Monday, April 06, 2020

گوجرانوالہ شعبہ خواتین کی ’’تحفظ چادر وچاردیواری‘‘ ریلی 12-20


گوجرانوالہ شعبہ خواتین کی ’’تحفظ چادر وچاردیواری‘‘ ریلی

رپورٹ: جناب مولانا محمد ابرار ظہیر
یہ ۷ مارچ کی صبح تھی‘ موسم خراب تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چند لمحوں میں موسلادھار بارش کی نوید دے رہی تھیں۔ لوگ گھروں میں ہی بیٹھے تھے۔ مگر ادھر ہمارے شہر کے مین جی ٹی روڈ پر شیرانوالہ باغ کے سامنے چند مائیں، بہنیں ،بیٹیاں اکٹھی ہو رہی تھیں۔ جماعتی ذمہ داری کے سبب راقم الحروف ان کے وقت مقررہ سے چند منٹ پہلے ہی شیرانوالہ باغ پہنچا تھا۔ اور سوچ رہا تھا کہ اس بارش میں کہیں اسلام و معاشرتی اقدار کی یہ ترجمانی کا مظاہرہ ناکام ہی نہ ہوجائے۔ بادلوں کی آمد کے ساتھ ساتھ خدشات بڑھ رہے تھے تو ادھر قوم کی بہنیں بیٹیاں اپنے ننھے ننھے بچوں کو اٹھائے اپنی تعداد میں بھی اضافہ کر رہی تھیں۔ اسی اثنا میں مرکزی جمعیت اہلحدیث سٹی کی سیاسی کمیٹی کے چیئرمین جناب میاں محمد سلیم شاہد حفظہ اللہ بھی تشریف لے آئے۔ ادھربارش کا بھی آغاز ہوگیا، میں نے محترمہ باجی طوبیٰ رحمان (جو کہ خواتین اسلام کے اس قافلے کی سالار تھیں اور خواتین میں سب سے پہلے یہاں پہنچی تھیں) کی خدمت میں درخواست کی کہ پروگرام کو مختصر کر لیا جائے، مگر عزم وہمت کی اس پہاڑ خاتون نے انتہائی عزم سے جواب دیا کہ’’ہم تو بارہ بجے تک اپنے شیڈول کے مطابق یہاں کھڑی ہیں‘‘میں پیچھے ہٹ گیا کہ دیکھتے ہیں اور پھر میں دیکھتا ہی رہ گیا کہ مرکزی جمعیت اہلحدیث شعبہ خواتین کی سرپرست اعلیٰ محترمہ باجی صبیحہ احمد صاحبہ، ناظمہ عمومی محترمہ باجی سعیدہ مصطفی صاحبہ، ناظمہ مالیا ت محترمہ باجی کنیز رحمان صاحبہ ،ناظمہ نشرواشاعت محترمہ باجی فضیلت مغل صاحبہ، ضلعی امیر محترمہ باجی نسرین یوسف صاحبہ اورضلعی ناظمہ محترمہ باجی فضیلت داود صاحبہ کی قیادت میں سینکڑوں خواتین شہر کے چاروں طرف سے بسوں‘ ٹویوٹا گاڑیوں اور رکشوں میں شیرانوالہ باغ کے سامنے اترتی نظر آئیں۔ باوقار خواتین کو دیکھ کر ہر آنکھ عقیدت و احترام سے جھکی ہوئی تھی، اسلامی تہذیب کے ان شاندار مظاہرکو دیکھنے والے دیکھ رہے تھے۔
اس کو پڑھیں:   رابطہ علماء کنونشن
اسی دوران امیر شہر حضرت علامہ پروفیسر محمد سعید کلیرویd بھی بارش میں بھیگتے ہوئے تشریف لے آئے۔ کچھ دیر بعد صاحبزادہ حافظ عمران عریف، محترم جناب میاں مجیب الرحمان، محترم برادر یاسین طاہر ( ناظم مالیات حلقہ الشیخ عبداللہؒ)، تحصیل نوشہرہ ورکاں کے امیر سید محمد مصطفی جعفر، ان کے صاحبزادے شاہ عبد اللہ جعفر اور تحصیل کامونکی کے ناظم جناب مولانا حافظ عتیق الرحمان طاہر بھی شریک قافلہ ہوگئے۔ ادھر جیسے جیسے بارش تیز ہورہی تھی ویسے ویسے باپردہ، باحجاب، باوقار، بارِدا بہنوں، بیٹیوں اور بوڑھی ماؤں کی تعدادبھی بڑھتی جارہی تھی۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھ ناچیز سمیت جماعت کے جتنے اکابر موجود تھے سب کو یہ تصور تک نہ تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں خواتین باہر نکلیں گی۔ ہمارے تمام اندازے غلط ہوچکے تھے۔
