سورۂ فاتحہ کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا
(دوسری وآخری قسط) تحریر: جناب مولانا
امیر شاکر
عمرو بن دینار
اور عکرمہ کا قول الانصاف میں مذکور ہے کہ ابن عباسw صحابہ کرام] میں بڑے درجے کے مفسر قرآن شمار ہوتے تھے۔
آپ کے حق میں عبداللہ بن مسعودt فرماتے ہیں کہ
یعنی ’’سیدنا
ابن عباسw قرآن کے بہترین ترجمان ہیں۔‘‘ (التہذیب: ج۵، ص ۲۲۸)
یہ پڑھیں: سورۂ فاتحہ کے شروع میں ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھنا (پہلی قسط)
اور رسول اللہe نے ان کے حق میں دعا کی تھی کہ
یعنی اے اللہ! اس کو حکمت (دانائی‘
فہم سنت) سکھا یا اللہ! اس کو قرآن سکھا۔ (البخاری: ج۱، ۵۳۱)
تو پھر ایسے عظیم
مفسر کا اس مسلک کو اختیار کرنا اس کو بڑی تقویت پہنچاتا اور اس حدیث کو بھی صحیح
ثابت کرتا ہے۔ مزید برآں اس عمل میں سیدنا ابن عباسw کو جہر کے قائلین میں شمار کرتے ہیں۔
جبریلu بحکم الٰہی رسول اللہe کو نماز کا طریقہ اور اوقات بتانے آتے رہے‘
تفصیل صحاح ستہ میں موجود ہے۔ یہی روایت دارقطنی اور درمنثور میں بھی موجود ہے۔
مختصرا ملاحظہ فرمائیے:
یعنی سیدنا ابوہریرہt فرماتے ہیں کہ رسول اللہe کا ارشاد مبارک ہے کہ مجھ کو جبریلu نے آکر اس طرح نماز سکھائی کہ کھڑے ہو کر اللہ اکبر کہا پھر قراء
ت شروع کی۔ ہر جہری رکعت میں بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھی۔ (دارقطنی،
در منثور)
دوسری گواہی:
سیدنا نعمان بن
بشیرt فرماتے ہیں کہ نبی u کا ارشاد عالیہ ہے کہ ’’بیت اللہ میں جبریلu نے آکر میری امامت کرائی اور زور سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی۔‘‘
(دارقطنی)
اس کے بعد رسول
اللہe جب جہری نماز کی امامت فرماتے تو بسم اللہ
الرحمن الرحیم جہرا پڑھتے۔ چنانچہ سیدنا علی بن ابی طالبt کی گواہی سنیے‘ دارقطنی (ج۱‘ ص ۳۰۲) میں ہے:
سیدنا علی بن
ابی طالبt سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہe نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرتے تھے۔‘‘
یہ پڑھیں:
امام دارقطنی
اس بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’اس کی سند اعلیٰ ہے کوئی حرج نہیں۔ ‘‘ (نصب الرایۃ
للزیلعی: ۱،
ص ۲۲۵)
امیر المؤمنین
علیt کا خود اپنا عمل بھی یہی ہے۔ چنانچہ بیہقی
(ج۲‘ ۴۸) میں
امام شعبی سے روایت لائے ہیں کہ
’’مجھے امیر المؤمنین علیt کا دیدار نصیب ہوا اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا بھی موقع ملا۔
آپt نے بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم
پڑھی۔‘‘
سیدنا انس بن
مالکt سے روایت ہے کہ ’’میں نے سنا رسول اللہe بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔‘‘ (مستدرک حاکم:
۱/۲۳۳)
امام حاکم
فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے سب راوی اول تا آخر ثقہ ہیں اور حافظ ذہبی نے تلخیص میں
ان کی موافقت کی ہے۔ امام نووی شرح المہذب (ج۳‘ ص ۳۵۰) میں اس حدیث کو
صحیح ثابت کرتے ہیں۔
’’محمد بن ابی سری عسقلانی سے روایت ہے کہ میں
نے معتمر بن سلیمان کے پیچھے بے شمار مرتبہ فجر اور مغرب کی نمازیں پڑھیں تو وہ
سورۂ فاتحہ سے پہلے اور بعد (یعنی دوسری سورت سے پہلے) بلند آواز سے بسم اللہ
الرحمن الرحیم پڑھتے تھے۔ فرمایا کہ میں اپنے باپ سلیمان تیمی کی نماز کی اقتدا
کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا اور میرے باپ نے کہا تھا کہ میں سیدنا انس بن
مالکt کی نماز میں پیروی کرنے میں کوئی کمی بیشی
نہیں کرتا۔ سیدنا انس بن مالکt نے فرمایا کہ میں رسول اللہe کی نماز کی پیروی کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتا۔ امام حاکم
فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی اول تا آخر سب ثقہ ہیں۔‘‘ (المستدرک للحاکم: ۱/۲۳۴-۲۳۳)
اس میں امام
ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی اور امام نووی شرح المہذب (ج۳‘ ص ۳۵۰) میں فرماتے ہیں
کہ ’’اس کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔‘‘
یہ پڑھیں: منحوس کون؟!
