سجدۂ سہو کا بیان
تحریر: جناب حافظ حذیفہ نصیر
سہو کا بنیادی معنی بھول جانا (نسیان)‘ کسی چیز سے غافل ہو جانا
یا دل کا کسی چیز سے ہٹ کر دوسری چیزوں میں مشغول ہو جانا۔ سہو ایک فطری عمل ہے اور
انسان کمزور پیدا ہوا ہے۔ نبی اکرمe نے
فرمایا تھا:
’’سیدنا آدمu بھول
گئے تھے اور ان کی اولاد بھی بھول گئی۔‘‘ (ترمذی: ۳۰۷۶)
اس لیے سہو ہر انسان کو ہو سکتا ہے۔ انبیائے کرامo کو
بھی اور عام انسان کو بھی۔ حدیث کے الفاظ:
[ان النبی سہا فی
الصلوٰۃ]
میں نبی کریمe کا
بھول جانا یا نسیان ہی مراد ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودt سے
روایت ہے کہ آپe کو
جب نماز میں نسیان ہوا تو آپe نے
اس کا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’یقینا میں بھی
تمہاری طرح ایک انسان ہوں‘ میں (بھی) بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو‘ جب میں
بھول جاؤں تو مجھے یاد کرا دیا کرو۔‘‘ (بخاری: ۴۰۱، مسلم: ۵۷۲)
سہو سے مبرا کامل اکمل ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے‘ انبیاء کرام
o کو
بھی سہو ہو سکتا ہے۔ حافظ ابن حجرa فرماتے ہیں کہ وہ (سہو) آپe پر
برقرار نہیں رہتا تھا بلکہ فورا یا کچھ دیر بعد واضح کر دیا جاتا تھا جس طرح نماز میں
ہونے والے ہر سہو کے موقع پر ہوا۔ نیز فرماتے ہیں: آپ سے سہو کا ہونا‘ اس کی حکمت یہ
تھی کہ عام انسانوں پر ہونے والے سہو کا شرعی حکم واضح ہوجائے۔ (فتح الباری: ۱۳/۱۳۱۔ شرح حدیث: ۱۲۲۹)
وجۂ سہو:
شیطان انسان کا دشمن ہے‘ اس لیے اس کی پہلی کوشش تو یہ ہوتی
ہے کہ انسان نماز سے غافل ہو جائے اور اسے ترک کر دے‘ اگر وہ اس کوشش میں ناکام ہو
جائے تو انسان کی توجہ نماز سے ہٹا کر دوسری طرف کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی نماز
میں حتی المقدور نقص پیدا کرتا ہے۔ نبی اکرمe نے فرمایا:
’’جب اذان ہوتی ہے
تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز مارتا ہوا بھاگتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اذان کی آوازیں نہیں
سنتا۔ جب اذان مکمل ہو جاتی ہے تو واپس آتا ہے۔ پھر جب نماز کے لیے تکبیر ختم ہوتی
ہے تو انسان اور اس کے دم میں حائل ہونے کے لیے آتا ہے‘ کہتا ہے: فلاں بات یاد کرو۔
فلاں چیز یاد کرو۔ وہ چیزیں جو اسے یاد نہیں ہوتیں حتی کہ وہ شخص ایسا ہو جاتا ہے کہ
اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں‘ چنانچہ جب تم میں سے کسی کو یاد
نہ رہے تو تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔‘‘ (مسلم: ۱۲۶۷‘ ۳۸۹)
ایک مسلمان کو چاہیے کہ شیطان کے اس داؤ سے باخبر رہے اور نماز
کے دوران میں پوری طرح نماز کی طرف متوجہ رہنے کی کوشش کرے۔ اس کوشش کے باوجود اگر
انسان بھول جائے تو اسلام جو مکمل دین ہے اس نے انسان کی کمزوریوں کا لحاظ رکھا اور
نماز میں بھول جانے کی صورت میں اس کے تدارک کے لیے مکمل رہنمائی عطا کی ہے۔
سہو کی صورتیں:
سہو کی دو صورتیں ہیں:
1 نماز
میں زیادتی کا ہو جانا‘ مثلاً سہو کی وجہ سے رکعت زائد پڑھ دینا یا سجدہ زائد کر لینا
یا اسی طرح جو بھی ہو۔
2 نماز
میں کمی کا ہو جانا۔ سجدہ یا رکعت وغیرہ کا چھوٹ جانا۔ احادیث میں بھی ان دو صورتوں
کا ذکر آیا ہے۔
سجدۂ سہو کا
طریقہ:
