سعودی عرب کا قومی دن اور تحفظ حرمین
تحریر: امیر محترم
سینیٹر پروفیسر ساجد میر﷾
سعودی عرب کا قومی دن ہر سال ۲۳ ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن ۱۹۳۲ء میں پیش آنے والے ان واقعات کی یاد کو تازہ کرتا ہے جب مملکت سعودی عرب کے بانی
شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعودنے ایک بکھرے ہوئے ملک کو متحد کیا اور اسلامی
اصولوں پر مبنی ایک متحدہ مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔ ۱۵ جنوری ۱۹۱۷ء میں شاہ عبدالعزیز نے دارالحکومت ریاض کو واگزار کروایا اور اپنے ورثے کو دوبارہ
حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے جس کی بدولت علاقے میں آل سعود کی حکمرانی واپس آئی
جہاں وہ دو ایسی مملکتوں پر حکمرانی کر چکے تھے جو جزیرۃ نما عرب اور اس کے باہر وسیع
علاقے پر محیط تھیں۔
یہ پڑھیں: مملکۃ التوحید والامن
سعودی عرب ایسے حالات میں یوم الوطنی منا
رہا ہے کہ جب بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص پورا خطہ عرب امن وسلامتی اور استحکام
کے براہ راست سنگین چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔
مغربی دنیا سعودی عرب کو ایک عرصے تک دہشت گردی اور انتہاپسندی کے ساتھ نتھی کرنے
کی کوشش کرتی رہی۔ بعض شدت پسند مختلف ممالک میں دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات میں جب ملوث پائے جاتے تو ان میں
بعض سعودی باشندے بھی نکلتے جس کی وجہ سے سعودی عرب کو عالمی دبائو کا بھی سامنا کرنا
پڑتا۔ اس کے علاوہ ایران اور یمن کے ساتھ سرحدی
کشیدگی نے حالات کو اور پیچیدہ کردیا ہے ۔اندرونی اور بیرونی ان تمام حالات ومسائل
کے تناظر میں ولی عہد محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ ’’ہم اپنی زندگیوں کے آئندہ ۳۰ سال ان تباہ کن
عناصر کی نذر نہیں ہونے دیں گے۔ ہم انتہا پسندی کو جلد ہی ختم کر دیں گے۔
سعودی عرب کی خارجہ پالیسی جغرافیائی، تاریخی، مذہبی، اقتصادی، امن و سلامتی، سیاسی
اصولوں اور حقائق پر مبنی ہے۔ اس کی تشکیل میں سب سے اچھی ہمسائیگی کی پالیسی، دوسرے
ملکوں کے داخلی امور میں عدم مداخلت، خلیجی ممالک اور جزیرہ عرب کے ساتھ تعلقات کو
مستحکم تر کرنا، عرب اور اسلامی ملکوں کے مفاد عامہ کی خاطر ان سے تعلقات کو مضبوط
کرنا، ان کے مسائل کی وکالت کرنا، غیر وابستگی کی پالیسی اپنانا، دوست ممالک کے ساتھ
تعاون کے تعلقات قائم کرنا اور عالمی و علاقائی تنظیموں میں مؤثر کردار ادا کرنا شامل
ہے۔
حرمین شریفین (مکہ اور مدینہ ) کی مقدس عبادت گاہوں کے خلاف سازشیں صدیوں سے چلی
آرہی ہیں۔ ابرہہ نامی ایک عیسائی نبی کریمe کی پیدائش سے تقریباً دو ماہ پہلے خانہ کعبہ کو ڈھانے
کے لیے حملہ آور ہوا تھا لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اْسکے مقابلے کے لیے ابابیلوں
(پرندوں) کی فوج بھیج دی جنہوں نے ابرہہ اور اْسکے لشکر پر سنگ باری کرکے اْسے رہتی
دنیا کے لیئے نشان عبرت بنا دیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ابرہہ نے یمن کے دارالسلطنت صنعاء
میں ایک عالی شان گرجا گھر بنا رکھا تھا اور چاہتا تھا کہ عرب کے لوگ خانہ کعبہ کی
بجائے اْسکے گرجا گھر کو اپنی عبادت کا مرکز بنائیں۔ جب یہ ممکن نہ ہو سکا تو اس نے
