
رہبر سریہ بنا کر 12مہاجرین کے
ساتھ نخلہ کی جانب روانہ کیا۔ یکم رجب 9ھ میں نبیe نے 30,000 صحابہ
کرام] کے ساتھ تبوک کی جانب روانہ
ہوئے۔ رجب 9 ہجری میں ہی شاہ حبشہ نجاشی
فوت ہوئے۔ حضورu نے ان کی غائبانہ نماز جنازہ
پڑھائی۔ 4 رجب 12ھ کو
سیدنا خالد بن ولیدt نے عراق میں انبار کا علاقہ
فتح کیا۔ 24 رجب 12ھ
میں سیدنا خالد بن ولیدt نے دومۃ الجندل فتح کیا۔ 5
رجب سن 15ھ کو جنگ یرموک کا فیصلہ کن معرکہ ہوا۔
اس معرکے میں رومیوں کے ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد فوجی مارے گئے۔ 22
رجب سن 60ہجری بروز جمعرات سیدنا امیر معاویہt
کی وفات پر زمام حکومت یزید نے سنبھالی۔ رجب 141ھ
میں عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے شہر بغداد کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے
واقعات رونما ہوئے۔ موجودہ دور میں جماعت اہل حدیث کے روح رواں علامہ احسان الٰہی ظہیر
شہیدa 22
رجب 1407ھ ؍ 23
مارچ 1987ء کو قلعہ لچھمن سنگھ لاہور میں ایک بم
دھماکے میں شدید زخمی ہوئے اور 29 رجب ؍ 30
مارچ کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور بقیعالغرقد مدینہ منورہ میں
دفن ہوئے۔ ان تمام واقعات کی صحت کے باوجود شریعت کسی بھی واقعہ کو تہوار کے طور پر
ثواب کی نیت سے منانے کی اجازت نہیں دیتی۔
No comments:
Post a Comment