مدیر اعلیٰ بشیر انصاری مرحوم کے قلم کی جولانگاہ
(دوسری قسط) تحریر: جناب مولانا حمید اللہ خان عزیز
(ایڈیٹر ماہنامہ ’’تفہیم الاسلام‘‘
مسلکی اور دعوتی اداریے:
حدیث مصطفی تفصیل ہے اجمال قرآن کی
کتاب اللہ کی تفسیر پیغمبر کی سیرت ہے
بلاشبہ مسلک اہل حدیث کتاب وسنت سے مأخوذ ہے اور اہل حدیث کسی فرقہ یا فقہی
گروہ کا نام نہیں بلکہ اہل حدیث اسلام کا دوسرا نام ہے۔
یہ پڑھیں: عظیم علماءS کی رحلت
مولانا بشیر انصاریa راسخ الفکر اہل
حدیث تھے‘ انہوں نے اپنے اداریوں میں مسلک اہل حدیث اور اس کی دعوت‘ اسلوب دعوت‘
اس کے بنیادی اصول‘ نیز جماعت اہل حدیث کے اہداف اور اس کی ذمہ داریوں کو نہایت
اچھوتے اسلوب میں بیان کیا۔ انہوں نے بے لاگ انداز میں اہل حدیث کی فکر اور اس کے
عقائد کو اجاگر فرمایا۔ سطور ذیل میں دیکھیے ان کے اداریوں کا نمونہ:
1 مسلک اہل حدیث
اسلام کا دوسرا نام ہے‘ اس کی تبلیغ ہم سب کا فریضہ ہے۔ رسول اللہe کا ارشاد گرامی
ہے کہ [بلغوا عنی ولو آیۃ] یعنی ایک بات کا ابلاغ بھی ضروری ہے۔ رسول اللہe نے اپنی پوری
زندگی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے میں صرف کر دی۔ مرکزی جمعیۃ اہل حدیث بھی
تبلیغ دین کا فریضہ ادا کر رہی ہے۔ اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے ہماری
جماعت زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی سرگرم عمل ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ اسلام عقیدے
کی روشنی اور عملی زندگی کا نور پیدا کرتا ہے۔ اسلام ہی روشن خیالی کا علم بردار
ہے۔ اسی روشنی کو پوری دنیا میں پہنچانا مسلم امہ کا فرض ہے۔
وطن عزیز کی تاریخ شاہد ہے
کہ اتحاد کی داعی ہماری جماعت نے ہمیشہ ان قوتوں کا بھر پور ساتھ دیا جو اس ملک میں
اسلامی نظام کی صبح طلوع دیکھنا چاہتی ہیں اور عملاً اس کے لیے کوشاں ہیں اور ان
عناصر کی ہر میدان میں ڈٹ کر مخالفت کی جو اسلام کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔
2 ہفت روزہ
’’الاسلام‘‘ (لاہور) کی جلد: ۱۳‘ شمارہ: ۴‘ ۲۷ جون ۱۹۸۶ء کے اداریے میں جمعیۃ اہل حدیث پاکستان کی دعوت ومنشور کا
ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جمعیۃ
اہل حدیث اپنا ایک خاص مشن رکھتی ہے اس کی دعوت اور دوسری جماعتوں کی دعوت میں ایک
بنیادی فرق ہے۔ جمعیۃ اہل حدیث کی دعوت ابتداء ہی سے یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے
نام پر بنا تھا لہٰذا اس کی بقاء اور استحکام فقط اس کے نظریہ کے تحفظ اور بقاء کے
ساتھ وابستہ ہے۔ اسلام قرآن اور سنت کا نام ہے اور قرآن کریم نے اللہ اور اس کے
رسولe کی اطاعت کو ایک
مستقل حیثیت دی ہے اور اولی الامر کی اطاعت کو مشروط قرار دیا ہے۔ لہٰذا یہاں
اسلامی نظام حکومت قائم کرتے وقت کتاب وسنت پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ جمعیۃ اہل حدیث
کی اس دعوت کو اگر دیکھا جائے تو حقیقی اسلام کے خد وخال کی اصلی اور صحیح تعبیر یہی