نعوذ باللہ خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کی ٹھان لی اور ہاتھیوں کی فوج لے کر آیا تو اللہ
تبارک و تعالیٰ نے پرندوں کے ہول در ہول بھیج دیئے جنہوں نے ایسی کنکریاں برسائیں کہ
ابرہہ اپنے لشکر سمیت نیست و نابود ہو گیا۔یہاں تک کہ ابرہہ سمیت اس کی فوج کا ایک
آدمی بھی زندہ نہ بچ سکا اور ہاتھیوں سمیت اِن کے جسموں کی بوٹیاں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر
زمین پر بکھر گئیں۔ ابرہہ نے خانہ کعبہ کو ڈھانے کا ناپاک ارادہ صرف مذہبی جنون میں
ہی نہیں کیا تھا بلکہ اس کی پشت پر کھڑی اس وقت کی عیسائی دنیا کو بحر احمر کی بحری
گزرگاہ پر مکمل تسلط درکار تھا کیوں کہ اس زمانے میں جس قوت کے ہاتھ میں بحری گزرگاہیں
ہوتی تھیں وہی عالمی اقتصادیات کی حکمرانی کرتی تھی۔
یہ پڑھیں: سیرت النبی ﷺ (دوم)
اسلام سے قبل چوں کہ خانہ کعبہ عربوں کا ثقافتی اور مذہبی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ
ان کا اقتصادی مرکز بھی تھا اس لیے منہدم کرنے کے لیے بڑے جواز کے طور پر ابرہہ نے
پہلے یمن میں قائم گرجا گھر کو خود ہی تباہ کیا اور پھر اسکا الزام عربوں پر لگا کر
اسلام سے پہلے بیت اللہ کو مٹانے کا ناپاک ارادہ ظاہر کیا لیکن وہ بیت اللہ کو تباہ
کر سکا اور نہ ہی اسلام کو مٹا سکا۔ بعض طاقتیں دنیا کے پرامن مذہب اسلام اور مسلمانوں
کی عبادت گاہ خانہ کعبہ کو مٹانے کے لیے آج ایک بار پھر ابرہہ کی تاریخ دھرانے کے
لیے سرگرداں ہیں۔یمن کے لوگ سعودی عرب کے ساتھ تاریخی ، ثقافتی اور مذہبی نہیں بلکہ
خاندانی سطح کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس ناطے یمنی عوام کی مدد کرنا ایک فرض ہے
تاکہ یمن کو اس کے اپنے قدموں پر کھڑا کیا جا سکے اور انہیں ایک خوشحال اور پرامن زندگی
کی طرف لوٹایا جا سکے۔ اسی مقصد کی خاطر ’’فیصلہ کن طوفان‘‘ کے نام سے آپریشن شروع
کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ یہ بیت اللہ کے تحفظ کی جنگ ہے۔
کسی بھی ملک میں اسلحہ کے زور پر اقتدار پر قبضہ کی خواہش کو دینی‘ سیاسی اور اخلاقی
لحاظ سے درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ہر ملک اپنے آئین اور دستورکے مطابق ریاستی امور
چلاتا ہے اور وہاں کے عوام مروجہ سیاسی نظام کے مطابق اپنے حکمرانوں کا چنائو کرتے
ہیں، بعض ممالک میں جمہوری طرز عمل ہے اور بعض کے ہاںصدارتی یا شاہی نظام چل رہا ہے۔
جس سے جہاں کے عوام خوش وہیں وہ نظام انکے ہاںدرست اور تسلیم سمجھا جاتا ہے، نظام اقتدار
کو اسلام یا کفر قرارنہیں دیا جاسکتا، مقصود عوام الناس کی فلاح وبہبود اور نظم اجتماعی
کا قیام ہونا چاہیے۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کے معمار اول ... شاہ عبدالعزیز آل سعودی رحمہ اللہ
پاکستان میں جمہوری طرز حکمرانی ہے اگر یہاں کبھی کسی گروہ نے نظام کے خلاف بغاوت
کا اعلان کیا یا اسلحہ کے زور پر اقتدار پر قبضہ کی خواہش ظاہر کی اسے عوا م نے برے
طریقے سے نظر انداز کردیا۔ سیاسی یا مذہبی جماعتیں جو پارلیمانی طرز سیاست پر یقین
رکھتی ہیں سب نے مل کر ایسی منفی سوچ کی آگے بڑھ کرمذمت کی۔یمن میں بھی حوثیوں کی
طرف سے اسلحہ کے زورپر اقتدار پر قبضے کی کوشش کی گئی جوقانونی اور اخلاقی لحاظ سے
درست قرار نہیں دی جاسکتی۔ یقینا اس طرح کاجارحانہ طرز عمل دنیا کا کوئی بھی ملک برداشت
