سیرتِ نبوی ﷺ کے چند اوراق
تحریر: جناب مولانا
عبدالوارث
جس
دور میں آپ e دنیا میں مبعوث ہوئے‘ اس دور
کی دنیا تاریکی کے اندھیروں سے اٹ چکی تھی۔ ٹوٹی ہوئی مالا کے بکھرے موتیوں کی طرح
انسانیت کا شیرازہ کفر و شرک میں بری طرح بکھر چکا تھا۔ گرے ہوئے پتوں کی طرح انسان
ناکارہ تھے۔ جسد خاکی تو تھے مگر ان میں روح ایمانی نہ تھی‘ دل و دماغ تو تھے مگر حقیقت
کی پہچان نہ تھی۔ کھوکھلے تنوں کی مانند انسانی وجود تھے جو دل کی دنیا میں حقیقت سے
عاری تھے۔ اندھیروں پہ اندھیرے چھائے ہوئے تھے ۔ جاگیردار انسان نما بھیڑیئے تھے‘ اس
کفر و شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرنے کے لئے اللہ رب العزت نے ہمارے
محبوب محمد رسول اللہ e کو مکہ کی سرزمین میں مبعوث
فرمایا اور خاتم النبیین بنا کر عرب و عجم کا نبی e بنادیا اور فرمایا:
’’اور
ہم نے آپؐ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
\ جب اللہ رب العزت نے آپ e
کو نبوت سے سرفرازکیا تو سب سے پہلے یہ وحی بھیجی:
’’پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے انسان کو
نطفے سے پیدا کیا اور تیرا رب معزز ترین ہے جس نے قلم کے ساتھ انسان کو وہ کچھ سکھایا
جو وہ نہیں جانتا تھا۔‘‘ (العلق۱-۵)
اس
کے بعد نبی رحمت e کو تبلیغ کا حکم ہوا‘ رسول
اکرم e نے جب علانیہ تبلیغ شروع کی
تو مشرکین مکہ آپ e کے دشمن بن گئے۔ اللہ کے نبی
e ان کو توحید کی دعوت دیتے۔
عرب میں عکاظ ‘ مجنہ اور ذی المجاز کے میلے
بہت مشہور تھے۔ دور دور سے لوگ وہاں آیا کرتے تھے۔ نبی رحمتؐ ان مقامات پر جاتے اور
لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے۔ آپ e ان کو کفر کی دلدل سے نکالنا
چاہتے تھے لیکن کفار مکہ ضد میں آگئے۔ آپ e کے راستے میں کانٹے بچھادیتے
تاکہ رات کے اندھیرے میں آپ e کے پائوں زخمی ہوں‘ گھر کے
دروازے میں عفونتیں پھینکی جاتیں تاکہ صحت و طبیعت میں خلل پیدا ہو۔ میرے محبوب e
صرف اتنا فرمادیا کرتے کہ حق ہمسائیگی خوب ادا کرتے ہو‘ کافرو! یہ
میرے نبی کا عفو و درگزر تھا کہ آپ e کو حق کی خاطر اتنی تکلیفیں
سہنا پڑتیں لیکن آپ e انتقام نہ لیتے۔ اس لئے کہ
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ}
\ صحیح بخاری میں روایت ہے‘ ام المومنین
سیدہ عائشہr فرماتی ہیں: ایک دن میں نے
اللہ کے رسول e سے پوچھا کہ کیا آپ e
پر احد کے دن سے بھی زیادہ کوئی سخت دن گزرا؟ ارشاد ہوا: ہاں‘ تمہاری
