علم وعمل کے پیکر علامہ محمد یوسف زبیدی رحمہ اللہ
تحریر: جناب پروفیسر محمد یٰسین ظفر
غالباً یہ ۱۹۸۹ء موسم گرما کی
بات ہے کہ مدرسہ بحرالعلوم میر پور خاص سندھ سے ایک وفد کے آنے کی اطلاع ملی۔ دوسرے
دن حاجی نذر حسین صاحب مرحوم کے ہمراہ یہ وفد جامعہ میں آیا۔ ان میں سے حاجی محمد
اسمعیل میمن ، حاجی محمد ہاشم نمایاں تھے۔ اپنے ادارے کے مسائل بیان کئے اور کہا کہ
اساتذہ کی شدید قلت ہے لہٰذا جامعہ سلفیہ اس ضمن میں تعاون کرے۔ شیخ الحدیث کے علاوہ
چند دیگر اساتذہ بھی فراہم کرے۔ میاں فضل حق مرحوم نے خاکسار کو سندھ جا کر حالات کا
جائزہ لینے کی تاکید کی۔ لہٰذا میں خودحاجی نذر حسین اور قاری محمد اکبر جاوید صاحب
کے ہمراہ میر پور خاص سندھ گئے۔ وہاں ہمارا قیام تین چار دن رہا ۔ ادارے کا جائزہ لیا۔
اساتذہ اور طلبہ سے ملاقات ہوئی۔ ضروریات کا اندازہ لگایا۔ اس میں اہم ملاقات بزرگ
ترین شخصیت سے ہوئی۔ سانولا رنگ‘ ابھرتے نقش‘ لمبا قد، متین چہرہ ، سفید داڑھی‘ کشادہ
پیشانی ، دھیمی آواز یہ تھے علامہ محمدیوسف زبیدی جن کا سبھی بہت احترام کر رہے تھے۔
تعارف کے بعد ایک بھر پور مجلس ہوئی۔ جس میں انہوں نے سندھ آنے کے واقعات تفصیل سے
بیان کیے اور خاص کر کنڑی میں منعقد ہونے والی سالانہ کانفرنسوں کا تفصیلی تذکرہ کیا۔
اور بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے برصغیر کے ممتاز علماء کرام کو ڈاک کارڈپر خط لکھا اور
انہیں کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی ۔ جواباً مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا محمد
اسماعیل سلفیa تین
دن کانفرنس میں شرکت کے لیے بذریعہ ٹرین تشریف لے آئے۔ مکمل تین دن کانفرنس میں موجود
رہے اور تمام علماء کرام کی تقاریر بڑے غور سے سنتے رہے۔ چونکہ کانفرنس کا موضوع ختم
نبوت تھا‘ ہر روز کلیدی خطاب مولانا ثناء اللہ امرتسریa فرماتے۔
علامہ زبیدی صاحب جب یہ واقعہ سنا رہے تھے۔ تو بہت جذباتی ہو رہے تھے۔ ساتھ آنکھوں
سے آنسو بھی جاری رہے۔ فرمانے لگے کہ ہم نے اس عہد میں کام کیا جب یہاں اہل حدیث کا
نام لینا بھی جرم تھا۔ علاقے بھر میں آپ کی جدوجہد سے توحید کی دعوت عام ہوئی۔ مخالفت
کے باوجود لوگ ہمارے قریب آرہے تھے۔
مولانا محمد یوسف زبیدیa جامعہ زبیدیہ کے فضلاء میں سے تھے۔ بہت فہیم‘ ذکی اور
کریم النفس تھے۔ آپ نے بڑی حکمت‘ دانائی اور بصیرت سے اس پسماندہ علاقے میں کام کیا۔
حالات کتنے بھی خراب ہوئے مگر آپ ثابت قدم رہے‘ دل برداشتہ نہ ہوئے اور مسلسل جدوجہد
کرتے رہے۔ مدرسہ بحرالعلوم کے قیام میں اپنا کردار ادا کیا اور اس کے لیے کراچی سے
چندہ بھی لے کر آتے۔ مولانا محمدیوسف زبیدی صاحب بہت شریف النفس‘ شرافت کے پیکر اور