نہیں کرسکتا۔ دنیا میں لسانی ،مذہبی ،گروہی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر اقتدار پر قبضے
کی روایات کے ہمیشہ خوفناک نتائج نکلے ہیں۔ وقتی طور پر اگر کسی نے اپنے زور بازو پر
یا اپنی دہشت سے قبضہ جمابھی لیا تووہ کبھی پائیدار نہیں رہا۔یمن کا مسئلہ یہ ہے کہ
اس کا ہمسایہ سعودی عرب ہے، جوحرمین شریفین کی وجہ سے ایک مقدس ریاست ہے جس کے ساتھ
دین اور اخوت کے رشتہ کی بنیادو پر کروڑوں مسلمانوں کے محبت وعقیدت کے جذبات ہیں۔یمن
کے ساتھ سعودی عرب کی ۱۸۰۰ کلومیٹر طویل سرحد
ملتی ہے۔جہاں سے اکثرحوثیوںکی طر ف سے تخریبی کا ررائیاں جاری رہتی ہیں اور سعودی عرب
میں مداخلت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔سعودی عرب کی یہ تشویش بجا ہے کہ انہیں اپنے اقتدارکی
نہیں بلکہ حجاز مقدس کو فتنوں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔یمن کا مسئلہ صرف سعودی عرب
کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مشرق وسطی کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی
اسکے منفی اثرات پڑیں گے۔ فرقہ وارانہ آگ کا الائو پوری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ
میں لے سکتا ہے۔پاکستان میں رہنے والے کروڑوں مسلمانوں،حکومت اور پاک فوج کی اس ضمن
میں تشویش بالکل بجا ہے۔ پاک سعودی دوستی ایمان اور دینی اخوت کے رشتے میں پروئی ہوئی
ہے۔سعودی عرب پر کسی بھی قسم کی جارحیت اور حملے کو یا پاکستان پر کسی قسم کی جارحیت
اور حملے کو دونوں ممالک اپنے اوپر حملہ تصور کریں گے اور برادر ملک کا اسی طرح دفاع
کیاجائے گا جس طرح اپنے ملک کی سرحدوں کا تحفظ کیاجاتا ہے۔
کہا جارہا ہے کہ یہ صرف یمن کا اندرونی مسئلہ ہے اس لئے سعودی عرب اور دیگر ملکوں
کو وہاں حملے نہیں کرنے چاہئیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حوثی باغی جو یمن کی آئینی
و قانونی حکومت کے خلاف مسلح کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں‘ انہوں نے یمنی دارالحکومت
صنعاء پر قبضہ کر لیا اور پھر عدن کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے یہ کہناشروع کر دیاکہ
وہ صرف یہاں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اگلا ہدف ان کا سعودی عرب ہے تو پھر سعودیہ
اور اس کے حامی ممالک کس طرح اس صورتحال سے لاتعلق رہ سکتے ہیں۔خلیجی ممالک اس بات
سے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ سعودی عرب کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں بھاری ہتھیاروں
کے ساتھ فوجی مشقیں بند کی جائیں‘ اگر اس کے باوجود سرحدوں پر خطرات کھڑے کئے جاتے
ہیں توکیا سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کو ایساکرنے والے باغیوں کی بغاوت کچلنے
اور اپنے ملک کے دفاع کا پورا حق حاصل نہیں۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کو قومی دن مبارک ہو
جہاں تک ایران اور سعودی عرب کے مابین اختلافات اور شیعہ سنی جنگ چھڑنے کی بات
ہے تو اس کا کوئی بھی حامی نہیں۔بڑی دیر سے صلیبی و یہودی کوشش کر رہے تھے کہ بیت اللہ
اور مسجد نبوی والی سرزمین سعودی عرب جس کا
دفاع ہر مسلمان اپنے عقیدے و ایمان کا حصہ سمجھتا ہے‘ کو عدم استحکام سے دوچار کیا
جائے۔ آج اگر صلیبی و یہودی خطہ میں فسادات کی آگ بھڑکاکرسعودی عرب کو کمزور کرنے