یہ حدیث اپنے
مطلب میں بالکل واضح ہے کہ رسول اللہe جہری نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم جہر
سے پڑھتے تھے اور آپe سے روایت کرنے والے صحابی سیدنا انسt بن مالک بھی اسی پر عمل کرتے تھے۔ ان کے شاگرد سلیمان التیمی اور
ان سے نقل کرنے والے ان کے بیٹے معتمر التیمی بھی اس پر عمل کرتے تھے‘ ایسی مسلسل
بالعمل روایت مسئلے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔
امام شافعی
کتاب الام (ج۱‘ ص
۹۳) میں
روایت لائے ہیں کہ
[أن أنس بن مالک
أخبرہ قال: صلی معاویۃ بالمدینۃ صلاۃ فجہر فیہا
بالقراء ۃ فقرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم لأم القرآن ولم یقرأ بہا
للسورۃ التی بعدہا حتی قضے تلک القراء ۃ ولم یکبر حین یہوی
حتی قضے تلک الصلاۃ فلما سلم ناداہ من سمع ذلک من المہاجرین من کل مکان یا معاویۃ أسرقت الصلاۃ أم نسیت فلما
صلے بعد ذلک قرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم للسورۃ التی بعد أم
القرآن وکبر حین یہوی ساجدا۔]
یہی روایت سنن
دار قطنی (ج۱‘ ص
۳۱۱)‘ مستدرک
حاکم (ج۱‘ ص
۲۳۳) اور
الانصاف لابن عبدالبر وغیرہ میں امام شافعی کے واسطے سے موجود ہے اور ان میں الفاظ
اس طرح ہیں:
[نادہ من سمع ذلک
من المہاجرین والأنصار]
اسی طرح مصنف
عبدالرزاق (ج۳‘ ص
۹۲) اور
معرفۃ السنن والآثار للامام بیہقی (ج۱‘ ص ۲۰۵ المصور) میں
بھی روایت موجود ہے۔ یعنی سیدنا انس بن مالکt سے روایت ہے کہ امیر المو/منین معاویہt نے مدینہ منورہ میں قراء ت جہری والی نماز پڑھائی تو سورۂ فاتحہ
کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی مگر اس کے بعد جو تلاوت فرمائی اس کے
شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ پڑھی۔ (یعنی سننے میں نہ آئی) نماز کے بعد ہر
طرف سے صحابہ کرام] جن میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی سب نے
پکار کر کہا کہ اے معاویہ! تو نے چوری کی ہے یا تمہیں بھول ہوئی؟ (کیونکہ انہوں نے
بسم اللہ الرحمن الرحیم اور تکبیر نہ سنی تھی۔)
اس کے بعد جب
بھی امیر المؤمنین سیدنا معاویہt نے نماز پڑھائی تو سورۂ فاتحہ کے بعد دوسری
سورت کے شروع میں بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی اور تکبیر بھی بلند آواز سے کہی۔
یہ پڑھیں: علوم شریعت میں مصالح
اس حدیث کو
امام حاکم نے مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح کہا ہے۔ امام ذہبی تلخیص میں اس کی
موافقت کرتے ہیں اور دارقطنی فرماتے ہیں[ کلہم ثقات ] یعنی
اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ امام نووی شرح المہذب (ج۳‘ ص ۳۴۹) میں اور حافظ
ابن سید الناس شرح ترمذی (ج۱‘ ص ۱۹۲) (المصور) میں اس
روایت کو صحیح کہا ہے اور یہ حدیث اپنے مطلب میں بالکل واضح ہے۔ اس سے درج ذیل باتیں
ثابت ہوتی ہیں:
1 مسنون طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہری نماز میں بلند آواز سے پڑھی جائے اور امام یعقوب بن سفیان فسوی نے بسم اللہ
الرحمن الرحیم جہرا کے مسئلے میں اس حدیث پر اعتماد کیا ہے۔ تفصیل کے لیے شرح
المہذب للنووی (ج۳‘ ص
۳۴۹) ملاحظہ
کیجیے۔
2 صحابہ کرام] کا یہی عمل تھا۔ بلکہ اگر جہری نماز میں
امام سے بسم اللہ الرحمن الرحیم سننے میں نہ آتی تو ان پر اعتراض کرتے۔ حتی کہ
چوری جیسے قبیح فعل سے تشبیہ دیتے تھے۔
3 فاتحہ یا کسی بھی سورت کے شروع میں بسم
اللہ الرحمن الرحیم جہر سے پڑھنی چاہیے۔
4 اہل مدینہ کا یہی عمل تھا اور اس واقعہ میں
مہاجر اور انصار سب صحابہ کرام] شریک تھے۔
حافظ ابن
عبدالبر الانصاف (مجموعہ الرسائل المنیریہ: ج۱‘ ص ۱۹۲) میں فرماتے ہیں
کہ
یہ پڑھیں: سیکولرزم اور لا دینیت
یعنی ’’امام
شافعی کی روایت بھی دیگر ایسی روایات کی تصدیق کرتی ہے جن سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ
اہل مدینہ بسم اللہ الرحمن الرحیم جہر سے پڑھتے تھے۔‘‘
یعنی امیر
المؤمنین سیدنا معاویہ t کا مذکورہ بالا قصہ اور حافظ عبداللہ بن زبیرt اور تابعین سے محمد بن کعب قرظی‘ ابن شہاب زہری‘ ابوقلابہ اور خلیفہ
عمر بن عبدالعزیز (المعروف عمر ثانی) ان سب کی روایات ثقہ ہیں اور یہ سب مدنی ہیں۔
چنانچہ السنن
الکبریٰ للبیہقی (ج۲‘ ص
۵۰) میں
امام زہری سے روایت ہے کہ
’’نماز کا سنت طریقہ یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ
اور اس کے بعد دوسری سورت دونوں کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی جائے۔‘‘
امام زہری کا
خود اپنا عمل بھی یہی تھا۔ امام زہری کا جو مقام علماء مدینہ میں ہے وہ کسی سے مخفی
نہیں۔ امام مالک کے استاد ہیں۔ ابوالزناد انہیں اعلم الناس کہتے ہیں۔ عراک بن مالک
کہتے ہیں کہ مدینے کے سب فقیہوں سے زیادہ علم والے تھے اور امام لیث فرماتے ہیں کہ
میں نے ان جیسا جامع اور زیادہ علم والا عالم نہ دیکھا۔ (التہذیب: ج۹‘ ص ۴۴۹-۴۴۸)
صحابہ کرام]‘ تابعین اور ان کے بعد کے جتنے بھی اہل علم بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہر سے پڑھنے کے قائل فاعل ہیں اور رواۃ بھی شمار سے باہر ہیں۔ ابن عبدالبر
الاستذکار (ج۲‘ ص
۱۷۲) میں
امام اسحاق بن منصور سے روایت کرتے ہیں:
’’میں نے اسحاق بن راہویہ سے دریافت کیا کہ
اگر کوئی شخص کئی نمازیں پڑھے اور اس میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ بسم اللہ الرحمن
الرحیم نہ پڑھی ہو تو امام صاحب نے فرمایا کہ وہ سب نمازیں دوبارہ دہرائے۔‘‘
یہ پڑھیں: حدیث کی صحت وضعف میں اختلاف اور اسباب
اہل مکہ کا بھی
یہی عمل تھا‘ حرمین کے فقہاء بھی اس پر متفق ہیں۔ چند ہستیوں کے نام پیش خدمت ہیں۔
مجاہد‘ عکرمہ‘ عبداللہ بن عباس اور ان کے بیٹے محمد‘ عبداللہ بن صفوان اور اسحاق
