ولی کامل حضرت مولانا محمد یحییٰ عزیز میر محمدی
تحریر: جناب سہیل اظہر
گورداسپوری
حضرت
مولانا محمد عبداللہ گورداسپوریa فرماتے تھے کہ برصغیر پاک و
ہند کی تقسیم کے بعد ۲۰ اگست
۱۹۴۷ء
کوہ بٹالہ براستہ ڈیرہ بابا نانک پاکستان میں داخل ہوا۔ چند روز نارووال میں قیام کرنے
کے بعد حضرت الاستاذ حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ کی زیارت و ملاقات کے
لئے سیالکوٹ حاضر ہوا۔ پھر وہاں سے اگلے روز وزیر آباد آیا تو مولانا عبدالمجید سوہدروی
ؒ سے ملاقات ہوئی۔ ان کی معیت میں استاد پنجاب حضرت مولانا حافظ عبدالمنان وزیرآبادی
ؒ کی مسجد میں نماز ظہر ادا کی۔نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد حافظ صاحب ؒ کی قبر پر دعا مغفرت کے لئے چلے گئے۔ وہاں سے مولانا
عبدالمجید سوہدروی ؒ مرحوم و مغفور مجھے سوہدرہ لے گئے۔ رات وہاں قیام کیا۔ حضرت سوہدرویؒ
نے بڑی خاطر مدارت کا مظاہرہ کیا اور مجھے
پہننے کے لئے کپڑوں کا نیا جوڑا بھی دیا۔ حضرت
سوہدروی ؒ مرحوم نے کئی ایک مقامی اکابرین جماعت سے بھی ملاقات کروائی۔
حضرت
مولانا سوہدروی ؒ سے ہی مجھے پتہ چلا کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری
ؒ ہجرت کے بعد اب گوجرانوالہ میں آگئے ہیں۔ حضرت شیخ الاسلام امرتسری ؒ کی زیارت و
ملاقات کے لئے ہم گوجرانوالا چلے گئے۔ لاری اڈے پر اترے تو وہاں پرحضرت مولانا نور
حسین گرجاکھیؒ، حضرت مولانا علی محمد صمصام ؒ اور مناظر اسلام حضرت مولانا عبداللہ
معمارؒ (مصنف محمدیہ پاکٹ بک) سے ملاقات ہوئی۔ ہم پانچوں افراد اکٹھے ہو کر اپنے دور کے خطیب اعظم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد
اسماعیل سلفی ؒ کی مسجد اہل حدیث چوک نیائیں پہنچے۔ وہاں شیخ الاسلام امرتسری ؒ کا
قیام تھا۔ وہاں شیخ الاسلام اور حضرت سلفی ؒ سے ملاقات و زیارت ہوئی۔ شیخ الاسلام بذات
خود بڑے حادثے اور صدمہ کے باوجود بڑے تپاک سے ملے اور اہل و عیال کی خیریت دریافت
کی۔ پھر ہم نے شیخ الاسلامؒ سے ان کے بیٹے ( عطاء اللہ شہید) کی
شہادت کی تعزیت کی۔ چند منٹ کی گفتگو کے بعد فرمایا: مولوی اسماعیلؒ! جماعت کا شیرازہ
بکھر گیا ہے۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کے دوران بڑے بڑے علمی ادارے اجڑ گئے اور بہت سے
علمائے اکرام شہید کر دیئے گئے۔ اس لئے سب سے پہلا کام جماعت کی تنظیم کا کرنا چاہیے۔میں
نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے سلاطین اور زہد و تقویٰ کے پہاڑ لوگ دیکھے لیکن جماعتی اور
تنظیمی ذہن رکھنے والی صرف دو شخصیتیں ہی دیکھی ہیں۔ ( شیخ الاسلام حضرت مولانا ثناء
اللہ امرتسری ؒ اور حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ)چونکہ قبل از تقسیم جماعت اہل حدیث کی تنظیم آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس
کے نام پر منظم تھی جو کہ ۱۹۰۶ء میں قائم کی گئی۔ جس کے پہلے صدر حافظ
عبداللہ غازی پوری ؒ اور جنرل سیکر ٹری شیخ الاسلام حضرت مولاناثناء اللہ امرتسری
