آہ! ... مولانا حافظ صدیق خلیل وفات پا گئے
تحریر: جناب مولانا
حمید اللہ خاں عزیز
مرکزی جمعیت اہل حدیث ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ
کے ممتاز رہنما، بزرگ عالم دین،جامعہ صدیقیہ رجانہ کے مہتمم مولانا حافظ محمد صدیق
خلیل ایک طویل علالت کے بعد ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۰ء کو وفات پاگئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
آتی رہے گی ترے اَنفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کا مہکتا رہے گا
یہ پڑھیں: منحوس کون؟!
جماعتوں اور تنظیموں کے اصل روح رواں وہ علماء یا کارکن ہوتے ہیں،جن کی حیثیت بنیاد
کے پتھر کی ہوتی ہے۔ان کی محنت اور مخلصانہ کردار سے دعوت وتبلیغ کے میدان میں انقلاب
واقع ہوتا ہے۔حضرت مولانا حافظ صدیق خلیل رحمہ اللہ انہی مخلص پیشہ مبلغین میں سے تھے،جن
کی ہمہ جہت اور فکر انگیز شخصیت نے دینی خدمات کی ایک بہترین تاریخ رقم کی۔
ابتدائی حالات وتعلیم وتربیت:
مولانا مرحوم ۱۹۳۸ء کو پیدا ہوئے۔آپ کا تعلق کشمیری بٹ فیملی سے تھا۔والد جناب
عبدالغنی بٹ، ایک کاروباری آدمی تھے۔ان کا خاندان صدیوں سے ریاست جموں وکشمیرمیں سکونت پذیر تھا۔قیام پاکستان
کے وقت مولاناحافظ صدیق خلیل رحمہ اللہ کی عمر صرف دس برس تھی۔انہوں نے اپنے خاندان
کے ساتھ جموں کشمیر سے ہجرت کی۔ان کے قافلے
نے ضلع فیصل آباد کی تحصیل سمندری میں پڑاؤ کیا۔ مولانا رحمہ اللہ کے والد کا تعلق
حضرت صوفی عبداللہ رحمہ اللہ سے تھا،اسی نسبت سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دینی تعلیم
کے حصول کے لئے ان کے مدرسہ دارالعلوم تقویۃالاسلام
اوڈاں والا(ماموں کانجن)میں داخل کرایا، جہاں انہوں نے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی۔جن
اساتذہ کرام سے انہوں نے دینی علوم وفنون میں کسب فیض کیا،ان میں شیخ الحدیث مولانا
محمد یعقوب ملہوی،شیخ الحدیث مولانا عبدالصمد روف اور شیخ الحدیث مولانا محمد صادق
خلیل رحھمااللہ کے نام آتے ہیں۔
دینی وتبلیغی خدمات:
دارالعلوم سے فراغت کے بعد مولانا مرحوم سمندری کے نواح میں واقع جاٹ برادری کے
گاوں ’’گروپ جٹاں‘‘ میں خطابت وتدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے۔عرصہ دو سال یہاں قیام
کرنے کے بعد انہیں تقویۃالاسلام کے اساتذہ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے
ایک گاوں ’’رجانہ‘‘ جائیں،جہاں دعوت دین کے کام کی اشد ضرورت ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس
دور میں یہ علاقہ شرک وبدعت کی پستیوں میں ڈوبا ہوا تھا، وہاں ایک راسخ الفکر عالم
دین کی سخت ضرورت تھی۔جو یہاں کے باسیوں کو قرآن وحدیث کی خالص تعلیمات سے روشناس
کرائے۔دارالعلوم تقویۃالاسلام کے اساتذہ نے ہمارے ممدوح حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ کے
نام کا انتخاب کیا۔
چناچہ مولانا بسرو وچشم اپنی مادر علمی کے حکم کے مطابق رجانہ تشریف لے گئے ’’گروپ
جٹاں‘‘ کی جماعت کے تعاون سے ’’رجانہ‘‘ میں ابتدائی طور پر ایک مسجد کی بنیاد رکھی،
جسے مرکز بنا کر علاقہ بھر میں قرآن وسنت کی تبلیغ واشاعت کا آغاز کیا۔
یہ پڑھیں: جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ
حضرت مولانا رحمہ اللہ نے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ، کمالیہ، پیر محل، سمندری، تاندلیانوالہ
اور ماموں کانجن ایسے مشہور شہروں میں وہاں کے مقامی علماء کرام مولانا قاضی محمد اسلم
سیف فیروز پوری، بابائے تبلیغ مولانا عبداللہ گورداس پوری کے برادر حقیقی مولانا قاری
عبدالرحیم (کمالیہ)،صوفی محمد حسین سرہندی(جو کہ کمالیہ اور رجانہ کی سالانہ مرکزی
کانفرنسوں کے ناظم کانفرنس ہوتے تھے)رحمھمااللہ، بطل حریت مولانا عبدالرشید حجازی,
مصنف کتب کثیرہ مولانا برق التوحیدی اور خطیب بے بدل مولانا بہادر علی سیف حفظھمااللہ
ودیگر حضرات اہل علم وفکر کے ساتھ مل کر تبلیغی کام کا بیڑا اٹھایا۔اس خطے کے ان علمائے کرام کی تبلیغی خدمات کو مرتب کیا جائے
تو عزیمت وتوکل کے ایسے حالات و واقعات رقم ہوں کہ جن کی روشنی سے انسانیت کے گم گشتہ
قافلے راہ پا جائیں۔یقینا ان حضرات کے خلوص ووفا اور ایثار وقربانی کا اصل صلہ اور
جزا اللہ تعالی ہی دے گا۔بندگان درہم ودینار ان قربانیوں کو کیا جانیں۔کسی نے کیا خوب
کہا ہے:
زمانہ سازی کے انداز سیکھ لو جذبی
یہاں خلوص وگداز ہنر کی قیمت کیا
اسلوب تبلیغ اور مشکلات:
مولانا مرحوم دینی علوم میں فاضلانہ بصیرت ومہارت رکھتے تھے۔حدیث اور فقہ میں انہیں
خصوصی درک حاصل تھا۔دینی مسائل کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے اور اس کی آسان الفاظ واسلوب
میں عامۃالناس کے سامنے تبلیغ فرماتے۔
حضرت مولانا مرحوم کی تبلیغی خدمات گویا ساٹھ برس پر مشتمل اِک عجب کہانی ہے۔
انہیں توحید وسنت کے پرچار میں سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔وہ فرقہ پرست ملاؤں
اور جعلی پیروں کی چیرہ دستیوں کا شکار رہے۔لیکن ان کے قدم قطعا نہ ڈگمگائے۔رجانہ سے
آگے پانچ چھ کلو میٹر دور دو دیہات ’’شیروں‘‘ اور ’’ناگرہ‘‘ آتے ہیں،یہاں کی اہل
حدیث جماعتیں بہت مضبوط تھیں۔حافظ صاحب جب کبھی مقامی غیر اہل حدیث لوگوں کی اذیتوں
کا شکار ہوتے تو یہاں کی جماعتیں ان کے دست وبازو بنتیں۔
مولانا کی طبیعت میں ٹھہراو تھا۔وہ قطعا جذباتی نہ تھے۔ مخالفین ومعاندین سے کبھی
نہ چڑے۔ تنقید واعتراضات سے بھرے سوالوں کے جوابات متانت اور تحمل کے ساتھ دیا کرتے
تھے۔جس موقف کو آپ درست سمجھتے اس پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹ جاتے۔نہایت سخت سے سخت حالات
میں بھی اپنے موقف پر ایسے جمے رہتے جیسے کوئی مضبوط چٹان ہوں۔
یہ پڑھیں: انسانی زندگی پر گناہ کے مضر اثرات
جامعہ صدیقیہ کا قیام:
مولانا مرحوم نے ۱۹۷۵ء میں رجانہ میں ’’جامعہ صدیقیہ‘‘ کے نام سے ایک دینی درسگاہ
قائم کی،جہاں انہوں نے شعبہ تحفیظ القرآن کے علاوہ درس نظامی کی ابتدائی کلاسز کا
اجرا کیا۔وہ خود ترجمہ وتفسیر پڑھاتے تھے۔آگے چل کر اس درسگاہ نے اہل توحید کی ایک
منظم جماعت پیدا کی، آنے والے نسلوں کو دین کی رہبری اور رہنمائی کا سامان، عرفان
وآگہی،خلوص وللھیت،غلبہ دین،فروغ علم اور اجتماعی دینی وعلمی مقاصد کو پانے کے لئے
یہ جامعہ مرقع نعمت ثابت ہوئی۔
تنظیمی تعلق:
مولانا مرحوم کا تنظیمی تعلق مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سے تھا۔اختلاف کے زمانے
میں وہ میاں فضل حق رحمہ اللہ(سابق ناظم مرکزیہ) کے خاص رفقاء میں شامل تھے۔اور ان