اور حرمین شریفین کو نقصانات سے دوچارکرنے کی سازشیں کر رہے ہیں تو سب ملکوں کو کلمہ
طیبہ کی بنیاد پر متحد ہو کرسرزمین حرمین الشریفین کا تحفظ کرنا چاہیے اور کسی کواس
حوالہ سے صیہونی سازشوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مسئلہ انتہائی حساس ہے۔
سعودی عرب کی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ہم سب آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔ سعودی
عرب کے دفاع کیلئے پاکستانی حکومت اور افواج پاکستان میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی
ہے اور وہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرمین شریفین کی سرزمین کے تحفظ کیلئے کسی قسم کی
قربانی سے دریغ نہیں کیاجائے گا۔ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو واضح طور پر پیغام
دینا کہ اسے پاکستانی بری، بحری اور فضائی افواج میں سے جتنی تعداداپنی مدد کیلئے درکار
ہوگی پاکستان امت مسلمہ کے روحانی مرکز کے تحفظ کیلئے ضرور پیش کرے گا، خوش آئند امر
ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانشورمخصوص ایجنڈے کے تحت اس حوالہ سے بھی
قوم کے ذہنوں میں انتشار اور خلفشار پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیںاور یمن میں باغیوں
کی قوت کچلنے کیلئے جاری آپریشن کے خلاف خواہ مخواہ کے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے
اس سے شیعہ سنی لڑائی کے پروان چڑھنے کی باتیں کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں
ہے۔جب حوثی باغی سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں کے ساتھ مل کر مسلح کارروائیاں
کر کے یمن کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر رہے تھے ’’ بے گناہوں کا خون بہایا جارہا
تھا‘‘ عدن کی جانب پیش قدمی اور سعودی عرب کو نشانہ بنانے کے ناپاک عزائم کا اظہارکیاجارہا
تھاتواس وقت ان دانشوروں کو یہ خیال کیوںنہیں آیا کہ ایسی باغیانہ سرگرمیوںکے خلاف
آواز بلند کی جائے؟ کیونکہ اس سے خطہ میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہو گی اور دشمنان
اسلام کو اپنے مذموم ایجنڈے پورے کرنے کا موقع ملے گا۔ یمن میں قطعی طور پر دو ملکوں
کی جنگ نہیں‘ وہاں باغی ایک منتخب حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں اور سرزمین
حرمین شریفین پر حملوں کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔حوثیوں کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جس
طرح پاکستان میں بعض گروہ پاک فوج اور حکومتی اداروں پر خودکش حملے اور بم دھماکے کررہے
ہیں۔ انہیں بھی طاقت و قوت کے ذریعے ہی کچلنا پڑے گا۔ ۔ یمن کی جنگ کو ایران اور سعودی
عرب کی جنگ نہیں سمجھنا چاہیے۔ بعض عناصر جب سعودی عرب کا نام سنتے ہیں تو ان کے تن
بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے۔ یہ ان کا نظریاتی تعصب ہے جس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ
لوگ ایک خاص نظریہ کے پیروکار ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے مفاد کے لئے غیر محسوس
طریقے سے سعودی عرب کو نشانہ بنا دیں گے۔
یہ پڑھیں: پاک سعودی تعلقات
ایران کی بیلسٹک میزائل تیاری کی صلاحیت علاقائی اور عالمی سالمیت کے لیے خطرہ
ہے۔ خطے میں ایرانی مداخلت قیام امن کی کوششوں کے لیے چیلنج ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ ایران