ؒ تھے۔صدر تبدیل ہوتے رہے لیکن ۱۹۴۷ء تک جنرل سیکرٹری شیخ الاسلام امرتسریؒ
رہے۔حضرت شیخ الاسلام ۱۵
مارچ ۱۹۴۸ء کو سرگودھا میں
انتقال فرما گئے۔ ( انا للہ وانا الیہ راجعون)
میں
نے اور مولانا سلفی ؒ نے ان کے جنازہ میں بھی سرگودھا جا کر شرکت کی تھی۔ اس لئے انہوں
نے اپنے چند ایک خدام علماء سے جماعت کی تنظیم کی بات کہی۔ جس کی تکمیل حضرت مولانا
محمد اسماعیل سلفی ؒ اور بطل حریت خاندان غزنویہ کے عظیم چشم وچراغ حضرت مولانا سید
محمد دائود غزنوی ؒ اور دیگر چند اہم علماء اکرام نے کی۔ پورے پاکستان کی جماعت اہل
حدیث کو اک لڑی میں پرو کر شہری ، ضلعی اور دیہاتی جماعتیں قائم کیں۔
۱۱ ستمبر
۱۹۴۷ء
کو میں رائے ونڈ ضلع لاہور آکر مقیم ہوا۔ وہاں
اس وقت غلہ منڈی رائے ونڈ میں صرف ایک
ہی مسجد تھی جس کی زمین کی رجسٹری حاجی عاشق کے نام تھی (جوکہ اہل حدیث تھے) لیکن مسجد
پر احناف قابض تھے، اس مسجد کو واگزار کروا
کر اہل حدیث کا نظم قائم کیا۔ (الحمد للہ)
وہاں
ایک سال قیام کے دوران جماعت اہل حدیث قصور سے تعارف ہوا۔ وہاں مجھے خطابت کے لئے دعوت
دی گئی کیونکہ وہاں حضرت مولانا محمد حیات ضلع مظفر گڑھ سے تشریف لا کر مولانا محمد
حیات قصوری کے نام پر پچاس سال خطیب رہے۔ لیکن آخری عمر میں انہیں فالج اور رعشہ کا
مرض لاحق ہو گیا اس لئے وہ خطابت کے فرائض سرانجام دینے سے معذور تھے۔ اس وقت انجمن
اہل حدیث قصور کے صدر حاجی شہاب دین شام کوٹی ؒ تھے۔ میں ایک ماہ تک وہاں جاتا رہا
لیکن میری اور ان کی بات چیت مکمل نہ ہو سکی۔
اسی
دوران رائے ونڈ قیام کے دوران میری حافظ محمد یحییٰ میر محمدی سے ملاقات ہوئی۔ تقسیم
ملک کے وقت حافظ میرمحمدیؒ مدرسہ غزنویہ امرتسر میں زیر تعلیم تھے، رمضان المبارک کی
تعطیلات کی وجہ سے گھر آئے ہوئے تھے‘ تقسیم ملک کی وجہ سے واپس مدرسہ غزنویہ امرتسر نہ جا سکے۔ اس لئے ادھر پاکستان
میں ہی حضرت مولانا عطاء اللہ بھوجیانی ؒ اور محدث دوراں حافظ محمد گوندلوی ؒ سے اپنی
تعلیم مکمل کی۔
میں
دس سال ہندوستان میں خطابت کر تا رہا تھا اور تقسیم ملک کے بعد پاکستان آیا اور جب
میں پاکستان آیا اس وقت حافظ صاحب ؒ ابھی
اپنی تعلیم مکمل کر رہے تھے۔ یہ میرا
اور ان کا عمر کا تفاوت تھا۔
سیدنا
عباسt سے کسی نے سوال پوچھا تھا کہ آپt عمر میں بڑے ہیں یا رسول اللہe؟ تو سیدنا عباسt نے جواب دیا تھا کہ
[ہوا اکبر منی فضلا
و انی اکبر منہ سنا۔]
حافظ
میر محمدی صاحب ؒ کے بارے میں دوست احباب نے اتنا کچھ لکھ دیا ہے جو ایک کتاب کی شکل
اختیار کر سکتا ہے۔ حافظ میرمحمدی صاحب سے لاتعداد ملاقاتیں ہوئیں اور واقعی ہی وہ
قابل ملاقات اور قابل زیارت تھے۔ ایسے لوگ پیدا کرنے والی مائیں اب وفات پاچکی ہیں۔
جیسے نیک لوگ دنیا سے جا رہے ہیں ایسے نیک لوگ اس دنیا میں آنہیں رہے۔
اللہ
تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی تربیت گاہ بونگاں بلوچاں کو قیامت تک قائم
و دائم رکھے۔ (آمین)
No comments:
Post a Comment