ہے اور یہی وہ دعوت ہے جو اہل حدیث کو باقی تمام جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے اور یہی
وہ دعوت ہے جس سے کوئی گروہ انکار کر دے تو اس کا دائرہ اسلام میں رہنا ناممکن ہو
جاتا ہے۔ باقی ہرگروہ کی تعبیر اپنی اپنی ہے اور ہر تعبیر اختلاف کی پیدا وار ہے
جس پر امت کا اتفاق ناممکن ہے۔ البتہ کتاب وسنت پر پوری ملت اسلامیہ کا اتحاد اور
اتفاق نہ صرف ممکن ہے بلکہ یہی ایک راستہ ہے جس پر اتحاد کی تعمیر یقینی ہے۔ اس لیے
جمعیۃ اہل حدیث اگر سب جماعتوں کو اتحاد کی دعوت دے تو اس کی پکار سنی جائے گی اور
اس کی دعوت کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ کوئی اور جماعت اپنے پاس ایسا فارمولہ نہیں
رکھتی جس پر اتحاد ممکن ہو۔ لہٰذا ان کی دعوت‘ دعوتِ فرقہ تو ہو سکتی ہے دعوتِ
اتحاد نہیں ہو سکتی۔‘‘
یہ پڑھیں: مفسر قرآن حافظ صلاح الدین یوسفa
عقیدۂ ختم نبوت کے موضوع پر اداریے:
محمد عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ اُو
کتاب وسنت کی نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ سلسلہ نبوت حضرت محمدe پر ختم ہو چکا
ہے۔ آپe کے بعد نبوت
ورسالت کے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں۔ رسالت ماٰبe کے دور سے لے
کر عہد حاضر تک تمام سلف صالحین اور اس کائنات میں بسنے والے تمام مسلمانوں کا یہی
متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت محمدe خاتم الانبیاء
والمرسلین ہیں۔ اس واضح حقیقت کے بعد اگر کسی کذاب ودجال نے نبوت ورسالت کا دعویٰ
کیا تو اسلاف امت اور تمام ملت اسلام نے اسے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا۔
آج کے اس دور میں عقیدۂ ختم نبوت بہت اہم بلکہ مرکزی موضوع ہے۔ جوہر شاہی
فرقہ اور نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا قادیانی ملعون کی ذریت اپنے دیرینہ آقا یہود
ونصاریٰ کی بیساکھیوں پر نبوت کے نام پر امت مسلمہ کو کفر اور زندیقیت کی طرف دھکیلنا
چاہتی ہے۔ اہل علم وراسخ الفکر ادیبوں اور صحافیوں نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور
احیاء کے لیے اپنی قلمی صلاحیتیں ہمیشہ وقف کیے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا
فرمائے۔
ہمارے مربی ومحسن مولانا بشیر انصاریa کو جنہوں نے حضور ختم المرسلین کی
ختم نبوت کے دفاع کے لیے دجال زمانہ مرزا قادیانی ملعون کا اپنے زیر ادارت ہفت
روزہ ’’الاسلام‘‘ اور ہفت روزہ ’’اہل حدیث‘‘ میں بے شمار اداریے اور مضامین لکھ کر
خانہ ساز نبوت کا بطلان آشکار کیا۔ اگر اس موضوع پر مرحوم انصاری صاحب کے تمام
فکری اداریوں کو جمع کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب منظر عام پر آ سکتی ہے۔
یہ پڑھیں: شیخ الحدیث مولانا عبدالحمید ہزارویa
۲۴ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو ’’خدمت خلق کی آڑ میں قادیانیت کی تبلیغ… حکومت سد باب کرے‘‘ کے عنوان
سے انہوں نے بڑا جاندار اداریہ تحریر کیا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ وہ پورا اداریہ یہاں
