شاہ فیصل مرحوم کا تاریخی خطاب
تحریر: جناب مولانا
حمید اللہ خاں عزیز
شاہ فیصل شہیدa عالم اسلام کے باہمت رہنما اور سعودیہ کے غیرت مند باکردار حکمران
تھے۔انہوں نے ۱۹۶۹ء/
۱۳۸۹ھ
میں حجاج کرام سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ’’بیت المقدس کی آزادی کے لئے میں
شہادت کی موت کی تمنا کرتا ہوں۔‘‘ ان کا مومنانہ کردار اور پاکیزہ نقوش سیرت آج
بھی امت مسلمہ کے حکمرانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج جب کہ بعض
اسلامی ممالک کی طرف سے عالمی بدمعاش اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں
تو ان حالات میں حضرت شاہ فیصل شہید مرحوم ومغفور کا یہ یادگار خطاب امت مسلمہ کے
حکمرانوں کے لئے تازیانہ عبرت کا درجہ
رکھتا ہے۔ان کے خطاب کا ایک ایک لفظ اثر رکھتا ہے۔سطور ذیل میں ان کا یہ خطاب درج
کیا جاتا ہے:
یہ پڑھیں: سعودی عرب کا قومی دن
بسم اللہ الرحمان الرحیم
برادران
اسلام!آپ سب لوگوں پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔اس مقدس موقع پر میں اس محفل کے ایک
فرد اور اس ملک کے ایک شہری کی حیثیت سے،جسے اللہ رب العزت نے مقامات مقدسہ کی
خدمت اور مقدس خانہ خدا کی زیارت کے لئے آنے والوں کی دیکھ بھال کا فریضہ سونپا
ہے،اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کا خیر مقدم کرتے ہوئے خوشی اور فخر محسوس کرتا
ہوں۔ہمارے دل اخوت اسلامی کے جذبے سے معمور ہیں اور ہم دینی اعتبار سے ایک کڑی میں
مضبوطی کے ساتھ منسلک ہیں۔مقدس خانہ کعبہ میں بہ سلامت آنے والے اپنے تمام
برادران اسلام کو میں مبارک باد دیتے ہوئے اللہ رب العزت سے ملتجی ہوں کہ وہ ان
حضرات کے حج کو قبول فرمائے،انہیں ان کی مخلصانہ ریاضت وعبادت کے انعام سے نوازے
اور ان کے گناہوں کو معاف فرمائے۔
میں
اللہ بزرگ وبرتر سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ہم صحیح معنوں میں اسلام کے پیروکار
بنیں۔
برادران
اسلام!اگر میں یہ کہوں کہ آپ کے اپنے اس ملک کے شہریوں کے لئے سب سے زیادہ خوشی
کا دن وہ ہے جس میں آپ ان کے درمیان رہ کر آرام وآسائش کے ساتھ حج کے تمام
ارکان انجام دیں تو حقیقت کے خلاف بات نہ ہو گی۔
یہ پڑھیں: سعودی سفیر نواف بن سعید المالکی کی مرکز اہل حدیث لاہور
آمد اور خطاب
پیارے
بھائیو! مجھے یقین ہے کہ اس وقت ہمیں اپنے ملکوں میں جو خوش حالی حاصل ہے،اس کی
بناء پر ہم مسجد اقصی کو نہیں بھولیں گے،جو اسلام کا قبلہ اول اور پیارے پیغمبر
محمدe کے نزدیک بڑا مقدس مقام ہے۔ایک جارح گروہ نے
اس مقدس مقام کو جارحیت کا شکار بنایا ہے۔ اس کی بے حرمتی اور احکامات الٰہی کی
خلاف ورزی کی ہے۔انہوں نے خود اپنے نبی سیدنا موسیٰu کے ایک حکم کو جھٹلایا تھا کہ وہ شہر میں
داخل ہو کر اللہ کے لئے جہاد کریں، کیوں کہ اللہ تعالی کی طرف سے سیدنا موسیٰu کو ایسا ہی حکم ملا تھا لیکن انہوں نے اپنے نبی کا حکم نہیں مانا
اور کہا:
’’آپ
اور آپ کا رب جائیں اور لڑیں،ہم تو یہیں رہیں گے۔‘‘
ربانی
احکام کی اس سے بڑی خلاف ورزی اور کیا ہو سکتی ہے؟ہم ایسے لوگوں سے کیا توقع رکھ
سکتے ہیں، جو بدقسمتی سے آج کل ذاتی خواہشات کا شکار ہیں۔ جو صحیح عقائد اور تمام
اخلاقی اصولوں کی بیخ کنی کر کے ان کی جگہ انتشار وبدعنوانی،بداخلاقی اور جرائم کو
بڑھا رہے ہیں۔ان سب جرائم کی ذمہ داری اس مجرم گروہ پر ہے جو اپنی بالا دستی اور
اثر کو نہ صرف عربوں پر بلکہ پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔میں نے صرف
عربوں کا اس لئے ذکر کیا ہے کیوں کہ یہ گروہ اس وقت صرف عرب سرزمین پر ہر قسم کے
جرائم کر رہا ہے۔ وہیں عالمی ضمیر اور انسانیت کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی میں
مشغول ہے۔تاہم سرزمین عرب صرف عربوں کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں اور اللہ پر یقین
رکھنے والوں کی ہے،جو دہریت،فساد وبداخلاقی اور جرائم سے خوف زدہ ہیں۔
پیارے
بھائیو!اس وقت مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اسلام کے قبلہ اول مسجد اقصی کے
ساتھ کیا سلوک ہو رہا ہے اور کس طرح اس کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔انہوں نے اپنے طرز
