غرباء ومساکین کو ڈھونڈنے میں
مدد
تحریر: جناب پروفیسر
محمد عاصم حفیظ
میری کوشش ہوتی ہے کہ کوئی کسی حوالے سے تعاون مانگے۔یتیم بچی کی شادی۔ کسی انتہائی
نادار و غریب گھرانے کی مدد۔ غرض کوئی بھی ضرورت مند ہو تو اس کی ضرورت کو ممکنہ تصدیق
اور تسلی کے بعد دوست احباب کے ساتھ شئیر ضرور کرتا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اکثر دوست
احباب کی مدد سے جب کسی کی ضرورت پوری ہوتی ہے تو ایک دلی اطمینان ہوتا ہے۔ سچی بات
ہے کہ یہ مشکل کام ہے اور بہت سے لوگ اس سے ہچکچاتے ہیں۔ مجھے ایک حدیث مبارکہ سے یہ
سبق ملا کہ دراصل یہ تو ہم سب کا فرض ہے کہ معاشرے سے غریب نادار مساکین کو تلاش کریں
اور ان کی مدد کرنے اور کرانے کی کوشش کریں۔
یہ پڑھیں: پیغامِ پاکستان کی روشنی میں ضابطۂ اخلاق
آپ بھی وہ حدیث شریف پڑھیں اور فرمان نبوی کی گہرائی کا اندازہ لگائیں۔
نبی اکرمe فرماتے
ہیں کہ
’’ضعیف اور کمزور
لوگ ڈھونڈنے میں میری مدد کرو، کیونکہ انہی کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری
مدد کی جاتی ہے۔‘‘
کتنا واضح پیغام ہے کہ خود نبی کریم فرما رہے ہیں کہ غرباء و مساکین کو ڈھونڈنے
میں میری مدد کرو۔ اگر ہم غور کریں تو واقعی ایسا ہے کہ بہت سے صاحب ثروت لوگ جن پر
اللہ نے اپنا کرم کر رکھا ہے وہ اصل ضرورت مند مساکین کو ڈھونڈ ہی نہیں پاتے۔ مثلا
اگر آپ کسی امیر علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ کسی بڑے دفتر میں جاتے ہیں۔ آپ کا سارا
حلقہ احباب ہی ایلیٹ کلاس ہے۔ ملنا جلنا اپنی کلاس کے لوگوں کے ساتھ ہے تو آپ کا تو
شائد کبھی کسی ’’غریب و نادار‘‘ سے ٹاکرا ہونے کا چانس ہی بہت مشکل ہے۔ آپ کو تو یوں
محسوس ہو گا کہ معاشرے میں جیسے کوئی ضرورت مند ہے ہی نہیں۔ کیونکہ آپ ایک مخصوص حلقہ
احباب اور دائرے میں رہ رہے ہیں۔
لیکن کچھ لوگ جو سماجی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں ان تک اپنے علاقوں خاندانوں
اور دوست احباب سے ایسی کہانیاں پہنچتی ہیں کہ جنہیں سن کر دل پگھل جائے۔ لیکن وہ خود
تو سب کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔ انہیں چاہیے کہ معاشرے کے دیگر احباب تک یہ بات
شئیر کریں‘ دراصل یہ سنت رسول ہے اور دینی و معاشرتی فریضہ بھی حدیث نبوی کے مطابق
ہچکچانے کی بجائے ضرور شئیر کریں۔ دراصل آپ اس طرح اپنے ان دوست احباب کی مدد کر رہے
ہوں گے کیونکہ آپ کی نشاندھی پر انہیں کسی کی ضرورت پوری کرنے کا موقع مل جائے گا۔
اسی طرح ہمیں کوئی اگر بتاتا ہے تو یقینا ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے
ہماری مدد کی۔
اگر حدیث شریف پر غور کریں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ ہمیں یہ جو دولت ملی ہے،
کچھ وسائل زیادہ مل گئے ہیں، خوشحالی ملی ہے، رزق کی فراوانی ہے تو جناب یہ سب معاشرے
کے غرباء و مساکین کی وجہ سے ہے۔ اگر انہیں حق پہنچاؤ گے تو یہ ریل پیل برقرار رہے