بن راہویہ مکی ہیں اور سعید بن المسیب علی بن الحسین (زین العابدین) اور ان کا بیٹا
محمد (المعروف امام الباقر) سالم بن عبداللہ‘ محمد بن المنکدر‘ ابوبکر بن محمد بن
عمرو بن حزم‘ نافع ابن عمر‘ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز‘ امام زہری‘ عبیداللہ بن عمر
العمری‘ حسن بن زید بن علی بن ابی طالب‘ زید بن علی بن الحسین‘ محمد بن عمر بن علی‘
فقیہ ابن ابی ذئب یہ سب مدنی تھے اور ابووائل (شفیق بن مسلمۃ) سعید بن جبیر‘ حبیب
بن ابی ثابت‘ عبداللہ بن معقل بن مقرن کوفی تھے۔ محمد بن سیرین‘ ابوالشعثاء (جابر
بن زید) ابوقلابہ (عبداللہ بن زید،) ازرق بن قیس‘ سلیمان التیمی اور ان کا بیٹا
معتمر یہ سب بصرہ کے تھے اور مکحول شامی‘ طاؤس اور امام لیث بن سعد مصری تھے۔ ان
کے علاوہ مذکورہ بالا عمرو بن دینار مکی تھے۔ ان سب کا ذکر تہذیب التقریب میں
موجود ہے۔ گویا سبھی علاقے اور تمام اطراف کے بڑے بڑے فقیہ جہر کے قائل تھے۔ اسی
وجہ سے اس مسئلے کو بڑی شہرت حاصل ہے۔
سورۂ فاتحہ میں بسم اللہ آہستہ پڑھنے کا موقف:
اب اس کے بعد
بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنے اور جہر سے روکنے والوں کے خاص دلائل کا ذکر
اور ان کی حقیقت ظاہر کی جاتی ہے۔ ان کی سب سے مشہور دلیل سیدنا انسt سے روایت ہے جو کہ مسلم (ج۱‘ ص ۱۷۲) مع النووی میں
ان لفظوں کے ساتھ ہے کہ
’’میں نے نبی کریمe‘ ابوبکر‘ عمر اور عثمان] کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے الحمد للہ رب العالمین سے قراء ت
شروع کی اور بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ذکر نہ قراء ت سے پہلے کیا اور نہ بعد میں۔‘‘
اس روایت کے
لفظ چونکہ سیدنا انسt کی دوسری صحیح احادیث کے خلاف ہیں جیسا کہ
مذکورہ بالا حدیث جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم جہرا پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہٰذا صحیح
حدیث کے مقابلے میں دوسری حدیث ہرگز ہرگز معتبر نہیں ہو سکتی۔
اور اگر اس روایت
کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر اس کا معنی یہ ہو گا کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم بالکل
بھی نہ پڑھی جائے‘ نہ آہستہ نہ بلند آواز سے تو آہستہ پڑھنے والوں کے لیے اس میں
کوئی دلیل نہیں۔
یہ پڑھیں: میاں بیوی کے مشترکہ حقوق
مسلم میں ہی اس
سے پہلے دوسری روایت اس طرح ہے کہ
قتادہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا انسt نے فرمایا کہ ’’میں نے رسول اللہe‘ ابوبکر‘ عمر وعثمان] کے ساتھ نماز پڑھی اور کسی سے بھی میں نے
بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ سنی۔‘‘
اگر صحیح تسلیم
کیا جائے تو اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے نہیں سنا۔ اس سے جہر کی