درج کر دوں تا کہ ایمان تازہ ہو جائے لیکن تنگی داماں کے پیش نظر نہایت اختصار سے
صرف اقتباسات پیش خدمت ہیں:
1 ’’ختم نبوت
اسلام کا بنیادی اور اساسی عقیدہ ہے اور نبی کریمe کی ختم نبوت کتاب وسنت کی نصوص
قطعیہ اور اجماع سے ثابت ہے۔ پھر پوری امت کا اس امر پر اجماع ہے کہ ختم نبوت کا
منکر کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس بات سے سب اہل علم آگاہ ہیں کہ امت کے
مختلف مسالک کے ما بین فروعی اختلافات تو موجود ہیں لیکن وہ اس حقیقت پر متفق ہیں
کہ قادیانی غیر مسلم ہیں۔ اس لیے کہ قادیانیت کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے امت
کی محبت‘ اطاعت اور وفاداری کا مرکز بدلنے کی نفرت انگیز سازش کے ساتھ ساتھ ارتداد
اور بنیادی عقیدہ سے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے۔
ہمارا
شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ مرزائیت کوئی مذہب ہے اور نہ کوئی اسلامی فرقہ بلکہ یہ
انگریز کے گماشتوں کا ایک سیاسی ٹولہ ہے‘ جو انگریز کی سیاسی مصلحتیں اور ہندوستان
میں اس کے اقتدار کی بقا کی ضرورت‘ اس کے جنم کا باعث بنیں۔ سفید سامراج کی سرپرستی
نے شجر خبیثہ کو برگ وبار عطا کیے اور اس کا فروغ انہیں کی چالبازیوں کا مرہون منت
ہے۔ یہ سیاسی ٹولہ اب اس قدر منہ زور ہو گیا ہے کہ دہشت گرد بھی اس کے حلقے میں
پناہ لیتے ہیں اور وارداتیں کرتے ہیں۔ پھر وطن عزیز میں قادیانی آرڈیننس کے نفاذ
کے بعد قادیانی بہت جارح ہو گئے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی اس قدر رسوائی ہوئی ہے
کہ وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں۔ اس کے باوصف ان کی سازشیں خوفناک منصوبے اور مکروہ
عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
وہ عالم
اسلام میں برطانیہ اور امریکہ کے جاسوس ہیں۔ قادیانی اسرائیل گٹھ جوڑ طشت از بام
ہو چکا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کو اس ٹولے پر گہری نظر رکھنی چاہیے اور کلیدی
اسامیوں سے انہیں علیحدہ کر دینا چاہیے۔ حکومت کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا
چاہیے وگرنہ اس کے نتائج المناک ہو سکتے ہیں۔
یہ پڑھیں: شیخ الحدیث مولانا محمد یونس بٹa
سیرت النبیﷺ پر مشتمل اداریے:
دعوت خیر الوریٰ ہے مسلک اہل حدیث
شاہراہِ مصطفی ہے‘ مسلک اہل حدیث
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں: ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ
حَسَنَۃٌ﴾ فرما کر رسول اللہe کی سیرت وزندگی کو امت کے لیے
اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ بشیر انصاری صاحب مرحوم نے متلاشیان سیرت واسوۂ رسولe کے لیے بے شمار
اداریے سیرت النبیe پر لکھے جن کے
مطالعہ سے حدیث وسنت کے متعدد گوشے نکھر کر اہل علم کے سامنے آتے ہیں۔
ایک نظر ڈالتے ہیں ان کے سیرت النبیe پر مشتمل دلکش اداریوں سے مأخوذ
چند اقتباسات‘ اپنے ایک اداریے ’’ربیع الاول کا پیغام‘‘ میں لکھتے ہیں:
1 ’’ربیع الاول
کا مہینہ وہ ماہِ مبارک ہے جس کی ۹ تاریخ کو نبی
اکرمe کی ولادت با
سعادت ہوئی۔ یوں تو سال کے بارہ مہینوں میں سیرت طیبہ کا ذکر جمیل ہوتا رہتا ہے لیکن
جب ربیع الاول کا مہینہ آتا ہے تو اہل قلم اپنی تحریروں میں اور خطباء اپنے
خطابات میں خصوصیات کے ساتھ اسوۂ رسول e کو موضوع سخن بنا لیتے ہیں۔ اس
طرح قاری اور سامع کا ذہن اس دور کی تاریخ سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ جب ظلم وجور‘ جبر
وتشدد‘ قتل وغارت گری‘ درندگی‘ دہشت وبربریت‘ عصمت دری‘ شراب نوشی‘ جوا بازی اور
رہزنی اپنی انتہا کو چھو رہی تھی۔ بدبختی اور شقاوت قلبی کی انتہاء یہ تھی کہ اپنی
بچیوں کو زندہ درگور کرنا باعث فخر سمجھا جاتا تھا۔ شرک وبدعت کا عالم یہ تھا کہ بیت
اللہ جو دنیا میں اللہ کا سب سے پہلا گھر تھا‘ اس میں تین سو ساٹھ بت پوجا پاٹ کے
لیے رکھے ہوئے تھے۔ عرب بت پرستی میں اتنے جدت اور تنوع پسند تھے کہ ہر روز کی
مشکل کشائی کے لیے ان کے الگ الگ ’’خدا‘‘ تھے۔ قبائل میں لڑائی شروع ہو جاتی تو
عرصہ تک جاری رہتی۔ جانوروں کو پانی پلانے پر باہم دست وگریباں ہو جاتے۔ الغرض اس
وقت پوری انسانیت تاریکیوں میں ڈوب چکی تھی کہ مصر‘ ہندوستان‘ بابل‘ نینوا‘ یونان
اور چین میں تہذیب وتمدن کا نام ونشان مٹ چکا تھا۔ رومی اور ایرانی تمدنوں کی ظاہری
چمک دمک آنکھوں کو خیرہ تو کر رہی تھی مگر ان شیش محلوں کے اندر بدترین مظالم کا
دور دورہ تھا جس نے زندکی کو اجیرن بنا رکھا تھا۔ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ
نے محسن انسانیت e کو تاج نبوت سے
سرفراز فرمایا اور آپ نے لوگوں کو توحید ورسالت کا پیغام دیا اور شجر وحجر اور
آفتاب وماہتاب کی پرستش کرنے والوں کو ان کی عظمت سے آگاہ کیا اور بتایا کہ یہ
شب وروز‘ آفتاب وماہتاب‘ شجر وحجر‘ آگ اور پانی غرض یہ کہ کائنات کی ہر چیز
انسان کی خدمت کے لیے پیدا کی گئی ہے پھر اس انسان سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے
جو اپنے خدمت گاروں اور خود تراشیدہ بتوں کے آگے سجدہ ریز ہو اور انہیں اپنی عقیدتوں
کا مرکز ومحور قرار دے جبکہ وہ خود مسجود ملائک اور خلیفۃ اللہ فی الارض ہے۔‘‘
یہ پڑھیں: پروفیسر حافظ ثناء اللہ خانa
سیرت طیبہ کے ایک باب فتح مکہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
2 ’’اب ذرا فتح مکہ
پر نظر ڈالیں جو فتح عظیم ہے۔ پوری تاریخ انسانی اس کے سامنے دست بستہ ہے۔ ایک طرف
بیس سالہ ظلم وتشدد‘ وحشت وبربریت‘ ریشہ دوانی ودسیسہ کاری اور دوسری طرف رحمۃ
للعالمین کا یہ اعلان جس پر حرف بہ حرف عمل ہوا کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں‘ جاؤ
تم سب آزاد ہو‘ انتقام کا شائبہ تک نہیں‘ محبت ومودت‘ رافت ورحمت کا ایک ٹھاٹھیں
مارتا ہوا سمندر ہے۔ ایک ایسی فتح جس میں نہ کوئی فاتح تھا اور نہ مفتوح‘ نہ کوئی
غالب تھا نہ مغلوب نہ کوئی قابض تھا نہ مقبوض‘ نہ کوئی غاصب تھا نہ مغصوب‘ ایک ایسی
