اپوزیشن کی APC
گذشتہ دنوں وطن عزیز پاکستان کی اپوزیشن پارٹیز یعنی حزب اختلاف کی نمایاں
جماعتوں کا ایک بہت بڑا اور نمائندہ اجتماع اسلام آباد میں منعقد ہوا۔
کسی بھی ملک یا نظام میں حزب اختلاف کا جو وجود ہوتا ہے وہ نظام کو صحیح سمت میں
چلانے کے لیے بہت ضروری ہے‘ ورنہ ارباب اقتدار بے لگام گھوڑے کی طرح من مانیاں
کرتے ہیں۔ حزب اختلاف اگر ملکی مفاد اور عوامی ضروریات پر رائے دے اور حکومت کی
توجہ مبذول کرائے تو یہ اس کی ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس کی تجاویز کی روشنی میں
اصلاح احوال حکومت کے فرائض میں سے ہے۔
یہ پڑھیں: اداریہ ... تحفظ ناموس صحابہ]
اس مرتبہ حزب اختلاف پہلے سے زیادہ متحرک اور متحد نظر آتی ہے۔ اس کا اتحاد
اور متحرک ہونا عوام اور ملک کے لیے خوش آئند امر ہے۔ لیکن حکومت اس اتحاد پر طعن
کر رہی ہے اور اتحاد کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ حکومت کی ذمہ داری
یہ ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد نے جن کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے حکومت ان کا مداوا کرے
اور اپوزیشن کی تجاویز کو سراہے نہ کہ طعن وتشنیع کرے۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہو
رہا ہے‘ مہنگائی کا جن بے قابو ہے‘ ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں‘ تعلیم کا شعبہ کسی
حد تک بند ہے اور صحت کے شعبے کی حالت بھی ابتر ہے جس پر کرونا کے دور میں سب سے زیادہ
خرچ کے دعوے کیے گئے اور اسی شعبے کے حوالے سے سابق حکومتوں کے خوب لتے لیے گئے۔
سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے رہنما نے اس اجتماع سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب بھی
کیا‘ وہ تین دفعہ ملک کے وزیر اعظم اور اس سے پہلے وزیر اعلیٰ پنجاب رہ چکے ہیں۔
ان کا قدرے صحتیاب ہونا خوش کن امر ہے‘ ان کی صحت پر بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں
جو خود بیمار ذہنیت کی علامت ہیں۔ صحت اور بیماری پر سیاست نہایت نا مناسب اور
نفرت کی سیاست ہے۔
خطاب کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ وغیرہ بے جا اعتراضات ہیں غور کرنے کی بات صرف یہ ہے
کہ جو زیادہ عرصہ اقتدار میں رہے‘ انہیں ملکی ضروریات اور عوامی مفادات کا ان سے زیادہ
علم ہے جو پہلی مرتبہ بنے یا بنائے گئے ہیں۔
اپوزیشن کے اتحاد سے خبردار ہو کر حکومت کو اپنی کارکردگی بہتر بنانا ضروری
ہے۔ کیا اس اجتماع نے کوتاہیوں کی نشاندہی نہیں کی؟ کیا ملک کی مختلف جماعتوں کے
سربراہان نے ملک کی معکوس ترقی اور گرتی ہوئی شناخت بہتر کرنے پر حکومت کو راستہ
نہیں دکھایا؟ یہ تجربہ کار اور بیدار مغز لوگ کیا بلاوجہ اکٹھے ہو گئے کہ ان کا
اکٹھ حکومت کو ناگوار گذر رہا ہے؟ کیا ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنے بڑوں کے تجربات
وآراء سے فائدہ اٹھائیں؟!
یہ پڑھیں: اداریہ... ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
اس سارے عمل‘ کاوش اور کوشش پر رد عمل میں حکومت کی طرف سے مثبت رویہ دیکھنے میں
نہیں آیا‘ اصلاح احوال کی بجائے بعض غیر منتخب حکومتی عہدیداران (جن کی نامزدگیاں
بھی شاید اس لیے ہوئی ہیں) طعن وتشنیع کے نشتر چلانے لگے ہیں‘ اردو کے ایک پرانے
شعر کے تناظر میں منظر کچھ یوں ہے ؎
کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو
کس دن ہمارے سر پے نہ آرے چلا کیے
گویا اپوزیشن کو نیچا دکھانے کے لیے مختلف حربے آزمائے جا رہے ہیں۔ ان کی پگڑیاں
اچھالی جا رہی ہیں۔ ذاتیات پر ناروا حملے کیے جا رہے ہیں‘ کسی کو چور یا بدعنوان
کہنا تو تکیۂ کلام بن گیا ہے اور وہ بھی بلاثبوت۔
ایک نیا تمغہ ملک دشمن ہونے کا بھی ایجاد کر لیا گیا ہے اور اس کو یہ تمغہ دیا
جا رہا ہے جو تین مرتبہ ملک کا وزیر اعظم رہ چکا ہے اور عوام کی بڑی تعداد نے اسے
منتخب کیا۔ کبھی نامزد نہیں کیا گیا۔ یہ تمغہ ایجاد کرنے والے کی عقل پر سوائے
افسوس کے کیا کیا جا سکتا ہے؟!
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپوزیشن کو دبانے کے لیے ان کے خلاف محض سیاسی بنیادوں
پر مقدمات قائم کیے جائیں۔ اس لیے ملکی اداروں کو استعمال کرنا کسی بھی طرح روا نہیں‘
یہ غلط روایت جنم لے رہی ہے۔ ملکی ادارے ملک کے ہیں عوام کے ہیں‘ ہم سب کے ہیں‘ ان
کا احترام اور ان کا وقار برقرار رکھنا حکومت اور اپوزیشن کی یکساں ذمہ داری ہے۔ یہ
ادارے کسی کی ذاتی ملکیت ہرگز نہیں ہیں۔ مقتدر حلقے غور کریں کہ اداروں کے غلط
استعمال سے ان کی جو بے توقیری اور آئندہ اللہ نہ کرے عدم احترام کی راہ کھل جائے
گی تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟
اپوزیشن کے اس نمائندہ اجتماع میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر محترم
علامہ سینیٹر پروفیسر ساجد میرd کو وفد سمیت خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ اراکین وفد میں مرکزی
ناظم اعلیٰ جناب سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریمd‘
چیف آرگنائزر جناب حافظ ابتسام الٰہی ظہیر اور ایڈیشنل سیکرٹری جنرل جناب رانا
محمد شفیق خاں پسروری شامل تھے۔ امیر محترم متعدد بڑے اجتماعات اور پریس کانفرنسوں
میں دو ٹوک الفاظ میں واضح کر چکے ہیں کہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان مکمل طور
پر عوامی اور ملی مفادات کی خاطر اپوزیشن کی تحریک کے ساتھ ہے۔ گذشتہ دنوں اسی
حوالے سے متحدہ اپوزیشن نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ’’PDM‘‘ کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا ہے‘ امیر محترم علامہ ساجد میرd کو اس کا مرکزی نائب صدر اور ڈاکٹر حافظ عبدالکریمd کو اس کا مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل منتخب کر لیا گیا ہے۔
یہ پڑھیں: اداریہ... سعودی عرب کا قومی دن
جہاں ’’PDM‘‘ کا قیام خوش آئند ہے وہاں ہم توقع اور اپیل
کرتے ہیں کہ حکومت اپوزیشن کی تحریک اور تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے۔ اسے دبانے یا
تصادم کی پالیسی سے پوری طرح گریز کرے تا کہ عوام کی فلاح اور پاکستان کی خیر کا
سفر جاری رہ سکے۔