نفی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ ہو سکتا ہے ان کو سننے میں نہ آئی ہو مگر جن روایات میں
جہرا پڑھنے کا ثبوت ہے ان میں وضاحت ہے کہ رسول اللہe سے بسم اللہ الرحمن الرحیم سنی گئی۔ اس لیے
سننے والوں کا قول نہ سننے والوں پر مقدم ہوتا ہے۔
توجیہات:
1 یہ کہ خود سیدنا انس بن مالکt سے چار سے بھی زیادہ جہر کی روایات ہیں۔
2 سیدنا انسt کی روایات میں سے ایک روایت بخاری کی ہے جو
کہ درجہ میں ان سے بڑھ کر ہے اور اس میں واضح ہے کہ آپe بسم اللہ الرحمن الرحیم کو مد سے پڑھتے تھے۔
3 اس روایت میں تین خلفاء سیدنا ابوبکر‘ سیدنا
عمر‘ سیدنا عثمان] کا بھی ذکر ہے۔ حالانکہ ان کا مذہب جہر سے
پڑھنے کا ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔ مزید احادیث دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ وجہ
بھی اس روایت کو معلول بناتی ہے۔
4 خود سیدنا انسt کا عمل بھی جہر پر تھا تو وہ کیسے رسول اللہe سے عدم جہر نقل کرتے؟ اور خود اس کی مخالفت کرتے؟
5 عام صحابہ] خواہ مہاجر وانصار کا بسم اللہ الرحمن الرحیم
جہرا نہ پڑھنے پر اعتراض جیسا کہ امام شافعی کی کتاب الام کے حوالہ سے امیر
المؤمنین سیدنا معاویہt کا مذکورہ بالا قصہ بھی ہے۔
6 امام سیوطی کہتے ہیں کہ جہر کی روایات
تواتر کو پہنچی ہیں۔
7 اس روایت کے الفاظ میں اضطراب ہے۔
یہ پڑھیں: جرابوں پر مسح
حافظ ابن
الصلاح مقدمہ (ص ۴۳) میں
کہتے ہیں کہ اصل حدیث کے لفظ اس طرح ہیں کہ
یعنی ’’الحمد للہ رب العالمین (سورۂ
فاتحہ) سے وہ شروع کرتے تھے۔‘‘
بخاری ومسلم کی
متفق علیہ حدیث کے لفظ یہیں تک ہیں۔
[لا یذکرون ببسم
اللہ الرحمن الرحیم فی أول قراء ۃ ولا فی
آخرہا]
کے الفاظ سیدنا
انس بن مالکt کے نہیں بلکہ یہ بعد کے کسی راوی نے بطور
وضاحت اضافی لفظ کہے ہیں [الحمد للہ رب العالمین ] سے شروع کرنے
کا معنی یہ نہیں کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم نہیں پڑھتے تھے۔ یا جہر نہیں کرتے تھے۔
بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ نماز میں دوسری سورت سے پہلے سورۂ فاتحہ پڑھتے تھے۔ جیسا
کہ متفق علیہ حدیث ہے۔ وضاحت کے لیے دیکھیے حافظ ابو الفضل عراقی کی التقیید والایضاح
صفحہ ۱۱۹۔
علامہ سخاوی
فتح المغیث (ص ۹۵) میں
اور سیوطی تدریب الراوی (ص ۹۰-۹۱) میں احادیث لا کر فرماتے ہیں کہ رسول
اللہe اور خلفائے راشدین کے زمانے میں طریقہ یہ
تھا کہ نماز میں پہلے سورۂ فاتحہ پڑھی جاتی اور پھر دوسری سورت پڑھتے تھے۔ یہ
مسئلہ بہت اہم ہے کہ نماز میں قراء ت کہاں سے شروع کی جائے اور یہی مسئلہ اس حدیث
سے معلوم ہوا کہ پہلے سورۂ فاتحہ پڑھنی ہے۔ بلکہ امام نسائی اپنی سنن (ج۱‘ ص ۱۹۶) میں اسی حدیث
پر یہ باب باندھتے ہیں: [باب البداء ۃ بفاتحۃ الکتاب قبل
السورۃ ] آپ کو معلوم
ہے سورۂ فاتحہ کے ناموں میں سے ایک نام ’’الحمد للہ رب العالمین‘‘ بھی ہے۔ چنانچہ
