پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان a
تحریر: جناب مولانا
حافظ شاہد رفیق
گزشتہ
دنوں لاہور سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالمِ دین اور معروف مصلح و مربی پروفیسر حافظ
ثناء اللہ خان صاحب کی وفات ہوئی۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور اُخروی منازل
کو آسان کرے۔ آمین!
فقیدِ
مرحوم سے میرا پہلا تعارف اور اولین ملاقات اس وقت ہوئی جب میں جامعہ اسلامیہ (مدینہ
منورہ) میں زیرِ تعلیم تھا۔ اس وقت تو یہی معلوم ہو سکا کہ آپ لاہور کی ایک مسجد میں
خطیب اور گورنمنٹ کالج میں لیکچرار ہیں، مگر پھر آہستہ آہستہ ان کی دعوتی سرگرمیوں،
دل نشین طرزِ بیان اور مؤثر وعظ کی بابت بہت کچھ سننے کا موقع ملا۔
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ
حافظ
صاحبa کا آبائی وطن ضلع قصور کا قصبہ
سرہالی کلاں ہے‘ آپ بہت بڑے اہلِ حدیث عالم مولانا عبداللہ کلسویa
کے فرزند ہیں۔
پروفیسر
حافظ ثناء اللہ خان صاحب مرحوم اسی جلیل القدر باپ کے سپوت اور علم وعمل میں اپنے والد
کے جانشین تھے۔ انہوں نے بھی اپنے عظیم والد کے مانند ساری عمر دعوتِ دین اور لوگوں
کی تربیت و اِصلاح میں گزاردی۔
آپ
کی پیدائش سرہالی کلاں میں ۲ فروری
۱۹۴۰ء
کو ہوئی اور ابتدائی تعلیم والدِ گرامی ہی کے سایۂ عاطفت میں مکمل کی، پھر آپ کا رخ
عصری تعلیم کی طرف ہو گیا۔ پنجاب یونیورسٹی (لاہور) سے بی اے (آنرز) کیا، پھر ایم اے
عربی اور ۱۹۶۵ء
میں ایم اے اسلامیات کی تکمیل کی۔ گورنمنٹ کالج (لاہور) کے زمانۂ تدریس میں آپ اسکالر
شپ پر کنگ سعود یونیورسٹی (ریاض، سعودی عرب) چلے گئے اور وہاں سے ہائیر ڈپلومہ اِن
عریبک لینگوئج مکمل کیا۔
مولانا
کلسویa کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں
سے نوازا تھا۔ آپ کو بچوں کی دینی تعلیم اور اخلاقی تربیت کی بڑی فکر رہتی، اس لیے
وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے تھے۔ حافظ
ثنا اللہ صاحب کالج سے آتے تو انہیں حدیث پڑھانے میں مشغول ہو جاتے اور یہ سلسلہ بڑی
باقاعدگی سے جاری رہتا۔ قرآن مجید کا مکمل ترجمہ و تفسیر بھی انہی سے پڑھی۔ ان کی بڑی
خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ میری اولاد کو دین و دنیا کی سر بلندیوں پر سرفراز فرمائے
جو اللہ نے واقعی پوری کر دی، بلکہ اس ذات بابرکات نے ان کی اولاد سے آگے ان کے اَخلاف
میں بھی یہ سلسلہ جاری کر دیا اور یہ سبھی ان کی مخلصانہ دعاؤں کا نتیجہ ہے۔
حافظ
ثناء اللہ صاحب مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک اور گونا گوں صفات سے متصف تھے، تاہم ان میں
دو ایسی نمایاں خوبیاں تھیں جو عصری تعلیمی اداروں میں مصروفِ کار افراد میں بہت کم
پائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں صفات ان کے والد ہی کی تعلیم و تربیت کا فیضان
تھیں:
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی رحمہ اللہ
پہلی خوبی:
پروفیسر صاحب کے والد محترم مولانا کلسوی
مرحوم نماز باجماعت کی حد درجہ پابندی کرتے اور آپ کو نوافل سے والہانہ لگاؤ تھا جس
کے پیشِ نظر ان کو حافظِ نماز کہا جاتا تھا۔ ہمیشہ اوّل وقت نماز پڑھنے کے عادی تھے۔
باجماعت نماز کے لیے سیکڑوں بار باد و باراں کا مقابلہ کیا، حتیٰ کہ اپنے آخری ایام
میں جب وہ شدید بیمار تھے اور لاہور میں حافظ صاحب ہی کے یہاں مقیم تھے، بیٹے سے کہتے
کہ دیکھو! جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے، کوئی نماز نہیں چھوڑی۔ اب آخری ایام میں بے
نماز کر کے رخصت نہ کرنا۔ جب شدید بیماری میں بار بار غنودگی آتی تو ایک صاحبزادے
کو کہتے: بیٹا! میرا گھٹنا ہلاتے رہو، تاکہ غفلت کا شکار نہ ہو جاؤں۔ جب نماز کا وقت
ہوتا تو دوسرے بیٹے کو کہتے: نماز بلند آواز سے پڑھو اور پھر اس کے ساتھ ساتھ نماز
پڑھتے جاتے۔
مولانا
کلسویa کے اس عمل سے یہاں خلیفہ دوم
سیدنا عمر بن خطابt کا یہ واقعہ ذہن میں تازہ ہو
گیا کہ جب انہیں زہر آلود خنجر مار کر زخمی کیا گیا، پیٹ پر اس قدر شدید زخم لگے کہ
جو چیز آپ کو پلائی جاتی، پیٹ سے رِسنے لگتی۔ اسی حالت میں اذان ہوئی تو کسی نے کہا:
امیر المؤمنین! نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ یہ سن کر فرمایا: ہاں، نماز تو ضرور پڑھیں
گے کیوں کہ جس نے نماز چھوڑ دی، اسلام سے اس کا تعلق ہی ٹوٹ گیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،
رقم: ۳۷۰۶۷)
ادائے
نماز کی بعینہٖ یہی کیفیت مولانا عبد اللہ صاحب کے صاحبزادے مرحوم پروفیسر صاحب کی
تھی۔ نماز باجماعت اور تہجد ونوافل کے اہتمام میں وہ بھی اپنی مثال آپ تھے۔ ان کی عادت
تھی کہ فجر سے عموماً دو گھنٹے قبل بیدار ہو جاتے اور اذان تک نوافل، تلاوت، دعا و
مناجات اور اذکار میں مصروف رہتے۔ پنجگانہ نماز کے لیے عموماً آپ اذان کے وقت مسجد
میں ہوتے یا اذان کے بعد سارے دنیوی علائق سے ناتا توڑ کر مسجد کا رخ کر لیتے۔ نماز
سے محبت کے بارے میں ان کے صاحبزادے مولانا ضیاء اللہ برنیd بتاتے ہیں کہ اگر ان کی زندگی
کا نچوڑ اور خلاصۂ حیات پوچھا جائے تو وہ نماز ہی تھی۔ بلا مبالغہ میں نے وقت کی پابندی،
تکبیرِ اولیٰ کے اہتمام اور خشوع میں ان جیسی نماز پڑھتے ہوئے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔
یہ نماز کی اہمیت اور اس سے محبت ہی کی علامت ہے کہ مسجد ربانی کے مستقل نمازی ابوبکر
بھائی نے مجھے بتایا کہ جب حافظ صاحب کی خبرِ وفات ہمارے گھر والوں نے سنی تو میری
پھوپھو بتانے لگیں کہ میری شادی کا موقع تھا، اس وقت میں نے محترم حافظ صاحب کو فرماتے
سنا کہ میں بے نماز کا نکاح پڑھاتا ہوں اور نہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھانا روا سمجھتا
ہوں۔ اگر سبھی علمائے کرام بے نماز کا جنازہ پڑھانا چھوڑ دیں تو ہمارے معاشرے میں کوئی
بے نماز باقی نہ رہے۔
جی
چاہتا ہے یہاں محترم حافظ صاحب کے اس قول کی تائید وتصدیق کے لیے ایک واقعہ قارئین
کے گوش گزار کیا جائے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر ائمہ مساجد و خطبائے ملت اس اُصول
پر عمل پیرا ہوں تو واقعتا معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔
یہ
واقعہ معروف اہلِ حدیث عالم پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوریa کے والد مولانا نور محمدa
کا ہے جو غزنوی و روپڑی علماء کے شاگرد اور دعوتی میدان میں بڑے متحرک
عالم تھے۔ ان کا ایک بھائی بے نماز تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو نہ صرف یہ کہ خود اُنہوں
نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا، بلکہ کسی اور کو بھی نہ پڑھنے دیا اور اسے یوں ہی دفن کر
دیا۔ یہ دیکھ کر کہ ہمارے امام نے اپنے سگے بھائی کا جنازہ نہیں پڑھایا کیوں کہ وہ
نماز نہیں پڑھتا تھا، سارا گاؤں نمازی ہو گیا کہ جب انہوں نے سگے بھائی کو ایسے ہی
دفن کر دیا ہے تو ہمارا جنازہ کیسے پڑھائیں گے، بلکہ اس کے اثرات قریبی دیہاتوں تک
بھی پہنچے اور وہاں بھی لوگ نماز کی طرف متوجہ ہو گئے۔ (کاروانِ سلف، ص: ۲۸۸)
محترم
پروفیسر صاحب کی عبادت سے فریفتگی اور تعلق باللہ کے اس مضبوط رشتے کی وجہ سے ان کی
زبان میں تأثیر، الفاظ میں کشش اور وعظ میں اتنی جاذبیت ودیعت کی گئی تھی کہ آپ کا
ایک درس یا خطبہ سن کر ہی لوگوں کی دنیا بدل جاتی اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے توحید و
سنت کی راہ پر گامزن ہو جاتے۔
یہ مضمون پڑھیں: مفسرقرآن الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
دوسری خوبی:
پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان صاحبa
کی دوسری امتیازی صفت ان کی درس و تدریس سے وابستگی اور ہمیشہ اسی
کے لیے تگ ودو تھی۔ یہ خوبی بھی ان کو والدِ گرامی سے ورثے میں ملی تھی اور آپ نے ساری
زندگی اسے اہم فرض سمجھ کر ادا کیا۔ مولانا عبداللہ خان صاحب کلسویa
کا معمول تھا کہ جہاں بھی مقیم رہے، درس ضرور دیا کرتے اور جس دن
درس نہ دے پاتے، طبیعت خراب رہتی اور کہتے کہ آج روحانی غذا سے محروم ہوں۔
حافظ
ثناء اللہ صاحب نے ۱۹۷۳ء
سے لے کر اپنی وفات سے چھ ماہ قبل تک (تقریباً نصف صدی) مسجد ربانی (سمن آباد، لاہور)
میں درس وخطابت کی ذمہ داری نبھائی اور لوگوں کی بڑی تعداد آپ کے مواعظ سے مستفید ہوئی۔
کتنے لوگ تھے کہ آپ کے دروس سن کر جن کے عقائد کی اصلاح ہوئی اور اَن گنت تعداد آپ
کے خطبات سن کر معاصی کی دلدل سے نکل کر صالحیت کی راہ پر گامزن ہو گئی! آپ کے سامعین
میں مشہور تھا کہ جس کا عقیدہ سنوارنا ہو، یا جسے بے راہ روی سے بچانا ہو، اسے کھینچ
کھانچ کر دو تین جمعے حافظ صاحب کے پیچھے پڑھوا دو، پھر اللہ اللہ خیر سلا۔ کبھی ایسا
ہوتا کہ دوسرے مسلک کے لوگ اپنی مساجد میں جانے کے بجائے یہ سوچ کر کہ چلو آج کا جمعہ
یہیں پڑھ لیتے ہیں، مسجد ربانی میں آ جاتے اور پھر ہمیشہ کے لیے انہی کے پُراثر خطبے
اور اِخلاص بھری نصیحتوں کے اسیر ہو جاتے۔ ایسے لوگ بھی آپ کے علاقے میں موجود ہیں
جو ایک دفعہ یوں ہی جمعہ پڑھنے یا درس سننے چلے آئے اور اب ان کی تیسری نسل کے نو نہال
مسجد ربانی کے مستقل آباد کار ہیں۔
آپ
کے دروس وخطبات میں تیس سال تک حاضر ہونے والے جناب عبد الخالق بھٹی صاحب بتاتے ہیں