کی تنظیم وجمعیت کے ذمہ دار افراد میں سے تھے۔
انہوں نے خلوص دل سے اپنے عہد تنظیم کو نبھایا اور خود کو جفاکش،نظریاتی،ہمہ جہتی
مرحلہ بہ مرحلہ وابستگی اور تعمیری فکر رکھنے والا خادم ثابت کیا۔
سالانہ اہل حدیث کانفرنس:
مولانا مرحوم کے یادگار دعوتی کارناموں میں رجانہ میں مرکزی سطح کا ایک عظیم پروگرام
سالانہ ’’اہل حدیث کانفرنس‘‘ کا اجراء ہے۔کانفرنس کو اپنے زمانے کے بڑے بڑے علمائے
حدیث نے رونق بخشی۔لکھوی،روپڑی اور شیخوپوری علمائے اہل حدیث،شہید اسلام حضرت علامہ
احسان الہی ظہیر رحمہ اللہ،شیر ربانی مولانا حبیب الرحمان یزدانی شہید رحمہ اللہ،شیخ
الحدیث مولانا عبدالرزاق فاروقی رحمہ اللہ،ولی کامل حضرت مولانا حافظ محمد یحیی عزیز
میر محمدی رحمہ اللہ، بابائے تبلیغ مولانا عبداللہ گورداس پوری رحمہ اللہ،بطل حریت
حضرت مولانا قاری عبدالوکیل صدیقی رحمہ اللہ،مولانا محمد طیب معاذ رحمہ اللہ(فیصل آباد)،شیخ
الحدیث مولانا محمد یونس بٹ رحمہ اللہ،و دیگر اکابر علماء کرام مختلف اوقات میں یہاں
تشریف لاتے رہے۔
یہ کانفرنس اب پورے ضلعے میں اہل حدیث کی دعوت کا ایک امتیازی نشان بن چکی جو جماعتی
وتنظیموں کارکنوں اور خدام کی دینی تربیت کے علاوہ عام لوگوں کے لئے کتاب وسنت کے لافانی
ادب کی روح اور ارفع اقدار کی ترویج کا باعث بنی ہے اور بن رہی ہے۔
مولاناکی عمر ۸۳ برس تھی۔دارالعلوم
تقویۃالاسلام اوڈاں والا سے فراغت کے بعد وہ پوری زندگی اہل حدیث کے مشن،اہداف اور
مقاصد کے حصول میں مگن رہے۔وہ ہدایت کے راستے کے داعی تھے،انہوں نے بے لوث خدمت ودعوت
میں ساٹھ برس تج دئیے اور اللہ کی توفیق سے خلق کثیر کی راحتوں کا سامان مہیا کر دیا۔خلوص
وایثار کی ایسی مثال اس دور میں بہت کم دیکھنے میں آئی ہیں۔
یہ پڑھیں: علوم شریعت میں مصالح
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔بقول شخصے:
من نہ دارم اگر چہ مال و منال
یک دل زندہ بے ریا دارم
شخصیت:
مولانا جتنے سنجیدہ،بارعب باحشمت دکھائی دیتے تھے۔اتنے ہی ہنس مکھ اور خوش مزاج
طبیعت کے مالک تھے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی سادگی کے ساتھ بسر کی۔سر پر اکثر رومال
باندھتے۔کشمیری بٹ تھے،رنگ سرخ اور سفید تھا۔ پہلی نظر میں دیکھنے والا ان کی جاذب
نظر شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔
اولاد واحفاد:
اللہ تعالیٰ نے انہیں پانچ بیٹے عطا کئے۔ان میں ایک مولانا حافظ محمد قاسم ہیں،جو
ان کی جگہ اب دینی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔باقی اولاد کاروبار میں مصروف ہے۔
نماز جنازہ:
مولانا کی نماز جنازہ ۱۸ اکتوبر ۲۰۲۰ء بروز اتوار ۲ بجے گورنمنٹ ہائی سکول رجانہ (ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ) میں ادا کی گئی۔
نماز جنازہ وصیت کے مطابق شیخ الحدیث
مولانا حافظ محمد امین حفظہ اللہ نے پڑھائی۔
یہ پڑھیں: اسم اعظم کیا ہے؟!
علماء و مشایخ،جماعت وتنظیم سے وابستہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔اللہ تعالی سے دعا
ہے کہ حضرت مولانا کی دینی خدمات کو قبول فرماتے ہوئے انہیں جنت فردوس عطا فرمائے اور
پسماندگان کو صبر جمیل بخشے۔آمین!
No comments:
Post a Comment