درسِ قرآن
عدل
ارشادِ باری ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ
بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى﴾ (النحل)
’’اللہ تعالیٰ عدل
کا ، بھلائی کا اور رشتہ داروں کے ساتھ (اچھا) سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے۔‘‘
کلام اللہ کا اعجاز ہے کہ مختصر سے جملوں میں اقوام وملل کی
ترقی کے چیدہ چیدہ ضوابط اور تنزلی کے اوصاف رذیلہ کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ آیت
مذکورہ کے مختصر سے فقرہ میں تین ایسی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے جن کی کسی بھی معاشرہ
میں موجودگی‘ افراد معاشرہ کو عزت و وقار کی ان بلندیوں پر لے جاتی ہے جہاں کینہ ،
حسد ، عداوت اور تفرقہ نام کے الفاظ بھی غیر مانوس ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے پہلی چیز
عدل ہے۔ اس سے مراد بعض اسلاف کے نزدیک توحید ہے۔ جبکہ بعد میں آنے والے مفسرین نے اس سے مراد‘ اللہ اور بندوں
کے حقوق کی ادائیگی میں ذمہ داری اختیار کرنے کو لیا ہے۔اللہ کے حقوق میں سے سب سے
بڑا حق اس ذات کو الوہیت‘ ربوبیت و صفات باری میں واحد ماننا بھی ہے۔گویا عدل یہ ہے
کہ پوری ذمہ داری کے ساتھ بندہ مالی، بدنی اور ان دونوں پر مبنی حقوق اللہ اور حقوق
العباد ادا کرے جواللہ نے اس پر واجب کیے ہیں۔ عدل ایک ایسی صفت ہے جو معاشرہ میں توازن
اور تناسب قائم کرنے کی وجہ بنتا ہے۔اسی لیے عدل قائم کرنے کاحکم قرآن پاک میں بار
بار دیا گیا ہے:
﴿وَ اِذَا حَكَمْتُمْ
بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ
بِهٖ﴾ (النسآء)
’’اللہ تعالی تمہیں
تاکیدی حکم دیتا ہے کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو، یقینا
وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت اللہ تعالی تمہیں فرما رہے ہیں۔‘‘
﴿وَ لَا يَجْرِمَنَّکُمْ
شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْا﴾
’’کسی قوم کی دشمنی
تمہیں خلاف عدل پر آمادہ نہ کردے"۔‘‘
اپنے خالق و مالک‘ اللہ کے حقوق کے ساتھ عدل کرنے کی بدولت انسان میں خود بخود مخلوق کے ساتھ بھی عدل وانصاف والا
رویہ پروان چڑھے گا اور انسان قلب سلیم کی صفت
سے متصف ہو گا :
﴿اِعْدِلُوْا١۫ هُوَ
اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ﴾ (المآئدة)
’’عدل کیا کرو جو
پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے۔‘‘
اسی طرح اگر ناگزیر صورت حال میں بدلہ کی نوبت آجائے تو کہیں
ایسا نہ ہو کہ تم فطرت قلب سلیم کے برعکس اپنی خواہشات کے مطابق زیادتی پر اتر آؤ
بلکہ چاہیے کہ:
﴿وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ
فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ﴾ (النحل)
’’اور اگر بدلہ لو
بھی تو صرف اتنا کہ جس قدر تم کو صدمہ پہنچایا گیا ہو۔‘‘
درسِ حدیث
نکاح میں ولی کی شرط
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:
[عَنْ عَائِشَةَ،
قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: "أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ
وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ".ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. "فَالسُّلْطَانُ وَلِيُّ
مَّنْ لَّا وَلِيَّ لَهُ.] (أبوداود)
سیدہ عائشہr
سے روایت ہے‘ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہe
نے فرمایا: ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا تو اس
کا نکاح باطل ہے۔‘‘ یہ بات آپe نے تین مرتبہ فرمائی۔ ’’پس
جس عورت کا کوئی ولی نہ ہو تو حکومت اس کی ولی ہو گی۔‘‘ (ابوداود)
نسل انسانی کی بقا اور عصمت وعفت کی حفاظت
کے لیے اسلامی شریعت میں نکاح کرنے کا حکم ہے۔ رسول اللہe نے نوجوانوں کے ایک گروہ کو
مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’جو تم میں سے نکاح کرنے کی طاقت رکھتا ہے اسے نکاح کر لینا
چاہیے اور جس کو نکاح کے وسائل حاصل نہیں ہیں وہ روزے رکھے تا کہ اس کی نگاہ نیچی ہو
جائے۔‘‘
ذکر کردہ حدیث میں آپe
نے تعلیم فرمائی کہ کوئی خاتون اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ
کرے۔ جس نے اپنے ولی‘ وکیل یا سرپرست کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا نکاح باطل ہے‘
باطل ہے‘ باطل ہے۔ تاکید کے لیے حضوراکرمe نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد
فرمائی۔ تنہا ولی کی اجازت کافی نہیں‘ بلکہ جس خاتون کا نکاح ہو رہا ہے اس کی اجازت
اور رضا مندی بھی ضروری ہے۔ اسلام نے یہ کڑی شرط اس بنا پر لگائی کہ کوئی دوشیزہ اپنے
باپ کی پگڑی اور اپنی ماں کے دوپٹے پر قدم رکھ کر رنگ رلیاں نہ منا سکے۔
جن لوگوں نے ولی کی شرط کو ختم کر کے
عورت کو اپنی مرضی اور پسند کی شادی کرنے کی اجازت دے رکھی ہے وہ فرمان رسولe
کی واضح مخالفت کر رہے ہیں اور ایک ملتانی مفتی نے تو یہ فتویٰ جاری
کر دیا ہے کہ ایک نوجوان جوڑا اپنی پسند کے مطابق کسی بھی دو گواہوں کی موجودگی میں
نکاح کر لیں تو یہ نکاح جائز ہو گا۔ یہ فتویٰ اس حد تک شر انگیز ہے کہ اس سے بدکاری
کا راستہ کھلتا ہے اور خاندانی نظام تباہ ہو کر رہ جائے گا‘ ایسے نکاح کی صورت میں
اولاد کی حیثیت کیا ہو گی اور اگر خدانخواستہ طلاق کی نوبت آئی تو اس خاتون کو کہاں
جگہ ملے گی؟ شریعت نے ولی کی شرط لگا کر بے حیائی کے اس راستے کو بند کر دیا ہے مگر
کچھ لوگ اپنے مفادات کے لیے اس شرط کو اہمیت نہیں دیتے۔ رسول اللہe
نے برائی کا ہر رستہ بند کر دیا ہے۔ فرمایا کہ ’’اگر کسی عورت کا
کوئی سرپرست نہیں ہے تو حاکم وقت اس کا ولی ہو گا۔‘‘ اس کے مشورے اور اجازت سے اس خاتون
کا نکاح کیا جائے گا۔ نکاح کو آسان بنانے کا یہ طریقہ کہ ولی کی شرط کو ختم کر دیا
جائے بے حیائی اور بدکاری کو دعوت دینا ہے۔ نکاح کو آسان بنانے کے لیے جہیز کی لعنت
کو ختم کیا جائے اور بے کار ہندوانہ رسومات سے اجتناب کیا جائے۔
No comments:
Post a Comment