تبصرۂ کتب
تحریر: جناب مولانا
محمد سلیم چنیوٹی
نام
کتاب: حضرت مولانا حافظ محمد یوسف
گکھڑویa (حیات و خدمات)
مرتب: حافظ
فاروق الرحمان یزدانی
ناشر: سکول
بک ڈپو، اردو بازار، گوجرانوالہ
تبصرہ
نگار: محمد سلیم چنیوٹی
اہلِ
حدیث کے لیے نہایت خوشی و مسرت کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں باوقار، صاحبِ علم
و بصیرت، ایمان دار اور مومنانہ صفات کی حامل شخصیات و اکابرین سے نواز رکھا ہے۔ انہی
اکابر کا اور ان کی ہمارے لیے کئی گئی محنتوں اور جدوجہد و مساعیِ جمیلہ کا نتیجہ ہے
کہ اہلِ حدیث کی آواز چہار سو پھیل رہی، پہنچ رہی اور اسے پذیرائی مل رہی ہے۔ ان اکابرین
کی زندگیوں کو پڑھنا، پڑھانا، مزید یہ کہ ان کی زیست کے حالات و واقعات لکھنا لکھوانا
بھی ایک بڑا کام ہے۔
اہلِ
حدیث اکابر میں بڑے بڑے مصنف، ادیب، خطیب، محدث، مفسر، مفتی، سیاست دان، ماہرینِ تعلیم
و تعلّم شامل رہے ہیں جن کی تعلیم و تدریس، دعوت و ارشاد، وعظ و تذکیر، بحث و مناظرہ
اور سیاست اور قیادت کے غلغلے حیطۂ تحریر میں آ چکے ہیں۔
جماعت
اہلِ حدیث کے ایک متقی و صالح عالم دین حضرت مولانا محمد یوسف گکھڑویa
کی تگ و تاز، دعوت و تبلیغ، جہاد و مجاہدین کے لیے قربانیاں، تعمیرِ
مساجد وغیرہ مساعیِ جمیلہ نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔ ان پر ایک مستقل کتاب کی ضرورت
تھی جو الحمد للہ ان کے صاحبزادۂ گرامی جناب حافظ عطاء السلام عابد صاحب کی کوششوں
سے تیار ہو گئی۔
زیرِ
تبصرہ کتاب مولانا محمد یوسف گکھڑویa پر ایک تاثراتی، دینی و تبلیغی
اور ان کے شخصی کردار کے حوالے سے لبریز معلومات کا خزینہ ہے۔ مولانا گکھڑویa
کے استاذۂ کرام میں مولانا سلطان احمد انصاری، مناظرِ اسلام حضرت
مولانا احمد دین گکھڑوی، مولانا محمد داود غزنوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی،
مولانا محمد علی لکھویS کے نام نمایاں ہیں۔
مولانا
گکھڑویa کے بارے میں مضامین کی جمع
و ترتیب کے لیے پرنسپل جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) جناب مولانا محمد یاسین ظفر صاحب نے
جامعہ سلفیہ کے لائق استاد برادرم مولانا فاروق الرحمان یزدانیd
کی خدمات پیش فرمائیں۔ دیکھتے دیکھتے گلشن میں بہار آگئی اور مولانا
گکھڑویa کے صاحبزادۂ گرامی جناب حافظ
عطاء السلام عابد، مولانا عبدالقدوس شاکر کے خواب حقیقت بن گئے اور زیرتبصرہ کتاب شائع
ہو گئی۔
اس
کتاب کی تقریب رونمائی گزشتہ دنوں جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) میں منعقد ہوئی جس کی صدارت
مولانا محمد یوسف انورd نے فرمائی۔ مولانا محمد یاسین
ظفر، مولانا حافظ مسعود عالم، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا فاروق الرحمان یزدانیj
و دیگر نے خطاب فرمایا۔
حافظ
محمد یوسف گکھڑویa کوئی معمولی شخصیت نہ تھے،
علمائے اہلِ حدیث میں انہیں خاص مقام حاصل تھا، مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے قیام
میں اہم کردار کے حامل تھے۔ ذاتی طور پر نیک نیت، متقی و صالح اور ہم عصر علماء و رفقاء
میں قابلِ احترام تھے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفیa نے وصیت فرمائی تھی کہ میرا
جنازہ مولانا محمد یوسف گکھڑوی پڑھائیں۔
مولانا
گکھڑویa مجاہدِ ختم نبوت تھے۔ مرزا
قادیانی اور ان کے پیروانِ کذب و افترا کے خلاف ہمیشہ سرگرم رہے۔ آپ جہاں بھی سکونت
پذیر رہے وہاں مسجد ضرور بنائی۔ لاہور مغل پورہ کی مسجد توحید گنج اہل حدیث، لوکو ورکشاپس
لاہور کی اہل حدیث مسجد اور پھر گوجرانوالہ میں گھنٹہ گھر کے قریب مسجد اختر اہل حدیث
کی تعمیر کرائی۔ ان شاء اللہ یہ ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے اور دعا ہے کہ تاقیامت قائم
رہے، آمین۔
مولانا
گکھڑویa ۱۹۲۰ء
سے ۱۹۴۷ء
تک لاہور میں مقیم رہے، پھر آبائی گائوں گکھڑ چلے گئے اور ۱۹۴۷ء میں سکول بک ڈپو
کے نام سے (اردو بازار، گوجرانوالہ) میں کتب اور اسٹیشنری کی دکان کھول لی۔ ۱۹۴۸ء میں گکھڑ والے
اپنے سکونتی مکان کو مسجد کے لیے وقف کردیا، چنانچہ ایک وسیع مسجد توحید گنج گکھڑ ان
کی یادگار ہے۔ حفظِ قرآن کا مدرسہ بھی بنایا، سیکڑوں بچوں نے قرآن کریم پڑھا اور یاد
کیا۔
قارئین
اس کتاب کو ضرور حاصل کریں۔ اس کتاب میں مولانا گکھڑوی کے متعلق مؤرخ اہل حدیث مولانا
محمد اسحاق بھٹی، مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا عبدالعزیز نورستانی، مولانا محمد
یونس بٹ، مولانا حافظ محمد الیاس اثری، مولانا محمد سرور شفیق، جناب بشیر انصاری، حافظ
محمد عباس انجم گوندلوی، ملک عبدالرشید عراقی، مولانا محمد یوسف انور و دیگر کے اہم
اور معلوماتی و تاثراتی مضامین شامل ہیں۔
مولانا
گکھڑویa ۱۹۰۵ء
میں پیدا ہوئے اور ۷
مئی ۱۹۸۰ء بروز بدھ بوقت
تہجد داعیِ اجل کو لبیک اس طرح کہا کہ اپنے گھر (گلی مسجد نور والی، گوجرانوالہ) پہنچتے
ہی اپنی آنکھیں کھولیں اور مسکرا کر ہاتھ کھڑا کر کے کلمہ طیبہ بلند آواز سے پڑھا اور
راہیِ ملک بقا ہوئے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔
لوگ
آپ کو جنازے پڑھانے کے لیے بلاتے تھے اور یوں ’’امام الجنائز‘‘ مشہور تھے۔ ان کی نماز
جنازہ حضرت مولانا عبدالرشید مجاہد آبادیd نے پڑھائی، ہزاروں لوگ جنازے
میں شامل تھے۔
کتاب
خوب صورت ٹائٹل اور بہترین سفید کاغذ پر طبع ہے۔ کتاب کے آخر میں بیرون پر مولانا محمد
داود غزنویa کا مکتوب گرامی بنام مولانا
یوسف گکھڑوی شائع کیا گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment