ماہِ محرم اور یومِ عاشوراء
تحریر: جناب مولانا
فاروق عبداللہ
ماہ
محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے، سال کے باقی گیارہ مہینوں پر اسے خاص فضیلت و اہمیت
حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں:
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک کتاب اللہ میں مہینوں
کی تعداد بارہ ہے جس دن سے اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار
حرمت والے ہیں۔‘‘
نبی
کریمe نے اپنے قول سے ان حرمت والے
مہینوں کی تعیین فرما دی ہے، آپ کا ارشاد گرامی ہے:
’’سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار حرمت
والے ہیں، تین پے در پے ہیں: ذوالقعدہ، ذوالحجہ و محرم اور رجب مضر جو جمادی و شعبان
کے درمیان ہے۔‘‘
اس مضمون کو پڑھیں:
اعمال ایسے کہ رب روٹھے
اس
حدیث سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم ان چار مہتم بالشان مہینوں میں سے ایک ہے جسے اللہ تعالیٰ
کی جانب سے حرمت و تقدس کا شرف حاصل ہے، جس کے اندر بالخصوص اللہ تعالیٰ نے قتال اور
جنگ و جدال کو حرام قرار دیا ہے، تا کہ انسانوں کے اندر انسیت کا جذبہ موجزن ہو اور
انسانیت انسانی اقدار سے بہرہ ور ہو۔ زمانہ جاہلیت میں بھی لوگ ان حرمت والے مہینوں
کی حرمت و تقدس کا خاص خیال رکھتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ اپنی سہولت ومنشا کے موافق
اس میں ہیرا پھیری بھی کرتے تھے، جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ’’نسی‘‘ سے تعبیر کیا
ہے:
’’مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفر کی زیادتی
ہے، اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کافر ہیں، ایک سال تو اسے حلال کر لیتے
ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا کر لیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو حرمت رکھی ہے اس
کے شمار میں تو موافقت کر لیں پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے، انہیں
ان کے برے کام بھلے دکھا دئیے گئے ہیں اور قوم کفار کی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا۔‘‘
مشرکین
ان مہینوں کے اندر جنگ و جدال سے رک جاتے اور اپنے باپ کے قاتل کو بھی وہ ان مہینوں
کے اندر نظر انداز اور چشم پوشی کر دیتے تھے۔
لیکن
آج اگر ہمارے سامنے ماہ محرم کا تذکرہ ہوتا ہے تو ہمارے ذہنوں پر فوراً اس مہینہ کی
ایک الگ سی تصویر ابھرتی ہے، ماہ محرم کا شہادت حسینt سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ نتیجہ
ہے صرف سنت سے دوری کا کہ اس مہینہ کی اصلی حیثیت اور حقیقی اہمیت و فضیلت سے ہی ہم
ناواقف رہ گئے اور بدعات کو ہی حقیقی دین سمجھ لیا، نتیجۃً ہمارے معاشرے میں سنتوں
کی جگہ بدعتوں نے لے لی ہے اور یہ تصور کیا جانے لگا ہے کہ اس مہینہ کی فضیلت و اہمیت
کا گہرا تعلق شہادت حسینt کے ساتھ ہے، حالانکہ یہ واقعہ
آپe کی وفات کے تقریباً پچاس سال
بعد پیش آیا، جب ۱۰ محرم
۶۱ھ
کو میدان کربلا میں آپt مظلوماً شہید کر دئیے گئے۔
(البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر ۸/۱۷۲، ط: مکتبۃ المعارف بیروت، سن طبع ۱۴۱۰ھ/ ۱۹۹۰م) آخر ایسے کسی
خاص واقعہ کی وجہ سے کسی دن و مہینہ کی فضیلت و اہمیت کا تعلق دین اسلام کے ساتھ کیسے
ہو سکتا ہے جو واقعہ آپ کے اور خلفاء راشدین کے زمانہ کے بعد پیش آیا ہو؟ جب کہ اللہ
تعالیٰ نے آپ ہی کی زندگی میں
’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر
دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور بطور دین اسلام کو تمہارے لئے پسند کر لیا۔‘‘
اس مضمون کو پڑھیں:
فضائل ماہِ رجب
کہہ
کر دین کو کامل اور مکمل بنا دیا ہے۔ نبیe نے اپنے قول و عمل سے دین کے
ہر ہر مسئلہ کو واضح کر دیا ہے اور ہمیں حکم بھی دیا ہے:
’’تم لوگ میری سنت کو لازم پکڑو اور ہدایت یافتہ
خلفاء راشدین کی سنت کو۔ اور اسے اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھام لو اور دین میں نئی
چیزوں کے ایجاد کرنے سے بچو اس لئے کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
جہاں
تک یوم عاشوراء کی فضیلت و اہمیت کا تعلق ہے تو زمانہ جاہلیت میں قریش میں بھی اس کی
اہمیت و عظمت موجود تھی اور وہ اس دن کا روزہ بھی رکھتے تھے۔ (دیکھیں: صحیح بخاری حدیث
نمبر ۲۰۰۲)
یہود
بھی اس کی تعظیم کرتے تھے اور اس دن کو بطور عید مناتے اور روزہ رکھتے تھے۔ عبداللہ
بن عباسwکہتے ہیں کہ جب نبیe
مدینہ تشریف لے آئے تو یہود کو عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا،
آپ نے ان سے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے جس میں تم روزہ رکھتے ہو؟ تو انہوں نے جواب
دیا کہ یہ بہت بڑا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰu
اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، فرعون اور ان کی قوم کو غرق آب کیا
تھا، جس کے شکریہ میں موسیٰu نے روزہ رکھا تھا اور ہم بھی
روزہ رکھتے ہیں، تب آپe نے فرمایا کہ ہم موسیٰu
کی اتباع کے تم سے زیادہ حقدار ہیں، پھر آپ نے خود روزہ رکھا اور
لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (متفق علیہ، صحیح بخاری ۲۰۰۴، صحیح مسلم ۱۱۳۰ واللفظ
لہ)
نیز
اس روزہ کی آپe نے مختلف حدیثوں میں خصوصی
ترغیب بھی دی ہے۔
ابوقتادہt
فرماتے ہیں کہ رسول اللہe نے فرمایا:
’’عاشوراء کا روزہ، میں اس کے بدلے اللہ تعالیٰ
سے گذشتہ سال کے گناہوں کی بخشش کی امید کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۱۶۲، سنن ابی داؤد
۲۴۲۵،
سنن ابن ماجہ ۷۳۸
او صححہ الالبانی فی ارواء الغلیل ۴/۱۰۹)
جہاں
تک ماہ محرم اور یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت کا تعلق ہے تو وہ صرف صحیح کتاب و سنت
کی روشنی میں اس مہینہ کا ماہ حرام ہونا اور عاشوراء کے روزہ کا مشروع ہونا ہے جو گذشتہ
ایک سال کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیںکہ سیدنا حسینt
کی شہادت مسلمانوں کی تاریخ کا ایک المناک واقعہ ہے اور آپ کے محاسن
و مناقب بھی ہمیں تسلیم ہیں کہ نبی کریمe نے فرمایا تھا:
’’حسن و حسینw نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں۔‘‘
(جامع ترمذی، ابواب المناقب، باب مناقب ابی محمد الحسن بن علی بن ابی طالب والحسین
بن علی بن ابی طالبw، مسند احمد ۳/۳، ۶۲ و
۸۲،
وقال الالبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ رقم (۷۹۶ حسن
صحیح)
اس مضمون کو پڑھیں:
نماز کسوف
لیکن
اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم آپ کی شہادت کے نام پر جاہلانہ رسم و رواج کو فروغ
دیں اور اس مہینہ کو منحوس قرار دیں۔ اگر کسی جلیل القدر صحابی کی شہادت یا عظیم المرتبت
اشخاص کی وفات کے دن کو غم و الم کا دن قرار دے دیا جائے تو پھر سال میں کوئی ایسا
دن نہ بچے گا جس میں ہمیں مسرت و شادمانی نصیب ہو سکے اور مسلمانان عالم سکھ و چین
کا ایک پل بھی گزار سکیں۔ آپe کی زندگی میں ہی آپ کے چچا
حمزہt کو شہید کیا گیا، لاش کا مثلہ
تک کر دیا گیا، لیکن آپ نے کبھی بھی ان کی وفات پر ماتم نہیں کیا، نہ سینہ کوبی اور
نوحہ خوانی کی بلکہ آپ نے ان تمام چیزوں سے منع فرما دیا۔
کسی
کی وفات پر سوگ منانے کی اجازت شریعت کی جانب سے صرف تین دنوں تک دی گئی ہے، صرف بیوی
کے لئے اپنے شوہر کی وفات پر چار مہینہ دس دن تک سوگ منانے کی بات کہی گئی ہے، آپeکا
ارشاد گرامی ہے:
’’کسی عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان
رکھتی ہو، کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا حلال نہیں سوائے شوہر پر، وہ اس پر
چار مہینہ دس دن تک سوگ منائے گی۔ ‘‘(صحیح مسلم حدیث نمبر ۱۴۸۶)
واضح
رہے کہ ان تین دنوں میں صرف سوگ منانے کی اجازت دی گئی ہے نوحہ خوانی کرنے کی نہیں،
آپe نے فرمایا:
’’نوحہ کرنے والی عورت اگر بغیر توبہ کیے مر جائے
گی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اٹھائی جائے گی کہ اس کے جسم پر تارکول کا لباس اور
خارش کی قمیص ہوگی۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب الجنائز حدیث نمبر ۹۳۴، مسند احمد ۵/۳۴۲-۳۴۳)
رسول
اللہe نے فرمایا:
’’سب سے بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور سب سے
بہترین طریقہ آپe کا طریقہ ہے اور سب سے بری
چیز اس کے اندر ایجاد کردہ چیزیں ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب الجمعۃ
حدیث نمبر ۸۶۷)
اس
لئے ہمیں خیر الحدیث وخیر الہدیٰ کی اتباع کرتے ہوئے ان بدعات سے کوسوں دور رہنا چاہئے۔
No comments:
Post a Comment