قوم کے ہاتھوں مجھے جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا‘ ان میں سب سے مشکل اور سنگین دن وہ
تھا جب میں اسلام کی دعوت پیش کرنے طائف گیا تھا۔
آپ
e نے طائف میں دس دن قیام کیا۔
آپ e سے طائف والوں نے بہت برا سلوک
کیا جب آپ e نے واپسی کا رخ کیا تو سرداروں
کی شہ پر اوباش پیچھے لگ گئے جن کے پتھرائو کی وجہ سے آپ e شدید زخمی ہوگئے۔ اتنے میں
جبریلu آپ e
کے پاس آئے۔ انہوںنے کہا کہ آپ e کے رب نے آپ e
کی قوم کے جوابات سن لئے۔ اس نے پہاڑوں کا نگران فرشتہ بھیجا ہے۔
اگرآپ e چاہیں تو ان دو پہاڑوں کو ملا
کر اس قوم کو پیس دیں۔
میرے
نبیeکی توہین کرنے والو! ذرا غور کیجئے گا
‘کیا ارشاد ہوا؟ فرمایا: مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسی اولاد پیدا کرے
گا جو اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی … کیا کبھی چشم
فلک نے ایسے ظالمانہ سلوک کے جواب میں ا س قدر رحیمانہ برتائو کرنے والا مشفق قائد
دیکھا یا سنا ہے؟؟
\ میرے نبی e مدینہ ہجرت کر جاتے ہیں‘ کفار
مکہ سے تنگ آکر وہاں آپ e کا واسطہ یہودیوں سے پڑا۔ یہودیوں
نے بھی نبی رحمت e کی مخالفت میں کوئی کسر نہ
چھوڑی۔ ان کے تلخ رویوں کے ساتھ ساتھ میرے نبی رحمت e کے حسن سیرت کا مطالعہ کیجئے۔
سیدنا انسt فرماتے ہیں: نبی کریمe
اپنے صحابہ] کے ساتھ کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی ملا
اور نبی e کو مخاطب کرکے کہنے لگا ’’السام
علیک‘‘ تجھ پر موت ہو‘ نبی اکرم e نے بس اس قدر فرمایا ’’وعلیک‘‘
پھر اللہ کے نبیe صحابہؓ سے مخاطب ہوئے اورپوچھا
پتہ ہے‘ وہ مجھے کیا کہہ گیا‘ وہ مجھے السام علیک کہہ گیا ہے۔ صحابہ طیش میں آگئے۔
اللہ کے رسول اجازت دیجئے ہم اس کی گردن اڑادیں‘ (لیکن میرے نبی کا جواب سنو) آپ e
نے فرمایا نہیں۔ (بخاری) اس لئے کہ
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ}
\ عیسائیوں اور یہودیوں نے مل کر میرے نبی
e کی توہین
کی
کافرو!
ابرہہ نے بھی عیسائیت کو فروغ دینے کے لئے یمن میں ایک کعبہ تعمیر کیاتھا‘ اس کی کوشش
تھی کہ اہل عرب کو مکہ و بیت اللہ سے روک کر اپنے یمنی کعبے کا حج کروائے گا اور مکہ
کے بیت اللہ شریف کو ڈھا دے گا۔ لیکن اس کی اس جرأت پر اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسی
سزا دی کہ ابرہہ اولین وآخرین کے لئے عبرت بن گیا۔
عیسائیو!