کہ آج سے پچاس سال قبل کی بات ہے جب ہمارے خاندان کے دس گھرانے گاؤں سے لاہور (محلہ
اسلامیہ پارک) میں آکر آباد ہوئے۔ یہاں میرے والد صاحب کی ملاقات معروف کتاب ’’موت
کا منظر‘‘ کے مؤلف جناب خواجہ محمد اسلام سے ہوئی اور وہ ان کے پاس بیٹھنے لگے۔ ان
کی دعوت پر میرے والد صاحب بریلوی مسلک سے تائب ہو کر دیوبندی ہو گئے۔ میرے والد اہلِ
حدیث سے قدیمی نفرت کی وجہ سے پروفیسر حافظ ثناء اللہ خان صاحب کی مسجد کو چھوڑ کر
چوبرجی کوارٹر والی مسجد میں قاری اظہار الحق تھانوی صاحب کی اِقتدا میں جمعہ پڑھنے
جایا کرتے تھے۔
ایک
دن میرے والد صاحب کو ان کے کزن کہنے لگے کہ بھائی! کبھی اہلِ حدیث کی مسجد میں بھی
جا کر جمعہ پڑھنا چاہیے، آخر سنیں تو سہی وہ کہتے کیا ہیں۔ سارے دوستوں نے مل کر حافظ
ثناء اللہ خان صاحب کا خطبہ سنا۔ پنجابی زبان اور سادہ اندازِ بیان، کوئی ترنم نہیں۔
ان کی آواز زیادہ مسحور کن تھی اور نہ آواز کے اندر کوئی چاشنی، لیکن انداز اتنا پیارا
اور دلوں کے اندر اُتر جانے والا کہ چاہے ان کے مسلک سے لاکھ نفرت ہو، لیکن ان سے محبت
ہونا شروع ہو جاتی۔
یہ مضمون پڑھیں: شیخالحدیث مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ
ہمارے
بڑے تو جمعے کی حد تک حافظ صاحب کے معتقد ہوئے، لیکن ان کی نسل میں جو نوجوان طبقہ
تھا، انہوں نے اکثر نمازیں وہاں پڑھنا شروع کر دیں اور آہستہ آہستہ سبھی نوجوان اتباعِ
سنت کے گرویدہ ہو گئے۔ ان دنوں میری عمر تقریباً پندرہ سال تھی۔ میں اپنی برادری کے
ان جوانوں کا خدمت گزار اور ہیلپر ہوا کرتا تھا۔ ایک دفعہ حافظ ثناء اللہ خان صاحب
سے رفع الیدین کے موضوع پر بحث شروع ہوئی، گرمیوں کی چھٹیوں میں مسلسل تین مہینوں تک
تحقیق ہوتی رہی۔ کبھی حافظ ثناء اللہ صاحب سے حدیثیں دیکھتے، کبھی اپنے علمائے دیوبند
سے جا کر تحقیق کرتے۔ آخرکار ۲۷ رمضان
المبارک ۱۴۰۷ھ
کو مسلک اہلِ حدیث کی حقانیت کو جاننے اور اس کے دلائل مضبوط ہونے کی وجہ سے ہم نے
مسلک اہلِ حدیث کو اختیار کر لیا۔ تبلیغ کا یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا، محنت ہوتی رہی،
اب سوائے ایک یا دو گھروں کے الحمد للہ! تمام برادری اہلِ حدیث ہوچکی ہے۔ یہ سارا صدقہ
جاریہ ان شاء اللہ حافظ ثناء اللہ خان صاحب ہی کا ہے کہ ان کی بدولت ہمیں سنت پر عمل
پیرا ہونے میں مدد ملی۔
محترم
حافظ صاحب کے مؤثر وعظ اور نتیجہ خیز گفتگو کے بے شمار واقعات ہیں جنھیں طوالت کے
پیشِ نظر درج کرنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زبان میں ایسی تأثیر ودیعت کی تھی
کہ کئی دفعہ ایک آدھ جملہ ہی مخاطب کے لیے کارگر ہو جاتا۔ آپ کی مسجد کے ایک نوجوان
نمازی بھائی ابو بکر نے مجھے بتایا کہ ہمارے دادا سراج دین صاحب ایک وقت تھا کہ بکثرت
حقہ نوشی کیا کرتے تھے۔ ایک دن وہ حافظ ثناء اللہ صاحب کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے
کہ حافظ صاحب انہیں کہتے ہیں: بھائی سراج دین! تم نماز بھی میرے پیچھے پڑھتے ہو اور
حقہ نوشی بھی کرتے ہو! یہ سننا تھا کہ دادا جان نے وہیں عزم کر لیا کہ آج کے بعد کبھی
حقہ اور سگریٹ کے قریب نہیں جاؤں گا اور پھر ہمیشہ کے لیے یہ عادت ترک کر دی۔
اللہ
رب العزت نے حافظ صاحبa کو بڑی سادہ اور متواضع شخصیت
کا مالک بنایا تھا۔ مسجد ربانی کے نمازی عبد الخالق بھٹی صاحب نے ذکر کیا ہے کہ تیس
سال کے عرصے میں حافظ صاحب کے اندر میں نے ایک بڑی ہی خوب صورت صفت دیکھی اور وہ یہ
کہ آپ مساجد ومدارس کے لیے فنڈ جمع کرنے والے سفیروں کا بہت اِحترام کیا کرتے تھے۔
جب بھی کوئی سفیر آپ کی مسجد میں آتا، اسے اپنے ساتھ کھڑا کرتے اور نماز کے بعد اس
کو اپنے مصلے کے قریب بٹھا لیتے، پھر نمازیوں کو خرچ کرنے کا کہتے اور خود سب سے پہلے
جیب خاص سے اس کے ساتھ تعاون کرتے۔ تعاون کے اعتبار سے ہماری مسجد ربانی قرب و جوار
میں بڑی مشہور تھی کہ یہاں سفیروں کو بہت زیادہ فنڈ مہیا ہوتا ہے اور اس کا سبب بھی
حافظ ثناء اللہ خان صاحب کی سفیروں سے محبت تھی۔
یہ مضمون پڑھیں: گنگاسے زمزم تک ... ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ
اگر
حافظ صاحب کے دروس کا کوئی مرکزی عنوان اور خطابات کا محور ومرکز تجویز کیا جائے تو
وہ ’’فکرِ آخرت‘‘ تھا۔ اپنے سادہ، مگر دل نشیں انداز میں جب اس موضوع پر گفتگو کرتے
تو سننے والوں پر رقت طاری ہو جاتی اور دنیا کی محبت سے دل نفور ہو کر آخرت کی فکر
سے سرشار ہوجاتے۔ خوش کن خبر ہے کہ فکرِ آخرت کے متعلق آپ کے دروس پیغام ٹی وی پر بھی
نشر ہوئے اور محفوظ ہو گئے جن سے اب ہزاروں لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ حافظ صاحب محترم
کا ایک بیان احوالِ قبر اور ما بعد الموت کے متعلق بھی موجود ہے جسے اللہ تعالیٰ نے
بے پناہ مقبولیت دی اور اندرون وبیرون ملک اَن گنت لوگوں نے اسے سن کر اپنی حالت سنواری۔
مولانا ضیاء اللہ برنیd بتا رہے تھے کہ مجھے بعض احباب
نے بتایا: بسا اوقات جب دل کی ایمانی حالت متغیر اور زنگ آلود ہونے لگتی ہے تو ہم وہ
خطاب سن کر اپنے ایمان کو تازہ کر لیتے ہیں۔
پروفیسر
حافظ ثناء اللہ خان رحمہ اللہ بیس سال تک جی سی یونیورسٹی (لاہور) میں شعبہ اسلامیات
سے وابستہ رہے اور ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ بن کر ریٹائر ہوئے۔ کالج میں دورانِ تدریس آپ
نے نوجوان نسل میں اسلام کی محبت اور آخرت کی فکر پیدا کرنے میں بے مثال کام کیا جس
کے بڑے گہرے اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے۔ آپ کے کچھ شاگرد بتا رہے تھے کہ محترم حافظ
صاحب جب لیکچر دیتے، اس کا موضوع خواہ کوئی بھی ہوتا، ہمیشہ اس کا اختتام فکرِ آخرت
پر کرتے اور سننے والے بڑی دلچسپی سے سنا کرتے۔ کالج میں آپ کے ذمے اسلامیات کی تدریس
تھی جس کے صرف پچاس نمبر ہوتے ہیں، جب کہ دوسرے مضامین عموماً سو دو سو نمبرز کے ہوتے
ہیں۔ حالت یہ تھی کہ دوسری کلاسوں میں تو طلبہ بے دلی سے آتے یا آدھا پورا لیکچر سن
کر رفوچکر ہو جاتے، مگر حضرت حافظ صاحب کے لیکچر میں سبھی طلبہ حاضر ہوتے اور آخر تک
موجود رہتے، بلکہ لڑکوں کو بیٹھنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو کئی لڑکے اخیر تک کھڑے ہو
کر آپ کا لیکچر سنتے رہتے!