قارئین محترم!یہ بیٹیاں تھیں اسلام کی، یہ وہ مائیں تھیں جو اپنی نوجوان نسل کو اپنی گود میں رکھ کر جوان کرنا چاہتی ہیں۔ یہ بہنیں پاکستان کی سماجی ومعاشرتی اقدار اور اسلامی تربیت کی روایات کی محافظ تھیں۔ انہیں کیوں سڑکوں پر نکلنا پڑا… یہ تو گھروں میں بیٹھنے والی خواتین تھیں… یہ اپنے مدرسوں میں، سکولوں میں، تعلیمی اداروں میں پڑھنے پڑھانے والی تھیں۔ آج یہ سڑکوں پر اس لئے نکل آئی تھیں کہ ان کا نام لیکر کچھ مفاد پرست، کچھ مغربی اباحیت زدہ اور کچھ گندی سوچ رکھنے والی خواتین اپنے آقاؤں کے دستر خوان سے چچوڑی ہوئی ہڈیاں حلال کرنے کیلئے ان کو مجبور ومقہور بتا کر دنیا کو یہ باور کروارہی تھیں کہ پاکستان کی مسلمان عورت حجاب سے نجات چاہتی ہے… خاندانی پابندیوں سے آزاد ہونا چاہتی ہے… اسلامی و مشرقی اقدار وروایات سے جان چھڑانا چاہتی ہے … مگر ان کے باپ، ان کے شوہر ،ان کے بھائی اور ان کے بیٹے ان پر پابندیاں لگا کر انہیں قید کئے ہوئے ہیں۔ یہ معاشرے کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں سے آزادی چاہتی ہیں مگر مذہب کے نام پر ان کے حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ایسے عناصر نے ۸ مارچ کو( یعنی اگلے دن)’’عورت مارچ‘‘یا ’’عورت آزادی مارچ‘‘کے نام سے ڈالر بٹورنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
ان کی ان سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے مرکزی جمعیت اہلحدیث (شعبہ خواتین)نے اسلام کی بیٹی کے حقیقی مطالبات دنیا کو دکھانے اور اپنی نیک خواہشات سے دنیا کو روشناس کروانے کیلئے اس مظاہرے کا اہتمام کیا۔ پھر اہلیان گوجرانوالہ نے دیکھا کہ ایک ہزار سے زیادہ خواتینِ اسلام سڑک پر کھڑی تھیں۔ کوئی ایک ماں، بیٹی یا بہن حتی کہ کوئی عمر رسیدہ خاتون بھی بے حجاب یا ننگے چہرے کے ساتھ نہیں تھی…کوئی نعرہ بازی نہیں تھی… کوئی شور نہیں تھا…ٹریفک رواں دواں تھی… صرف پوسٹر تھے جن پر اپنے مطالبات درج تھے۔ خاندان کے تحفظ کی خواہش تھی۔ حجاب کو اپنی ذاتی پسند بتایا گیا تھا۔ خاوند کی اطاعت کا عزم تھا۔ بھائیوں، بیٹوں اور باپوں کی عزتوں کی لاج رکھنے کا جذبہ تھا۔ راہ بھولی ہوئی اپنی بہنوں کیلئے جذباتِ ہمدردی تھے… انہیں خاندان کی اہمیت سے آگاہ کیا جا رہا تھا… انہیں باپ بھائی کا محافظ ہونا باور کروایا جارہا تھا… انہیں بیٹوں کا نور نظر ہونا سمجھایا جارہا تھا… اور راہ گزرتے لوگ رک رک کر اسلام کی ان شاہزادیوں کیلئے دست دعا بلند کررہے تھے۔ انہیں شاباش دے رہے تھے… احترام کی ایک مکمل فضا تھی۔