تم تو وہ ہو جنہوں نے اللہ اور انسان کو عجیب طریقے سے خلط ملط کردیا ہے۔ تم اپنی حقیقت
کو نہیں سمجھ سکے تو یہ حقیقت اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم کے عذاب کے ذریعے سمجھائے گا۔
سردار
ِدو جہاںؐ کی دوستوں سے بے تکلفی
\ نبیe کا ایک صحابی جس کا نام زاہر
بن حرام تھا‘ یہ لمبے قد والا تھا او ربنو اشجع قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ اللہ کے
نبی سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ یہ محبت یک طرفہ نہ تھی۔ اللہ کے نبیؐ بھی اس سے محبت کرتے تھے۔ یہ صحابی دیہات میں رہتا
تھا۔ جب بھی آپ e سے ملنے آتا‘ دیہاتی سوغات
لاتا جو آپ e کو تحفے کے طور پر پیش کرتا۔
جب وہ واپس جانے لگتا تو آپ e اسے شہری سوغات تحفے کے طور
پر دیتے۔ ایسے ہی دن رات گزرتے رہے۔ ایک دن اللہ کے نبی e
نے اسے ایسے اعزاز سے نوازا جو کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔ آپ
e نے فرمایا: زاہر ہمارا دیہی
دوست ہے اور ہم اس کے شہری دوست ہیں۔
(سبحان
اللہ یہ ایک سردار کے الفاظ ہیں‘ کوئی بھی اللہ کے نبی e کی مثالیں پیش نہیں کر سکتا)
زاہر
دیہاتی جب بھی تازہ سبزیاں لاتا تو بازار میں کھڑا ہوجاتا۔ لوگ اس سے تازہ سبزیاں اور
فروٹ خریدتے۔ ایک دن جب حسب معمول زاہرt بازار میں کھڑا تھا‘ اللہ کے
نبیe نے دیکھا تو آہستہ سے پیچھے
سے جاکر اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ لئے۔ (مسند احمد)
سردار
دو جہاںؐ کا عفوو کرم
\ صحیحین میں سیدنا انسt
سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا۔ اس نے حضور e
کی چادر کو زور سے کھینچا۔ چادر کا کنارا حضور e
کی گردن میں گھس گیا اور نشان پڑ گیا۔ وہ اعرابی بولا: محمد! میرے
یہ دو اونٹ ہیں‘ ان کی لاد کا کچھ سامان مجھے بھی دو کیونکہ جو مال تیرے پاس ہے‘ وہ
نہ تیرا ہے نہ تیرے باپ کا۔ نبی رحمتe چپ ہوگئے۔ پھر فرمایا: مال
تو اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔
پھر
پوچھا جو برتائو تم نے مجھ سے کیا‘ تم اس پر ڈرتے نہیں ہو؟ اعرابی بولا‘ نہیں‘ آپ e
نے پوچھا کیوں؟ اعرابی کہنے لگا ’’مجھے معلوم ہے کہ آپ e
برائی کے بدلے برائی نہیں کیا کرتے۔ نبی رحمت e
ہنس دیئے اور حکم دیاکہ ایک اونٹ کے بوجھ کے جو اور دوسرے کی کھجوریں
اسے دی جائیں۔ یہ تھا آپ e کا عفو و کرم اس لئے کہ
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ}
بلند
پایہ اخلاق:
\ آپ e کا اخلاق ایسا کہ جس کی گواہی
رب کا قرآن دیتا ہے۔ فرمایا :
{وَإِنَّكَ لَعَلَی
خُلُقٍ عَظِیمٍ}
بے
شک آپ (اے نبی) خلق عظیم کے مالک ہیں۔
سیدہ
عائشہr سے کسی نے آپ e
کا اخلاق دریافت کیا تو فرمانے لگیں: سارا قرآن آپe
کا اخلاق ہی تو ہے۔ سیدنا انسt گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں
کہ میں دس سال تک اللہ کے نبی eکی خدمت میں رہا ہوں لیکن آپe
نے کبھی مجھے اف تک نہ کہا۔ (ابودائود)
ام
المومنین خدیجۃؓ الکبریٰ کی شہادت:
\ اپنے تجربے کے مطابق نبی رحمت e
کی نبوت سے پیشتر کے اخلاق کی بابت فرماتی ہیں کہ آپe
قرابت داروں سے حسن سلوک کرنے والے‘ درماندوں کو سواری دینے والے‘