بعض لوگ سجدہ سہو سلام سے پہلے کرتے ہیں‘ بعض سلام کے بعد ادا
کرتے ہیں اور بعض تشہد پورا کر کے دائیں جانب سلام پھیر کر پھر سجدہ سہو کرتے ہیں۔
دوبارہ پھر سے درود وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرتے ہیں۔ ان تینوں صورتوں میں سے پہلی دونوں
تو ٹھیک ہیں۔ البتہ تیسری صورت کے سلام ایک طرف پھیر کر سجدہ سہو کیا جائے اس کا کوئی
تذکرہ حدیث میں مذکور نہیں۔
سجدہ سہو کے متعلق فقہاء اور علماء نے بہت بحثیں کی ہیں۔ کچھ
علماء تو ہر صورت سجدۂ سہو سلام کے بعد کرنے کے قائل ہیں اور کچھ ہر صورت سلام سے
پہلے کرنے کے قائل ہیں۔ کچھ نے نماز کی کمی یا زیادتی کو مد نظر رکھا ہے۔ اپنے اپنے
طور پر دلائل بھی دیئے جاتے ہیں مگر صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ نبی اکرمe سے
جو طریقہ سجدہ سہو کرنے کا آیا ہے اسی کے مطابق عمل کیا جائے اور جس صورت کا تذکرہ
نہ ملے تو سلام سے پہلے یا سلام کے بعد دونوں طرح سے سجدہ سہو کرنا جائز ہے۔ بلکہ ایک
حدیث میں تو اس طرح آیا ہے:
’’یہ سہو کے لیے
سلام کے بعد دو سجدے ہیں۔‘‘ (ابوداؤد: ۱۰۳۸)
پہلی صورت:
سیدنا عبداللہ بن بحینہ t سے روایت ہے (جو بنو عبدالمطلب کے حلیف تھے) کہ نبی
اکرمe ظہر
کی نماز میں دوسری رکعت کے بعد بیٹھنے کی بجائے (سہواً) کھڑے ہو گئے‘ پھر آپe نے
جب نماز مکمل کر لی تو آپe نے
بیٹھے بیٹھے سلام سے پہلے دو سجدے کیے۔ پھر سجدے کے لیے تکبیر کہتے تھے اور لوگوں نے
بھی آپe کے
ساتھ دو سجدے کیے۔ (مسلم: ۵۷۰)
مطلب یہ ہوا کہ اگر درمیانی تشہد رہ جائے تو سجدۂ سہو سلام
سے پہلے ہو گا۔
دوسری صورت:
سیدنا ابوسعید خدریt سے روایت ہے کہ رسول اللہe نے
فرمایا:
’’جب تم میں سے کسی
کو‘ یعنی نماز کے بارے میں‘ شک ہو جائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی
ہیں یا چار‘ تو وہ شک کو ختم کرے اور جتنی رکعتوں پر اس نے یقین حاصل کر لیا ہے ان
پر بنیاد رکھے (تین یقینی ہیں تو چوتھی پڑھ لے) پھر سلام سے پہلے دو سجدے کرے‘ اگر
اس نے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں تو یہ سجدے اس کی نماز کو جفت ( چھ رکعات) بنا دیں گے
اور اگر اس نے چار کی تکمیل کر لی ہے تو یہ سجدے شیطان کی ذلت ورسوائی کا باعث ہوں
گے۔‘‘ (مسلم: ۵۷۱)
اس حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سجدۂ سہو سلام سے پہلے
ہو گا۔ رکعات کی تعداد میں شک ہو جائے کہ کتنی پڑھی ہیں اور حافظے پر زور دینے کے باوجود
اقرب الی الصواب کا تعین نہ ہو سکے تو جتنی رکعتیں یقینی ہیں ان کو بنیاد بنائے‘ مثلاً
اگر شک ہو کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار‘ تو تین رکعتیں سمجھے کیونکہ تین تو یقینی
ہیں‘ شک چوتھی میں ہے کہ پڑھی ہے یا نہیں۔ تو ایک رکعت مزید پڑھ کر آخر میں سجدہ سہو
کرے۔ اگر دوران نماز یاد آ جائے کہ یہ کونسی رکعت ہے اور اسی کے مطابق مکمل کر سکتا
ہو تو کرے اور سجدۂ سہو نہ کرے۔ کیونکہ شک اور نسیان ہو چکا ہے۔ اگر نمازی نے کم رکعتیں
سمجھ کر نماز پوری کی حالانکہ وہ پوری رکعتیں پڑھ چکا تھا تو اس کی ایک رکعت زیادہ
ہو جائے گی۔ اس کے بعد سجدۂ سہو کرنے سے اس کی زائد رکعت کے ساتھ سجدۂ سہو کو ایک
اور رکعت قرار دے کر اللہ تعالیٰ اسے دو رکعت نفل کا ثواب عطا فرما دے گا اور فرض نماز
