درسِ قرآن
تربیت‘ ایک اہم ذمہ
داری
ارشادِ باری ہے:
﴿لَقَدْ مَنَّ
اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ
اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ﴾ (ال عمران)
’’بے شک اللہ
تعالی کا مومنوں پر احسان عظیم ہے کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا ، جو
انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت سکھاتا
ہے۔‘‘
یہ پڑھیں: مسجدوں کی آبادکاری
اللہ تبارک وتعالی کے انسانوں پران گنت اور بے شمار احسانات ہیں ۔جب کہ امت
مسلمہ بالخصوص اللہ کی نعمتوں اور انعامات سے بہرہ ور ہوئی ہے۔ اگر اللہ کی رحمتوں
اور دیگر احسانات کو ایک طرف رکھ کر صرف
جناب حضور اکرم e کے امتی ہونے
کے شرف کو ہی دیکھ لیا جائے تو اس سے بڑھ کر کیا خیر خواہی ہو سکتی ہے جس سے امت
محمدیہ علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم کے افراد ہی مشرف ہوئے ہیں۔
نبی مکرم e کی بعثت سے
پہلے انسانیت جہالت اور اندھیروں کی سخت تاریکیوں میں، بیہودگی اور بدبختی کی زندگی
گزاررہی تھی۔ ان کا نہ کوئی مقصد تھا اور نہ کوئی غرض۔فرضی کہانیاں اور بت پرستی
ان میں پرورش پارہی تھی۔ عصبیت اور نسل پرستی ان کا صفایا کررہی تھی۔ پھر اللہ سبحانہٗ
وتعالیٰ نے اپنی رحمت اور اپنے فضل سے قابلِ فخر نعمت یعنی رسول اللہe بھیجے تاکہ وہ
لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں۔ اس احسان کو اللہ رب العالمین نے مذکورہ آیت میں بیان فرمایاہے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی نے نبی کریمe کی مسلمانوں میں بعثت کو احسان عظیم
قرار دیاہے، اور اسی میں اللہ نے آپ e کی ایک رسول کی
حیثیت سے ذمہ داریاں بھی بیان کی ہیں جو چار ہیں: قرآن کی تلاوت کرنا، تزکیہ
واصلاح کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تبلیغ کرنا۔ ان چاروں کاموں پر غور کیا
جائے تو یہ ’’تعلیم وتربیت‘‘ ہی کے گرد گھومتے ہیں۔ رسول اللہe پاک صاف کرنے
والے، تربیت کرنے والے، تعلیم دینے والے اور اصلاح کرنے والے بن کر تشریف لائے۔
رسول اللہ e نے اس مقصد کو
حاصل کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت اور کوشش کی ، یہاں تک کہ اللہ کے فضل اور رحمت کی
بدولت اور اپنی محنت اور جاں فشانی سے آپe جو چاہتے تھے اسے حاصل کرلیا، اور
اپنے صحابہ کی بہترین تربیت فرمائی۔
اس آیت سے یہ بات کھل کر واضح ہوتی ہے کہ کار نبوت دراصل کار ’’تعلیم وتربیت‘‘
ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دو طبقات پر زیادہ ہے: والدین
اور اساتذہ۔ یہ دو طبقات اگر اپنے اندر احساس ذمہ داری بیدار رکھیں تو یقینا
کارتربیت کے نبوی مقصد کی بدولت معاشرہ کو صحیح راہ پرگامزن رکھنے میں کوئی رکاوٹ
بھی حائل نہ ہوگی۔
یہ پڑھیں: کامیاب انسان
داعی، مدرس اورباپ ہونے کی حیثیت سے وہ پہلو اور امور جنہیں آپ e بہت زیادہ اہمیت
دیا کرتے تھے ہمیں بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم ان کا خیال رکھتے ہیں یا ہم نے انہیں
نظر انداز کر رکھا ہے ؟ اس حوالہ سے جو کمی ہے اُسے ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ
آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ ہمارے طریقے، ہمارا انداز اور اسلوب دعوت نبی کریمﷺ
کے طریقہ تربیت سے قریب تر ہو جائے۔