ناداروں کو سرمایہ دینے والے‘ مہمانوں کی خدمت کرنے والے اور مصیبت زدوں کی اعانت فرمانے
والے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب مبعث النبی)
آپؐ
کا جانوروں سے پیار
\ ابوداؤد کتاب الجہاد میں ہے‘ سیدہ عائشہr
بیان کرتی ہیں کہ آپ e کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو
آپ e نے ایک جوان اونٹنی میرے پاس
بھی بھیج دی۔ میں نے اس پر کچھ سختی کی تو آپ e نے فرمایا: اے عائشہr
نرمی سے کام لو۔ نرمی جس چیز میں بھی آجائے‘ وہ مزین ہوجاتی ہے اور
جس سے نرمی نکال لی جائے‘ وہ عیب دار ہوجاتی ہے۔
قربان
جائوں میں اپنے نبی رحمت e پہ کہ آپe
کو ہر کسی کا خیال ہے۔ آپ e ہر کسی کی خیر چاہتے ہیں۔ آپ e نے جانوروں کے چہرے داغنے سے
بھی منع کیا۔ نسائی میں ہے‘ سیدنا عبداللہ بن جعفرt کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول e
کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو مینڈھے پر تیر اندازی کر رہے تھے‘ آپ
e نے اسے ناپسند کیا اور فرمایا:
جانوروں کا مثلہ نہ کرو۔ دوسری روایت میں ہے‘ فرمایا: اللہ اس پر لعنت کرے جو جانوروں
کا مثلہ کرتا ہے (ان کو مسخ کرنا)۔ ابودائود میں سیدنا سہل بن حنظلہt
بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e ایک اونٹ کے قریب سے گزرے‘
کیا دیکھا کہ بھوک کی وجہ سے اس کا پیٹ اس کی کمر سے لگ رہا ہے۔ اس پر آپ e
نے ایسے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
[اتقوا اللہ فی ھذہ
البھائم المعجمة فارکبوھا صالحة
وکلوھا صالحة ]
ان
بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈر جائو۔ ان پر سواری کرو تو اچھے انداز سے‘ان
کا گوشت کھائو تو بہتر طریقے سے۔
سیدنا
ابوہریرہt فرماتے ہیں کہ نبی اکرم e
نے صحابہؓ کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا: جب تم سرسبز وشاداب علاقوں
میں سفر کرو تو اونٹوں کو ان کا حق دو اور جب تم بنجر و ویران علاقوں میں سفر کرو تو
چلنے میں جلدی کرو۔ (ابوداؤد‘ مسلم)
ذرا
سوچو جو نبی رحمت e جانوروں پر اس قدر مہربان ہیں‘
وہ انسانوں پر کس قد رمہربان ہوں گے‘ اسی لئے تو اللہ نے نبی کریم e
کو مخاطب کرکے فرمایا:
{وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ}
سردار
دو جہاں بچوں کی مجلس میں
\ نبی رحمت e ہر کسی کے لئے رحمت بن کر آئے‘
اس لئے بچوں سے بھی دوستانہ رویہ ہوتا۔ سیدنا عبداللہt کہتے ہیں کہ میرے ابا جان سیدنا
بریدہt نے بتلایا کہ اللہ کے نبی e
خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اس دوران ننھے حسنؓ اور حسینؓ آگئے۔ دونوں بچوں نے سرخ قمیصیں پہن رکھی تھیں۔
اٹھکیلیاں کر رہے تھے۔ کبھی گرتے‘ کبھی اٹھتے تھے۔ حضور e
نے جب دیکھا تو منبر سے اتر پڑے۔ دونوں بچوں کو تھاما اور منبر پر
لے گئے۔ وہاں دونوں کو آغوش میں لیا اور فرمایا: اللہ نے سچ فرمایا:
{اَنَّمَا أَمْوَالُکُمْ
وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ} (الانفال)
چنانچہ
میں نے ان دونوں کو دیکھا تو صبر نہ کر سکا۔ سیدنا عبداللہt فرماتے ہیں کہ اس کے بعد آپ
