پروفیسر عبدالرحمن لدھیانویa
تحریر: جناب ڈاکٹر
سعید احمد چنیوٹی
۳جون کی صبح علمی
اور دینی حلقوں کی معروف شخصیت جناب پروفیسر عبدالرحمٰن لدھیانوی کی وفات کی خبر
بجلی بن کر گری اور سکتہ طاری ہوگیا کہ اللہ ہماری جماعت سے کیا لغزش ہوگئی۔ ہمیں
معاف فرما کہ ہم کار آمد افراد کی صلا حیتوں سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھا سکے‘ شاید
ہمیں اس ناقدری کی سز ا مل رہی ہے کہ تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت کے معروف شیوخ الحدیث
علماء اور سکا لرخطباء یکے بعد دیگرے ہم سے جدا ہورہے ہیں۔
یہ پڑھیں: مدیراعلیٰ بشیر انصاری مرحوم سے ایک یادگار انٹرویو
امسال پے درپے صدموں کی بناء پر جماعت اہلحدیث کے لئے ’’عام الحزن ‘‘کی صورت
اختیار کرگیا۔ قافلہ حریت سے بچھڑنے والایہ راہی اکیلاہی نہیں بلکہ تھوڑے عرصہ میں
کا روان کتاب وسنت کے عظیم حدی خواں ہم سے رخصت ہوگئے۔ اس قحط الرجال کے دور میں ایسے
رجال کی وفیات ملک،جماعت اہلحدیث اور خصوصا علمی حلقوں کے لئے عظیم صدمہ اور
ناقابل تلافی نقصان ہے اور اس خلاکو پر کرنے کیلئے نعم البدل نہ سہی بدل کی تلاش
کریں ۔
گذشتہ چند ماہ میںجامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید
ہزاروی‘ مولا نا عبد الحق محدث ملتانی کے خاندان کے چشم وچراغ جید عالم دین مولانا
انیس الحق افغانی، پروفیسر ثناء اللہ خان خطیب پونچھ روڈ لاہور‘ شیخ الحدیث مولانا
عبدا لرشید راشد ہزاروی، استاذالقراء قاری یحییٰ رسول نگری ،شیخ الحدیث جامعہ سلفیہ
مولانا یونس بٹ رحمہم اللہ علیہم اجمعین، قاری محمد ادریس عاصم کی اہلیہ محترمہ‘ شیخ
الحدیث حافظ عبد اللہ رفیق لوکوورکشاپس لاہور کی اہلیہ محترمہ رحمھما اللہ اور اسی
طرح ملک کے اطراف وکنا رسے علماء وخطباء کی وفیات کی خبریں سنائی دیتی رہیں۔
اس قسم کی اجتماعی وفیات اور پے درپے صدمات کے باوجود ایک با ت حوصلہ افزاء ہے
کہ علماء واساتذۃ کے تلامذہ ، عقیدت مند ، علم کے قدر دان موسم کی شدت کے باوجود
دور دراز کے پیچیدہ سفر طے کرکے جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچے ،جس سے لوگوں میں
علماء کی محبت کا جذبہ فروغ پذیر ہو ا۔ دوران جنازہ لوگوںکی آہوں، سسکیوں، اور
دعاوؤں کی آوازیں پرنم آنکھیں اور بھرائی ہوئی آواز یں علماء سے محبت کا اظہار
کررہی تھیں۔
یہ پڑھیں: مفسر قرآن الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ
حضرت پروفیسر صاحب کی وفات کی خبر دیر سے موصول ہوئی ۔لاہور میں جنازہ کے لیے
وقت کم تھا‘ معلوم ہوا کے دوسرا جنازہ ان کے آبائی گاؤں ضلع وہاڑی میں ہوگا۔ دور
دراز کا سفر، ملکی اور موسمی حالات کی ناموافقت نے حوصلہ پست کردیا ،مگر پروفیسر
عتیق الرّحمٰن نے گاڑی اور ڈرائیونگ کا وعدہ کرتے ہوئے حوصلہ دیا۔ جناب حافظ عبد
السلام صدیقی اورچچا جان حافظ محمد زبیرصاحب کی معیت میں ۳ بجے فیصل آباد
سے روانہ ہوئے اور ۳۰:۹ بجے پروفیسر صاحب کے آبائی گاؤں چک
166/E.D ماچھیوال پہنچے جو وہاڑی سے ۱۸ کلومیٹر پہلے ہے ۔ رات کے خاموش ماحول اورکھلے گراؤنڈ میں انتہائی نظم و ضبط
سے صفیں بنا کر لوگ پروفیسر صاحب کے دیدار کے لئے بے تاب کھڑے تھے۔ کچھ علماء انہیں
خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی خدمات علمیہ وتعلیمیہ کا ذکر کرتے ہوئے آبدیدہ
ہورہے تھے۔ ہر طرف ان کی اخلاقیات،خدمات ، جماعتی سرگرمیوں ، تبلیغی کاوشوں کے
زمزمے سنائی دیے۔ ایک شخص نے ذکرکیا کہ مجھے پروفیسرصاحب کی جماعتی خدمات کا عملی
تجربہ اس وقت ہوا جب میاں جمیل صاحب کے دور نظامت میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کی مجلس
شوریٰ کا دوروزہ اجلاس کوئٹہ میں ہوا۔لاہور سے بذریعہ ٹرین کو ئٹہ جانا تھا تو اس
کے انچارج حضرت پروفیسر تھے۔ لاہور سے کوئٹہ تک جس تندہی سے انہوں نے ارکان کی