علم وعمل کے نمونہ تھے۔ زندگی کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باوجود بڑے صبر وتحمل سے
کام جاری رکھا۔ تمام مشکلات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اور کبھی زبان سے شکوہ نہ
کیا۔ خلوص اور للہیت کی دولت سے مالا مال تھے۔ دعوت دین اور اسلامی تعلیم کا کام رضا
الٰہی کے لیے انجام دے رہے تھے۔ آپ نے جہالت کے اندھیروں میں دین کی شمع روشن کی اور
لوگوں کے دلوں کو نور توحید سے منور کیا۔ اہل علم سے بہت محبت کرنے والے تھے۔ ہمیشہ
احترام سے پیش آتے اور حسن ظن سے کام لیتے۔
نوجوانوں پر بھروسہ کرتے اور انہیں کام کرنے کی ترغیب دیتے۔ آپ کی شخصیت سے ہم بہت
متاثر ہوئے۔
مدرسہ بحرالعلوم السلفیہ کے لیے میاں فضل حق مرحوم نے تین اساتذہ
کرام کی منظور دی۔ ان میں بطور شیخ الحدیث مولانا عبدالحی عابد مرحوم کو نامزد کیا۔
جنہوں نے گیارہ سال کام کیا اور علاقے بھر میں نیک نامی کمائی۔ انہیں مولانا زبیدی
مرحوم کی سرپرستی حاصل رہی۔ مولانا نے کنڑی میں بہت کام کیا۔ حاجی عبدالعزیز گل صاحب
نے مولانا کی نگرانی میں طالبات کے لیے تعلیمی ادارے کے لیے زمین خریدی لیکن مطلوبہ
رقم پوری نہ ہوسکی۔ پریشانی میں مجھ سے رابطہ کیا اور کہنے لگے کہ اگر فلاں تاریخ تک
رقم ادا نہ ہوئی تو پیشگی رقم ڈوب جائے گی۔ میں نے انہیں فیصل آباد تشریف لانے کے
لیے کہا۔ بڑھاپے کے باوجود حاجی عبدالعزیز گل کو لیکر فیصل آباد تشریف لائے ۔ گوجرہ
سے بذریعہ فون رابطہ کیا۔ اتفاق سے جامعہ کی انتظامیہ کا اجلاس جاری تھا۔ میں نے درخواست
کی کہ آپ سیدھے جامعہ میں آئیں۔ تاکہ انتظامیہ کے سامنے آپ کی مشکل رکھی جائے ایساہی
ہوا ۔ اللہ تعالیٰ میاں نعیم الرحمن ، صوفی احمد دین مرحومین اور حاجی محمد سعید شاہین
پاور لومز والوں کو جزاء خیر دے انہوں نے اسی مجلس میں مطلوبہ رقم پوری کردی۔ یوں کنڑی
میں طالبات کا تعلیمی ادارہ قائم ہوگیا۔ حقیقت میں مولانا زبیدی صاحب کی خصوصی توجہ
سے یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔
مولانا زبیدی صاحب کی زندگی میں جب بھی میر پور خاص جانا ہوا
تو آپ سے خصوصی مجلس ہوتی۔ ایک سفر میں مولانا حافظ مسعود عالم صاحب بھی ہمراہ تھے۔
ہم دیر تک ان سے استفادہ کرتے رہے اور وہ علمی نکات بیان کرتے چلے گئے۔ آخرمیں انہوں
نے بخاری شریف کی چند احادیث سماعت فرمائیں اور کمال شفقت سے اپنی ذاتی سند فراغت عنایت
فرمائی۔
بلاشبہ! مولانا اپنے وقت کے بڑے عالم باعمل تھے۔ مستجاب الدعوات
اور دعوت دین کاجذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ پوری زندگی تبلیغ اسلام پر صرف کردی
۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا
فرمائے۔
No comments:
Post a Comment