فتح جسے ’’فتح الفتوح‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی فتح جو فتح الخیر تھی۔ فتح الایثار
تھی‘ فتح الایمان تھی‘ فتح الاسلام تھی اور یہ اس لیے کہ آپe فرمان الٰہی پر ایسے عمل کرتے تھے
جیسے اس کا حق ہے۔ یہ اسلام کی برکت تھی اور اس پر عمل پیرائی کا اعجاز تھا کہ دنیا
امن وامان کا گہوارہ بن گئی۔‘‘
قانون حرمت قرآن وناموس رسالت پر اداریے:
محمد کی محبت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
امت مسلمہ ایک عرصے سے آپس کے عدم اتحاد اور دین سے دوری کے باعث متعدد مسائل
کی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر عالم کفر نے آزادی اظہار کے نام
پر ان کے دین وایمان کو اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔ قرآن مجید اور مسلمانوں کے
مرکز محبت رسول اللہe کی ذات گرامی
کا استہزاء عام کرنے لگے۔ نعوذ باللہ قرآن مجید کو سولی پر لٹکایا گیا اور آپe کی ذات اقدس
ومقدس کے توہین آمیز خاکے اور کارٹون بنائے گئے۔ (افسوس صد افسوس یہ سلسلہ تا حال
جاری ہے۔)
یہ پڑھیں: شیخ الحدیث مولانا عبدالرشید راشد ہزارویa
مولانا بشیر انصاریa جذبہ حب رسولe سے سر شار غیرت
مند صحافی تھے۔ انہیں یہ کب گوارا تھا کہ ان کے پیغمبرu کی توہین کی جائے اور وہ اپنے قلم
کو حرکت میں نہ لائیں؟ انہوں نے مختلف اوقات میں قانون حرمت قرآن اور ناموس پیغمبرe پر کئی اداریے
تحریر کیے۔ اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو ایک خوبصورت کتاب وجود پا سکتی ہے۔ دیکھیے
اس عظیم موضوع پر ان کے افکار ’’ناموس رسالتe … اور پوپ کی ہرزہ سرائی‘‘ کے
عنوان سے رقم طراز ہیں:
1 ’’دنیا کے کسی
کونے کھدرے میں بسنے والا مسلمان اس کی دینی ومعاشی حالت دگر گوں ہی کیوں نہ ہو
مگر وہ اپنی اولاد‘ والدین واقرباء حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اپنے محبوب نبیe سے محبت کرتا
ہے۔ اس کا یہ ایمان ہے کہ جب تک وہ خواجہ بطحاء کی حرمت پر نہ کٹ مرے‘ اس کا ایمان
کامل ہو ہی نہیں سکتا۔ مسلمان دنیا میں ہر دکھ جھیل سکتا ہے‘ ماں‘ باپ اور اولاد
کے بچھڑنے کے صدمے کو برداشت کر سکتا ہے لیکن دنیا میں اس کے محبوبe کی ہستی کی کوئی
توہین کرے‘ یہ اس کی برداشت سے باہر ہے۔ مغرب جو دنیا کو تہذیب وثقافت کا درس دیتا
ہے جو ہمہ وقت اپنے معاشرے کی تعریف میں رطب اللسان رہتا ہے جو معاشروں کی رواداری‘
تحمل‘ احترام انسانیت‘ دوسروں کے حقوق کا احترام اور قانون کی حکمرانی کے دلربا
ترانے گاتا ہے۔ آج اس نے دنیا کے عظیم انسان جس نے نوع انسانی کو تاریکیوں سے
نکال کر اُجالے میں لانے والے‘ جنگ وجدل سے بچا کر امن کے سائے میں پناہ دینے
والے‘ عدل وانصاف کے پیکر‘ غلاموں کے حقوق کے محافظ اور دنیا میں بکاؤ مال سمجھی
جانے والی بنت حوا کے حقوق کی پاسداری کرنے والے محمدe کی اہانت کو اپنا وطیرہ بنا لیا
ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے نبیe کی تضحیک کرنا‘
ان کے جذبات سے کھیلنا اپنی عادت بنا لیا ہے۔ کیا یہی روا داری ہے؟!