عمل سے ساری دنیا پر ظاہر کر دیا ہے کہ مقامات مقدسہ کا ان کے دلوں میں کوئی
احترام نہیں۔
برادران!ہم
کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں؟کیا ہم عالمی ضمیر کا انتظار کریں کہ وہ کچھ کرے گا۔لیکن
وہ ضمیر کہاں ہے؟جو ان زیادتیوں اور نافرمانیوں کو دیکھ سکے،جو کچھ وہ کر رہے ہیں۔اس
پر دنیا کا ضمیر بیدار نہیں ہوا۔ انہیں اللہ کے سامنے تو شرمندہ ہونا چاہئے۔اس کے
بادجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ جارحین کو اپنے مظالم اور اپنے جرائم کے لئے بہت سے
مواقع پر حمایت حاصل ہوئی ہے۔
یہ پڑھیں: سعودی عرب کا قومی دن اور تحفظ حرمین
پیارے
بھائیو!یروشلم کا مقدس شہر (بیت المقدس) آپ کو پکارتا ہے کہ آپ اس کو اس کی بے
حرمتی سے بچائیں،اپنے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کب تک برداشت کریں گے،کیا ہم مرنے
سے ڈرتے ہیں؟کیا اس سے کوئی بہتر موت ہے کہ ہم اللہ کی خاطر جہاد میں جان دیں؟
پیارے
برادران اسلام! ہم ایک خالص اسلامی جہاد چاہتے ہیں،جو قومی یا نسلی بنیاد پر نہ
ہو۔کیوں کہ اس جہاد کا مقصد ہمارے عقیدہ اور مذہب کا اور مقامات مقدسہ کی حفاظت
کرنا ہے۔میں اللہ تعالی سے مقدس جہاد میں ایک شہید کی موت مرنے کی التجا کرتا ہوں۔
پیارے
مسلمان بھائیو! جن شدید جذبات کا میں نے اظہار کیا ہے،آپ ان کے لئے مجھے معاف
فرمائیں،اس لئے کہ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ہمارے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کی
جائے۔میں صدق دل سے ملتجی ہوں کہ اگر میں ان مقامات مقدسہ کے تحفظ کے لئے جہاد کے
لئے تیار نہیں ہوں، تو وہ مجھے ایک لمحہ کے لئے بھی زندہ نہ رکھے۔میں تمام دنیا کے
مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس معاملہ کو تمام دوسرے معاملات پر ترجیح دیں۔اپنے
اختلافات کو بھول جائیں اور پوری طرح متحد ہو جائیں۔جہاد کے لئے اللہ کی آواز پر
لبیک اور مجرموں کے گروہ کے ہاتھوں سے بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لئے اپنے تمام
وسائل کو مجتمع کریں۔
ہر
مسلمان ملک میں اتحاد واشتراک کی فضا پیدا ہونی چائیے۔کیوں کہ اللہ کی راہ میں کئے
جانے والے جہاد کے لئے یہ اتحاد ضروری ہے۔اگر ہم اللہ کے احکام کی پابندی کریں گے
تو کامیابی کا سہرا ہمارے سر ہو گا۔
پیارے
بھائیو! اس مقدس سرزمین پر میں پھر آپ کا ایک بار خیر مقدم کرتا ہوں اور اللہ سے
دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں نیک کاموں میں ایک دوسرے کے تعاون کی توفیق دے اور غلط
کاری اور جارحیت سے بچائے۔ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ کے فضل وکرم سے ایک سال بعد ہم
پھر ملیں گے،اس وقت تک دغاباز جارحین کے نشانات بھی مقدس سرزمین سے مٹ چکے ہوں
گے۔ہمارے فلسطینی بھائی آزادی کا سانس لے رہے ہوں گے اور اللہ کی راہ میں اپنے
مسلمان بھائیوں کے ساتھ تعاون کر رہے ہوں گے۔اس کے لئے پختہ ایمان،مستحکم
ارادہ،نفس کشی اور اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم ذاتی خواہشات سے بالا اور باہمی نفرت
سے دور ہوں اور بے کار بحثوں میں وقت ضائع نہ کریں۔کیوں کہ یہی تمام باتیں مصائب
کا موجب ہوں گی۔ہمیں اللہ کے لئے متحد ہو کر جہاد کرنا چاہیے، اس کے لئے ضرورت ہے
کہ ہم باہمی تنازعات اور تخریبی نظریات سے دور رہیں۔ ہمارے لئے بہتر ہے کہ اپنی
مقدس سرزمین کی توہین کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنی تمام قوتیں یکجا کر دیں
اور آپس میں ایک دوسرے کے خلاف چال بازیوں اور تفرقہ اندازیوں سے دور رہیں۔
یہ پڑھیں: مملکۃ التوحید والامن
میں
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں ہمارے مقاصد میں کامیاب کرے اور ایک بار پھر ہمیں
اس طرح متحد کر دے کہ ہم بنی نوع انسان کی ایک بہترین برادری بن جائیں۔ہمارا مقصد
کسی کے خلاف جارحیت کرنا نہیں ہم صرف اپنے ہڑپ کئے ہوئے علاقے کو واپس اور اپنے
وقار کو لوٹانا چاہتے ہیں کہ ہم امن وامان کے ساتھ اپنے ملکوں میں اللہ کی یاد کر
سکیں اور سرکار دوجہاں حضرت محمدe کی احادیث پر عمل کریں اور قرآن مجید کے
مطابق اپنے دونوں جہانوں کو سنواریں۔‘‘