اس عظیم الشان اور فقید المثال مظاہرے کے موقع پر محترمہ باجی صبیحہ احمد نے کہا کہ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آزادی نسواں کے نام پر فحاشی کوفروغ دینا قابل مذمت ہے، مسلم معاشرہ میں اسکی قطعاََاجازت نہیں دی جاسکتی‘‘۔ محترمہ باجی کنیز رحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ میرا جسم میری مرضی نہیں بلکہ جسم بھی اللہ کی تخلیق اوراس پراختیار بھی اسی کا چلے گا، اس طرح کے بیہودہ نعرے لگانے والے قطعاََ عورت کے حقوق کے محافظ نہیں ہو سکتے۔ محترمہ پروفیسر باجی فضیلت مغل صاحبہ نے کہا کہ نبیe کا لایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو خود فطرت نے اسکے سپرد کی ہیں۔ اسلام نے عورتوں کو بحیثیت انسان زندہ رہنے ،تعلیم ، معاشرتی، معاشی،تمدنی حقوق،خلع، حسن معاشرت ،آزادی رائے ،جائیداد  وغیرہ کے حقوق سے بھی نوازا ہے جبکہ مغربی تہذیب بھی عورت کوحقوق دیتی ہے مگر عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس وقت جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے پر تیار ہوتی ہے، لہٰذا لبرل عناصر کا یہ کہنا کہ اسلام عورت کو حق نہیں دیتا بالکل غلط ہے۔ضلعی ناظمہ محترمہ باجی فضیلت داؤد نے کہا کہ ’’پردہ قید یا ظلم نہیں بلکہ عورت کا وقار ہے، محافظ ہے، جو ہر میلی نگاہ سے عورت کو بچاتا ہے۔ضلعی امیرمحترمہ باجی نسرین یوسف نے عورت مارچ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت وقت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس کو روکے۔
آخر میں محترمہ باجی طوبیٰ رحمان اور محترمہ باجی سیدہ سعیدہ مصطفی جعفر نے میڈیا ٹاک کرتے ہوئے این جی اوز کی طرف سے عورتوں کے حقوق کے نام پر ہونے والے’’عورت مارچ‘‘کو یکسر اور مکمل مسترد کرتے ہوئے اسے پاکستان کی اسلامی اور معاشرتی اقدار کیخلاف سازش قرار دیا۔ اور بتایا کہ عورت کو حقوق دلوانے کے نام پر عورت کی آزادی کا بظاہر دلفریب نعرہ لگانے والے در اصل عورت تک پہنچنے کی آزادی چاہتے ہیں۔ عورت کو حقوق نہیں دلوانا چاہتے‘ عورت کو اپنا حق بنانا چاہتے ہیں… عورت سے کھیلنا چاہتے ہیں…ہزاروں باپردہ خواتین کے جی ٹی روڈ پر زبردست پرامن اور تاریخ ساز احتجاجی مظاہرہ سے خطاب کرتے ہوئے باجی طوبیٰ رحمان نے کہا کہ اپنے مذہب،اپنی شان دار روایات اور غیرت کو چند فحاشی پسند اور مغربی فنڈڈ این جی اوز کے حوالے نہیں کرسکتے۔ پاکستانی عورت خاندان کے ادارہ کو بچانے کیلئے پر عزم ہے۔ یہ ہزاروں باپردہ خواتین اصل پاکستانی معاشرہ کی ترجمان ہیں۔ چند اباحیت زدہ اور فحاشی کی دلداہ خواتین کو پاکستانی عورت کا چہرہ نہ سمجھا جائے۔ انہوں  نے مزید کہا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتی ہیں کہ فحاشی کے علمبردار’’عورت مارچ‘‘ پر پابندی لگائی جائے۔ اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ، افراد کی معمار اور تہذیب کی نگران بنایا ہے،اس مارچ کی آڑ میں کچھ عناصر عورت سے اس کی عزت چھین لینا چاہتے ہیں اور اسے سر بازار کھڑا کر کے اس کے حقوق کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں جس کی ہم قطعی اجازت نہیں دے سکتے۔ ریلی سے خطاب کرتے ہوئے محترمہ باجی سیدہ سعیدہ مصطفی نے کہا کہ’’ ہم گھروں کو اپنی پناہ گاہ سمجھنے والی مسلمان خواتین ہیں لیکن ہمیں سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا گیا۔ ہم دنیا کو بتانے آئی ہیں کہ مسلمان عورت اپنے خاوند کو اپنا محافظ سمجھتی ہے،ہم خاوند سے بے وفائی، باپ کو دھوکہ نہیں دے سکتیں،ہم خاندان کو بطور ادارہ تحفظ دینا چاہتی ہیں، مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے شعبہ خواتین سے منسلک تمام خواتین کسی بھی این جی او کے ایجنڈے کوپاکستان میں نافذ نہ ہونے دینے کا عزم کر چکی ہیں‘‘۔ باجی سعیدہ مصطفی نے مزید کہا کہ’’ مغرب عورت سے اس کی نسوانیت چھیننا چاہتا ہے، وہ خود تو فطرتی قوانین سے بغاوت کی وجہ سے خاندانی نظام تباہ کر چکا اب وہ اسلامی معاشروں میں بھی خاندانی نظام کو برباد کرنے پر تلا ہے۔ یورپی اقوام میں بچے ماں کی آغوشِ تربیت کو بری طرح ترس رہے ہیں۔ مغرب کی خاتون اسلام کے دامن میں… حجاب کے تحفظ… میں آنا چاہتی ہے مگر پاکستان میں حجاب کے خلاف محاذ کھڑے کئے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ پاکستان میں فحاشی وعریانی کو فروغ دینے کی کوششوں کے آگے ہم بند باندھیں گی۔ انہو ں نے کہا کہ ریلی میں ہزاروں خواتین کی شرکت در اصل اسلامی تعلیمات سے بے مثل وابستگی کی دلیل ہے‘‘۔
قارئین مکرم! ۷ مارچ کو گوجرانوالہ میں ایک نئی قِسم کی تاریخ مرتب ہورہی تھی۔ شیرانوالہ باغ نے کبھی اتنا بڑا خواتین کا مظاہرہ نہیں دیکھا تھا۔ الحمدللہ علی ذالک۔ عامۃ الناس کی دلچسپی کا اور تحسین کا عالم یہ تھا کہ راقم الحروف کی فیس بک آئی ڈی سے اس مظاہرے کی تصاویر اور خبر کو محض تین گھنٹوں میں ۲۰ ہزار سے زیادہ لوگوں نے شئیر کیا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے پیج سے اس کی ریچ تین گھنٹوں میں دو لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ اس کی ویڈیوز کو ہزاروں افراد نے دیکھا ،سنا اور آگے بھیجا۔ادھر مین سٹریم ٹی وی چینلز پر اس مظاہرے کی خوب کوریج ہوئی، ایک دوست کہنے لگے کہ آج تو ٹی وی چینلز پر حجاب ہی حجاب چھایا ہوا ہے،اگلے دو دن کے اخبارات میں بھی اس مظاہرے کی خوب کوریج ہو رہی تھی۔ مظاہرہ گزرے آج چار دن گزر چکے ہر ملنے والا مبارک باد دے رہا ہے۔ خوشی کا اظہار کر رہا ہے۔ اسے اسلامی خاتون کی صحیح ترجمانی قرار دے رہاہے۔ کیوں؟؟؟؟ کیونکہ یہ اس ملک کی عورت کی حقیقی ترجمانی تھی۔ عورت کی اصل آواز تھی۔ بلکہ خود عورتوں کے دل کہ آواز تھی۔ الحمدللہ
میں سمجھتا ہوں کہ ناسپاسی ہوگی اگر اس مظاہرے کو منظم کرنے، اسلام دشمن عناصر کیخلاف مسلمان خاتون کو عملی کردار اداکرنے پرنہ صرف قائل کیا بلکہ مسلسل حوصلہ افزائی کرنے والی شخصیت جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور راشد حفظہ اللہ (ناظم ذیلی تنظیمات مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)کی وژنری سوچ کو سلام عقیدت نہ پیش کیا جائے۔ وہی تھے جنہوں نے شعبہ خواتین کو منظم بھی کیا اور متحرک کردار ادا کرنے پر قائل بھی کیا۔ بحمداللہ آج نتیجہ سب کے سامنے ہے۔


No comments:

Post a Comment

شرعی احکام سے آگاھی کے حصول کیلئے سبسکرائب کریں

تحریری میسج کریں

Name

Email *

Message *

استمع تلاوة القرآن الكريم

تازہ خطبہ جمعۃ (پنجابی)