احترام
انسانیت اور دوسروں کے جذبات کا احترام یہ ہے کہ مسلمانوں کی سب سے زیادہ قابل قدر
ہستی کے گستاخانہ خاکے بنائے جائیں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے جذبات کو کچلا
جائے اور جب مسلمان رد عمل ظاہر کریں تو انہیں بنیاد پرست اور دہشت گردی کا طعنہ دیا
جائے۔ اہانت آمیز گستاخانہ خاکوں کی طغیانی ابھی کم نہ ہوئی تھی کہ امریکہ کے بد
بخت پادری نے قرآن حکیم کو جلانے کا اعلان کر دیا۔ اب اس بدبخت نے امت مسلمہ کے
نوجوانوں کے دلوں پر گھاؤ لگانے کے لیے قرآن پر مقدمہ کا اعلان کر دیا ہے اور اس
مقدمہ کے بعد نعوذ باللہ وہ قرآن کو سزا دے گا۔ یہ سزا قرآن کا پھاڑنا‘ جلانا‘
پانی میں ڈبونا اور فائرنگ سکواڈ کے حوالے کرنا ہے۔
ٹیری
جونز (ملعون) سمجھتا ہے کہ شاید اس کے اس عمل سے امریکہ اور یورپ میں اسلام کے
فروغ کا رستہ رک جائے گا۔ لوگ قرآن سے نفرت کرنے لگیں گے۔ یہ عالم کفر کی بہت بڑی
بھول ہے۔ اس قرآن کا محافظ خود رب ذوالجلال ہے جس نے اس لا ریب کتاب کو لوحِ
محفوظ میں رکھا ہوا ہے۔ اس کی کمینہ فطرت جسارت سے لوگوں میں قرآن پڑھنے کا تجسس
پہلے سے دو چند ہو جائے گا اور لوگ پہلے سے دو گنا مسلمان ہوں گے۔ ان شاء اللہ!‘‘
یہ پڑھیں: گنگا سے زمزم تک ... ڈاکٹر پروفیسر ضیاء الرحمن اعظمیa
قومی وسیاسی موضوع پر اداریے:
نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھیے
منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے
سیاست ہماری اجتماعی زندگی کا اہم شعبہ ہے جس کے اثرات دیگر شعبوں تک بھی
پہنچتے ہیں۔ اس لیے دینی وملی زعماء کا سیاست میں حصہ لینا بھی ناگزیر ہے تا کہ اس
کے ذریعے پارلیمنٹ اور دیگر قانون ساز اداروں میں کتاب وسنت کی آواز کو پہنچایا
جا سکے۔
مولانا بشیرانصاریa نے ہفت روزہ
’’اہل حدیث‘‘ کی طویل ادارت کے دوران مروجہ سیاسی افکار اور سیاستدانوں کی عوامی
مسائل سے عدم دلچسپی‘ نیز ملی وقومی مفادات کے برخلاف ان کے اقدامات کو موضوع کا
ہدف بنایا۔ سیاستدانوں پر ان کی تنقید برائے اصلاح ہوتی تھی۔ تنقید برائے تنقید کے
وہ ہرگز قائل نہ تھے۔ ان کے سیاسی اداریے خود بولتے ہیں کہ وہ مروجہ سیاست کو دین
کے پیغام سے آشنا کرانا چاہتے ہیں۔ دیکھیے ان کا اسلوب:
پرویز مشرف دور میں جمعیۃ علمائے اسلام خیبر پختون خوائی حکومت نے منکرات کو
مٹانے اور اسلامی شعائر کے تحفظ کے لیے ’’حسبہ بل‘‘ منظور کیا کے جس کے خلاف پرویز
مشرف‘ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
مولانا بشیر انصاریa نے اس پر
’’حسبہ بل … اصلاح احوال کی ایک عمدہ کوشش!‘‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا۔ اس کا ایک
حصہ آپ کی نذر ہے:
1 ’’خلفائے راشدین