یادش
بخیر! جب وہ کالج میں لیکچرار تھے، عمرے کے سفر پر سعودی عرب آئے اور مدینہ منورہ
بھی تشریف لائے، ہماری ان سے پہلی ملاقات وہیں ہوئی۔ دورانِ گفتگو انہوں نے بڑی دلچسپ
باتیں اور کئی نصیحتیں کیں۔ فرمانے لگے: ہم کالج کے طلبہ میں تربیتی اُمور کو بھی بڑے
اہتمام کے ساتھ زیرِبحث لاتے اور حتی الوسع ان کی عملی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش
کرتے رہتے ہیں۔ پھر بطورِ مثال بیان کیا کہ میں نے کالج میں دیکھا کئی نوجوان بائیں
ہاتھ سے کھانے پینے کو بالکل معیوب نہیں سمجھتے اور اس مسئلے میں غفلت کا مظاہرہ کر
رہے ہیں۔ ایک دن کلاس میں لڑکوں سے میں نے پوچھا کہ بتاو بھئی! تم نے کبھی شیطان دیکھا
ہے؟ سب لڑکے کہنے لگے کہ نہیں سر! ہم نے آج تک شیطان کی شکل نہیں دیکھی۔ یہ سن کر میں
نے کہا: آج میں تمہیں شیطان دکھاتا ہوں۔ ایسا کرو کہ جب یہاں سے نکلو تو کالج کی کینٹین
میں جاؤ اور وہاں جسے دیکھو کہ بائیں ہاتھ سے کھا پی رہا ہے، وہی شیطان ہے‘ کیوں کہ
نبیِ مکرمe کا فرمان ہے: ’’بائیں ہاتھ
سے کھانے والا شیطان ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، رقم: ۲۰۲۰)
پروفیسر
صاحب فرماتے ہیں: جب میں نے بات مکمل کی تو سبھی لڑکے مجھے حیرانی سے دیکھنے لگے، مگر
بات چونکہ درست تھی اور ان میں یہ کوتاہی موجود بھی تھی تو انہوں نے وہیں عزم کر لیا
کہ آج کے بعد ہم اس فعلِ شنیع کا اِرتکاب نہیں کریں گے، بلکہ جو بھی اس شیطنت کا مظاہرہ
کرے گا، اسے سمجھائیں گے اور روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔
حضرت
حافظ صاحب کے مواعظ میں موت کی فکر اور آخرت کی تیاری پر اس قدر زور اور خود ان امور
کی طرف طبعی رجحان کا نتیجہ تھا کہ جب کوئی جنازہ پڑھاتے، آپ پر بڑی رقت طاری ہو جاتی۔
میت کے لیے پُرخلوص اور طویل دعائیں کرتے۔ کئی لوگ وصیت کر جاتے کہ ہمارا جنازہ حافظ
صاحب سے پڑھوانا۔ مولانا مودودی صاحب کے داماد ڈاکٹر عارف صاحب جو آپ کے قریب ہی رہتے
ہیں اور آخری ایام میں آپ کے معالج بھی رہے، بتاتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے امیر قاضی
حسین احمد صاحب نے بھی وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ محترم پروفیسر صاحب پڑھائیں گے۔
حافظ
صاحب مرحوم نے ایک ہی جگہ نصف صدی کے قریب زمانۂ حیات بسر کیا۔ آپ سے ملنے اور جاننے
والے ہر ایک کا یہی تأثر ہے کہ آپ اللہ کے ولی اور اس کے محبوب بندے تھے۔ لوگ آپ سے
دعا کی درخواست کرتے جسے اللہ شرفِ قبولیت بخشتا اور کئی مریض آ کر دم کرواتے جنھیں