اسی طرح امام شافعیa کتاب الام (ج۱‘ ص ۹۳) امام ترمذی
(السنن ج۱‘ ص
۴۳) امام
بیہقی سنن الکبریٰ (ج۲‘ ص
۵۱) امام
حازمی کتاب الاعتبار (ص ۹۱) امام
بغوی شرح السنہ (ج۳‘ ص
۵۵) امام
نووی شرح المہذب (ج۳‘ ص
۳۵۱) حافظ
ابن الصلاح مقدمہ (ص ۴۳) حافظ
ابوالفضل عراقی فتح المغیث (ج۱‘ ۱۰۹) کرمانی شرح البخاری (ج۵‘ ۱۱۱) حافظ ابن حجر
عسقلانی فتح الباری (ج۲‘ ص
۲۲۷
اور ج۸
ص ۱۵۸) (السلفیہ)
علامہ قسطلانی ارشاد الساری (ج۲‘ ص ۷۲) میں سب محدثین
نے یہی معنی بیان کیا ہے۔
یہ پڑھیں: خلع ... احکام ومسائل
دلیل نمبر ۲:
’’ابن عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ مجھ سے
میرے باپ نے نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے سنا تو کہا اے میرے بیٹے! یہ
بدعت ہے اور بدعت سے بچتے رہو۔ صحابہ کرام] کو بدعت سے بڑھ کر کسی اور شے سے نفرت نہ تھی۔
میں نے رسول اللہe اور سیدنا ابوبکر‘ سیدنا عمر‘ سیدنا عثمان] کے ساتھ نماز پڑھی مگر ان میں سے کسی سے بھی میں نے بسم اللہ
الرحمن الرحیم نہیں سنی۔ تو تم جب بھی نماز پڑھو تو بسم اللہ الرحمن الرحیم نہ
پڑھو بلکہ الحمد للہ رب العالمین سے شروع کیا کرو۔‘‘
اولاً: یہ روایت معتبر نہیں‘ ضعیف ہے۔ خاص طور پر
مذکورہ صحیح احادیث کے مقابلہ میں۔
ثانیاً: اگر اس روایت کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر
بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا منع ہے‘ آہستہ خواہ جہر سے۔ اور اس کا قائل کوئی نہیں۔
ثالثاً: نہ سننا ذاتی معذوری بھی ہو سکتی ہے۔ باقی
جنہوں نے سنا ہے ان کا قول ان سے مقدم بلکہ ان پر حجت ہے۔
امام ابوبکر خطیب
البغدادی فرماتے ہیں کہ
’’ اس روایت کا راوی ابن عبداللہ بن مغفل
مجہول ہے۔ اگر اس کی حدیث صحیح ثابت ہو بھی جائے تب بھی جہر کے بارے میں سیدنا
ابوہریرہt والی صحیح حدیث (یعنی نعیم المجمر والی
مذکورہ بالا) پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ رسول اللہe کا حکم یہ ہوتا تھا کہ نماز میں میرے قریب
سمجھدار‘ عقل والے زیادہ علم والے بزرگ کھڑے ہوں۔ اسی لیے سیدنا ابوہریرہt بنسبت عبداللہ بن مغفل کے رسول اللہe کے قریب کھڑے ہوتے تھے۔ اسی لیے ابوہریرہt نے بسم اللہ الرحمن الرحیم سنی اور عبداللہ بن مغفل نے نہ سنی۔ سیدنا
ابوہریرہt کا رسول اللہe کی ہر بات پر زیادہ دھیان توجہ دینا ان کو یاد
کرنا اور سمجھنے کے لیے پوری کوشش کرنا۔ یہ اہل علم کے ہاں بہت مشہور ہے۔ ‘‘
یہ پڑھیں: ضعیف اور موضوع احادیث
الحاصل:
سنت طریقہ یہ
ہے کہ جہری نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بھی بلند آواز سے پڑھی جائے اس لیے
کہ یہ سورۂ توبہ کے علاوہ باقی ہر سورت کی پہلی آیت اور جزو ہے۔ لہٰذا جہری قراء
ت میں جہر سے پڑھی جائے گی اور آہستہ پڑھی جانے والی نماز میں آہستہ پڑھی جائے گی۔