گی ورنہ یہ دولت، یہ خوشحالی یہ سب کچھ آزمائش بن جا ئے گا، برکت اٹھ جائے گی اور
پھر جینا، کوئی جینا نہیں رہے گا۔ آپ کے وسائل، دولت اور رزق میں ان کا باقاعدہ حصہ
ہے۔ بلکہ انہی کی بدولت تو خالق کائنات نے آپ کو نوازا ہے۔ اگر انہیں حق نہیں دیں
گے اور کنجوس بن جائیں گے یا احسان جتلانے لگیں گے تو یقین مانیں یہ سب کچھ آزمائش
بن جائے گا۔
یہ پڑھیں: خوشی اور شکر ... اللہ کی نعمتیں
سوچیں کہ کس طرح ہمیں دوسروں کے لئے جینے کا سبق سکھایا گیا ہے۔ دوسروں کے لئے
جینے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہمارے رزق، صحت والی لمبی عمر، رب تعالی کی مدد کو معاشرے کے ضعیف و کمزور افراد تک اپنے مال سے انکا حق پہنچانے سے مشروط کیا گیا ہے۔ جی ہاں یہ جو آپ
کبھی کبھار اپنے اردگرد، رشتہ داروں غرباء و مساکین کے لئے راشن اور کھانے و دیگر ضروریات
کا بندوبست کر دیتے ہیں تو یقین مانیں یہ تو خود آپ کی ضرورت ہے، اس سے فائدہ آپ
کا اپنا ہے، رزق آپ کا اپنا بڑھے گا، لمبی صحت و الی عمر آپ کو اور اور آپ کی اولاد
کو ملے گی۔
کسی کی مدد کرنے کے حوالے سے ایک اور اہم چیز یہ ہے کہ ہم لوگ تھوڑا حصہ ڈالتے
ہوئے شرماتے ہیں۔ مثلا کسی کے علاج یا ضرورت کے لئے پچاس ہزار یا لاکھ روپے درکار ہیں
تو ہمیں چاہیے کہ بجائے پچاس ہزار یا لاکھ دینے والے بندے ڈھونڈنے کے دو تین پانچ ہزار
والوں سے شئیر کریں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جن سے زیادہ رقم کی امید ہوتی ہے وہ کسی
وجہ سے نہیں دے پاتے تو مایوسی ہوتی ہے۔ اس کی بجائے چھوٹے چھوٹے حصے ڈال دینے چاہیے
اور یہ زیادہ مفید طریقہ ہے۔ کسی کو زیادہ رقم کا کہنے کی بجائے ایک ٹارگٹ سیٹ کریں
اور سب سے اُس کی حسب استطاعت حصے کا کہیں۔ اسی طرح اگر آپ دینا چاہیں تو بجائے بڑی
رقم کو دیکھ کر نظر انداز کرنے کے اپنا حصہ ڈال دیں۔۔ وہ کیا کہتے ہیں کہ قطرے قطرے سے ملکر ہی دریا بنتا
ہے۔
اسلام کی خوبصورتی یہی ہے کہ اس نے عبادات کو صرف رب کے ساتھ تعلق تک محدود نہیں
رکھا بلکہ معاشرے میں حقوق العباد کا تصور بھی دیا ہے۔ آپ کی عبادت، رزق، عمر اور
صحت میں برکت کو معاشرے کے ساتھ چلنے سے مشروط کیا ہے۔ اگر آپ کسی کی مدد کر رہے ہیں
تو ذہن نشین رکھیں کہ یہ سب تو آپ اپنے لئے کر رہے ہیں۔ آپ بانٹ رہے ہیں تو بدلے
میں آپ کو اور مل جائے گا۔
یہ پڑھیں: پاکستانی حجاج کرام کے مسائل اور سعودی وژن
ڈھونڈ ڈھونڈ کر اور خود پہنچ کر، بغیر کسی نمود ونمائش کے رشتہ داروں ، اپنوں اور
معاشرے کے غرباء ومساکین تک ان کا حق پہنچائیں۔ کیونکہ اس سے آپ کے مال سے کچھ کم
نہیں ہونے والا، دوسرے الفاظ میں یہ تو ایک طرح کی ’’سرمایہ کاری‘‘ ہے جو آپ اپنے
رزق، صحت اور عمر میں اضافے کے لئے کر رہے ہیں۔ رب تعالی کا شکر ادا کریں کہ اُس نے
اس فرض کو نبھانے پر بھی آپ کے لئے انعام، ثواب اور بشارتوں کا اعلان کر رکھا ہے۔
جی ہاں فرض نبھانے پر آپ کو یقینا یہ سب کچھ ملے گا۔
No comments:
Post a Comment