e نے دوبارہ خطبہ دینا شروع کردیا۔
(ابوداؤد کتاب الصلوۃ)
یہ
شفقت تو آپؐ کی اپنے نواسوں سے تھی‘ ذرا ملاحظہ کیجئے‘ دوسرے بچوں سے شفقت۔ سنن ابی
داؤد میں ہے‘ نبی رحمت e
فرماتے ہیں: میرے صحابیو! میں جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں تو میرا
ارادہ بنتا ہے کہ اسے لمبا کروں مگر میں اچانک بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز
کو مختصر کردیتاہوں تاکہ بچے کی ماں بے چین نہ ہو۔
سیدنا
انسt بتاتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا
بھائی جس کی کنیت ابوعمیر تھی‘ اس نے ایک چڑیا رکھی ہوئی تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا‘
اس چڑیا کو عربی میں نغیر کہتے تھے۔ وہ چڑیا مر گئی۔ پھر ایسا ہوا کہ ایک روز اللہ
کے رسول ہمارے گھر تشریف لائے تو ابوعمیر کو غمناک دیکھا۔ اس پر آپ e
نے ہم سے پوچھا کہ ابوعمیر کو کیا ہوا ہے؟ گھر والوں نے کہاکہ اس
کی نغیر مر گئی ہے۔ چنانچہ اللہ کے رسول e ابوعمیر کو خوش کرنے کے لئے
اسے کہنے لگے: اے ابوعمیر! کیاکر گئی تیری نغیر؟ (نخب الافکار)
اس
طرح اللہ کے رسول e بچوں
سے شفقت و پیار کیا کرتے تھے اور ان کا دل بہلاتے۔
میرے
نبیﷺ کی خصوصیاتِ قرآن
\ خصائص النبی e کو اگر پوری وسعت سے لکھا جائے
تو ایک ضخیم دفتر بن جائے۔ لہٰذا کچھ کا نظارہ کرتے چلئے۔
{مُحَمَّدٌ رَسُولُ
اللَّہِ} (روم)
اس
آیت میں نبیe کا نام بھی ہے اور آپe
کا منصب بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں:
{أَلَمْ نَشْرَحْ
لَكَ صَدْرَكَ} (الانشراح)
’’کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا۔‘‘
صغر
سنی میں آپ e کے ساتھ شق صدر کا واقعہ پیش
آیا تھا۔ اس سینہ میں اللہ نے نور و معرفت کا خزینہ اور ہدایت کی روشنی کو بھر دیا۔
’’ہم نے تیرے بوجھ کو تجھ سے اتار دیا۔‘‘
یہ
نبی رحمت e کی خصوصیت ہے‘ موسیٰ پر جب
بار نبوت ڈالا گیا تو انہوں نے دعا کی تھی کہ میرے کنبے میں سے ایک کو میرا وزیر بنادے۔
میرا بھائی ہارون اس منصب کے شایان شان ہے۔
لیکن
میرے نبیe پر بار نبوت پڑنے کے ساتھ ہی
اللہ نے فرمایا:
’’تجھ سے تیرا بوجھ اتار ڈالا۔‘‘
’’اور ہم نے تیرا نام بلندکردیا۔‘‘
دنیا
کے ہر کونے میں نظر دوڑائو‘ کون ہے جس نے صبح کے روح افزا جھونکوں کے ساتھ اذان کی
آواز نہ سنی ہو‘ جس نے رات کی خاموشی میں اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہ
نہ سنا ہو۔
میرے
نبیe کی خصوصیات سے قرآن بھرا پڑا
ہے۔ احادیث اس کا ثبوت دیتی ہیں۔
بس
ایک بات پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا
آپ
e نے زندگی میں جینے کا قرینہ
سکھایا۔ آپ e کے دست ہنر نے دھرتی پر چاند
اگائے‘ ستارے کاشت کئے‘ محمد e کی محبت رگ مسلم میں خون بن
کر دوڑتی ہے‘ جسد مسلمان سے روح محمد e کو نکال دینا ممکن ہی نہیں۔
دو ارب مسلمانوں کی زندگی اور عزت رسول کریم e کی عزت و حرمت سے وابستہ ہے۔
آواز
محمد e کا اثر ختم نہ ہوگا
تھک
جائے گا سورج‘ یہ سفر ختم نہ ہوگا
آپؐ
کی شان میں گستاخی کرنے والو!
تمہارا
حشر نمرود و فرعون سے کم نہ ہوگا
No comments:
Post a Comment