خدمت کی وہ بے مثال یاد گار تھی جس کے اثرات آج تک ذھن پر ثبت ہیں ۔
جماعتی وتنظیمی سرگرمیاں :
پروفیسر صاحب عملی زندگی میں قدم رکھتے ہی جماعت کیلئے وقف ہوگئے۔ ہردم ہر قدم
،تنظیم میں، اجلاسوں میں ، جلسوں اور اجتماعات میں تنظیمی سرگرمیوں میں رواں دواں
نظرآئے ۔ کسی سے تعارف محبت، میل جول ،دعوت وضیافت جماعتی نقطہ نظر سے یہاں تک کہ
اپنی ملازمت سرکاری عہدہ بھی جماعتی خدمت کے لیے وقف تھا ۔ڈی پی آئی کالجز پنجاب
(لائبریرین) کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی طرح دیگر عہدوں کے چارج بھی ان کے پاس رہے ۔
مگرتواضع انکساری میں ذرہ برابر فرق نہ آیا ۔ دفترمیں آنے والے سائل نے جماعتی
تعارف کروایا توا س کے لئے ہمہ تن گوش ،اس کی بات سننا ، ہرممکن اس کی معاونت اور
سہولت فراہم کرنے کے لئے قطعًا تامل نہ کرتے ، بعض مرتبہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر خود
متعلقہ آفیسر کے پاس جاتے اور اس کی تکمیل تک سر گرم رہتے ۔ اس کا تجربہ بذات خود
راقم الحروف کو ہوااور جنازہ کے موقعہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے ذکرکیا کہ ایک
مرتبہ کام کے سلسلہ میں دفتر ڈی پی آئی کالجز جاناہوا ، تو پروفیسر صاحب کے کمرے میں
ملاقات کی‘ کام بتایا تو پروفیسر صاحب بذات خود اپنی نشست سے اٹھے اور متعلقہ آفیسر
کے کمرے میں کھڑے کھڑے تعارف کروایا اور فوری کام کی تعمیل کے لئے کہا‘ اس نے جلدی
میں متعلقہ فائل پکڑی اور دستخط کرکے میرے حوالے کردی ۔ گھر جاکر دیکھا تو اس میں
ایک اور فائل بھی جس میں دفتر کے کچھ ضروری کاغذات تھے جنہیں بعد میں واپس کیا گیا۔
یہ پڑھیں: شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید ہزاروی رحمہ اللہ
رفاہی خدمات :
پروفیسر صاحب کے دفتر کے رفقاء اور درجہ چہارم کے ملازمین سے ملنے کا موقعہ
ملا تو ان کے بقول پروفیسرصاحب دکھ درد میں سب کے ساتھ شریک ہوتے اور حسب ضرورت
تعاون کرتے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کے ساتھ رابطہ رکھتے۔ ۲۰۱۸ء گرمیوں کی تعطیلات میں جمعیت اساتذہ کے تفریحی ٹور میں دو دن پروفیسر لدھیانوی
کے ساتھ ایک ہی نشست پر اکھٹے سفر کرنے کا موقعہ ملا۔مری گلیات خیبر پختونخواہ تک
جماعتی اجتماعات ،کھانے اور پھر تفریحی مقامات پرجانے کا موقعہ ملا۔ مجھے مخاطب
کرکے فرمانے لگے کہ حوصلہ افزائی کی وجہ سے نوجوانوں سے سفر کا وعدہ کرلیا ورنہ
اتنا طویل سفر دشوار ہے‘ بہت اچھا ہوا آپ
کی رفاقت میسر ہوگئی‘ سفر دلچسپ رہے گا ۔چنانچہ ایک دو ظریفانہ لطیفوں کا تبادلہ
ہوا جس کا ذکر انہوں نے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ اور جامعہ اثریہ جہلم کے خطابات میں
کیا‘ احباب بہت محظوظ ہوئے۔
دوران سفر انہوں نے بتایاکہ جامع مسجد اہلحدیث رام گڑھ سے ملحقہ چند کمرے
مہمانوں کے قیام وطعام کے لیے وقف ہیں‘ دوردراز سے آنے والے جماعتی نوجوان طلبہ جو
تعلیم اور ملازمت کی غرض سے لاہور آتے ہیں انہیں اقامت کی سہولت دی جاتی ہے اسی
طرح متعلقہ دفاتر اور تعلیمی درسگاہوں میں ان کی راہنمائی بھی کی جاتی ہے۔ خاص طور
پر گلگت اور بلتستان سے آنے والے اکثر نوجوان ہمارے ہاں قیام کرتے ہیں ۔ پروفیسر
صاحب اس قسم کی خدمات سر انجام دے کر خوش ہوتے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی
خدمات دینیہ اور مساعی جمیلہ کو قبول فرماکر ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی
لغزشوں کو معاف فرمائے ۔ان کے خاندان عزیز و اقارب کو صبر جمیل عطافرمائے ۔آمین!
یہ پڑھیں: شیخ الحدیث مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ
جنازہ کے موقعہ پر ان کے صاحبزادہ مکرمی عبدالمنان صاحب سے ملاقات ہوئی ۔اللہ
تعالیٰ انہیں اپنے باپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!