کا دور ہمارے سامنے ہے وہ {وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ} پر ہمیشہ عمل پیرا
رہے۔ خلیفہ وقت اپنے آپ کو حاکم نہیں قوم کا خادم سمجھتا تھا اور اس کا دروازہ ہر
وقت ہر شخص کے لیے کھلا رہتا تھا۔ بد قسمتی سے یہاں کے حکمرانوں نے اپنے آپ کو
خادم نہیں مخدوم بنا لیا ہے۔ یوں تو ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وطن عزیز امن وآشتی کا
گہوارہ بن جائے اور یہ اسلامی اقدار کی فرمانروائی کے بغیر ممکن نہیں۔ اسلامی
اقدار تبھی جاری وساری ہو سکتی ہیں کہ ملک کے حکام اللہ تعالیٰ کے آگے جھک جائیں
اور اسلام کو عملاً قبول کر لیں تو قوم کے فکر وعمل میں انقلاب کی راہیں کھل سکتی
ہیں۔ اہل اقتدار کو اللہ کا یہ فرمان پیش نظر رکھنا چاہیے کہ جب اس کے بندوں کو
حکومت عطا کی جائے تو ان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ نماز قائم کریں‘ زکوٰۃ دیں‘ امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں۔ یاد رہے کہ علماء کے بیس نکات میں
چوتھا نکتہ یہی ہے کہ اسلامی مملکت کا یہ فرض ہو گا کہ قرآن وسنت کے بنائے ہوئے
معروفات کو قائم کرے۔ منکرات کو مٹائے اور شعائر اسلامی کے احیاء واعلاء اور مسلمہ
اسلامی فرقوں کو ان کے اپنے مذہب کے مطابق ضروری تعلیم کا انتظام کرے۔ ایسے ہی
مقاصد کے حصول کے لیے سرحد اسمبلی نے حسبہ بل منظور کر لیا ہے۔ ۶۸ ووٹ اس کے حق میں تھے اور ۳۴ مخالفت میں۔ ایوان
اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اٹھا۔ اگلے روز یوم تشکر منایا تھا۔ البتہ پشاور میں پیپلز
پارٹی اور ق لیگ نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس سے ان کی غیر اسلامی اور غیر جمہوری
ذہنیت واضح ہے۔ وفاقی حکومت نے عدالت میں بل کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا ہے۔ یہ
اپنے غیر ملکی آقاؤں کو خوش کرنے کی ایک کوشش اور اسلامی اقدار سے بے وفائی ہے۔
چوہدری شجاعت حسین نے بڑھک ماری ہے کہ حسبہ بل کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔ واضح ہوا
کہ سیکولر حکمران دین کی ہر علامت کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔‘‘
یہ پڑھیں: عظمت وسادگی کا پیکر ... پروفیسر عبدالرحمن لدھیانویa
آئیے ذرا دیکھیں کہ حسبہ بل کے ذریعے حکومت سرحدکیا چاہتی ہے؟ حسبہ بل کے تحت
صوبائی اور ضلعی محتسب کا تقرر کیا جائے گا جو صوبے میں بد انتظامی‘ بے ضابطگی‘ بے
قاعدگی‘ اقربا پروری‘ بد عنوانی‘ نا انصافی‘ غیر اسلامی معاشرتی رسوم کے خاتمے‘
خواتین کے حقوق کے تحفظ‘ اقلیتوں کے حقوق‘ مذہبی مقامات کا تقدس ملحوظ رکھنے‘ مصنوعی
گرانی‘ ملاوٹ اور اسراف وتبذیر کا سد باب کرنے کے لیے خصوصی اختیارات استعمال کر
سکے گا۔