پوری ہو جائے گی۔
اگر رکعتیں مکمل پڑھی گئی ہوں تو سجدۂ سہو ایک مستقل نفل کے
حکم میں نہ ہو گا لیکن شیطان کی ذلت کا باعث ہو گا۔ کیونکہ شیطان نے مومن کی نماز خراب
کرنے کی کوشش کی تھی لیکن نماز خراب ہونے سے بچ گئی اور شیطان کی کوشش نمازی کی نماز
میں اضافے کا سبب بن گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا مومنوں پر احسان ہے کہ بھول کی صورت میں
پوری نماز دوبارہ پڑھنے کی بجائے سجدہ سہو کر لینے کا حکم دیا۔ اس میں مسلمانوں کے
لیے آسانی اور اجر دونوں ہیں۔
تیسری صورت:
سیدنا عبداللہt سے
روایت ہے‘ وہ کہتے ہیں: نبی اکرمe نے ظہر کی نماز میں پانچ رکعتیں پڑھائیں‘ جب آپ نے سلام
پھیرا تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا نماز میں اضافہ کر دیا گیا ہے؟ آپe نے
فرمایا: ’’وہ کیا ہے؟‘‘ صحابہ] نے
عرض کیا: آپ نے پانچ رکعات پڑھائی ہیں تو آپe نے دو سجدے کیے۔ (مسلم: ۵۷۲)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آدمی کبھی غلط فہمی سے سلام
پھیر چکا ہو اور نماز کی تعداد رکعات بھی اصل سے زیادہ بن چکی ہوں تو سلام کلام کے
بعد بھی صرف سجدۂ سہو کیا جائے گا۔ نیز یہ دونوں سجدے نماز ہی میں شمار ہوں گے اور
ان کے بعد باقاعدہ سلام پھیرا جائے جس طرح نماز کا سلام ہوتا ہے۔
چوتھی صورت:
سیدنا ابوہریرہt فرماتے
ہیں کہ ایک دن نبی اکرمe نے
ہمیں دوپہر کے بعد کی ایک نماز (ظہر یا عصر) پڑھائی اور دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا۔
پھر قبلے کی طرف گڑے ہوئے کھجور کے ایک تنے کے پاس آئے اور غصے کی کیفیت میں اس سے
ٹیک لگائی‘ حاضرین میں ابوبکر وعمرw بھی تھے۔ انہوں نے آپe کی ہیبت کی بناء پر گفتگو نہ کی جبکہ جلد باز لوگ نکل
گئے۔ وہ کہنے لگے: نماز میں کمی ہو گئی۔ تو ذوالیدین (نامی شخص) کھڑا ہوا اور کہا:
اللہ کے رسول! کیا نماز مختصر کر دی گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ نبی اکرمe نے
دائیں اور بائیں دیکھ کر فرمایا: ’’ذوالیدین کیا کہہ رہا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: سچ کہہ
رہا ہے۔ آپe نے
دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں۔ چنانچہ آپe نے دو رکعتیں (مزید) پڑھیں اور سلام پھیر دیا۔ پھر اللہ
اکبر کہہ کر سجدہ کیا‘ پھر اللہ اکبر کہہ کر سر اُٹھایا‘ پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ
کیا پھر اللہ اکبر‘ کہہ کر سر اٹھایا۔ (مسلم: ۵۷۳)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب غلط فہمی سے سلام پھیرا جا چکا ہو۔
نماز خواہ کم یا اصل سے زیادہ رکعات پڑھی جا چکی ہوں تو تشہد کے بعد سلام ہو گا۔ پھر
سلام کے بعد سجدۂ سہو ہو گا اور سہو کے بعد بھی باقاعدہ سلام ہو گا۔ اب اگر کسی نمازی
کو مذکورہ حالات میں سے کسی حالت کے مماثلت والی بھول ہو جائے تو اسے ایسے ہی کرنا
چاہیے جیسا کہ نبی اکرمe سے
ثابت ہے۔ اگر ان مذکورہ صورتوں سے ہٹ کر کسی نئی صورت حال کا سامنا ہو تو نمازی کو
اختیار ہے کہ اگر وہ سلام سے پہلے سجدہ کرتا ہے تو بھی ٹھیک ہے اور اگر سلام کے بعد
کرتا ہے تو بھی صحیح ہے۔ جبکہ ابوداؤد کی حدیث سے سلام کے بعد والی صورت کو ترجیح حاصل
ہے۔ واللہ اعلم!
جزاک اللہ
ReplyDelete