بارگاہِ ایزدی سے شفا مل جاتی۔ ہمارے دوست قاری احسان اللہ صاحب بتاتے ہیں کہ
ہماری
ان سے کافی عرصہ دعوتی رفاقت رہی۔ جب بھی ان سے درس یا خطبہ جمعہ کی درخواست کی، بڑی
شفقت فرماتے۔ بسا اوقات طبیعت ناساز ہونے کے باوجود تشریف لایا کرتے اور ما شاء اللہ
بہت پُر تأثیر گفتگو فرماتے۔ درس یا جمعے کے خطبے کے بعد جب نجی مجلس ہوتی، مصافحہ
کرنے اور زیارت کرنے کے لیے لوگوں کا ہجوم اُمڈ پڑتا۔ ایک چیز جس کا میں نے بارہا مشاہدہ
کیا کہ وہ مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ میں نے اسحاق مسجد (یو کے سنٹر، لاہور) میں دیکھا
کہ اکثر اوقات لوگ ان سے دعا کی درخواست کرتے اور وہ سب کے لیے نہایت خلوص سے دعا فرمایا
کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان کو انبیاء، شہداء اور صالحین کا ساتھ نصیب فرمائے۔ یقینا ایسے
بزرگوں کی کمی پوری نہیں ہوا کرتی۔
مسجد
ربانی کے نمازی بھائی ابو بکر نے بتایا کہ میرے والد محمد ریاض پہلوان تھے۔ ایک دفعہ
کسی عیسائی پہلوان سے ان کی کشتی تھی جس کا باپ جادو ٹونے کا بھی ماہر تھا۔ کہتے ہیں
کہ جب کشتی شروع ہوئی تو کچھ دیر بعد مجھے اپنی آنکھوں میں حرارت محسوس ہونے لگی، حتیٰ
کہ میری نظروں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور مجھے ہر چیز دھندلی دکھائی دے رہی تھی۔
فوراً میرے ذہن میں اس پہلوان کے جادو گر باپ کا خیال آیا اور میں نے کلمہ طیبہ کا
وِرد شروع کر دیا جس سے نظر ٹھیک ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے کامیابی سے نوازا۔
کہتے ہیں کہ کشتی تو میں جیت گیا، مگر میری آنکھوں میں مسلسل درد رہنے لگا۔ کافی جگہ
سے معاینہ بھی کروایا، لیکن آرام نہیں آ رہا تھا۔ بالآخر میں نے حافظ صاحب سے دعا کی
درخواست کی۔ انہوں نے دعا بھی کی اور مجھے دم بھی کیا جس سے اللہ نے مجھے شفایاب کر
دیا۔
ان
مختصر گزارشات میں ہم نے حافظ صاحبa کی شخصیت کے چند ممتاز پہلو
اُجاگر کرنے کی ادنیٰ کوشش کی ہے جس سے ان کے اخلاق وکردار کا عکسِ جمیل نظر آتا ہے۔
اُمید ہے ان کی مسندِ علمی اور خاندانی نجابت کے امین محترم مولانا ضیاء اللہ برنی
روپڑیd تفصیل سے پروفیسر ثناء اللہ
خان صاحب کے مختلف شخصی گوشوں، علمی جوانب، دعوتی جہود اور وسیع دینی خدمات پر مفصل
روشنی ڈالیں گے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور انہیں اعلیٰ علیین
میں بلند مقام عنایت کرے، آمین یارب العالین!
No comments:
Post a Comment