کو دوسرے ملکوں کے معاملات میں مداخلت سے باز رکھنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے۔
عالمی برادری سے اپیل ہے کہ وہ ایران کی تخریبی کارروائیاں روکنے کے حوالے سے اپنی
ذمے داریوں کا احساس کریں۔ حقیقی بات یہ ہے کہ سعودی عرب‘ ایران کی تخریبی کارروائیوں
کے بارے میں کوئی موقف نہ اپنا کر آج اس سطح پر پہنچا ہے ۔
ایران خطے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی آبیاری کرتا ہے جس سے تجارتی جہاز رانی
اور تیل کی عالمی سپلائی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ تہران کے یہ اقدامات اقوام متحدہ
کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ ایران چالیس برس سے خطے میں اپنے اثر ونفود اور
چودھراہٹ کو فروغ دینے میں کوشاں ہے۔ سعودی عرب خطے میں امن اور سلامتی قائم رکھنے
کا خواہش مند ہے۔ سعودی عرب جنگ کی ہولناکیوں سے بچنا چاہتا ہے ۔ امن کے لیے سعودی عرب ہمیشہ پیش قدمی
کرتا رہا ہے۔ماضی میں سعودی عرب امن واستحکام کو لاحق خطرات اور چیلنجز سے احسن طریقے
سے نمٹتا رہا ہے۔ وہ اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے ملک میں اقتصادی وسماجی ترقی کو
یقینی بنانے میں کامیاب رہا۔ اللہ کے خصوصی فضل واحسان کے ساتھ سعودی عرب آئندہ بھی
تمام چیلنجز سے مل کر عزم اور حوصلے کے ساتھ لڑے گا۔ ایرانی رجیم کی جانب سے خطے کے
ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت، اس کے جوہری اور میزائل پروگرام، آزادانہ تجارتی
جہاز رانی کو لاحق خطرات، تیل بردار عالمی بحری جہازوں کو دھمکانے کا معاملہ اقوام
متحدہ اور بین الاقوامی امن وسلامتی کے اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
ایرانی رجیم چار عشروں سے دہشت گردی کی سرپرستی کرکے خطے میں بدامنی اور عدم استحکام
پیدا کر رہی ہے۔ خطے میں اس کا اثر ونفوذ اور غلبے کی جستجو ناقابل قبول اور بین الاقوامی
قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔حال ہی میں ایرانی رجیم نے اپنے ایجنٹوں کی مدد سے مجرمانہ
اقدامات کے ذریعے برادر ملک متحدہ عرب امارات کے قریب علاقائی پانیوں میں چار تجارتی
جہازوں پر بین الاقوامی تجارتی بحری گذر گاہ میں حملہ کیا۔ سعودی عرب میں تیل اور دیگر
تنصیبات پر حملے کیے۔
یہ پڑھیں: سعودی سفیر جناب نواف بن سعید المالکی﷾ کی مرکز 106 راوی روڈ آمد
مملکت سعودی عرب خطے کے امن، خوشحالی، ترقی اور استحکام کی خواہاں ہے۔ سعودی عرب
ہرصورت میں جنگ کی ہولناکیوں سے بچنا، خطے کی تمام اقوام کے لیے امن،استحکام اور خوشحالی
چاہتا ہے۔ ہم ایرانی قوم کے لیے بھی خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سعودی عرب نے ہمیشہ
امن کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ سعودی عرب کے فرماں رواں شاہ سلمان بن عبدالعزیز
خطے میں ایران کے کسی بھی تخریبی عمل کا مقابلہ پوری قوت اور عزم سے کریں گے۔ عالمی
برادری کو چاہیے کہ ایران کی خطے اور عالمی سلامتی کو خطرات میں ڈالنے کی سازشوں کا
نوٹس لے۔ تہران کو دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے روکنا، دہشت گردی
کی پشت پناہی سے باز رکھنا اور بین الاقوامی جہاز رانی کی آزادانہ نقل وحمل کو یقینی
بنانا ہو گا۔
No comments:
Post a Comment